Urwatul-Wusqaa - Al-A'raaf : 162
فَبَدَّلَ الَّذِیْنَ ظَلَمُوْا مِنْهُمْ قَوْلًا غَیْرَ الَّذِیْ قِیْلَ لَهُمْ فَاَرْسَلْنَا عَلَیْهِمْ رِجْزًا مِّنَ السَّمَآءِ بِمَا كَانُوْا یَظْلِمُوْنَ۠   ۧ
فَبَدَّلَ : پس بدل ڈالا الَّذِيْنَ : وہ جنہوں نے ظَلَمُوْا : ظلم کیا (ظالم) مِنْهُمْ : ان سے قَوْلًا : لفظ غَيْرَ : سوا الَّذِيْ : وہ جو قِيْلَ : کہا گیا لَهُمْ : انہیں فَاَرْسَلْنَا : سو ہم نے بھیجا عَلَيْهِمْ : ان پر رِجْزًا : عذاب مِّنَ : سے السَّمَآءِ : آسمان بِمَا : کیونکہ كَانُوْا يَظْلِمُوْنَ : وہ ظلم کرتے تھے
لیکن پھر جو لوگ ان سے ظلم و شرارت کی راہ چلنے والے تھے انہوں نے اللہ کی بتلائی ہوئی بات بدل کر ایک دوسری ہی بات بنا ڈالی پس ہم نے آسمان سے ان پر عذاب بھیجا اس ظلم کی وجہ سے جو وہ کیا کرتے تھے
بنی اسرائیل نے جب صریحاً حکم عدولی کی تو ان کو ایک آسمانی عذاب نے آلیا : 185: بنی اسرائیل کو حکم یہ دیا گیا تھا کہ تم اس بستی میں جابر و ظالم اور دنیوی فاتحوں کی طرح اکڑتے ہوئے اس بستی میں داخل نہ ہونا بلکہ خدا ترسوں کی طرح منکسرانہ شان سے داخل ہونا جیسا کہ نبی اعظم و آخر ﷺ مکہ کو فتح کرتے وقت داخل ہوئے تھے اور یہ بات ہم نے استدلالاََ بتائی ہے اور اور حطۃ کہتے ہوئے یعنی اللہ سے اپنی خطائوں کی معافی مانگتے ہوئے یا یہ کہ لوٹ کھسوٹ اور قتل عام کی بجائے بستی کے باشندوں سے در گزر کرتے ہوئے بلکہ عام معافی کا اعلان کرتے ہوئے لیکن انہوں نے وہی کیا جو کچھ کرنے کے وہ عادی تھے ۔ بائبل کا بیان ہے کہ اس شہر کو بنی اسرائیل نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی زندگی کے اخیر زمانے میں فتح کیا اور وہاں بڑی بد کاریاں کیں جن کے نتیجے میں اللہ نے ان پر وبا بھیجی اور 24 ہزار آدمی ہلاک کردیے گئے۔ (گنتی 25:1 , 8) یہ بہت بڑی گمراہی ہے کہ انسان کو جب حق کی بدولت کامرانی و کامیابی حاصل ہوجائے تو خدا کا شکر وسپاس اور عبودیت و نیاز کی جگہ مخالفین حق کی طرح غفلت و سرکشی میں مبتلا ہوجائے افسوس کہ بنی اسرائیل کی داستان کا وہ حصہ جو فرعون سے نجات پا کر قلزم یعنی بحر احمر عبور کرنے کے بعد سے شروع ہوتا وہ اسی گمراہی سے معمور تھا اور آج ہم نے جب سے یہ ملک پاکستان حاصل کیا ہم بھی ہو بہو انہی کے نقش قدم پر چل پڑے ہیں ان کا انجام تو سن چکے اب دیکھئے ہمارا انجام کیا ہوتا ہے ۔ آدھا ملک ہاتھ سے نکل چکا لیکن ہمارے کانوں پر جوں بھی نہیں رینگی۔
Top