Tafseer-e-Baghwi - Al-A'raaf : 162
فَبَدَّلَ الَّذِیْنَ ظَلَمُوْا مِنْهُمْ قَوْلًا غَیْرَ الَّذِیْ قِیْلَ لَهُمْ فَاَرْسَلْنَا عَلَیْهِمْ رِجْزًا مِّنَ السَّمَآءِ بِمَا كَانُوْا یَظْلِمُوْنَ۠   ۧ
فَبَدَّلَ : پس بدل ڈالا الَّذِيْنَ : وہ جنہوں نے ظَلَمُوْا : ظلم کیا (ظالم) مِنْهُمْ : ان سے قَوْلًا : لفظ غَيْرَ : سوا الَّذِيْ : وہ جو قِيْلَ : کہا گیا لَهُمْ : انہیں فَاَرْسَلْنَا : سو ہم نے بھیجا عَلَيْهِمْ : ان پر رِجْزًا : عذاب مِّنَ : سے السَّمَآءِ : آسمان بِمَا : کیونکہ كَانُوْا يَظْلِمُوْنَ : وہ ظلم کرتے تھے
مگر جو ان میں ظالم تھے انہوں نے اس لفظ کو جس کا ان کو حکم دیا گیا تھا بدل کر اسکی جگہ اور لفظ کہنا شروع کیا تو ہم نے ان پر آسمان سے عذاب بھیجا اس لئے کہ ظلم کرتے تھے۔
تفسیر 162 (وسئلھم عن القریۃ التی کانت حاضرۃ البحر) یعنی اے محمد ﷺ آپ اپنے پڑوسی یہودیوں سے اس بستی کے بارے میں سوال کریں جو دریا کے کنارے تھی۔ ابن عباس ؓ فرماتے ہیں کہ اس بستی کا نام ایلہ تھا۔ مدین اور طور کے درمیان دریا کے کنارے آباد تھی اور زہری (رح) فرماتے ہیں کہ یہ طبریۃ الشام ہے (ادیعدون فی السبت) یعنی مچھلی کا شکار کر کے اللہ کے حکم سے تجاوز کیا (اذتاتیھم حیتالھم یوم سبتھم شرعاً ) یعنی پانی کے اوپر ظاہر ہو کر کثیر تعداد میں یہ شارع کی جمع ہے اور ضحاک (رح) فرماتے ہیں کہ لگاتار آتیں اور قصہ میں یہ بات منقول ہے کہ ہفتہ کے دن سفید موٹے مینڈھوں کی طرح موٹی مچھلیاں ان کے سامنے آتیں۔ (ویوم لایستبون لاتآتیھم) حسن (رح) نے یاء کے ضمہ کے ساتھ پڑھا ہے یعنی وہ ہفتہ میں داخل نہ ہوتے تھے اور معروف قرأت یاء کے نصب کے ساتھ اور اسی کا معنی یہ ہے کہ وہ ہفتہ کی تعظیم نہ کرتے تھے (کذلک نبلوھم بما کانوا یقسقون) تو ان کو شیطان نے وسوسہ ڈالا اور کہنے لگا کہ اللہ تعالیٰ نے ہفتہ کے دن شکار سے منع نہیں کیا بلکہ مچھلی کھانے سے منع کیا ہے تو تم شکار کرلو اور بعض نے کہا کہ ان کو یہ وسوسہ ڈالا کہ تمہیں پکڑنے سے منع کیا گیا ہے تو تم سمندر کے کنارے ایک کھالا بنا لو اس میں ہفتہ کے دن مچھلیاں ہانک دیا کرو، پھر اتوار کے دن پکڑ لیا کرو تو کافی عرصہ وہ یہ کام کرتے رہے۔ پھر ہفتہ کے دن شکار کرنے پر ان کی جرأت بڑھ گئی اور کہنے لگے کہ ہمارا خیال ہے کہ ہفتہ کا دن ہمارے لئے حلال کردیا گیا ہے تو ان کو پکڑ کر کھا جاتے یا بیچ دیتے تو بستی والے تین جماعتوں میں بٹ گئے اور یہ ستر ہزار کے قریب تھے۔ ایک تہائی نے ان کو منع کیا اور ایک تہائی نے منع نہیں کیا بلکہ سکوت کیا اور کہنے لگے تم ایسی قوم کو کیوں نصیحت کرتے ہو جن کو اللہ ہلاک کرنے والا ہے اور ایک تہاء گناہ گار لوگوں کی تھی جب وہ باز آگئے تو منع کرنے والے کہنے لگے کہ ہم ایک بستی میں تمہارے ساتھ نہیں رہ سکتے تو انہوں نے بستی کو دیوار کھڑی کر کے تقسیم کردیا۔ مسلمانوں کے لئے ایک دروازہ اور ان لوگوں کے لئے ایک دروازہ ہے اور ان کو دائود (علیہ السلام) نے لعنت کی تو منع کرنے والوں نے ایک دن صبح کی تو حد سے تجاوز کرنے والوں میں سے کوئی نہ نکلا تو وہ کہنے لگے کہ شاید شراب کا نشہ ان پر غالب آگیا ہے تو وہ دیوار پھلانگ کر ان کے حصہ میں گئے تو دیکھا کہ وہ سب بندر اور خنزیر بنے ہوئے تھے تو بندوں نے اپنے رشتہ دار انسانوں کو پہچان لیا لیکن انسان اپنے بندر رشتہ داروں کو نہ پہچان سکے تو بند راپنے رشتہ داروں کے پاس آ کر ان کے کپڑے سونگھ کر روتے تو وہ انسان کہتے کیا ہم نے تمہیں روکا نہیں تھا ؟ تو وہ سربلا کر ہاں کرتے تو اس قوم میں سے صرف منع کرنے والے بچے باقی سب کی شکلیں بگڑ گئیں۔ یا سب ہلاک ہوگئے۔
Top