Al-Quran-al-Kareem - Al-Baqara : 195
وَ اَنْفِقُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ وَ لَا تُلْقُوْا بِاَیْدِیْكُمْ اِلَى التَّهْلُكَةِ١ۛۖۚ وَ اَحْسِنُوْا١ۛۚ اِنَّ اللّٰهَ یُحِبُّ الْمُحْسِنِیْنَ
وَاَنْفِقُوْا : اور تم خرچ کرو فِيْ : میں سَبِيْلِ : راستہ اللّٰهِ : اللہ وَلَا : اور نہ تُلْقُوْا : ڈالو بِاَيْدِيْكُمْ : اپنے ہاتھ اِلَى : طرف (میں) التَّهْلُكَةِ : ہلاکت وَاَحْسِنُوْا : اور نیکی کرو اِنَّ : بیشک اللّٰهَ : اللہ يُحِبُّ : دوست رکھتا ہے الْمُحْسِنِيْنَ : نیکی کرنے والوں کو
اور اللہ کے راستے میں خرچ کرو اور اپنے ہاتھوں کو ہلاکت کی طرف مت ڈالو اور نیکی کرو، بیشک اللہ نیکی کرنے والوں سے محبت کرتا ہے۔
اس سے پہلی آیت میں قتال فی سبیل اللہ کا حکم ہے، یہ آیت بھی اسی حکم کی تکمیل ہے، یعنی جہاد میں اور اس کی تیاری میں خرچ کرتے رہو اور اس میں کوتاہی کر کے اپنے آپ کو ہلاکت میں نہ ڈالو، کیونکہ اس صورت میں کفار تم پر غالب آجائیں گے، جو سراسر ہلاکت ہے۔ اسلم تجیبی کہتے ہیں کہ ہم مدینۂ روم (قسطنطنیہ) میں تھے، انھوں نے ہمارے مقابلے کے لیے رومیوں کی ایک بہت بڑی جماعت نکالی، ان کے مقابلے میں اتنے ہی یا ان سے زیادہ مسلمان نکلے، اہل مصر پر عقبہ بن عامر ؓ اور جماعت پر فضالہ بن عبید ؓ (امیر) تھے۔ مسلمانوں میں سے ایک آدمی نے رومیوں کی صف پر حملہ کردیا، یہاں تک کہ ان میں داخل ہوگیا، لوگ چیخ اٹھے اور کہنے لگے، سبحان اللہ ! یہ تو اپنے آپ کو ہلاکت میں ڈال رہا ہے، تو ابو ایوب انصاریٰ ؓ کھڑے ہوئے، انھوں نے فرمایا، تم آیت کا یہ مطلب سمجھتے ہو ؟ حالانکہ یہ تو ہم انصار کی جماعت کے بارے میں نازل ہوئی، جب اللہ تعالیٰ نے اسلام کو عزت بخشی اور اس کے مددگار بہت ہوگئے تو ہم میں سے کچھ لوگوں نے رسول اللہ ﷺ سے چھپا کر دوسروں سے کہا کہ ہمارے اموال (یعنی کھیت اور باغات وغیرہ) ضائع ہوگئے، اب اللہ تعالیٰ نے اسلام کو عزت بخشی ہے اور اس کے مدد گار بہت ہوگئے ہیں، چناچہ ہم اگر اپنے اموال میں ٹھہر جائیں اور جو ضائع ہوگئے ہیں انھیں درست کرلیں (تو بہت رہے) ، تو اللہ تعالیٰ نے ہماری بات کی تردید کرتے ہوئے یہ آیت اتار دی :”اور اللہ کے راستے میں خرچ کرو اور اپنے ہاتھوں کو ہلاکت کی طرف مت ڈالو۔“ [ البقرۃ : 195 ] تو ”ہلاکت“ ہمارا اپنے اموال میں ٹھہر جانا، انھیں درست کرنا اور جنگ کو چھوڑ دینا تھا۔ ابو ایوب ؓ اللہ کے راستے ہی میں نکلے رہے یہاں تک کہ روم کی سرزمین میں دفن ہوئے۔ [ ترمذی، التفسیر، باب و من سورة البقرۃ : 2972 و صححہ الألبانی ] حذیفہ بن یمان ؓ نے فرمایا کہ یہ آیت نفقہ کے بارے میں تری۔ [ بخاری، قبل ح : 4516 ] ابو اسحاق سبیعی کہتے ہیں کہ میں نے براء بن عازب ؓ سے پوچھا، اگر آدمی مشرکین پر حملہ کر دے تو کیا اس نے اپنے آپ کو ہلاکت میں ڈالا ہوگا ؟ انھوں نے فرمایا، نہیں، اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول ﷺ سے فرمایا : (فَقَاتِلْ فِيْ سَبِيْلِ اللّٰهِ ۚ لَا تُكَلَّفُ اِلَّا نَفْسَكَ) [ النساء : 84 ] ”پس اللہ کے راستے میں جنگ کر، تجھے تیری ذات کے سوا کسی کی تکلیف نہیں دی جاتی۔“ [ أحمد : 4/281، ح : 18477، وھو حسن ] صحابہ کرام ؓ کی اس آیت کی تفسیر سے معلوم ہوا کہ جب کسی اکیلے فدائی مسلم کے حملے سے دشمن کو نقصان پہنچنے کی امید ہو، یا اہل اسلام کی شجاعت سے کفار کے حوصلے پست کرنا مقصود ہو، یا شہادت پیش کیے بغیر دشمن کو نقصان پہنچانا ممکن نہ ہو تو فدائی حملے بالکل درست ہیں۔ یہ اپنے آپ کو ہلاکت میں ڈالنا نہیں ہے، بلکہ جہاد چھوڑ کر کاروبار میں مصروف ہوجانا اصل ہلاکت ہے۔ تاریخ اسلام میں غزوۂ بدر میں ابوجہل کے قاتل معوذ اور معاذ، غزوۂ خیبر میں ابو رافع یہودی کے قاتل عبداللہ بن عتیک، مدینہ میں کعب بن اشرف کے قاتل محمد بن مسلمہ، خالد بن سفیان کے قاتل عبداللہ بن انیس ؓ کی کارروائیاں، حدیبیہ کے موقع پر صحابہ کرام کی موت پر بیعت، جنگ جسر میں ابو عبید ثقفی کی ہاتھی پر حملہ کرتے ہوئے شہادت، جنگ یمامہ میں براء بن مالک ؓ کا ساتھیوں سے کہنا کہ مجھے ڈھال پر بٹھا کر ڈھال کو نیزوں کے ساتھ بلند کر کے باغ کے اندر پھینک دو اور وہاں جا کر اسی (80) زخم کھا کر بھی دروازہ کھول کر مسلمانوں کو فتح سے ہم کنار کرنا، بیہقی : 18379) سلطان صلاح الدین ایوبی کے تیار کردہ فدائی جنھوں نے صلیبیوں کی کمر توڑ دی، الغرض ! بیشمار واقعات اس کے لیے شاہد ہیں۔ اس وقت مسلمانوں کی ہلاکت اور ذلت کا باعث یہی ہے کہ انھوں نے جہاد کی تیاری میں خرچ کرنے اور کفار سے لڑنے کے بجائے عیش و عشرت اور جان بچانے کو ترجیح دی تو کفار کے ہاتھوں نہ ان کی جانیں محفوظ رہیں نہ مال اور نہ عزتیں۔ اب بھی اگر اسلام کی آبرو کچھ باقی ہے تو جان قربان کرنے والے ان مجاہدین کے ذریعے سے، جن سے دنیائے کفر کے دل دہلتے ہیں۔
Top