Ruh-ul-Quran - At-Tahrim : 5
عَسٰى رَبُّهٗۤ اِنْ طَلَّقَكُنَّ اَنْ یُّبْدِلَهٗۤ اَزْوَاجًا خَیْرًا مِّنْكُنَّ مُسْلِمٰتٍ مُّؤْمِنٰتٍ قٰنِتٰتٍ تٰٓئِبٰتٍ عٰبِدٰتٍ سٰٓئِحٰتٍ ثَیِّبٰتٍ وَّ اَبْكَارًا
عَسٰى رَبُّهٗٓ : امید ہے آپ کا رب اِنْ طَلَّقَكُنَّ : اگر وہ طلاق دے تم کو اَنْ يُّبْدِلَهٗٓ : کہ وہ بدل کردے اس کو اَزْوَاجًا : بیویاں خَيْرًا مِّنْكُنَّ : بہتر تم عورتوں سے مُسْلِمٰتٍ : جو مسلمان ہوں مُّؤْمِنٰتٍ : مومن ہوں قٰنِتٰتٍ : اطاعت گزار تٰٓئِبٰتٍ : توبہ گزار عٰبِدٰتٍ : عبادت گزار سٰٓئِحٰتٍ : روزہ دار ثَيِّبٰتٍ : شوہر دیدہ۔ شوہر والیاں وَّاَبْكَارًا : اور کنواری ہوں
کچھ بعید نہیں کہ اگر نبی کریم تم سب کو طلاق دے دیں، تو اللہ ایسی بیویاں تمہارے عوض آپ کو عطا فرما دے جو تم سے بہتر ہوں، اطاعت شعار، ایمان والیاں، فرماں بردار، توبہ کرنے والیاں، عبادت گزار، ہجرت کرنے والیاں، شوہر آشنا اور کنواریاں
عَسٰی رَبُّـہٗٓ اِنْ طَلَّقَکُنَّ اَنْ یُّبْدِلَـہٗٓ اَزْوَاجًا خَیْرًا مِّنْـکُنَّ مُسْلِمٰتٍ مُّؤْمِنٰتٍ قٰـنِـتٰـتٍ تٰٓـئِبٰـتٍ عٰبِدٰتٍ سٰٓئِحٰتٍ ثَـیِّـبٰتٍ وَّاَبْـکَارًا۔ (التحریم : 5) (کچھ بعید نہیں کہ اگر نبی کریم تم سب کو طلاق دے دیں، تو اللہ ایسی بیویاں تمہارے عوض آپ کو عطا فرما دے جو تم سے بہتر ہوں، اطاعت شعار، ایمان والیاں، فرماں بردار، توبہ کرنے والیاں، عبادت گزار، ہجرت کرنے والیاں، شوہر آشنا اور کنواریاں۔ ) تمام ازواجِ مطہرات کو تنبیہ اور ان کے سامنے اعلیٰ صفات کا ایک آئینہ اوپر والی آیت میں دو ازواجِ مطہرات کی تادیب فرمائی گئی۔ اب تمام ازواجِ مطہرات کو تنبیہ کی جارہی ہے۔ تنبیہ کا انداز اگرچہ بہت ہلکا ہے لیکن جنھیں تنبیہ کی جارہی ہے ان کے احساس کے لیے یہ بھی بہت گراں ہے۔ اس آیت سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ معاملہ صرف دو ازواجِ مطہرات تک محدود نہیں تھا بلکہ دوسری ازواجِ مطہرات بھی کچھ نہ کچھ ذمہ دار تھیں۔ قرآن کریم نے اس بات کی صراحت نہیں فرمائی کہ ازواجِ مطہرات کو یہ تنبیہ کس بات پر کی گئی اور ان سے ایسا کیا قصور سرزد ہوا تھا جس کی وجہ سے انھیں سرزنش کی جارہی ہے۔ لیکن احادیثِ مبارکہ سے جو کچھ اندازہ ہوتا ہے وہ یہ ہے کہ انھوں نے آپس کی رشک و رقابت میں آنحضرت ﷺ کے لیے ایسی صورتحال پیدا کردی تھی جس کی وجہ سے آپ کی طبیعت میں گرانی بڑھتی جارہی تھی۔ حضرت انس ( رض) کی روایت ہے کہ حضرت عمرفاروق ( رض) نے فرمایا کہ نبی کریم ﷺ کی بیویوں نے آپس کے رشک و رقابت میں مل جل کر حضور ﷺ کو تنگ کردیا تھا۔ اس پر میں نے ان سے کہا کہ بعید نہیں کہ اگر حضور ﷺ تم کو طلاق دے دیں اور اللہ تعالیٰ تم سے بہتر بیویاں آپ کو عطا فرما دے۔ ایک دوسری حدیث میں حضرت عمر فاروق ( رض) کا یہ بیان بھی نقل کیا گیا ہے کہ مجھے خبر پہنچی کہ امہات المومنین اور نبی کریم ﷺ کے درمیان کچھ سردمہری ہوگئی ہے۔ اس پر میں ان میں سے ایک ایک کے پاس گیا اور ان سے کہا کہ تم رسول اللہ ﷺ کو تنگ کرنے سے باز آجاؤ، ورنہ اللہ تعالیٰ تمہارے بدلے تم سے بہتر بیویاں حضور ﷺ کو عطا فرما دے گا۔ یہاں تک کہ جب میں امہات المومنین میں سے آخری کے پاس گیا اور بخاری کی ایک روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ حضرت ام سلمہ تھیں۔ تو انھوں نے مجھے جواب دیا : اے عمر ! کیا رسول اللہ ﷺ عورتوں کی نصیحت کے لیے کافی نہیں ہیں کہ تم انھیں نصیحت کرنے چلو ہو۔ اس پر میں خاموش ہوگیا۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ازواجِ مطہرات کے لیے روز روز کے فاقوں اور مستقل تنگدستی کی برداشت مشکل ہوگئی تھی۔ ان سب میں یہ مطالبہ پیدا ہوچکا تھا کہ آپ ﷺ ہمارے لیے اتنا وظیفہ تو مقرر کردیں جس سے ہمیں روزانہ ایک وقت ہی روٹی کھانے کو مل جائے اور مناسب لباس میسر آجائے۔ اسی طرح ان میں سے ہر ایک کو چونکہ آنحضرت ﷺ سے بےپناہ محبت تھی اور محبت میں بدگمانیاں تو فطری بات ہے اس لیے ان میں رشک و رقابت کے جذبات پیدا ہوتے اور آنحضرت ﷺ کو ان سے تکلیف ہوتی۔ ازواجِ مطہرات اگرچہ معاشرے کی بہترین خواتین تھیں مگر بہرحال تھیں انسان ہی، اور بشریت کے تقاضوں سے مبرا نہ تھیں۔ لیکن مشکل یہ تھی کہ ان کے نہایت ادب سے کیے گئے مطالبات گو اپنی جگہ بالکل صحیح تھے لیکن آنحضرت ﷺ کی زندگی میں نبوت کی ذمہ داریوں کے ساتھ ساتھ ان چیزوں کا پورا کرنا مشکل تھا۔ اس سے ہلکی پھلکی رنجش کو راہ ملی۔ اور اس سے پہلے کہ آنحضرت ﷺ زیادہ آزردہ ہوں، اللہ تعالیٰ نے اس میں مداخلت فرمائی اور ازواجِ مطہرات کو تنبیہ کرتے ہوئے انھیں ان کا مقام یاد دلایا کہ وہ اپنے گھر کو عام گھروں جیسا نہ سمجھیں بلکہ یہ پیغمبر کا گھر ہے اور انھیں جو رفاقت کی زندگی میسر ہے اس سے بڑھ کر کوئی اعزاز نہیں ہوسکتا۔ چناچہ جب یہ آیت نازل ہوئی تو اس کے پہلے ہی جملے نے تمام ازواجِ مطہرات کو ہلا کر رکھ دیا۔ کیونکہ وہ اس بات کا تصور بھی نہیں کرسکتی تھیں کہ کبھی آنحضرت ﷺ انھیں طلاق دے کر اپنے شرف صحبت سے محروم کردیں گے اور ان سے امہات المومنین کا شرف چھن جائے گا۔ اور مزید یہ بات ان کے لیے نہایت تکلیف دہ تھی کہ آنحضرت ﷺ کی زوجیت میں ان کے بعد جو عورتیں آئیں گی وہ اپنی صفات میں ان سے بڑھ چڑھ کر ہوں گی۔ چناچہ اس کے بعد پھر کبھی ایسا نہیں ہوا کہ آنحضرت ﷺ کے گھر میں کوئی ایسی بات پیدا ہوئی ہو جو حضور ﷺ کے خاطر عاطر کے لیے بار ثابت ہو۔ اس آیت میں ازواجِ مطہرات کے جو اوصاف گنوائے گئے ہیں واضح رہے کہ ازواجِ مطہرات کو ان اوصاف کو اپنے اندر پیدا کرنے کی ترغیب دی گئی ہے۔ حالانکہ امرواقعہ یہ ہے کہ ان میں سے کوئی وصف ایسا نہیں جو ان میں پہلے سے موجود نہ ہو۔ لیکن ظاہر ہے کہ کسی وصف میں بھی درجات کو محدود نہیں کیا جاسکتا۔ اس لیے انھیں ترغیب دی گئی ہے کہ ان میں سے ہر وصف کے کمال کو حاصل کرنے کی کوشش کی جائے سورة الاحزاب آیت 35 میں ان میں سے اکثر اوصاف کا تذکرہ ہوچکا ہے اور وضاحت بھی گزر چکی ہے۔ اس لیے دوبارہ اس آیت کو دیکھ لینا چاہیے۔ البتہ اس میں سٰٓئِحٰتٍکا جو لفظ گزرا ہے اس کا ترجمہ عام طور پر روزے رکھنے والیاں کیا جاتا ہے۔ لیکن بعض اہل علم کا خیال ہے کہ یہ ترجمہ اس لفظ کا غلط تو نہیں لیکن محدود ضرور ہے۔ اس لیے انھوں نے اس کا ترجمہ مہاجرات کیا ہے۔ کیونکہ سائح سیاحت سے ہے اور اسلام میں سیاحت صرف ہجرت ہی ہے۔ ابن زید نے کہا ہے کہ لَیْسَ فِی الْاِسْلاَمِ سِیَاحَۃٌ اِلاَّ اَلْہِجْرَۃِ ۔ ثَـیِّـبٰتٍ ، ثَـیِّـبَۃٌکی جمع ہے۔ یہ اس عورت کو کہتے ہیں جس کی پہلے شادی ہوچکی ہو اور بعد میں اس کو طلاق دے دی گئی ہو یا اس کا خاوند فوت ہوچکا ہو۔
Top