Taiseer-ul-Quran - Al-Baqara : 195
وَ اَنْفِقُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ وَ لَا تُلْقُوْا بِاَیْدِیْكُمْ اِلَى التَّهْلُكَةِ١ۛۖۚ وَ اَحْسِنُوْا١ۛۚ اِنَّ اللّٰهَ یُحِبُّ الْمُحْسِنِیْنَ
وَاَنْفِقُوْا : اور تم خرچ کرو فِيْ : میں سَبِيْلِ : راستہ اللّٰهِ : اللہ وَلَا : اور نہ تُلْقُوْا : ڈالو بِاَيْدِيْكُمْ : اپنے ہاتھ اِلَى : طرف (میں) التَّهْلُكَةِ : ہلاکت وَاَحْسِنُوْا : اور نیکی کرو اِنَّ : بیشک اللّٰهَ : اللہ يُحِبُّ : دوست رکھتا ہے الْمُحْسِنِيْنَ : نیکی کرنے والوں کو
اور اللہ کی راہ میں خرچ کرو اور اپنے ہاتھوں اپنے آپ کو ہلاکت 258 میں نہ ڈالو اور احسان کا طریقہ اختیار کرو کہ اللہ احسان کرنے والوں کو پسند کرتا ہے
258 اس آیت کی بہترین تفسیر درج ذیل حدیث میں موجود ہے۔ حضرت ابو ایوب فرماتے ہیں کہ یہ آیت ہم انصار کے بارے میں نازل ہوئی۔ جب اللہ نے اسلام کو عزت دی اور اس کے مددگار بہت ہوگئے تو ہم نے رسول اللہ ﷺ سے علیحدگی میں ایک دوسرے سے کہا کہ بلاشبہ ہمارے مال خرچ ہوگئے۔ اب اللہ نے اسلام کو عزت دی ہے اور اس کے مددگاروں کو زیادہ کردیا ہے۔ تو اب اگر ہم اپنے اموال سنبھال رکھیں اور جو کچھ خرچ ہوچکا اس کی تلافی شروع کردیں (تو کوئی بات نہیں) اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی اور جو کچھ ہم نے آپس میں کہا تھا اس کی تردید کرتے ہوئے فرمایا کہ اللہ کی راہ میں خرچ کرتے رہو اور اپنے آپ کو ہلاکت میں مت ڈالو۔ ہلاکت سے مراد اموال کی نگرانی، ان کی اصلاح اور جہاد کو چھوڑ دینا ہے۔ (بخاری، کتاب التفسیر، ترمذی ابو اب التفسیر۔ زیر آیت مذکورہ) گویا اموال کو جہاد میں خرچ نہ کرنے کو اس قوم کی ہلاکت قرار دیا گیا ہے۔ 259 کسی حکم کو بجا لانے کی دو صورتیں ہیں۔ ایک یہ کہ بس اس کی تعمیل کردی جائے اور دوسری یہ کہ اسے دل کی رغبت، محبت اور نہایت احسن طریقے سے بجا لایا جائے۔ پہلی صورت اطاعت ہے اور دوسری احسان۔ احسان اطاعت کا بلند تر درجہ ہے اور عدل کا بھی۔ حدیث میں ہے کہ جبریل جب تمام صحابہ ؓ کے سامنے اجنبی صورت میں آپ کے پاس آئے اور آپ ﷺ سے پوچھا کہ احسان کیا ہے۔ تو آپ نے یہ جواب دیا کہ احسان یہ ہے کہ تو اللہ کی عبادت اس طرح کرے جیسے تو اسے دیکھ رہا ہے اور اگر تجھ سے یہ نہ ہو سکے تو کم از کم یہ سمجھے کہ اللہ تجھے دیکھ رہا ہے اور یہ تو ظاہر ہے کہ عبادت صرف نماز فرض یا نوافل کا ہی نام نہیں بلکہ جو کام بھی اللہ کے احکام کی بجاآوری کے لیے اس کا حکم سمجھ کر کیا جائے وہ اس کی عبادت ہی کی ضمن میں آتا ہے۔ خواہ اس کا تعلق حقوق العباد سے ہو یا حقوق اللہ سے، معاملات سے ہو یا مناکحات سے ان میں سے ہر ایک کام کو بنا سنوار کر اور شرعی احکام کی پابندی کے ساتھ نیز دل کی رغبت اور محبت سے بجا لانے کا نام احسان ہے۔
Top