Anwar-ul-Bayan - At-Tahrim : 6
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا قُوْۤا اَنْفُسَكُمْ وَ اَهْلِیْكُمْ نَارًا وَّ قُوْدُهَا النَّاسُ وَ الْحِجَارَةُ عَلَیْهَا مَلٰٓئِكَةٌ غِلَاظٌ شِدَادٌ لَّا یَعْصُوْنَ اللّٰهَ مَاۤ اَمَرَهُمْ وَ یَفْعَلُوْنَ مَا یُؤْمَرُوْنَ
يٰٓاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا : اے لوگو جو ایمان لائے ہو قُوْٓا اَنْفُسَكُمْ : بچاؤ اپنے آپ کو وَاَهْلِيْكُمْ : اور اپنے گھروالوں کو نَارًا : آگ سے وَّقُوْدُهَا النَّاسُ : ایندھن اس کا لوگ ہوں گے وَالْحِجَارَةُ : اور پتھر عَلَيْهَا مَلٰٓئِكَةٌ : س پر فرشتے ہیں غِلَاظٌ : سخت دل شِدَادٌ : زور آور۔ مضبوط لَّا يَعْصُوْنَ اللّٰهَ : نہیں وہ نافرمانی کرتے اللہ کی مَآ اَمَرَهُمْ : جو اس نے حکم دیا ان کو وَيَفْعَلُوْنَ : اور وہ کرتے ہیں مَا : وہ جو يُؤْمَرُوْنَ : وہ حکم دئیے جاتے ہیں
مومنو ! اپنے آپ کو اور اپنے اہل و عیال کو آتش (جہنم) سے بچاو جس کا ایندھن آدمی اور پتھر ہیں اور جس پر تند خو اور سخت مزاج فرشتے (مقرر ہیں) جو ارشاد خدا انکو فرماتا ہے اس کی نافرمانی نہیں کرتے اور جو حکم ان کو ملتا ہے اسے بجا لاتے ہیں
(66:6) یایھا الذین امنوا : یا حرف نداء ہے الذین امنوا موصول و صلہ مل کر منادی ۔ اے ایمان والو۔ اے مومنو ! (نیز ملاحظہ ہو 66:1 ۔ یایھا النبی) ۔ قوا۔ فعل امر معروف جمع مذکر حاضر۔ لفیف مفروق وقایۃ مصدر (باب ضرب) ق امر معروف واحد مذکر حاضر۔ یہ تقی مضارع معروف سے بنایا گیا ہے۔ علامت مضارع کو شروع سے اور ی حرف علت کو آخر سے گرا دیا گیا ہے ق رہ گیا۔ گردان فعل امر حاضر یوں ہوگی :۔ ق، قیا، قوا، قی، قیا، قین۔ اسم فاعل واق ، وقایۃ وقاء کے معنی ہیں کسی چیز کو مضر اور نقصان پہنچانے والی چیزوں سے بچانا۔ و ، ق، ی مادہ تقویٰ بھی اسی مادہ سے مشتق ہے۔ قوا۔ تم بچاؤ۔ انفسکم (اپنی جانوں کو) مضاف مضاف الیہ مل کر معطوف علیہ اور اہلیکم (اپنی اہل و عیال کو) مضاف مضاف الیہ مل کر معطوف، معطوف علیہ اور معطوف مل کر دونوں قوا فعل امر کے مفعول اول۔ نارا مفعول شانی۔ (اپنی جانوں کو اور اپنے اہل و عیال کو آگ سے بچاؤ) ۔ وقودھا الناس والحجارۃ : نارا کی صفت۔ وقودھا مضاف مضاف الیہ۔ وقود ایندھن جس سے آگ جلائی جائے۔ ھا ضمیر واحد مؤنث غائب کا مرجع نارا ہے۔ (جس کا ایندھن آدمی اور پتھر ہیں) ۔ علیہا ملائکۃ غلاظ شداد۔ یہ بھی صفت ہے نارا کی۔ (اس پر بےرحم اور زبردست فرشتے مقرر ہیں۔ علیہا ملائکۃ : ای انھم مؤکلون علیہا۔ ان کو نار جہنم پر سپردار مقرر کیا گیا ہے ۔ غلاظ : غلیظ کی جمع۔ سخت دل۔ بےرحم ۔ شداد۔ شدید کی جمع، سخت، زبردست ، مضبوط ۔ یہ فرشتوں کی صفت ہے۔ دوزخ کے فرشتوں کو زبانیۃ کہا جاتا ہے چناچہ اور جگہ ارشاد باری تعالیٰ ہے :۔ سندع الزبانیۃ (96:18) ہم بھی اپنے مؤکلان دوزخ کو بلائیں گے۔ لا یعصون اللہ ما امرھم : ملکئۃ کی صفت ہے۔ لا یعصون مضارع منی جمع مذکر غائب۔ عصیان (باب ضرب) مصدر۔ وہ نافرمانی نہیں کرتے۔ اللہ اسم مفعول فعل لا یعصون کا۔ لہٰذا منصوب ہے ما موصولہ عائد محذوف ای لایعصون اللہ الذی امرھم بہ یعنی اللہ جس کا انہیں حکم دیتا ہے وہ اس کے بجالانے میں نہ نہیں کرتے۔ ویفعلون ما یؤمرون : یہ جملہ ملائکہ کی صفت ثانی ہے۔ واؤ عاطفہ ہے ما موصولہ یؤمرون اس کا صلہ۔ موصول وصلہ مل کر یفعلون کا مفعول۔ مضارع مجہول جمع مذکر غائب ۔ امر (باب نصر) مصدر۔ اور وہ وہی کرتے ہیں جو ان کو حکم دیا جاتا ہے۔
Top