Asrar-ut-Tanzil - An-Noor : 41
اَلَمْ تَرَ اَنَّ اللّٰهَ یُسَبِّحُ لَهٗ مَنْ فِی السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ وَ الطَّیْرُ صٰٓفّٰتٍ١ؕ كُلٌّ قَدْ عَلِمَ صَلَاتَهٗ وَ تَسْبِیْحَهٗ١ؕ وَ اللّٰهُ عَلِیْمٌۢ بِمَا یَفْعَلُوْنَ
اَلَمْ تَرَ : کیا تونے نہیں دیکھا اَنَّ اللّٰهَ : کہ اللہ يُسَبِّحُ : پاکیزگی بیان کرتا ہے لَهٗ : اس کی مَنْ : جو فِي السَّمٰوٰتِ : آسمانوں میں وَالْاَرْضِ : اور زمین وَالطَّيْرُ : اور پرندے صٰٓفّٰتٍ : پر پھیلائے ہوئے كُلٌّ : ہر ایک قَدْ عَلِمَ : جان لی صَلَاتَهٗ : اپنی دعا وَتَسْبِيْحَهٗ : اور اپنی تسبیح وَاللّٰهُ : اور اللہ عَلِيْمٌ : جانتا ہے بِمَا : وہ جو يَفْعَلُوْنَ : وہ کرتے ہیں
(اے مخاطب ! ) کیا تو نہیں دیکھتا کہ جو آسمانوں یا زمین میں ہیں اللہ کی پاکی بیان کرتے ہیں اور (بالخصوص) پرندے جو پر پھیلائے ہوئے (اڑتے پھرتے) ہیں ہر ایک اپنی عبادت اور تسبیح (کے طریقے) جانتا ہے اور اللہ کو ان سب کے افعال کا پورا علم ہے
(رکوع نمبر 6) اسرارومعارف عظمت الہی اور اس کی قدرت کاملہ کے دلائل کس قدر واضح اور آنکھوں کے سامنے ہیں کیا تو انہیں دیکھتا اے مخاطب کہ زمین وآسمان کی ہر چیز اور ہر وجود اس کی پاکی بیان کرتا ہے اور یہ فضا میں پر پھیلائے ہوئے پرندوں کے غول مفسرین کرام کے مطابق ہر ایک کا ذکر دو طرح سے ہے ۔ (ہر شے اللہ جل جلالہ کا ذکر کرتی ہے) اول ہر انسان کے سمجھنے کے لیے کہ ارض وسما میں اللہ جل جلالہ نے جو چیز پیدا فرما کر جس کام پر لگا دی وہ سرمو اس سے انحراف نہیں کرتی اور پوری پوری طرح وہ فریضہ انجام دے رہی ہے جو تخلیقی طور پر اللہ نے اس کے ذمہ لگا دیا ہے یا جس کام کے لیے اللہ جل جلالہ نے اسے پیدا فرمایا وہ پورا کر رہی ہے اور کبھی سستی اور کوتاہی نہیں کرنے پاتی اور دوسرے یہ کہ ہر شے اپنی زبان سے بھی اللہ جل جلالہ کا ذکر کرتی ہے ہاں ہر ایک کی اپنی زبان ہے اور الگ طریق ذکر کہ یہاں ارشاد ہوتا ہے کہ ہر شے اپنے طریق عبادت اور اپنے طریق ذکر سے واقف ہے اور قرآن وسنت سے ہر شے میں ایک درجہ کا شعور ہونا ایک طرز گفتگو کا پایا جانا ثابت ہے نیز ہر ایک کے ہر کام سے اللہ واقف ہے اور آسمانوں اور زمینوں کی سلطنت و حکومت اللہ جل جلالہ ہی کو زیبا ہے کہ ہر شے نے بالآخر اسی کے بارگاہ میں پلٹ کر جانا ہے اس کی قدرت کاملہ کو دیکھو کہ کیسے بادلوں کو لاتا ہے اور انہیں ایک جگہ جہاں چاہتا ہے جمع فرما دیتا ہے اور وہ ایک دوسرے پر تہہ در تہہ جمتے اور بڑھتے چلے جاتے ہیں پھر ان میں سے بارش برسنے لگتی ہے انسانی علم کے مطابق اگرچہ بادلوں کے بننے چلنے اور برسنے کے کچھ خاص اسباب ہوتے ہیں مگر سوال یہ ہے کہ وہ اسباب کون پیدا کرتا ہے ، سورج کی روشنی و گرمی اور ہواؤں کی روانی کس کی عطا اور قدرت کا مظہر ہے پھر ہم دیکھتے ہیں کہ کئی بار مطلع بالکل صاف اور دھوپ روشن ہوتی ہے کہ لمحوں میں بدل چھا جاتے ہیں اور ٹوٹ کر برستے