Ahsan-ut-Tafaseer - At-Tahrim : 5
عَسٰى رَبُّهٗۤ اِنْ طَلَّقَكُنَّ اَنْ یُّبْدِلَهٗۤ اَزْوَاجًا خَیْرًا مِّنْكُنَّ مُسْلِمٰتٍ مُّؤْمِنٰتٍ قٰنِتٰتٍ تٰٓئِبٰتٍ عٰبِدٰتٍ سٰٓئِحٰتٍ ثَیِّبٰتٍ وَّ اَبْكَارًا
عَسٰى رَبُّهٗٓ : امید ہے آپ کا رب اِنْ طَلَّقَكُنَّ : اگر وہ طلاق دے تم کو اَنْ يُّبْدِلَهٗٓ : کہ وہ بدل کردے اس کو اَزْوَاجًا : بیویاں خَيْرًا مِّنْكُنَّ : بہتر تم عورتوں سے مُسْلِمٰتٍ : جو مسلمان ہوں مُّؤْمِنٰتٍ : مومن ہوں قٰنِتٰتٍ : اطاعت گزار تٰٓئِبٰتٍ : توبہ گزار عٰبِدٰتٍ : عبادت گزار سٰٓئِحٰتٍ : روزہ دار ثَيِّبٰتٍ : شوہر دیدہ۔ شوہر والیاں وَّاَبْكَارًا : اور کنواری ہوں
اگر پیغمبر تم کو طلاق دیدیں تو عجب نہیں ان کا بروردگا رتمہارے بدلے ان کو تم سے بہتر بیبیاں دیدے مسلمان صاحب ایمان ' فرنبردار ' توبہ کرنے والیاں ' عبادت گزار ' روزہ رکھنے والیاں ' بن شوہر اور کنواریاں۔
5۔ پردہ کے باب میں بدر کے قیدیوں کے باب میں مقام ابراہیم کے مصلیٰ ٹھہرانے کے باب میں جس طرح اور چند آیتیں قرآن شریف میں حضرت عمر ؓ کے قول کے موافق اس طرح نازل ہوئی ہیں کہ کسی آیت کے نازل ہونے سے پہلے جو بات حضرت عمر ؓ نے فرمائی اسی مضمون کی ایک آیت نازل ہوئی۔ ان ہی آیتوں میں سے یہ بھی ایک آیت ہے۔ چناچہ صحیح 1 ؎ بخاری وغیرہ میں حضرت انس ؓ سے روایت ہے کہ جب آنحضرت ﷺ کی بیبیوں نے آنحضرت ﷺ سے بد مزاجی کرنی شروع کی تو حضرت عمر ؓ نے آنحضرت کی بیبیوں کو سمجھایا اور فرمایا کہ اگر یہی حال رہے گا تو کیا عجب کہ اللہ کے رسول ﷺ تم بیبیوں کو طلاق دے دیں اور اللہ تعالیٰ اپنے رسول ﷺ کو تم بیبیوں سے اچھی بیبیاں عنایت کر دے اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی اگرچہ علم ازلی الٰہی میں یہ تھا کہ نہ اللہ کے رسول ﷺ اپنی سب بیبیوں کو طلاق دیں گے۔ نہ اللہ تعالیٰ ان بیبیوں سے بہتر بیبیاں بدلے گا اور جو کچھ اللہ تعالیٰ کے علم ازلی میں تھا آخر کو وہی ہوا لیکن اللہ تعالیٰ نے اپنی قدرت جتائی کہ اس کی قدرت میں سب کچھ ہے کوئی چیز اس کی قدرت سے باہر نہیں ہے اس سے معلوم ہوا کہ لوح محفوظ میں سب کچھ لکھے جانے کے بعد بھی اللہ تعالیٰ جو کچھ اور چاہے کرسکتا ہے اس کی قدرت سے کوئی بات باہر نہیں ہے تقدیر کے مسئلہ کے بیان میں اللہ تعالیٰ کی قدرت کا ذکر اوپر بھی گزر چکا ہے۔ قانتات کے معنی فرماں بردار ‘ تائبت کے معنی ہر گناہ سے فوراً توبہ کرنے والیاں ‘ حضرت عائشہ ؓ اور حضرت حفصہ ؓ کو ان لفظوں میں پچھلی حالت سے توبہ کرنے اور آئندہ کی فرمانبرداری کی ترغیب ہے۔ سائحات کے معنی مہاجرات کے کئے ہیں ‘ ثیبہ وہ عورت ہے جو پہلے شوہر سے چھوٹ گئی۔ اسی طرح کی عورت دنیا کو بھگت کر سمجھ دار ہوجاتی ہے اس لئے اس کا ذکر فرمایا۔ (1 ؎ صحیح بخاری تفسیر سورة التحریم ص 731 ج 2۔ )
Top