Tafseer-e-Haqqani - At-Tahrim : 5
عَسٰى رَبُّهٗۤ اِنْ طَلَّقَكُنَّ اَنْ یُّبْدِلَهٗۤ اَزْوَاجًا خَیْرًا مِّنْكُنَّ مُسْلِمٰتٍ مُّؤْمِنٰتٍ قٰنِتٰتٍ تٰٓئِبٰتٍ عٰبِدٰتٍ سٰٓئِحٰتٍ ثَیِّبٰتٍ وَّ اَبْكَارًا
عَسٰى رَبُّهٗٓ : امید ہے آپ کا رب اِنْ طَلَّقَكُنَّ : اگر وہ طلاق دے تم کو اَنْ يُّبْدِلَهٗٓ : کہ وہ بدل کردے اس کو اَزْوَاجًا : بیویاں خَيْرًا مِّنْكُنَّ : بہتر تم عورتوں سے مُسْلِمٰتٍ : جو مسلمان ہوں مُّؤْمِنٰتٍ : مومن ہوں قٰنِتٰتٍ : اطاعت گزار تٰٓئِبٰتٍ : توبہ گزار عٰبِدٰتٍ : عبادت گزار سٰٓئِحٰتٍ : روزہ دار ثَيِّبٰتٍ : شوہر دیدہ۔ شوہر والیاں وَّاَبْكَارًا : اور کنواری ہوں
اگر نبی تم کو طلاق دے دیں تو بہت جلد ان کا رب انہیں اس کے بدلے میں تم سے اچھی بیویاں دے دے گا۔ فرمانبرداریں ‘ ایمانداریں ‘ دعا کرنے والیاں ‘ توبہ کرنے والیاں ‘ عبادت کرنے والیاں ‘ روزہ داریں ‘ گھر برتی ہوئیں اور کنواریاں۔
ترکیب : عسیٰ من افعال المقاربۃ ربہ فاعلھا ان یبدلہ الخ الجملۃ خبرھا ان طلقکن شرط وقع بین فاعل عسیٰ وخبرھا وعسٰی مع اسمھا وخبرھا جواب الشرط۔ یبدل بالتخفیف التشدید ازواجاً منصوب لکونہ مفعول یبدل خیراوکذا مسلمات ومابعد ھا صفات لازواجاً و اھلیکم عطف علی انفسکم وکلاھما مفعول اول لقوا نارا مفعول ثان وقودھا الناس الجملۃ صفۃ لنار وکذا علیہا ملائکۃ۔ لایعصون اللہ الجملۃ صفۃ الملائکۃ تا ما امرھم ماموصولۃ والعائد محذوف ای لایعصون اللہ الذی امرھم بہ اومصدریۃ ای لایعصون اللہ امرہ علی ان یکون ما امرھم بدل اشتمال من اللہ ویفعلون مایؤمرون بہ الجملۃ صفۃ ثانیۃ لملائکۃ۔ تفسیر : اس کے بعد ازواج مطہرات کو ڈراتا جاتا ہے فقال عسیٰ ربہ الخ کہ تم کسی اور خیال میں نہ رہنا۔ اگر نبی (علیہ السلام) نے تم کو طلاق دے دی تو اللہ تم سے بہتر اور عورتیں اس کو دے دے گا جو مسلمات حضرت کی دل سے مطیع ہوں گی یا ان کا ظاہر بھی اسلام ہوگا۔ مؤمنات دل میں بھی ایمان ہوگا یعنی ظاہر و باطن ایماندار دیندار ہوں گی۔ قانتات عبادت کرنے والیاں قنوت کے معنی طاعت ہیں۔ اس سے مراد تہجد گزاریں، پنجگانہ نماز پڑھنے والیاں، دعائیں مانگنے والیاں، یعنی صرف ایمان و اسلام پر ہی بس نہیں بلکہ اس کے بعد عملی حصہ میں بھی بڑا حصہ پانے والیاں ہوں گی۔ ایمان و اسلام کے بعد اگر طاعت و عبادت نہیں تو ایمان میں رونق نہیں اور اپنی طاقت پر فخر کرنے والیاں اور بشریت سے جو قصد ہو اس پر ہٹ اور ضد کرنے والیاں نہ ہوں گی بلکہ تائبات توبہ کرنے والیاں ہوں گی۔ توبہ کے معنی رجوع کے ہیں گنہگار گناہ سے توبہ یعنی رجوع کرتے ہیں اور ابرار ذرا دیر کی حق سبحانہ سے غفلت سے توبہ کرتے ہیں اور اس کی طرف رجوع کرتے ہیں اور ان میں سے اعلیٰ ترین مقامات قرب کو طے کر کے ان سے توبہ کر کے اس سے بلند زینہ پر پائوں دھرتے ہیں۔ ہر انسان بالخصوص عورت میں یہ نہایت عمدہ وصف ہے کہ وہ اپنے قصور پر نادم ہو ہٹ دھرم اور اڑیل سے امید نہیں کہ وہ اس بدبات سے باز آتے۔ عابدات یہ تخصیص کے بعد تعمیم ہے کہ نماز و دعا کی عبادت پر بس نہیں بلکہ ہر قسم کی عبادت کرنے والیاں ہوں گی۔ صدقہ و خیرات، حج و زکوٰۃ، خدمت شوہر وپرورش اولاد ‘ عزت و مال کی حفاظت ‘ صلہ رحمی ‘ خاوند سے ادب و خوش خلقی اور اس کی فرمانبرداری اور اس کے ساتھ ہمدردی سب عورت کی عبادت ہے۔ عبادت کے معنی ہیں تذلل یعنی پستی اور جھکنا خداوند تعالیٰ کے آگے اور اس کے بعد اپنے دنیاوی آقا کے آگے جھکنا عبادت ہے۔ اس میں اشارہ ہے کہ نرم اور خوش خلق بھی ہوں گی۔ بعض عورتیں نیک بخت، نمازی، پرہیزگاریں تو ہوتی ہیں مگر سخت بدمزاج سرکش شوخ بھی ہوتی ہیں۔ یہ وصف خاوند کے حق میں زہر اور معاشرت کے لیے قہر ہے اور وہ اس سے بھی مبرا ہوں گی۔ سائحات یہ سیاحت سے مشتق ہے جس کے معنی بنظر سیاحت مفسروں نے مختلف طور پر بیان کئے ہیں۔ ابن عباس ؓ فرماتے ہیں روزہ رکھنے والیاں۔ روزہ میں صبح سے شام تک بھوک پیاس کے میدان کو طے کرنا پڑتا ہے اس لیے اس کو بھی سائح اور عورت کو سائحہ کہتے ہیں۔ زید بن اسلم اور حسن بصری ; فرماتے ہیں اس کے معنی ہیں ہجرت کرنے والیاں کس لیے کہ ہجرت یعنی وطن چھوڑ کر خاص اللہ کے لیے مدینے میں عورتیں آئی تھیں یہ ان کی سیر تھی۔ اس میں اس طرف اشارہ ہے کہ تم یہ نہ سمجھو کہ مدینے میں ہم سے زیادہ بہتر اور ہے کون جو ہماری جگہ حضرت ﷺ کے دائرہ زوجیت میں داخل ہوگی بلکہ ممکن ہے کہ باہر سے ہجرت کر کے آجائیں۔ خدا کے ملک میں کیا کمی ہے۔ ہم کہتے ہیں معنی کو عام رکھنا بہتر ہے تخصیص کی حاجت کیا ہے۔ اب اس میں اس طرف اشارہ ہے کہ وہ صرف زمین اور پہاڑوں کے میدان کی ہی سیر کرنے والیاں نہ ہوں گی بلکہ دنیا اور اس کے تجملات فانیہ کے میدانوں کی بھی سیر کرنے والیاں ہوں گی۔ ان کی نگاہوں میں یہ دنیا اور اس کی آسائش ہیچ ہوگی۔ ہر حوادث دہر اور انقلاب جسمانی سے وہ سبق اور عبرت لینے والیاں ہوں گی اور اس کے بعد صحبت نبی کریم ﷺ سے ان کو سیر آفاق وانفس بھی نصیب ہوگی۔ وہ امکان و وجود کے منازل طے کر کے بارگاہ قدس میں پہنچنے والیاں ہوں گی۔ ثیبات وابکارا۔ ان میں سے کچھ خاوند برتے ہوئیں اور کچھ کنواریاں ہوں گی۔ ثیب وہ مرد جو رنڈوا ہو اور وہ عورت جو خاوند کرچکی ہو عام ہے کہ پھر خاوند نے طلاق دے دی ہو یا وہ مرگیا ہو۔ ابکاربکر کی جمع جس سے مراد کنواری۔ یہ بیان امر واقعہ کے لحاظ سے ہے کس لیے کہ آنحضرت ﷺ کی بیویاں بیوہ اور کنواری بھی تھیں ان کے جواب میں یہ کلام صادر ہوا۔ اور اس میں اس طرف بھی اشارہ ہے کہ آنحضرت ﷺ یہ نکاح حظ نفسانی سے نہیں کرتے تھے بلکہ اشاعت دین کے لیے یہ جماعت زمرہ ازواج مطہرات میں داخل کی گئی اور شرف زوجیت عطا کیا گیا۔ ان صفات میں عجب لحاظ رکھ کر تقدیم و تاخیر کی گئی ہے۔ اول اجمالی طور پر خیرًا منکن فرمایا گیا۔ اس پر یہ شبہ ہوتا ہے کہ ازواج مطہرات تمام دنیا کی عورتوں سے بہتر تھیں۔ پھر ان سے بہتر اور کون عورتیں ہوں گی ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ اول میں ان طلقکن فرما دیا ہے۔ طلاق کے بعد جب شرف زوجیت جاتا رہا تو پھر ان سے وہی عورتیں بہتر ہوسکتی ہیں جو آپ کے نکاح میں آئیں گی۔ فائدہ : ان طلقکن شرطیہ کلام ہے اس کے لیے تحقق شرط نہیں۔ آنحضرت ﷺ نے اس موقع پر کسی بیوی کو طلاق نہیں دی۔ اجمالی کے بعد ازواج کے اوصاف حمیدہ بیان فرماتا ہے۔ اوصاف تین قسم پر ہیں۔ اول۔ ایمان و اسلام جو تمام حسنات کی اصل ہے ایمان کے ساتھ اسلام کا لفظ ظاہری و باطنی دینداری کے لیے آیا۔ قسم دوم۔ اعمال حسنہ ان کو چار صفتوں میں محصور کیا۔ قانتات تائبات عابدات سائحات۔ ان میں خدا تعالیٰ کی بندگی بھی آگئی اور خاوند کی اطاعت اور فرمانبرداری کی طرف بھی اشارہ ہے۔ قسم سوم۔ ان کی جسمانی خوبی اور حسن ظاہری اس کے لیے یہ دو لفظ کافی تھے۔ ثیبات و ابکارا کنواری کی خوبی اور اس پر رغبت تو عام طبائع کا بھی فعل ہے مگر بہت سی بیوائیں مطلقہ اپنے ذاتی کمالات اور حسن و خوبی کی وجہ سے کنواریوں سے بدرجہا فائق ہوتی ہیں ان کا امور خانہ داری میں تجربہ اپنے نازوادا سے درگزر کر کے مرد کی نازبرداری و اطاعت اور پھر ہم عمری عجیب لطف دیتی ہے۔ ازواج مطہرات پر تنبیہ تھی اس کے ضمن میں مردوں کو بھی نصیحت دینا لازمی تھا کس لیے کہ عورتوں کی محبت ورغبت میں اور شہوت کی آگ میں مرد دیوانہ ہو کر اصول حسنات سے غافل ہوجاتا ہے اور جو نہ کرنا ہو وہ کرتا ہے۔ فقال یا ایہا الذین آمنوا قوا انفسکم واھلیکم نارا۔ کہ اے ایماندارو ! (صرف ایمان پر تکیہ کر کے نہ بیٹھو) بلکہ اپنے آپ کو اور اپنے گھر پیاری بیوی اور مرغوب اولاد کو جہنم کی آگ سے بچائو۔ ایسے کام نہ خود کرو نہ ان کو کرنے دو جس سے جہنم کی آگ میں جانا پڑے اور فرائض و واجبات کی تاکید کرو۔ صرف آپ دیندار ‘ پرہیزگار ہونا کافی نہیں زن و فرزند کی تعلیم و تدبیر کرنی چاہیے۔ حق محبت بھی یہی ہے کیونکہ آپ جنت میں گیا یہ دوزخ میں گئے تو جدائی میں کیا لطف ؟ احادیث صحیحہ میں بڑی تاکید ہے کہ اپنے گھروالوں کو بری باتوں سے روکو، فرائض و واجبات پر مامور کرو۔ پھر وہ آگ بھی کیسی آگ ہے ؟ (1) وقودھا الناس والحجارۃ۔ جس کا ایندھن آدمی اور پتھر ہیں یعنی معمولی آگ نہیں بلکہ سخت اور تیز جس میں پتھر اور آدمی جلتے ہیں یا یوں کہو بت پرست اور گنہگار اور ان کے جھوٹے معبود جو پتھر تھے سب جہنم میں جائیں گے کسی کے کام نہ آئیں گے۔ (2) علیہا ملائکۃ غلاظ شداد۔ اس کے داروغہ یا محافظ فرشتے ہیں سخت بدمزاج ‘ سخت دل یا بڑے قدآور طاقت والے ‘ جن پر کوئی مجرم زور سے غالب نہیں آسکتا نہ وہ کسی پر رحم و مہر کرتے ہیں۔ (3) لایعصون اللہ ما امرھم۔ خدا کے حکم میں وہ ذرا بھی قصور کرنے والے نہیں نہ رشوت لیں نہ سفارش مانیں نہ کسی کی سنیں۔ (4) ویفعلون مایومرون۔ وہ وہی کرتے ہیں جس کا انہیں حکم ہوتا ہے۔ عصیاں عیب تھا اس لیے اس کی اول نفی کی پھر طاعت کی خوبی ثابت کی۔ اس میں مشرکین عرب کے خیالات باطلہ کا ابطال ہے۔ وہ کہتے تھے فرشتے خدا کی بیٹیاں ہیں ہم ان کو پوجتے ہیں ہم پر ضرور رحم کریں گے اور ہمارے بت ہم کو آگ سے بچا لیں گے۔
Top