Urwatul-Wusqaa - Al-Baqara : 195
وَ اَنْفِقُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ وَ لَا تُلْقُوْا بِاَیْدِیْكُمْ اِلَى التَّهْلُكَةِ١ۛۖۚ وَ اَحْسِنُوْا١ۛۚ اِنَّ اللّٰهَ یُحِبُّ الْمُحْسِنِیْنَ
وَاَنْفِقُوْا : اور تم خرچ کرو فِيْ : میں سَبِيْلِ : راستہ اللّٰهِ : اللہ وَلَا : اور نہ تُلْقُوْا : ڈالو بِاَيْدِيْكُمْ : اپنے ہاتھ اِلَى : طرف (میں) التَّهْلُكَةِ : ہلاکت وَاَحْسِنُوْا : اور نیکی کرو اِنَّ : بیشک اللّٰهَ : اللہ يُحِبُّ : دوست رکھتا ہے الْمُحْسِنِيْنَ : نیکی کرنے والوں کو
اور اللہ کی راہ میں مال خرچ کرو ایسا نہ ہو کہ اپنے ہاتھوں سے اپنے آپ کو ہلاکت میں ڈال دو ، نیکی اختیار کرو ! یقینا اللہ کی محبت انہی لوگوں کیلئے خاص ہے جو نیکی کرنیوالے ہیں
جہاد میں مال کی بھی ضرورت ہوگی وقت آنے پر دریغ نہ کرنا : 334: جہاد فی سبیل اللہ کے لیے قدم قدم پر روپیہ کی ضرورت ہوگی۔ اگر ہر ایک مسلمان لڑنے کے لئے تیار ہوگیا اور حکومت کے پاس روپیہ نہ ہوا تو سخت دقتیں پیدا ہوں گی ۔ سامان حرب کی خریداری نہ ہو سکے گی پھر علاوہ ازیں سلطنت کے اور سینکڑوں کام ہیں جو روپیہ کے بغیر پورے نہیں ہوسکتے۔ خصوصاً ایسے وقت میں تو روپیہ کی اور بھی زیادہ ضرورت ہے جب کہ دشمنوں نے مسلمانوں کا نام و نشان مٹانے کی ٹھان لی ہو اس لئے اب اللہ کی راہ میں خرچ کرنے کی طرف توجہ دلائی۔ اسلام میں جس طرح محض جان دے دینا مطلوب و مقصود نہیں بلکہ وہ جان دینا مطلوب و مقصود ہے جو اللہ کی راہ میں ہو۔ اللہ کے دین کی بڑائی کے لئے ہو اور اللہ کے بتائے ہوئے حکم اور طریقہ کے مطابق ہو۔ اس طرح مطلق صرف مال کی ہرگز کوئی وقعت و قدر نہیں ۔ قدر صرف اس مال کی ہے جو باطل کی راہ میں نہیں ، حق کی راہ میں ہو ۔ ہوائے نفس کی تکمیل کے لئے نہیں بلکہ رضائے الٰہی کے حصول کے لئے ہو۔ یہاں اشارہ خاص جہاد و قتال کی جانب ہے لیکن فی سبیل اللہ کے الفاظ عام ہیں ۔ ہر دینی خدمت میں مالی امداد اس کے تحت میں آجاتی ہے۔ قرآن کریم میں جب صیغہ جمع حاضر آتا ہے تو کبھی تو افراد مخاطب ہوتے ہیں اور کبھی جماعت کیونکہ جماعت بھی ایک لحاظ سے جمع ہے۔ یہاں اصل مخاطبت امت سے بہ حیثیت مجموعی ہے اور بیان یہ حقیقت ہو رہی ہے کہ افراد امت نے اگر جہاد و قتال سے جان چرائی اور مجاہدین کو مالی امداد دینے میں بخل سے کام لیا تو نتیجہ لازمی طور پر ساری امت کی تباہی و بربادی اور ہلاکت کی صورت میں ظاہر ہوگا۔ ” اپنے کو اپنے ہاتھوں ہلاکت میں نہ ڈالو “ یعنی اپنے آپ کو اپنے ہاتھوں ہلاکت میں نہ ڈالو۔ یہاں مراد یہ ہے کہ امت کی ضرورت کے موقع پر بخل کر کے امت کو بربادی میں نہ ڈالو۔ یہی معنی ابن عباس۔ ابوایوب انصاری۔ حذیفہ صحابہ سے اور حسن و قتادہ و عکرمہ و عطا تابعین سے مروی ہے اور محدث جلیل امام بخاری (رح) نے بھی یہی معنی اختیار کئے ہیں۔ جہاد ترک کردینا تباہی و بربادی ہے اور صرف روپیہ دے کر اپنی جان چھڑ الینا بھی کافی نہیں ۔ بلکہ روپیہ دینے کے ساتھ ساتھ خود جنگ کی تیاری اور جہاد میں شرکت ضروری ہے۔ ایسے موقع پر جبن اور بخل سے کام لینا اپنے آپ کو ضعف وکمزور اور مخالف کو قوی و طاقتور بناتا ہے۔ پس جان اور مال دونوں کو حاضر کرو ” وَّ جَاہِدُوْا بِاَمْوَالِكُمْ وَ اَنْفُسِكُمْ “ کا حکم یاد رکھو اور جو قانون تم کو دیا گیا ہے نیک نیتی سے اس کی پابندی کرو۔ اللہ تمہاری نصرت ودستگیری کرے گا۔ البتہ جن لوگوں کی نیت صالح نہیں ہوتی اور صرف لوگوں کو دکھانے کے لئے قانون پر عمل کرتے ہیں اللہ کے نزدیک ان کی کوئی عزت نہیں ہوتی۔ ” محسنین “ احسان کا لفظ حسن سے نکلا ہے جس کے معنی کسی کام کو خوبی کے ساتھ کرنے کے ہیں ۔ عمل کا ایک درجہ یہ ہے کہ آدمی کے سپرد جو خدمت ہو اسے کر دے ، انجام دے دے اور دوسرا درجہ یہ ہے کہ اسے خوبی کے ساتھ کرے۔ اپنی پوری قابلیت اور اپنے تمام وسائل اس میں صرف کردے اور دل وجان سے اس کی تکمیل کی کوشش کرے۔ پہلا درجہ محض طاعت کا درجہ ہے جس کے لئے صرف تقویٰ اور خوف کافی ہوجاتا ہے اور دوسرا درجہ احسان کا ہے جس کے لئے محبت اور گہرا قلبی لگاؤ درکار ہوتا ہے اور یہ ہر عمل میں دونوں درجات موجود رہتے ہیں اور احسان کا درجہ ہر عمل میں نہایت خوبی کا درجہ ہے۔ جہاد کا بیان جاری تھا اچانک حج کا ذکر کیوں ؟ جہاد فی سبیل اللہ کے مسائل بیان کرتے کرتے درمیان میں قرآن کریم نے حج وعمرہ کا تذکرہ شروع کردیا اور کچھ دور تک اس کا ذکر چلا گیا اس سے فارغ ہوتے ہی پھر جہاد فی سبیل اللہ کی طرف توجہ پھرائی گئی۔ اگر ماقبل وما بعد میں درس و فکر سے کام لیا جائے تو فوراً معلوم ہوجائے گا کہ قتال فی سبیل اللہ اور حج بیت اللہ میں نہایت ہی اعلیٰ درجہ کا ربط وتعلق ہے مگر اس ربط کو معلوم کرنے سے پہلے تمام اعمال اسلام پر ایک سرسری نظر ڈال لیجئے۔ نماز ہر مسلمان مرد و عورت پر لازم کردی گئی کہ جنگی خدمت ہر فرزند اسلام کے لئے ادا کرنا ضروری ہے۔ بیک وقت ایک لشکر جرار تیار ہو جس کے اندر قربانی کا جذبہ صادقہ۔ اپنے امیر کی اطاعت راسخ ہو اور جو ہر قسم کی مصیبت و تکلیف برداشت کرسکے۔ زکوٰۃ اپنی آمدنی کا ایک قلیل حصہ فقراء و مساکین اور دوسرے مصارف مذکور میں دے تاکہ ایک طرف تو اسے اللہ کی راہ میں خرچ کرنے کی عادت ہو تاکہ جب خلافت اسلامی کو اس کی دولت کی ضرورت ہو تو اپنی تمام جائیداد راہ حق میں لٹا سکے اور ایک کوڑی بھی اپنے پاس نہ رکھے اور دوسری جانب ابنائے جنس کے ساتھ ہمدردی و رحم ، پیاروشفقت اور محبت پیدا ہو جو ایک جذبہ فطری ہے بخل وامساک کے عیوب سے پاک رہے اور قوم بھیک مانگنے سے بچ جائے۔ رمضان کے روزوں سے غرض یہ تھی کہ مسلمان اپنے اندر بھوک ، پیاس اور دوسری جسمانی تکلیفوں کو برداشت کرنے کی عادت پیدا کریں اور اگر کبھی انہیں مخالفین و معاندین اسلام کے مقابلہ میں مصائب و شدائد کا سامنا ہو تو ہمت نہ ہار دیں۔ ایک فوج کے لئے جن امتیازات وخصائص کی ضرورت ہے اور جن کے بغیر کوئی لشکر کامیاب نہیں ہو سکتا وہ تو یہی ہیں۔ عام مسلمانوں نے ان کی پابندی کرلی مگر ابھی یہ دیکھنا باقی ہے کہ ان میں کتنوں نے صرف ظاہری صورت کی پرستش کی اور حقیقت سے بالکل غافل رہے اور وہ کتنے ہیں جو مشکل سے مشکل کام میں بھی ہاتھ ڈال سکتے ہیں اور ہر کٹھن منزل میں قدم رکھنے کے قابل ہیں ۔ اس لئے کام شروع کرنے سے قبل ان کا امتحان ضروری ہے وہ امتحان یہی فریضہ حج ہے تاکہ مضبوط اور توانا سپاہیوں کا انتخاب ہو سکے۔ اسلام کا ایک پیغام محبت ہے جو بچھڑے ہوؤں کو ملاتا ، بیگانوں کو اپنا اور آشناؤں کو صدیق و حمیم بنا دیتا ہے ۔ اہل محلہ میں محبت و یگانگت پیدا کرنے کے لئے پنج گانہ نمازوں کے وقت محلہ کی مسجد میں جمع ہونا واجب کیا گیا شہروالوں کے تعلقات کو محکم و استوار کرنے کے لئے ہفتہ میں ایک مرتبہ مسجد جامع میں نماز جمعہ ادا کرنا ضروری ٹھہرایا گیا۔ اہل شہر اور قرب و جوار کے دیہات کے رہنے والوں میں تعارف اور شناسائی کو پیدا کرنے کے لئے سال میں دو بار عید کی نماز قائم کی گئی اور آخر کار عالم اسلامی میں رابطہ ، دین و مذہب مضبوط تر کرنے کی خاطر مختف قوموں ، مختلف نسلوں ، مختلف زبانوں ، مختلف رنگتوں اور مختلف ملکوں کے رہنے والوں پر عمر بھر میں ایک دفعہ حج بیت اللہ فرض کیا گیا کہ دین واحد کی وحدت میں سب کے سب شامل ہوسکیں۔ حج اور جہاد کی مناسبت اب حج کے احکام ملاحظہ ہوں دیکھو کہ ان کو جنگ کے ساتھ کس قدر شدید مناسبت ہے : 1 ۔ تمام حاجیوں کو سادہ بن سلا لباس پہننا پڑتا ہے۔ جس سے یہ ظاہر کرنا مقصود ہے کہ ایک ہی رسول۔ ایک ہی قرآن کریم اور ایک ہی قبلہ پر ایمان رکھنے والے۔ ایک ہی صورت ۔ ایک ہی لباس اور ایک ہی سطح پر نظر آئیں اور ایک ہی نغمہ اور وردان کی زبانوں پر ہو۔ چشم ظاہر بیں کو ان اتحاد ظاہری اور معنوی رکھنے والوں کے اندر کوئی ظاہری اختلاف محسوس نہ ہو۔ یہ اللہ کا شکر ہے۔ یہ سب کے سب اسلامی فوج کے سپاہی ہیں اور فوج میں یونیفارم ہونا ضروری ہے۔ 2 ۔ ان لوگوں کو ایک خاص قانون کی پابندی کرنا پڑتی ہے ، سرمنڈانا ، ناخن کتروانا ، شکار کرنا اور عورتوں سے تعلق خاص پیدا کرنا ممنوع ہے۔ اگر کوئی شخص ان کا مرتکب ہو تو اسے جرمانہ ادا کرنا پڑے گا کہ حاکم علی الا طلاق کی اطاعت راسخ ہو اور اس کے احکام ہماری مصلحتوں کے خواہ کیسے ہی مخالف ہوں مگر ہماری گردنیں ان کے آگے جھک جائیں۔ 3: ایک شخص نے نبی کریم ﷺ سے دریافت کیا کہ حج کسے کہتے ہیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ عرفات میں جانے کا نام حج ہے۔ جو شخص تمام ارکان حج ادا کرے اور میدان عرفات میں حاضر نہ ہو تو اس کا حج نہ ہوگا۔ گویا جس طرح آج تم خدائے واحد کی غلامی کا اظہار کرنے کے لئے اس میدان میں آئے ہو آئندہ جب کبھی مسلمانوں کے خلیفہ کو کسی میدان جنگ میں اعلائے کلمۃ اللہ کی خاطر اجتماع کی ضرورت ہو تو اس طرح عزیز و قریب ، وطن و دیار ، اور مال و جائیداد کو چھوڑ کر حاضر ہوجانا۔ اس میدان کی حاضری ایک طرح کی فوجی نمائش ہوگی کہ کس قدر لوگ جنگ کے لئے تیار ہوتے ہیں۔ 4: ہر حاجی کے لئے ضروری ہے کہ جب حج کو روانہ ہوتواپنا زاد راہ لے کر جائے تاکہ دوسروں کے لئے بار دوش نہ بن جائے۔ ایسے ہی ہر مسلمان کے لئے ضروری ہے کہ وہ جہاد کی تیاری میں مصروف رہے اور ہر قسم کا ضروری سامان حرب اپنے پاس رکھے۔ 5: ارکان حج سے فارغ ہو کر اپنی طاقت کے مطابق جانور ذبح کرے تاکہ معلوم ہو کہ ہم خود بھی رب ذوالجلال کے نام پر قربان ہونے کو تیار ہیں : ” لَنْ یَّنَالَ اللّٰهَ لُحُوْمُهَا وَ لَا دِمَآؤُهَا وَ لٰكِنْ یَّنَالُهُ التَّقْوٰى مِنْكُمْ 1ؕ“ یاد رکھو کہ اللہ تک ان قربانیوں کا نہ تو گوشت پہنچتا ہے نہ خون اس کے حضور جو کچھ پہنچ سکتا ہے وہ تو صرف تمہارا تقویٰ ہے یعنی تمہارے دل کی نیکی۔ 6: حج میں تین چیزوں کی ممانعت ہے۔ الف : بےحیائی کی باتیں اور ناشائستہ کلام۔ ب : ناشائستہ باتوں سے اپنے بھائیوں کو مخاطب کرنا۔ ج : لڑنا جھگڑنا اس میں تعلیم دی کہ جب مسلمانوں کا لشکر ایک جگہ پر جمع ہو تو اسے ان باتوں سے پرہیز کرنا چاہئے۔ تاکہ آپس میں اختلاف و منازعت نہ ہونے پائے۔ 7: ایک مرکز پر اجتماع سے مقصد یہ تھا کہ ان میں عالمگیر اتحاد و اشتراک پیدا ہو۔ شوکت اسلام کا اظہار ہو۔ بحری اور بری سفر کے جو یا۔ صنادید عالم کے متلاشی ۔ عالمان طبقات الارض۔ واقفان علم الالسنہ اور محققین تاریخ اقوام و جغرافیہ عالم اپنی علمی تحقیقات کو فروغ دیں۔ 8: جب فرزند ان اسلام ان تکالیف و شدائد کو برداشت کرلیں گے تو کوئی قوم ان کا مقابلہ نہ کرسکے گی۔ وہی حزب اللہ ہوگی جس کی فلاح و کامرانی کا وعدہ لسان الٰہی نے بار بار دیا ہے : فَاِنَّ حِزْبَ اللّٰهِ ہُمُ الْغٰلِبُوْنَ ۔ 9: حج اگر مقصد اصلی ہو اور پھر تجارت بھی کرلے تو جائز ہے ایسے ہی جہاد فی سبیل اللہ میں قانون الٰہی کی بلندی و برتری تو اصلی مقصد ہو اس کے بعد اس کے بعد اگر مال غنیمت بھی مل جائے تو کوئی حرج کی بات نہیں۔ 10: حج کے بعددو قسم کے آدمی فوراً محتاط ہوجائیں گے ایک وہ جن کے سامنے دنیا اور اس کی مالوفات ہیں : مَنْ یَّقُوْلُ رَبَّنَاۤ اٰتِنَا فِی الدُّنْیَا وَ مَا لَهٗ فِی الْاٰخِرَةِ مِنْ خَلَاقٍ 00200 (البقرۃ 2 : 200) اور پھر دیکھ کچھ لوگ تو ایسے ہیں جن کی صدائے حال یہ ہوتی ہے کہ اے اللہ ! ہمیں جو کچھ دینا ہے دنیا ہی میں دے دے پس آخرت کی زندگی میں ان کے لئے کوئی حصہ نہیں ہوتا۔ اور دوسرے وہ جو دنیا اور آخرت دونوں کے طالب ہیں : وَ مِنْهُمْ مَّنْ یَّقُوْلُ رَبَّنَاۤ اٰتِنَا فِی الدُّنْیَا حَسَنَةً وَّ فِی الْاٰخِرَةِ حَسَنَةً وَّ قِنَا عَذَابَ النَّارِ 00201 ( البقرۃ 2 : 201) اور کچھ لوگ ایسے ہیں جو کہتے ہیں کہ اے اللہ ! ہمیں دنیا میں بھی بھلائی دے اور آخرت میں بھی بھلائی عطا فرما اور ہمیں عذاب دوزخ د سے بچا لے اور یاد رکھو کہ یہی دوسری جماعت جنگ میں کام کرنے کے قابل ہوگی۔
Top