Al-Quran-al-Kareem - An-Noor : 15
اِذْ تَلَقَّوْنَهٗ بِاَلْسِنَتِكُمْ وَ تَقُوْلُوْنَ بِاَفْوَاهِكُمْ مَّا لَیْسَ لَكُمْ بِهٖ عِلْمٌ وَّ تَحْسَبُوْنَهٗ هَیِّنًا١ۖۗ وَّ هُوَ عِنْدَ اللّٰهِ عَظِیْمٌ
اِذْ تَلَقَّوْنَهٗ : جب تم لاتے تھے اسے بِاَلْسِنَتِكُمْ : اپنی زبانوں پر وَتَقُوْلُوْنَ : اور تم کہتے تھے بِاَفْوَاهِكُمْ : اپنے منہ سے مَّا لَيْسَ : جو نہیں لَكُمْ : تمہیں بِهٖ : اس کا عِلْمٌ : کوئی علم وَّتَحْسَبُوْنَهٗ : اور تم اسے گمان کرتے تھے هَيِّنًا : ہلکی بات وَّهُوَ : حالانکہ وہ عِنْدَ اللّٰهِ : اللہ کے نزدیک عَظِيْمٌ : بہت بڑی (بات)
جب تم اسے ایک دوسرے سے اپنی زبانوں کے ساتھ لے رہے تھے اور اپنے مونہوں سے وہ بات کہہ رہے تھے جس کا تمہیں کچھ علم نہیں اور تم اسے معمولی سمجھتے تھے، حالانکہ وہ اللہ کے نزدیک بہت بڑی تھی۔
اِذْ تَلَقَّوْنَهٗ بِاَلْسِنَتِكُمْ : ”تَلَقّٰی یَتَلَقّٰی“ (تفعل) کسی سے کوئی چیز لینا، جیسے فرمایا : (فَتَلَـقّيٰٓ اٰدَمُ مِنْ رَّبِّهٖ كَلِمٰتٍ) [ البقرۃ : 37 ] ”پھر آدم نے اپنے رب سے چند کلمات سیکھ لیے۔“ یعنی جب تم اس بہتان کو ایک دوسرے سے لے کر آگے بیان کرتے تھے کہ میں نے فلاں سے یوں سنا، فلاں نے یہ کہا وغیرہ۔ وَتَــقُوْلُوْنَ بِاَفْوَاهِكُمْ : یعنی یہ صرف تمہارے مونہوں کی بات تھی، نہ تمہارے دل میں اس کا یقین تھا نہ سننے والے کو یقین ہوسکتا تھا، جیسا کہ منافقین کے متعلق فرمایا : (يَقُوْلُوْنَ بِاَفْوَاهِھِمْ مَّا لَيْسَ فِيْ قُلُوْبِھِمْ) [ آل عمران : 167 ] ”اپنے مونہوں سے وہ باتیں کہتے ہیں جو ان کے دلوں میں نہیں۔“ مَّا لَيْسَ لَكُمْ بِهٖ عِلْمٌ : ”عِلْمٌ“ پر تنوین تنکیر کے لیے ہے، یعنی تم اپنے مونہوں سے وہ بات کہہ رہے تھے جس کا تمہیں کچھ علم نہ تھا۔ وَّتَحْسَبُوْنَهٗ هَيِّنًا : تم اسے معمولی سمجھتے تھے، جس کی دلیل یہ ہے کہ تم اسے ایک دوسرے سے لے کر آگے بیان کرتے تھے، یا کم از کم اس پر خاموش رہتے تھے، کیونکہ اگر تم اسے معمولی نہ سمجھتے تو سختی سے اس کا انکار کرتے اور ایسی بات کرنے والے کو ٹوکتے۔ وَّهُوَ عِنْدَ اللّٰهِ عَظِيْمٌ : حالانکہ بہتان کسی پر بھی ہو، اللہ کے ہاں بہت بڑا گناہ ہے، تو جب وہ ام المومنین پر ہو، جو خاتم الانبیاء، سید المرسلین اور سید ولد آدم ﷺ کی بیوی ہے تو کتنا بڑا گناہ ہوگا۔ رازی نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے انھیں تین گناہوں کا مرتکب قرار دیا اور اس پر عذاب عظیم کے خطرے سے آگاہ فرمایا۔ پہلا گناہ یہ کہ ایک دوسرے سے سن کر اسے پھیلانا برائی کی اشاعت ہے، جو بہت بڑا گناہ ہے۔ دوسرا گناہ وہ بات کرنا ہے جس کا علم نہیں، اس سے معلوم ہوا کہ وہی بات کرنی چاہیے جس کا علم ہو، ایسی بات کرنا جس کے سچا ہونے کا علم نہ ہو اسی طرح حرام ہے جیسے وہ بات کرنا حرام ہے جس کے جھوٹا ہونے کا علم ہو، جیسا کہ فرمایا : (وَلَا تَــقْفُ مَا لَيْسَ لَكَ بِهٖ عِلْمٌ) [ بني إسرائیل : 36 ] ”اور اس چیز کا پیچھا نہ کر جس کا تجھے کوئی علم نہیں۔“ اور نبی ﷺ نے فرمایا : (کَفٰی بالْمَرْءِ کَذِبًا أَنْ یُّحَدِّثَ بِکُلِّ مَا سَمِعَ) [ مسلم، المقدمۃ : 5 ] ”آدمی کو جھوٹا ہونے کے لیے یہی کافی ہے کہ وہ ہر بات جو سنے آگے بیان کر دے۔“ تیسرا گناہ یہ کہ وہ اسے معمولی سمجھتے تھے، حالانکہ یہ بہت بڑا گناہ ہے۔ 3 اس آیت سے معلوم ہوا کہ کسی شخص کے کسی گناہ کو معمولی سمجھنے سے وہ معمولی نہیں ہوتا، بلکہ عین ممکن ہے کہ وہ اس کی دنیا و آخرت کی بربادی کا باعث بن جائے، جب وہ اسے معمولی سمجھ کر بار بار اس کا ارتکاب کرتا رہے۔ ابوہریرہ ؓ بیان فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : (إِنَّ الْعَبْدَ لَیَتَکَلَّمُ بالْکَلِمَۃِ مِنْ رِضْوَان اللّٰہِ لَا یُلْقِيْ لَھَا بَالًا یَرْفَعُ اللّٰہُ بِھَا دَرَجَاتٍ وَ إِنَّ الْعَبْدَ لَیَتَکَلَّمُ بالْکَلِمَۃِ مِنْ سَخَطِ اللّٰہِ لَا یُلْقِيْ لَھَا بَالًا یَھْوِيْ بِھَا فِيْ جَھَنَّمَ) [ بخاري، الرقاق، باب حفظ اللسان : 6478 ] ”بندہ اللہ تعالیٰ کی رضا کی بات کرتا ہے، جس کی طرف وہ خیال بھی نہیں کرتا، لیکن اللہ تعالیٰ اس بات کے ساتھ اسے بہت سے درجے بلند کردیتا ہے اور بندہ اللہ تعالیٰ کی ناراضی کی بات کرتا ہے، جس کی طرف وہ خیال بھی نہیں کرتا، لیکن اس کے ساتھ وہ جہنم میں گر جاتا ہے۔“
Top