Anwar-ul-Bayan - At-Tahrim : 5
عَسٰى رَبُّهٗۤ اِنْ طَلَّقَكُنَّ اَنْ یُّبْدِلَهٗۤ اَزْوَاجًا خَیْرًا مِّنْكُنَّ مُسْلِمٰتٍ مُّؤْمِنٰتٍ قٰنِتٰتٍ تٰٓئِبٰتٍ عٰبِدٰتٍ سٰٓئِحٰتٍ ثَیِّبٰتٍ وَّ اَبْكَارًا
عَسٰى رَبُّهٗٓ : امید ہے آپ کا رب اِنْ طَلَّقَكُنَّ : اگر وہ طلاق دے تم کو اَنْ يُّبْدِلَهٗٓ : کہ وہ بدل کردے اس کو اَزْوَاجًا : بیویاں خَيْرًا مِّنْكُنَّ : بہتر تم عورتوں سے مُسْلِمٰتٍ : جو مسلمان ہوں مُّؤْمِنٰتٍ : مومن ہوں قٰنِتٰتٍ : اطاعت گزار تٰٓئِبٰتٍ : توبہ گزار عٰبِدٰتٍ : عبادت گزار سٰٓئِحٰتٍ : روزہ دار ثَيِّبٰتٍ : شوہر دیدہ۔ شوہر والیاں وَّاَبْكَارًا : اور کنواری ہوں
اگر پیغمبر تم کو طلاق دیدیں تو عجب نہیں ان کا بروردگا رتمہارے بدلے ان کو تم سے بہتر بیبیاں دیدے مسلمان صاحب ایمان ' فرنبردار ' توبہ کرنے والیاں ' عبادت گزار ' روزہ رکھنے والیاں ' بن شوہر اور کنواریاں۔
(66:5) عسی : افعال مقاربہ میں سے ہے اسم کو رفع اور خبر کو نصب دیتا ہے۔ اس کی خبر ہمیشہ فعل مضارع ہوتی ہے۔ عسی امید کے واسطے آتا ہے اور خبر کے قرب کے لئے وضع کیا گیا ہے اس کی خبر کے ساتھ اکثر ان آتا ہے۔ یہ فعل غیر منصرف ہے اور ماضی کے سوا اس سے کوئی صیغہ نہیں آتا۔ اس کے معنی پسندیدہ بات میں امید کے اور ناپسندیدہ بات میں اندیشہ اور کھٹکے کے ہیں مثلاً قرآن مجید میں ہے :۔ وعسی ان تکرھوا شیئا وھو خیر لکم وعسی ان تحبوا شیئا وھو شر لکم (2:216) اور توقع ہے کہ ایک چیز تم کو بری لگے اور وہ بہتر ہو تمہارے حق میں اور اندیشہ ہے کہ ایک چیز تم کو بھلی لگے اور وہ بری ہو تمہارے حق میں۔ (نیز ملاحظہ ہو 47:22) عسی ربہ۔ عسی فعل مواربہ، ربہ اس کا فاعل (اس کا اسم) ان یبدلہ ۔۔ جملہ اس کی خبر ہے۔ ان طلقکن جملہ شرطیہ ۔ عسی ربہ ان یبدلہ ازواجا خیرا ۔۔ الخ جواب شرط۔ ازواجا مفعول یبدل کا بدیں وجہ منصوب ہے۔ خیر اومسلمات ۔۔ ابکارا صفات ہیں ازواجا کی اور بوجہ صفت ہونے اپنے موصوف کی ازواجا کی مطابقت میں منصوب ہیں۔ ربہ میں ہ ضمیر واحد مذکر غائب رسول کریم ﷺ کی طرف راجع ہے۔ ان شرطیہ طلقکن۔ طلق ماضی واحد مذکر غائب تطلیق (تفعیل) مصدر بمعنی طلاق دینا کن ضمیر مفعول جمع مؤنث حاضر۔ اس نے تم کو طلاق دی۔ وہ تمہیں طلاق دیدے۔ ان مصدریہ۔ یبدلہ : یبدل مضارع واحد مذکر غائب منصوب بوجہ عمل ان ہ ضمیر مفعول واحد مذکر غائب جس کا مرجع رسول کریم ﷺ ہیں۔ ابدال (افعال) مصدر۔ وہ اس کو (تمہارے) بدلہ میں دیگا۔ ازواجا (منصوب بوجہ مفعول) بیبیاں زوج کی جمع۔ اصل میں ازواج جوڑے کو کہتے ہیں۔ حیوانات کے جوڑے میں سے نہ ہو یا مادہ ہر ایک کو زوج کہتے ہیں۔ خیرا : ازواجا کی صفت ہے افعل التفضیل کا صیغہ ہے۔ منکن جار مجرور۔ تم میں سے بہتر۔ مسلمت مسلمۃ کی جمع اسلام سے اسم فاعل کا صیغہ ، فرمانبردار۔ مؤمنت مؤمنۃ کی جمع ایمان (افعال) مصدر سے اسم فاعل جمع مؤنث ایمان والیاں۔ ایماندار قنتت قانتۃ واحد۔ قنوت (باب نصر) مصدر سے ق ن ت مادہ سے اسم فاعل کا صیغہ جمع مؤنث، خشوع اور خضوع کرنے والیاں۔ قنوت کے معنی ہیں عاجزی اور خشوع کے ساتھ فرمانبرداری میں لگے رہنا۔ تئبت : توبۃ (باب نصر) سے اسم فاعل کا صیغہ جمع مؤنث، توبہ کرنے والیاں۔ عبدت : عبادۃ (باب نصر) مصدر سے اسم فاعل صیغہ جمع مؤنث، پوجنے والیاں۔ عبادت کرنے والیاں۔ سئحت : سیاح مادہ۔ (س ی ح) (باب ضرب) مصدر سے اسم فاعل جمع مؤنث۔ سأئحون کے اصل معنی سیاحت کرنے والے ہیں۔ مفسرین کے اس کی مراد کی تعیین میں مختلف اقوال ہیں :۔ (1) بعض کے نزدیک اس سے مراد روزہ دار ہیں۔ (2) بعض کے نزدیک اس سے مراد طلباء علوم دینیہ ہیں۔ (3) بعض نے اس سے مراد زاہد اور پارسا لئے ہیں جو دنیا کی زندگی مسافرانہ طریقہ سے گزارتے ہیں اور آخرت کی زندگی کو اصل سمجھتے ہیں اور کن فی الدنیا کانک غریب ادعا برسبیل پر عامل ہیں۔ لیکن اکثریت نے اس سے مراد روزہ رکھنے والے ہیں لیا ہے اسی طرح آیت ہذا میں روزہ رکھنے والیاں ہی مراد لیا ہے جیسا کہ (9:112) میں السائحون کا ترجمہ روزہ رکھنے والے ہی کیا ہے۔ تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو المفردات ، قاموس القران از قاضی زین العابدین۔ ثیبت : ثوب (باب نصر) کے اصلی معنی ہیں کسی چیز کا اپنی اصلی ھالت کی طرف لوٹ آنا۔ ثیبۃ بیوہ یا مطلقہ عورت کو کہا جاتا ہے ، کیونکہ وہ بی خاوند سے جدا ہو کر (گویا اپنی پہلی حالت کی طرف) لوٹ آتی ہے۔ ابکارا : بکر کی جمع ہے بکر کنواری لڑکی کو کہتے ہیں۔ کنواریاں۔ الفائدہ : آیات 1-5 میں امہات المؤمنین کی ازدواجی زندگی کے تین واقعات بیان ہوئے ہیں۔ پہلا واقعہ آیات 1-2 میں مذکور ہے حضرت رسول کریم ﷺ نے بعض بیویوں کی خوشنودی کی خاطر کسی ایسی چیز کو اپنے لئے ممنوع قرار دے دیا جو شرعا حلال تھی خدا تعالیٰ نے فرمایا کہ ایسا کرنا پیغمبر دین کے لئے زیبا نہیں لہٰذا حکم فرمایا کہ کفارہ ادا کرکے قسم توڑ دی جائے۔ دوسرے واقعہ میں حضور اقدس ﷺ نے اپنی کسی زوجہ محترمہ سے کوئی راز کی بات کہی تھی اور تنبیہ فرمائی کہ آگے کسی کو نہ بتانا۔ لیکن انہوں نے ازواج رسول کریم ﷺ میں سے کسی سے یہ راز افشاء کردیا اس کی بابت اللہ نے آپ کو مطلع فرما دیا کہ آپ کو کیسے علم ہوا آپ نے فرمایا کہ خداوند علیم وخبیر نے مطلع فرمایا ہے۔ دونوں بیویوں کی سرزنش فرما کر ارشاد ہوتا ہے کہ تم دونوں خدا سے اپنے کئے پر توبہ کرو تو تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم نے ایسا نہ کیا اور رسول کریم ﷺ کے خلاف ایکا کرلیا تو تم ان کا کچھ نہ بگاڑ سکوگی۔ ان کی مدد کے لئے خداوند تعالیٰ ، جبریل، صالح المومنین، اور ملائکہ کی نصرت ہر وقت موجود ہے۔ (آیات 3-4) ۔ تیسرے واقعہ کا اشارہ آیت نمبر 5 میں ہے اس کے پس منظر میں کئی عوامل ہیں منجملہ ان کے چند یہ ہیں :۔ (1) پہلا واقعہ جو اوپر مذکر ہوا۔ (2) دوسرا واقعہ جو ابھی اوپر آیا ہے۔ (3) بیبیوں کی طرف سے وسعت نفقہ کی درخواست۔ (4) حضرت زینب کی طرف سے تین بار ہدیہ کا واپس کرنا۔ اور ہر مرتبہ رسول کریم ﷺ کا ہدیہ میں اضافہ کرنا۔ (5) ازواج مطہرات کا قدرتی طور پر نسوانی فطرت کے زیر اثر ایک دوسری سے رشک و رقابت۔ (6) خود نبی کریم ﷺ کی یہ حالت کہ جب آپ نے حالات کے تحت اپنی ازواج مطہرات سے کنارہ کشی کی اور حضرت عمر فاروق ؓ آپ کی خدمت اقدس میں حاضر ہوئے تو دیکھا کہ آپ ننگی چٹائی پر استراحت فرما ہیں جس کی وجہ سے پہلو پر چٹائی کے نشان پڑگئے ہیں۔ جب ان حالات مذکورہ بالا کے پیش نظر آپ نے اپنی ازواج مطہرات سے ایک ماہ کے لئے کنارہ کشی کی تو ان کی تادیب میں آیت 5 نازل ہوئی۔ 29 دن گزر جانے پر حضرت جبریل (علیہ السلام) نے آکر کہا۔ آپ کی قسم پوری ہوگئی ہے اور مہینہ مکمل ہوگیا ہے۔ اس دوران امہات المومنین نے آیت شریفہ میں مندرجہ تنبیہات کے پیش نظر اپنے کئے پر ندامت کا اظہار کیا اور پھر کبھی ایسی بات کا صدور نہ ہوا۔ (نیز ملاحظہ ہو سورت الاحزاب آیت نمبر 33، 28، 34)
Top