Tafseer-e-Madani - Al-A'raaf : 162
فَبَدَّلَ الَّذِیْنَ ظَلَمُوْا مِنْهُمْ قَوْلًا غَیْرَ الَّذِیْ قِیْلَ لَهُمْ فَاَرْسَلْنَا عَلَیْهِمْ رِجْزًا مِّنَ السَّمَآءِ بِمَا كَانُوْا یَظْلِمُوْنَ۠   ۧ
فَبَدَّلَ : پس بدل ڈالا الَّذِيْنَ : وہ جنہوں نے ظَلَمُوْا : ظلم کیا (ظالم) مِنْهُمْ : ان سے قَوْلًا : لفظ غَيْرَ : سوا الَّذِيْ : وہ جو قِيْلَ : کہا گیا لَهُمْ : انہیں فَاَرْسَلْنَا : سو ہم نے بھیجا عَلَيْهِمْ : ان پر رِجْزًا : عذاب مِّنَ : سے السَّمَآءِ : آسمان بِمَا : کیونکہ كَانُوْا يَظْلِمُوْنَ : وہ ظلم کرتے تھے
مگر بدل دیا ان میں کے ظالم لوگوں نے (اس کو) ایک اور ہی بات سے، اس کے سوا جو ان سے کہی گئی تھی، جس کے نتیجے میں ہم نے بھیج دیا ان پر ایک ہولناک عذاب آسمان سے، اس بناء پر کہ وہ ظلم کرتے تھے،1
223 احکام الہی سے استہزاء باعث ہلاکت و تباہی ۔ والعیاذ باللہ : سو ارشاد فرمایا گیا کہ ان بدبختوں نے اللہ کی ارشاد فرمودہ بات کو بدل دیا کہ انہوں نے { حِطَّۃٌ } کی جگہ " حِنْطَۃٌ فِیْ شَعِیْرَۃٍ " کہا، جس کے معنیٰ ہیں " دانہ گندم جو کے اندر "، جبکہ " حطۃ " کے معنیٰ معافی اور گناہوں کے اتارنے کے ہیں جو دراصل معنیٰ ہے " مَغْفِرَتُکَ اَللّٰہُمَّ " کا۔ سو اس طرح انہوں نے اپنے گناہوں کے معانی مانگنے کی بجائے الٹا احکام خداوندی کا مذاق اڑایا اور اس کے نتیجے میں وہ اپنے انجام بد کو پہنچ کر رہے۔ اور یہی حال ہوتا ہے اس بدبخت قوم کا جس کی شامت آچکی ہوتی ہے ۔ والعیاذ باللہ العظیم ۔ سو اللہ پاک کے احکام کے ساتھ مذاق و استہزاء انسان کے لئے ہلاکت و تباہی کا باعث ہے ۔ والعیاذ باللہ العظیم - 224 بنی اسرائیل پر ہولناک عذاب : سو ارشاد فرمایا گیا کہ ان کے اس جرم کے نتیجے میں ہم نے ان پر بھیج دیا ایک سخت عذاب آسمان سے طاعون یا اسی طرح کی کسی اور بیماری کا۔ جس سے روایات کے مطابق ان کے ہزارہا آدمی آناً فآنًا لقمہ اجل بن گئے۔ (روح، ابن کثیر، صفوہ وغیرہ) ۔ والعیاذ باللہ العظیم ۔ سو اس سے واضح ہوجاتا ہے کہ انسان کو اس کے گناہوں اور اعمالِ بد کی کچھ سزا آخرت سے پہلے اس دنیا میں بھی ملتی ہے۔ مگر پوری اور حقیقی سزا و جزا انسان کو آخرت ہی میں ملے گی جو کہ " دارالجزاء " ہے جبکہ یہ دنیا " دارالعمل " ہے۔ پس بندے کی طرف سے کوشش ہمیشہ اسی کی ہونی چاہیے کہ اعمال صالحہ کا ذخیرہ جمع ہو اور زیادہ سے زیادہ جمع ہو اور اللہ اور اس کے رسول کی معصیت و نافرمانی سے بچا جائے ۔ وباللہ التوفیق لما یحب ویرید وہو الہادی الی سواء السبیل ۔ بہرکیف اس سے واضح فرما دیا گیا کہ بنی اسرائیل کو اپنے کیے کی پاداش میں ہولناک عذاب بھگتنا پڑا۔ 225 احکام الٰہی کی خلاف ورزی ظلم ہے ۔ والعیاذ باللہ : سو ارشاد فرمایا گیا کہ ان لوگوں پر آسمان سے ایسا ہولناک عذاب اس لیے نازل کیا گیا کہ وہ ظلم کرتے تھے اللہ تعالیٰ کے احکام کو توڑ کر اور ان کا مذاق اڑا کر۔ سو اس سے معلوم ہوا کہ احکام خدا وندی کے توڑنے اور ظلم و فساد کا ارتکاب کرنے سے اللہ تعالیٰ کا عذاب آخرت کے اس حقیقی عذاب سے پہلے اس دنیا میں بھی آجاتا ہے۔ نیز یہ کہ احکام خداوندی کی خلاف ورزی ظلم ہے ۔ والعیاذ باللہ العظیم ۔ اور یہ ظلم ہے حضرت حق ۔ جل مجدہٗ ۔ کے حق واجب کے بارے میں کہ اس کا حق یہ ہے کہ بندہ اس کے ہر حکم و ارشاد کو دل و جان سے قبول کرے اور اس کے آگے سرتسلیم خم ہوجائے۔ نیز یہ ظلم ہے خود ان کی اپنی جانوں کے حق میں کہ اس طرح وہ اپنے آپ کو دارین کی سعادت و سرخروئی سے محروم کر کے ہلاکت و تباہی کی راہ پر ڈالتے ہیں ۔ والعیاذ باللہ ۔ اور یہ ظلم ہے اس پوری کائنات کے حق میں کہ اس طرح انسان اس کائنات کی طرح طرح کی نعمتوں سے مستفید ہونے کے باوجود اس خالق ومالک کے حکم و ارشاد سے منہ موڑتا ہے جس نے اس کو ان گوناگوں نعمتوں سے نوازا ہے ۔ والعیاذ باللہ -
Top