Ahsan-ut-Tafaseer - Yaseen : 41
وَ اٰیَةٌ لَّهُمْ اَنَّا حَمَلْنَا ذُرِّیَّتَهُمْ فِی الْفُلْكِ الْمَشْحُوْنِۙ
وَاٰيَةٌ : اور ایک نشانی لَّهُمْ : ان کے لیے اَنَّا : کہ ہم حَمَلْنَا : ہم نے سوار کیا ذُرِّيَّتَهُمْ : ان کی اولاد فِي الْفُلْكِ : کشتی میں الْمَشْحُوْنِ : بھری ہوئی
اور ایک نشانی ان کے لئے یہ ہے کہ ہم نے ان کی اولاد کو بھری ہوئی کشتی میں سوار کیا
41 تا 44۔ حضرت عبداللہ بن عباس ؓ نے مشحون کے معنے بوجھل کے بیان کئے ہیں اور قتادہ کا قول ہے کہ وہ کشتی نوح (علیہ السلام) کی ہے مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی قدرت سے دریا کو بھی تمہارا تا بعدار بنا دیا کہ تم اس میں اسباب کی کشتیاں لیے پھرتے ہو اگر حضرت نوح (علیہ السلام) کی اول کشتی نہ ہوتی تو دنیا میں کشتی کا رواج نہ ہوتا اللہ تعالیٰ نے نوح (علیہ السلام) سے وہ کشتی بنوائی جس سے کشتی کا رواج بھی پڑا اور نبی آدم کی نسل بھی آگے کو چلی ورنہ ‘ طوفان میں سب ہلاک ہوجاتے پھر فرمایا بنا دی ہم نے ان کے لیے مثل کشتی کے اور سواریاں جن پر سوار ہوتے ہیں حضرت عبداللہ بن عباس ؓ سے روایت ہے کہ من مثلہ سے مراداو نٹ ہیں وہ خشکی کی کشتیاں ہیں اس پر بوجھ بھی لادتے ہیں اور سوار بھی ہوتے ہیں مجاہد نے بھی ایسا ہی کہا ہے پھر فرمایا کہ اگر ہم چاہیں تو خشکی کشتیاں ہیں اس پر بوجھ بھی لادتے ہیں اور سوار بھی ہوتے ہیں مجاہد نے بھی ایسا ہی کہا ہے پھر فرمایا کہ اگر ہم چاہیں تو ڈبو دیں، اور کہ جو کشتیوں میں سوار ہیں پھر کوئی ان کی فریاد کو پہنچنے والا نہیں جو ان کو اس مصیبت سے نجات دے مگر ہم اپنی رحمت سے دریا اور خشکی میں سفر کراتے ہیں۔ اور ایک وقت مقرر تک تم کو ہر ایک آفت سے بچاتے ہیں ‘ ذریۃ کے معنے نسل کے بھی آتے ہیں اور جن بڑے بوڑھوں سے نسل چلتی ہے ان کو بھی ذریۃ کہتے ہیں اسی واسطے مرادی ترجمہ میں پہلے معنے لیے گئے اور باقی کے دونوں 1 ؎ ترجموں میں دوسرے صحیح بخاری ومسلم کے حوالہ سے ابوموسیٰ اشعری کی حدیث کئی جگہ گزر چکی ہے (1 ؎ یعنی شاہ ولی اللہ کا فارسی ترجمہ ” قوم بنی آدم را “ اور شاہ رفیع الدین (رح) کا اردو لفظی ترجمہ “ باپ ان کے کو “ (ع ‘ ح) کہ اللہ تعالیٰ نافرمان لوگوں کو ایک وقت مقروہ تک مہلت دیتا ہے جب مہلت کے زمانہ میں وہ لوگ اپنی نافرمانی سے باز نہیں آتے تو ایسے کسی عذاب میں ان کو پکڑ لیتا ہے جس سے وہ پھر بچ نہیں سکتے۔ اس حدیث کو ان آیتوں کی تفسیر میں بڑا دخل ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ مکہ کے بڑے بڑے نافرمانوں کو اللہ تعالیٰ نے ان آیتوں کے وعدہ کے موافق جنگل اور دریا کے سفروں میں وقت مقررہ تک ہر ایک آفت سے بچایا جب لوگ اپنی نافرمانی سے باز نہ آئے تو بدر کے سفر میں ان پر ایسی آفت پہنچی کہ جس سے بچ کر پھر ان کو گھر آنا نصیب نہ ہوا چناچہ اس کا قصہ صحیح بخاری ومسلم کی انس بن مالک ؓ کی روایت سے کئی جگہ گزر چکا ہے۔
Top