Anwar-ul-Bayan - At-Tahrim : 6
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا قُوْۤا اَنْفُسَكُمْ وَ اَهْلِیْكُمْ نَارًا وَّ قُوْدُهَا النَّاسُ وَ الْحِجَارَةُ عَلَیْهَا مَلٰٓئِكَةٌ غِلَاظٌ شِدَادٌ لَّا یَعْصُوْنَ اللّٰهَ مَاۤ اَمَرَهُمْ وَ یَفْعَلُوْنَ مَا یُؤْمَرُوْنَ
يٰٓاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا : اے لوگو جو ایمان لائے ہو قُوْٓا اَنْفُسَكُمْ : بچاؤ اپنے آپ کو وَاَهْلِيْكُمْ : اور اپنے گھروالوں کو نَارًا : آگ سے وَّقُوْدُهَا النَّاسُ : ایندھن اس کا لوگ ہوں گے وَالْحِجَارَةُ : اور پتھر عَلَيْهَا مَلٰٓئِكَةٌ : س پر فرشتے ہیں غِلَاظٌ : سخت دل شِدَادٌ : زور آور۔ مضبوط لَّا يَعْصُوْنَ اللّٰهَ : نہیں وہ نافرمانی کرتے اللہ کی مَآ اَمَرَهُمْ : جو اس نے حکم دیا ان کو وَيَفْعَلُوْنَ : اور وہ کرتے ہیں مَا : وہ جو يُؤْمَرُوْنَ : وہ حکم دئیے جاتے ہیں
اے ایمان والو ! بچاؤ اپنی جانوں کو اور اپنے گھر والوں کو آگ سے جس کا ایندھن انسان اور پتھر ہیں، اس پر فرشتے مقرر ہیں جو سخت مزاج ہیں مضبوط ہیں وہ اس کام میں اللہ کی نافرمانی نہیں کرتے جس کا وہ انہیں حکم دیتا ہے، اور وہ وہی کرتے ہیں جس کا انہیں حکم دیا جاتا ہے۔
اپنی جانوں کو اور اہل و عیال کو دوزخ سے بچانے کا اور سچی توبہ کرنے کا حكم یہ چار آیات کا ترجمہ ہے پہلی آیت میں ایمان والوں سے خطاب فرمایا کہ تم اپنی جانوں کو اور اپنے گھر والوں کو ایسی آگ سے بچاؤ جس کا ایندھن انسان ہیں اور پتھر ہیں دنیا میں جو آگ ہے وہ لکڑی یا تیل یا گیس سے جلتی ہے اور ہے بھی کم گرم اور دوزخ کی آگ کا ایندھن انسان ہیں اور پتھر ہیں اور وہ آگ بہت زیادہ گرم بھی ہے۔ حدیث شریف میں ہے کہ دوزخ کی آگ دنیا سے انہتر درجہ زیادہ گرم ہے (مشکوٰۃ المصابیح صفحہ 242) ایسی آگ سے بچنا اور اپنے گھر والوں کو بچانا عقل کے اعتبار سے بھی ضروری ہے اور یہ بچنا اسی طرح ہوگا کہ اللہ تعالیٰ کی نافرمانی سے خود بھی بچیں اور اپنے گھر والوں کو بھی بچائیں، انہیں دینی احکام سکھائیں اور ان پر عمل کرائیں، دنیا میں کھلانے پہنانے کے لیے اپنے اہل و عیال کے لیے انتظام تو کرتے ہیں لیکن دوزخ کی آگ سے بچانے کا اہتمام نہیں کیا جاتا اس میں عموماً غفلت برتی جاتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ایمان والوں کو حکم دیا کہ تم اپنی جانوں کو بھی اس آگ سے بچاؤ اور اپنے اہل و عیال کو بھی اس میں فرائض و واجبات کا خود اہتمام کرنے اور اہل و عیال سے عمل کرانے کا حکم آگیا اور گناہوں سے بچنے اور بچانے کا بھی بلکہ حلال کھانے اور کھلانے کا حکم بھی آگیا، حرام کھانا اور اولاد کو حرام کھلانا دوزخ میں لے جانے کا ذریعہ ہے۔ حضرت جابر ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ جو گوشت حرام سے پلا بڑھا ہوگا جنت میں داخل نہ ہوگا اور جو گوشت حرام سے پلا بڑھا ہوگا، دوزخ اس کی زیادہ مستحق ہوگی۔ (مشکوٰۃ المصابیح صفحہ 242) حلال کمائے، حلال کھائے اور بیوی بچوں کو بھی حلال کھلائے حرام سے بچے اور حرام سے بچائے حرام سے پیٹ بھر دینا ان کے ساتھ ہمدردی نہیں ہے بلکہ ان کے ساتھ ظلم ہے اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ اپنے گھر والوں کو دین سکھانا بھی ضروری ہے کیونکہ عمل بغیر علم کے نہیں ہوسکتا علم کے بغیر جو عمل ہوگا وہ غلط ہوگا وہ بھی عذاب دوزخ کا سبب بنے گا۔ تفسیر در منثور میں صفحہ 36: ج 1 بحوالہ طبرانی، حاکم اور بیہقی حضرت عبداللہ ؓ نقل کیا ہے کہ یہ پتھر جن کا ذکر اللہ تعالیٰ نے ﴿ وَّ قُوْدُهَا النَّاسُ وَ الْحِجَارَةُ ﴾ میں فرمایا ہے کبریت (گندھک) کے پتھر ہیں اللہ تعالیٰ نے جیسا چاہا پیدا فرما دیا (اس آگ کی تیزی پھر گندھک کے پتھروں کو ایندھن ہونا اس سب کا تصور کرے، خود بھی سوچے اور اہل و عیال کو بھی سمجھائے تاکہ گناہوں کے چھوڑنے پر نفس آمادہ ہوجائے، دوزخ پر جو فرشتے مقر رہیں ان کے بارے میں فرمایا ہے کہ وہ سخت مزاج ہیں اور بہت زیادہ مضبوط ہیں اور فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے جو حکم ملتا ہے اس کی نافرمانی نہیں کرتے جو کچھ انہیں حکم ہوتا ہے وہی کرتے ہیں، اس میں یہ بتادیا کہ کوئی بھی دوزخی ان فرشتوں سے جان چھڑا کر دوزخ کا دروازہ کھول کر یا دیواروں کو پھاند کر نہیں جاسکتا، انہیں جو بھی حکم ہوتا ہے مضبوطی کے ساتھ اس کی تعمیل کرتے ہیں۔
Top