Al-Qurtubi - At-Tahrim : 6
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا قُوْۤا اَنْفُسَكُمْ وَ اَهْلِیْكُمْ نَارًا وَّ قُوْدُهَا النَّاسُ وَ الْحِجَارَةُ عَلَیْهَا مَلٰٓئِكَةٌ غِلَاظٌ شِدَادٌ لَّا یَعْصُوْنَ اللّٰهَ مَاۤ اَمَرَهُمْ وَ یَفْعَلُوْنَ مَا یُؤْمَرُوْنَ
يٰٓاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا : اے لوگو جو ایمان لائے ہو قُوْٓا اَنْفُسَكُمْ : بچاؤ اپنے آپ کو وَاَهْلِيْكُمْ : اور اپنے گھروالوں کو نَارًا : آگ سے وَّقُوْدُهَا النَّاسُ : ایندھن اس کا لوگ ہوں گے وَالْحِجَارَةُ : اور پتھر عَلَيْهَا مَلٰٓئِكَةٌ : س پر فرشتے ہیں غِلَاظٌ : سخت دل شِدَادٌ : زور آور۔ مضبوط لَّا يَعْصُوْنَ اللّٰهَ : نہیں وہ نافرمانی کرتے اللہ کی مَآ اَمَرَهُمْ : جو اس نے حکم دیا ان کو وَيَفْعَلُوْنَ : اور وہ کرتے ہیں مَا : وہ جو يُؤْمَرُوْنَ : وہ حکم دئیے جاتے ہیں
مومنو ! اپنے آپ کو اور اپنے اہل و عیال کو آتش (جہنم) سے بچاو جس کا ایندھن آدمی اور پتھر ہیں اور جس پر تند خو اور سخت مزاج فرشتے (مقرر ہیں) جو ارشاد خدا انکو فرماتا ہے اس کی نافرمانی نہیں کرتے اور جو حکم ان کو ملتا ہے اسے بجا لاتے ہیں
انسان کا اپنی ذات اور اپنے اہل کو آگ سے بچانا اس میں ایک ہی مسئلہ ہے۔ وہ انسان کا اپنی ذات اور اپنے اہل کو آگ سے بچانا۔ ضحاک نے کہا : اس کا معنی ہے اپنے نفسوں کو بچائو جبکہ تمہارے اہل اپنے نفسو کو آگ سے بچائیں (3) ۔ علی بن ابی طلحہ نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت نقل کی ہے، اپنے نفسوں کو بچائو اور اپنے گھر والوں کو ذکر اور دعا کا حکم دو یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ تمہارے ذریعے انہیں بچائے۔ حضرت علی شیر خدا ؓ نے کہا اور مجاہد اور قتادہ نے کہا : اپنے نفوس کو اپنے افعال اور اپنے اہل کو وصیت کے ذریعے بچائو۔ ابن عربی نے کہا، یہی قول صحیح ہے (1) ۔ وہ معنی جو عطف عطا کرتا ہے جو معطوف اور معطوف علیہ کے درمیان اشتراک کا تقاضا کرتا ہے وہ فعل کے معنی میں ہے جس طرح یہ قول ہے : علفتھا تبنا وماء با ردا یہ اصل میں علفتھا تبنا واشرب تھا ماء باردا جس طرح یہ قول ہے : ورأیت زوجک فی الوغی متقلدا سیفا و رمحا (٭) آدمی پر ضروری ہے کہ وہ اپنے نفس کی اصلاح طاعت کے ساتھ کرے اور اپنے اہل کی اصلاح اس طرح کرے جس طرح حاکم اپنی رعیت کی اصلاح کرتا ہے۔ حدیث صحیح میں ہے کہ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا : کلم راع کلم مسئول عن رعیتہ فالامام الذی علی الناس راع و ھو مسئول عنھم و الرجل راع علی اھل بیتہ و ھو مسئول عنھم تم میں سے ہر ایک نگہبان ہے اور تم میں سے ہر ایک سے اس کی رعیت کے بارے میں پوچھا جائے گا حاکم جو لوگوں پر امیر ہے وہ ان کا نگہبان ہے اس سے لوگوں کے بارے میں پوچھا جائے گا۔ آدمی اپنے گھر والوں کا نگہبان ہے اس سے گھر والوں کے بارے میں پوچھا جائے گا۔ حضرت حسن بصری نے اس آیت کی تعبیر یوں کی ہوہ انہیں اچھائی کا حکم دیتا ہے اور برائی سے منع کرتا ہے۔ بعض علماء نے کہا : جب اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا : قوا انفسکم اس میں اولاد بھی داخل ہے کیونکہ اولاد اس کا بعض ہوا کرتی ہے جس طرح اللہ تعالیٰ کے اس فرمان میں داخل ہے، ولا علی انفسکم ان تاکلوا من بیوتکم (النور : 61) باقی رشتہ داروں کی طرح ان کا الگ ذکر نہیں کیا۔ وہ انہیں حلال و حرام کی تعلیم دے، معاصی اور گناہوں سے بچائے، اس کے علاوہ جو دوسرے احکام ہیں۔ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا : ” بچے کا باپ پر یہ حق ہے کہ اس کا اچھا نام رکھے، اسے لکھنا سکھائے اور جب بالغ ہوجائے تو اس کی شادی کر دے “۔ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا : ” والد اپنی اولاد کو اچھے آداب سے بہتر کوئی چیز نہیں دیتا “ ( 2) ۔ عمرو بن شعیب اپنے باپ سے وہ دادا سے وہ نبی کریم ﷺ سے روایت نقل کرتے ہیں، فرمایا : ” اپنے بچوں کو نماز کا حکم وہ جب ان کی عمر سات سال کی ہوجائے، انہیں مارو جب ان کی عمر دس سال کی ہوجائے ان کے بستر الگ کر دو “۔ اس روایت کو محدثین کی ایک جماعت نے روایت کیا ہے۔ یہ ابو دائود کے الفاظ ہیں۔ حضرت سمرہ بن جندب سے بھی یہ روایت مروی ہے نبی کریم ﷺ سے مروی ہے : ” بچے کو نماز کا حکم دو جب وہ سات سال کا ہوجائے، جب دس سال کا ہوجائے تو نماز میں کوتاہی کرنے پر اسے مارو “۔ اسی طرح وہ اپنے گھر والوں کو نماز کے وقت، روزوں کے واجب ہونے اور روزہ کے افطار کے وجوب کے بارے میں بتائے جب وہ امر ثابت ہوجائے جبکہ یہ رؤیت ہلال کی طرف منسوب ہے۔ امام مسلم نے روایت کی ہے نبی کریم ﷺ جب تہجد کی نماز ادا فرماتے تو ارشاد فرماتے : ” یا عائشہ ! تم نماز پڑھو “ (3) ۔ روایت بیان کی گئی ہے نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا : ” اللہ تعالیٰ اس آدمی پر رحم فرمائے جو رات کو اٹھا، اس نے نماز پڑھی اور اس نے اپنے اہل کو جگایا اگر وہ نہ جاگے تو اس نے اس کے چہرے پر پانی کا چھینٹا مارا۔ اللہ تعالیٰ اس عورت پر رحم فرمائے جو رات کو اٹھی، نماز پڑھی اور اپنے خاوند کو جگایا جب وہ نہ اٹھے تو اس نے خاوند کے منہ پر پانی کا چھینٹا مارا “۔ نبی کریم ﷺ کا ارشاد ہے : کمرے والوں کو بیدار کرو “ (1) ۔ اللہ تعالیٰ کے فرمان : وتعاونوا علی البر والتقوی (المائدہ : 2) کے عموم کے تحت یہ داخل ہے۔ قشیری نے ذکر کیا ہے کہ جب یہ آیت نازل ہوئی تو حضرت عمر ؓ نے عرض کی : یا رسول اللہ ! ہم اپنے نفوس کو بچاتے ہیں تو ہم اپنے گھر والوں کو کیسے بچائیں ؟ فرمایا : ” تم انہیں ایسی چیزوں سے منع کرو جن سے اللہ تعالیٰ نے تمہیں منع کیا ہے اور تم انہیں ایسی باتوں کا حکم دو جن کا اللہ تعالیٰ نے تمہیں حکم دیا ہے “۔ مقاتل نے کہا : یہ اس پر اس کی ذات، اولاد، اہل، غلاموں اور باندیوں کے بارے میں اس کا حق ہے۔ ال کیا نے کہا : ہم پر یہ فرض ہے کہ ہم اپنی اولادوں اور اپنے اہل کو دینی اور خیر کی تعلیم دیں اور ایسے آداب کی تعلیم دیں جس سے اعراض کی کوئی صورت نہ ہو، وہ اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان ہے : و امر اھلک بالصولۃ واصطبر علیھا (طہ : 132) اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کریم ﷺ سے ارشاد فرمایا : وانذر عشیر تک الاقربین۔ (الشعرائ) حدیث طیبہ میں ہے : مروھم بالصلوۃ وھم ابناء سبع بچوں کو نماز کا حکم دو جبکہ وہ سات سال کے ہوں۔ وقودھا الناس والحجارۃ اس بارے میں گفتگو سورة البقرہ میں گزر چکی ہے۔ علیھا ملئکۃ غلاظ شداد یعنی فرشتے جو زبانیہ ہیں وہ سخت دل ہیں جب ان سے رحم طلب کیا جائے تو وہ رحم نہیں کرتے۔ وہ غضب سے پیدا کئے گئے ہیں۔ مخلوق کو عذاب دینا ان کو محبوب ہے جس طرح انسانوں کے لئے کھانا، کھانا اور مشروب پینا محبوب ہے۔ شداد وہ بدن کے سخت ہیں۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے : گفتگو میں سخت اور افعال میں شدید ہیں۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے : جب وہ جہنمیوں کو پکڑتے ہیں تو اس وقت سخت اور ان پر شدید ہوتے ہیں، یہ جملہ بولا جاتا ہے : فلان شدید علی فلان وہ اس پر قوی ہے۔ مختلف قسم کے عذاب میں انہیں عذاب دیتا ہے۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے : غلاظ سے مراد جسموں کا بھاری بھرکم ہونا ہے اور شدۃ سے مراد قوت ہے۔ حضرت ابن عباس ؓ نے کہا : ان میں سے ایک کے دو کندھوں کے درمیان ایک سال کی مسافت ہوتی ہے۔ ان میں سے ایک کی طاقت کا یہ عالم ہے کہ وہ ایک ہنٹر مارے گا تو اس ایک ضرب سے ستر ہزار انسانوں کو جہنم کی گہرائی میں پھینک دے گا۔ ابن وہب نے ذکر کیا ہے ہمیں عبد الرحمان بن زید نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے جہنم کے دارغوں کے بارے میں کہا : ان میں سے ایک کے دو کندھوں کے درمیان اتنا فاصلہ ہے جتنا فاصلہ مشرق و مغرب کے درمیان ہے (2) ۔ لا یعصون اللہ ما امرھم وہ اللہ تعالیٰ کے امر کی مخالفت نہیں کرتے نہ اس میں زیادتی کرتی ہیں اور نہ کمی کرتے ہیں ویفعلون ما یومرون۔ وہ اسی وقت اس کو بجا لاتے ہیں جس میں انہیں حکم دیا جاتا ہے نہ اس میں تاخیر کرتے ہیں اور نہ ہی اس میں تقدیم کرتے ہیں۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے، اللہ تعالیٰ کا حکم بجا لانے میں انہیں لذت حاصل ہوتی ہے جس طرح جنتی کو سرور جنت میں رہنے کی وجہ سے ہوتا ہے۔ بعض معتزلہ نے اس کا ذکر کیا ہے ان کے نزدیک یہ ہے کہ قیامت میں کسی امر کا مکلف بنانا محال ہے اہل حق کا اعتقاد مخفی نہیں کہ اللہ تعالیٰ آج (دنیا) اور کل (آخرت) میں مکلف بنا سکتا ہے اور فرشتوں کے حق میں مکلف بنانے کا انکار نہیں کیا جاتا۔ اللہ تعالیٰ کو حق حاصل ہے کہ جو چاہے کرے۔
Top