ہیں ، یہ ایک دم سے سب اسباب کیسے جمع ہوگئے ، کس نے کردیے یا کبھی کئی دن بادل چھائے رہتے ہیں مگر ایک قطرہ نہیں ٹپکتا ، یہ کس کی قدرت کاملہ ہے ، ایسے ہی پہاڑ جیسے بادلوں سے اولے برساتا ہے اور جس کی کھیتی یا مال کو چاہتا ہے وہ تباہ کردیتے ہیں نیز جسے چاہتا ہے بچا دیتا ہے ساتھ کا کھیت اجڑ جاتا ہے جبکہ دوسرا محفوظ رہتا ہے اور بادلوں کے اس غبار میں بجلی کے کو ندے یوں لپکتے ہیں جیسے انسانی نگاہ کو اچک لیں گے ، پھر رات کو دن اور دن کو رات سے بدلتا ہے یعنی سارے نظام حیات کو ایک روشن پہ قائم رکھتا ہے جن لوگوں میں بصیرت ہے ان کے لیے تو اس میں بہت دلائل ہیں ۔ یہ سب اس کی قدرت کاملہ کے کرشمے ہیں نیز ہر جاندار کو اسی نے پیدا فرمایا ہے اور سب کے اجسام کو مادے کی شکل سے بناتا ہے ، ذرات خاکی کو جمع فرما کر مادے میں ڈھال دیتا ہے اور اس پانی جیسی شے سے وجود پیدا فرماتا ہے اور کچھ ہیں کہ پیٹ پر اور رینگ کر چلتے ہیں جبکہ کچھ جانور دو پاؤں پہ یا کچھ چارپاؤں پر ، ایسے ہی زیادہ پر بھی کہ اللہ جسے چاہتا ہے سیدھے راستے کی طرف چلنے کے لیے توفیق ارزاں فرما دیتا ہے فرق یہ ہے کہ انسان کے لیے اس کا انتخاب رکھا ہے ، اگر کوئی اپنے لیے ہدایت اور نیکی کا راستہ چاہے تو اسے اس کے لیے ایسا ہی آسان کردیتا ہے جیسے فطری زندگی کے امور اور پھر اسی رات کے لیے واضح دلائل بھی نازل فرمائے ، انبیاء کرام (علیہ السلام) مبعوث فرما کر اپنی کتب نازل فرمائیں لیکن اگر کوئی طلب ہی سے حالی اور محروم ہوجائے تو پھر اسے کچھ حاصل نہیں ہوتا ، جیسے کچھ لوگ جن کے دل طلب سے خالی اور محروم ہوتے ہیں وہ حالات سے سمجھوتہ کرکے یا دنیا کے فائدے کی خاطر یا کبھی دیکھا دیکھی کہہ دیتے ہیں کہ ہم مسلمان ہیں ۔ ّ (طلب سے خالی دلوں کا حال) ہم اللہ جل جلالہ پر اور اس کے رسول پر ایمان رکھتے ہیں اور اس کی اطاعت کریں گے مگر جب اطاعت کا موقع آتا ہے تو ان سب وعدوں کے باوجود ان میں سے ایک گروہ اطاعت سے بھر جاتا ہے ، غریب کو تو نہ چاہتے ہوئے بھی انکار کی جرات نہیں ہوتی مگر بااثر اور امیر لوگ الگ ہو جوتے ہیں جیسے آجکل کے کچھ دانشور اور برائے نام سیانے فرماتے ہیں ہم خود مسلمان ہیں مگر کیا کریں اسلام دور جدید کے تقاضوں سے ہم آہنگ نہیں ہے یعنی اب قابل عمل نہیں فرمایا ایسے لوگ ہرگز ایمان دار نہیں اگر ان کا کسی سے جھگڑا ہو اور کہا جائے کہ آؤ اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے حکم کے مطابق فیصلہ کرلو تو ادھر نہیں آتے لیکن اگر ان کا حق بنتا ہو اور دوسرے فریق کے قبضے میں ہو تو پھر دوڑے آتے ہیں یعنی ان کی مسلمانی محض دنیا حاصل کرنے کے لیے ہے تو اب دیکھ لے اے مخاطب کہ ان کے دل کے مرض کا کیا حال ہے اور کتنی شدت ہے کہ کبھی تو انہیں آپ ﷺ کی نبوت ہی میں شک ہوجاتا ہے اور کبھی یہ وہم کہ معاذ اللہ اللہ رسول کا قانون ان سے زیادتی کا مرتکب ہوگا حقیقت یہ ہے کہ یہ لوگ خود ظالم اور غلط کار ہیں ۔
Top