Ahsan-ut-Tafaseer - Yaseen : 37
وَ اٰیَةٌ لَّهُمُ الَّیْلُ١ۖۚ نَسْلَخُ مِنْهُ النَّهَارَ فَاِذَا هُمْ مُّظْلِمُوْنَۙ
وَاٰيَةٌ : اور ایک نشانی لَّهُمُ : ان کے لیے الَّيْلُ ښ : رات نَسْلَخُ : ہم کھینچتے ہیں مِنْهُ : اس سے النَّهَارَ : دن فَاِذَا : تو اچانک هُمْ : وہ مُّظْلِمُوْنَ : اندھیرے میں رہ جاتے ہیں
اور ایک نشانی ان کے لئے رات ہے کہ اس میں سے ہم دن کو کھینچ لیتے ہیں تو اس وقت ان پر اندھیرا چھا جاتا ہے
37۔ یہ ایک اور قدرت کی نشانی کا ذکر فرمایا کہ ایک نشانی ہماری قدرت کی ان کے واسطے رات ہے ادھیڑ لیتے ہیں ہم اس سے دن کو تو اس وقت وہ اندھیرے میں رہ جاتے ہیں رات کا اندھیرا اور دن کا اجالا دونوں خدا کی قدرت کو ہر روز بتاتے ہیں ایک دوسرے کے پیچھے لگا رہتا ہے رات آتی ہے تو دن چلا جاتا ہے اور جب دن آتا ہے تو رات چلی جاتی ہے رات کو انسان آرام پاتا ہے اور دن کو ہر طرح کام دھندہ کرتا ہے ‘ صحیح بخاری میں حذیفہ ؓ بن الہیمان سے روایت 2 ؎ ہے (2 ؎ مشکوۃ ص 208 باب مایقول عند الصباح والماء رد المنام) جس میں آنحضرت ﷺ نے نیند کو موت اور سو کر اٹھنے کو دوبارہ جینا فرمایا ہے نیند میں آدمی کے ہوش و ہو اس جاتے رہتے ہیں اس لیے اللہ کے رسول نے نیند کو موت فرمایا اس آیت کو تفسیر میں اوپر کی حدیث کو یہ دخل ہے کہ رات کو سونا اور دن کو پھر جاگ اٹھنا حشر کا ایک نمونہ ہے اس مناسبت سے حشر کے ذکر بعد اللہ تعالیٰ نے رات دن کا ذکر فرمایا۔
Top