Anwar-ul-Bayan - An-Noor : 46
لَقَدْ اَنْزَلْنَاۤ اٰیٰتٍ مُّبَیِّنٰتٍ١ؕ وَ اللّٰهُ یَهْدِیْ مَنْ یَّشَآءُ اِلٰى صِرَاطٍ مُّسْتَقِیْمٍ
لَقَدْ اَنْزَلْنَآ : تحقیق ہم نے نازل کیں اٰيٰتٍ : آیتیں مُّبَيِّنٰتٍ : واضح وَاللّٰهُ : اور اللہ يَهْدِيْ : ہدایت دیتا ہے مَنْ يَّشَآءُ : جسے وہ چاہتا ہے اِلٰى : طرف صِرَاطٍ : راستہ مُّسْتَقِيْمٍ : سیدھا
واقعی بات یہ ہے کہ ہم نے ایسی آیات نازل کی ہیں جو بیان کرنے والی ہیں، اور اللہ جسے چاہے صراط مستقیم کی طرف ہدایت دیتا ہے،
منافقوں کی دنیا طلبی، اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کی اطاعت سے انحراف اور قبول حق سے اعراض یہ پانچ آیات ہیں ان میں سے پہلی آیت میں یہ ارشاد فرمایا کہ ہم نے واضح آیات کھلی کھلی نشانیاں نازل فرمائی ہیں جو حق اور حقیقت کو واضح کرنے والی ہیں جو عقل و فہم سے کام نہیں لیتا وہ دلائل سے فائدہ نہیں اٹھا سکتا اور گمراہی کے راستے ہی اختیار کیے ہوئے رہتا ہے اور اللہ جسے چاہتا ہے سیدھے راستہ کی ہدایت دے دیتا ہے، اس کے بعد چار آیات ہیں ان کو سمجھنے کے لیے منافقین کے بعض واقعات کو سمجھنا چاہیے ایک واقعہ ہم سورة نساء کی آیت (اَلَمْ تَرَ اِلَی الَّذِیْنَ یَزْعُمُوْنَ ) کی تفسیر کے ذیل میں بیان کرچکے ہیں وہ بشر نامی منافق کا قصہ ہے۔ ایک واقعہ بعض مفسرین نے ان آیات کے ذیل میں لکھا ہے۔ صاحب روح المعانی لکھتے ہیں کہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ کا مغیرہ بن وائل سے ایک زمین کے بارے میں جھگڑا تھا دونوں نے آپس میں بخوشی اس زمین کو تقسیم کرلیا اس کے بعد مغیرہ نے کہا کہ تم اپنی زمین مجھے بیچ دو حضرت علی اس پر راضی ہوگئے بیع مکمل ہوگئی حضرت علی ؓ نے قیمت پر اور مغیرہ نے زمین پر قبضہ کرلیا۔ اس کے بعد کسی نے مغیرہ کو سمجھایا کہ تو نے یہ نقصان کا سودا کیا ہے۔ یہ شور زمین ہے اس پر اس نے حضرت علی کرم اللہ وجھہ سے کہا کہ آپ اپنی زمین واپس لے لیں کیونکہ میں اس سودے پر راضی نہیں تھا حضرت علی کرم اللہ وجھہ نے فرمایا کہ تو نے اپنی خوشی سے یہ معاملہ کیا ہے اور اس زمین کا حال جانتے ہوئے تو نے خریدا ہے۔ مجھے اس کا واپس کرنا منظور نہیں ہے اور ساتھ ہی یہ بھی فرمایا کہ چل ہم دونوں رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کر اپنا مقدمہ پیش کریں اس پر وہ کہنے لگا کہ میں محمد ﷺ کے پاس نہیں جاتا وہ تو مجھ سے بغض رکھتے ہیں اور مجھے ڈر ہے کہ وہ فیصلہ کرنے میں مجھ پر ظلم کردیں اس پر آیت بالا نازل ہوئی چونکہ وہ شخص منافق تھا اس لیے اس نے مذکورہ بالا بےہودہ گستاخی والی بات کہی۔ اور چونکہ منافقین آپس میں اندرونی طور پر ایک ہی تھے گھل مل کر رہتے تھے نیز ایک دوسرے کا تعاون بھی کرتے تھے اس لیے آیت شریفہ میں طرز بیان اس طرح اختیار فرمایا کہ سب منافقین کو شامل فرما لیا۔ مفسرابن کثیر نے حضرت حسن (رح) سے یہ بھی نقل کیا ہے کہ جب منافقین میں سے کسی سے جھگڑا ہوتا اور وہ جھگڑا نمٹانے کے لیے رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں بلایا جاتا اور اسے یقین ہوتا کہ آپ میرے ہی حق میں فیصلہ فرمائیں گے تو حاضر خدمت ہوجاتا اور اگر اس کا ارادہ ہوتا کہ کسی پر ظلم کرے اور اسے خصومت کا فیصلہ کرانے کے لیے آپ کی خدمت میں حاضری کے لیے کہا جاتا تو اعراض کرتا تھا اور کسی دوسرے شخص کے پاس چلنے کو کہتا تھا منافقین نے اپنا یہ طریقہ کار بنا کر رکھا تھا۔ اس پر اللہ تعالیٰ شانہٗ نے آیت بالا نازل فرمائی۔ سبب نزول سمجھے کے بعد اب آیات کا ترجمہ اور مطلب سمجھئے۔ ارشاد فرمایا کہ یہ لوگ (یعنی منافقین) ظاہری طور پر زبان سے یوں کہتے ہیں کہ ہم اللہ پر اور اس کے رسول ﷺ پر ایمان لائے اور ہم فرمانبر دار ہیں اس ظاہری قول وقرار کے بعد عملی طور پر ان میں سے ایک جماعت منحرف ہوجاتی ہے چونکہ حقیقت میں مومن نہیں ہیں اس لیے انہوں نے ایسا طرز عمل اپنا رکھا ہے جب ان سے کہا جاتا کہ اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی طرف آؤ تاکہ تمہارے درمیان فیصلہ کردیا جائے تو ان کی ایک جماعت اس سے اعراض کرتی ہے (کیونکہ انہیں معلوم ہوتا ہے کہ ہم نے ظلم کر رکھا ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ کی خدمت میں حاضر ہونگے تو فیصلہ ہمارے خلاف جائے گا) اور اگر ان کا حق کسی پر آتا ہو تو اس حق کے وصول کرنے کے لیے آنحضرت ﷺ کی خدمت میں بڑی ہی فرماں برداری کے ساتھ حاضر ہوجاتے ہیں۔ مقصد ان کا صرف دنیا ہے ایمان کا اقرار اور فرماں برداری کا قول وقرار دنیاوی منافع ہی کے لیے ہے۔ خدمت عالی میں حاضر ہونے کی صورت میں بھی طالب دنیا ہی ہیں اور حاضری دینے سے اعراض کرنے میں بھی دنیا ہی پیش نظر ہوتی ہے۔
Top