Al-Quran-al-Kareem - At-Tahrim : 5
عَسٰى رَبُّهٗۤ اِنْ طَلَّقَكُنَّ اَنْ یُّبْدِلَهٗۤ اَزْوَاجًا خَیْرًا مِّنْكُنَّ مُسْلِمٰتٍ مُّؤْمِنٰتٍ قٰنِتٰتٍ تٰٓئِبٰتٍ عٰبِدٰتٍ سٰٓئِحٰتٍ ثَیِّبٰتٍ وَّ اَبْكَارًا
عَسٰى رَبُّهٗٓ : امید ہے آپ کا رب اِنْ طَلَّقَكُنَّ : اگر وہ طلاق دے تم کو اَنْ يُّبْدِلَهٗٓ : کہ وہ بدل کردے اس کو اَزْوَاجًا : بیویاں خَيْرًا مِّنْكُنَّ : بہتر تم عورتوں سے مُسْلِمٰتٍ : جو مسلمان ہوں مُّؤْمِنٰتٍ : مومن ہوں قٰنِتٰتٍ : اطاعت گزار تٰٓئِبٰتٍ : توبہ گزار عٰبِدٰتٍ : عبادت گزار سٰٓئِحٰتٍ : روزہ دار ثَيِّبٰتٍ : شوہر دیدہ۔ شوہر والیاں وَّاَبْكَارًا : اور کنواری ہوں
اس کا رب قریب ہے، اگر وہ تمہیں طلاق دے دے کہ تمہارے بدلے اسے تم سے بہتر بیویاں دے دے، جو اسلام والیاں، ایمان والیاں، اطاعت کرنے والیاں، توبہ کرنے والیاں، عبادت کرنے والیاں، روزہ رکھنے والیاں ہوں، شوہر دیدہ اور کنواریاں ہوں۔
1۔ عَسٰی رَبُّہٗٓ اِنْ طَلَّقَکُنَّ اَنْ یُّبْدِلَہٗٓ اَزْوَاجًا خَیْرًا مِّنْکُنَّ۔۔۔۔۔: اس آیت میں عائشہ اور حفصہ ؓ کے ساتھ دوسری بیویوں کو بھی خطاب میں شامل فرما لیا ہے ، کیونکہ بعض باتوں خصوصاً خرچے میں اضافے کے مطالبے کے ساتھ انہوں بھی رسول اللہ ﷺ کو اتنا پریشان کیا کہ آپ نے ایک ماہ کے لیے ان کے پاس نہ جانے کی قسم کھالی ، جس کے مکمل ہونے پر اللہ تعالیٰ نے آپ ﷺ کو حکم دیا کہ اپنی بیویوں کو اختیار دیں۔ تفصیل کے لیے دیکھئے سورة ٔ احزاب (28، 29) کی تفسیر۔ انس ؓ بیان کرتے ہیں کہ عمر ؓ نے فرمایا :(اجتمع نساء النبی ﷺ فی الغیرۃ علیہ فقلت لھن عسی ربہ ان طلقکن ان یبدلہ ازواجاً خیرا منکن فنزلت ھذہ الایۃ) (بخاری ، التفسیر ، باب (عیسیٰ ربہ ان طلقکن۔۔۔۔): 4916)”نبی ﷺ کی بیویاں غیرت (رشک و رقابت) میں آپ کے خلاف اکٹھی ہوگئیں تو میں نے ان سے کہا کہ اگر آپ ﷺ تمہیں طلاق دے دیں تو آپ کا رب قریب ہے کہ آپ ﷺ کو تم سے بہتر بیویاں دے دے ، تو اس پر یہ آیت نازل ہوئی“۔ عبد اللہ بن عباس ؓ نے بیان کیا کہ مجھے عمر بن خطاب ؓ نے بیان کیا :”جب رسول اللہ ﷺ نے اپنی بیویوں سے علیحدگی اختیار کی تو میں مسجد میں داخل ہوا ، دیکھا کہ لوگ (متفکر بیٹھے ہوئے) کنکریوں کے ساتھ زمین پر نکتے بنا رہے ہیں اور کہہ رہے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے اپنی عورتوں کو طلاق دے دی ہے اور یہ حجاب کا حکم نازل ہونے سے پہلے کی بات ہے ، تو میں نے کہا ، میں آج یہ بات ضرور معلوم کرکے رہوں گا“۔ خیر عمر ؓ نے اپنے عائشہ اور حفصہ ؓ کے پاس جانے اور انہیں نصیحت کا ذکر فرمایا۔ اس کے بعد فرمایا :”میں داخل ہوا تو دیکھا کہ رسول اللہ ﷺ کا غلام رباح ؓ بالا خانے کی دہلیز پر موجود ہے، (جس بالا خانے میں آپ نے ایک ماہ بیویوں سے علیحدہ رہ کر گزارا) میں نے اسے آواز دی اور کہا اے رباح ! میرے لیے رسول اللہ ﷺ سے آپ کے پاس جانے کی اجازت مانگو۔“ مختصر یہ کہ عمر ؓ اجازت ملنے پر اندر گئے اور آپ کو مانوس کرنے کے لیے کچھ باتیں کہیں۔ فرماتے ہیں :”میں نے کہا ، یا رسول اللہ ﷺ ! آپ پر عورتوں کے معاملے میں کیا مشکل پیش آئے گی ؟ سو اگر آپ نے انہیں طلاق دے دی ہے تو اللہ آپ کے ساتھ ہے اور اس کے فرشتے اور جبریل اور میں اور ابوبکر اور تمام مومن آپ کے ساتھ ہیں۔ اور میں نے کم ہی کبھی کوئی بات کی اور میں اللہ کی حمد بیان کرتا ہوں ، مگر یہ امید رکھی کہ اللہ تعالیٰ میری بات کو سچا کردے گا ، تو یہ آیت یعنی آیت تخیر اتری :(عَسٰی رَبُّہٗٓ اِنْ طَلَّقَکُنَّ اَنْ یُّبْدِلَہٗٓ اَزْوَاجًا خَیْرًا مِّنْکُنَّ) (التحریم : 5)”اس کا رب قریب ہے ، اگر وہ تمہیں طلاق دے دے کہ تمہارے بدلے اسے تم سے بہتر بیویاں دے دے“۔ اور یہ آیت اتری (اِنْ تَتُوْبَآ اِلَی اللہ ِ فَقَدْ صَغَتْ قُلُوْبُکُمَاج وَاِنْ تَظٰہَرَا عَلَیْہِ فَاِنَّ اللہ ہُوَ مَوْلٰـہُ وَجِبْرِیْلُ وَصَالِحُ الْمُؤْمِنِیْنَج وَالْمَلٰٓئِکَۃُ بَعْدَ ذٰلِکَ ظَہِیْرٌ) (التحریم : 4)”اور اگر تم اس کے خلاف ایک دوسرے کی مد کرو تو یقینا اللہ خود اس کا مد د گار ہے اور جبریل اور صالح مومن اور اس کے بعد تمام فرشتے مدد گار ہیں“۔ (مسلم ، الطلاق ، باب فی الایلاء و اعتزل النساء و تخییر ھن۔۔۔۔ 1479) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ ’ صالح المومنین“ سے مراد سب سے پہلے ابوبکر و عمر ؓ ہیں ، پھر ان کے ساتھ تمام مومن شامل ہیں اور یہ آیت بھی موافقت عمر ؓ میں سے ہے ، یعنی وہ آیات جو ان باتوں کے موافق اتریں جو عمر ؓ نے کہی تھیں۔ ان میں بدر کے قیدیوں کا معاملہ ، حجاب کا معاملہ ، حجاب کا معاملہ ، مقام ابراہیم کو جائے نماز بنانے کا معاملہ اور دوسری کئی باتیں شامل ہیں۔ 2۔ اس آیت میں نبی ﷺ کو بیویوں کو تنبیہ ہے کہ تم اس خیال میں نہ رہنا کہ نبی ﷺ کو تم سے بہتر بیویاں نہیں مل سکتیں ، اس لیے تم جس طرح چاہو نبی ﷺ پر دباؤ ڈالتی رہو، بلکہ اگر آپ نے تمہیں طلاق دے دی تو آپ کا رب قریب ہے کہ آپ کو تم سے کہیں بہتر بیویاں عطاء فرما دے۔ 3۔ مُسْلِمٰتٍ مُّؤْمِنٰتٍ قٰنِتٰتٍ : ان صفات کی تفسیر پہلے گزر چکی ہے۔ (دیکھئے احزاب : 35)”تٰٓئِبٰتٍ عٰبِدٰتٍ سٰٓئِحٰتٍ“ کے لیے دیکھئے سورة ٔ توبہ (112)۔ 4۔ ثٰـیِّبٰتٍ وَّاَبْکَارًا :”ثینتٍ“ ثیب“ کی جمع ہے ، طلاق یافتہ یا بیوہ عورت۔ یہ ”ثاب یثوث ثوبا“ (ن) سے مشتق ہے ، اسے ”ثیب“ اس لیے کہا جاتا ہے کہ وہ خاوند سے واپس لوٹ آتی ہے اور پھر اسی طرح خاوند کے بغیر رہ جاتی ہے جیسے پہلے تھی۔ ”ابکارا“ ”بکر“ کی جمع ہے، کنواری۔ اسے ”بکر“ اس لیے کہتے ہیں کہ یہ ابھی اپنی اسی پہلی حالت پر ہوتی ہے جس پر پیدا ہوئی تھی اور ہر جنس میں سب سے پہلی چیز کو بکر کہتے ہیں۔ پہلی صفات کے درمیان واؤ عطف نہیں لائی گئی ، کیونکہ وہ سب ایک وقت میں جمع ہوسکتی ہیں ، مگر کسی عورت میں ان دونوں میں سے ایک وقت میں ایک ہی صفت ہوسکتی ہے ، اس لیے واؤ عطف لائی گئی ہے۔ بیشک رسول اللہ ﷺ نے کنواری عورتوں کے ساتھ نکاح کی ترغیب دلائی مگر بعض اوقات ثیبات میں علم و عقل اور تجربے وغیرہ کی ایسی صفات ہوتی ہیں جو انہیں ابکار پر ترجیح دینے کا باعث ہوتی ہیں ، اس لیے اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی ﷺ کو دونوں طرح کی بیویاں عطاء فرمائیں۔ 5۔ اس آیت میں رسول اللہ ﷺ کو آپ کی ازواج سے بہتر ازواج عطاء کرنے کی امید اس شرط پر دلائی تھی کہ آپ موجودہ بیویوں کو طلاق دے دیں ، مگر نہ آپ ﷺ نے انہیں طلاق دی اور نہ اللہ تعالیٰ نے ان سے بہتر بیویاں آپ کو دیں ، بلکہ انہی کو بہتر ہونے کا اور دنیا اور آخرت میں آپ ﷺ کی ازواج رہنے کا شرعطاء فرمایا۔ 6۔ اس آیت سے معلوم ہوا کہ آدمی کو بیوی کے انتخاب کے وقت ان صفات کی حامل عورت کو ترجیح دینی چاہیے جو اس آیت میں مذکور ہیں۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :(تنکح المراۃ لا ربع : لما لھا و لحسبھا وجمالھا ولدینھا ، فاظفر بذات الذین تربت یداک) (بخاری ، النکاح ، باب الاکفاء ، فی الدین : 509، عن ابی ہریرہ ؓ) ”عورت سے چار چیزوں کی وجہ سے نکاح کیا جاتا ہے ، اس کے مال کی وجہ سے ، اس کے حسب اور اس کے جمال کی وجہ سے اور اس کے دین کی وجہ سے ، سو تو دین والی عورت کے ساتھ نکاح میں کامیابی حاصل کر ، تیرے ہاتھ خاک آلود ہوں“۔ 7۔ اس مقام پر بعض مفسرین نے لکھا ہے کہ ”ثیب“ سے مراد آسیہ زوجہ ٔ فرعون ہیں اور ”بکر“ سے مراد مریم بنت عمران ہیں ، ان دونوں کا نکاح جنت میں نبی ﷺ سے کیا جائے گا ، مگر ایک تو اس بات کا اس آیت سے کوئی تعلق نہیں ، کیونکہ اس میں پہلی بیویوں کو طلاق دینے کی صورت میں ان کے بدلے میں ان سے بہتر ثیبات و ابکار بیویاں عطاء کرنے کا ذکر ہے اور جب آپ نے پہلی بیویوں کو طلاق ہی نہیں دی تو ان کے بدلے میں اور بیویوں کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ دوسرے یہ کہ اللہ تعالیٰ جنت میں ان دونوں عظیم خواتین کا نکاح رسول اللہ ﷺ سے کر دے تو یہ ناممکن نہیں ، مگر یہ باثت ہونا تو ضروری ہے ، جب کہ کسی صحیح دلیل سے یہ بات ثابت نہیں۔
Top