Tafseer-e-Mazhari - Al-A'raaf : 162
فَبَدَّلَ الَّذِیْنَ ظَلَمُوْا مِنْهُمْ قَوْلًا غَیْرَ الَّذِیْ قِیْلَ لَهُمْ فَاَرْسَلْنَا عَلَیْهِمْ رِجْزًا مِّنَ السَّمَآءِ بِمَا كَانُوْا یَظْلِمُوْنَ۠   ۧ
فَبَدَّلَ : پس بدل ڈالا الَّذِيْنَ : وہ جنہوں نے ظَلَمُوْا : ظلم کیا (ظالم) مِنْهُمْ : ان سے قَوْلًا : لفظ غَيْرَ : سوا الَّذِيْ : وہ جو قِيْلَ : کہا گیا لَهُمْ : انہیں فَاَرْسَلْنَا : سو ہم نے بھیجا عَلَيْهِمْ : ان پر رِجْزًا : عذاب مِّنَ : سے السَّمَآءِ : آسمان بِمَا : کیونکہ كَانُوْا يَظْلِمُوْنَ : وہ ظلم کرتے تھے
مگر جو ان میں ظالم تھے انہوں نے اس لفظ کو جس کا ان کو حکم دیا گیا تھا بدل کر اس کی جگہ اور لفظ کہنا شروع کیا تو ہم نے ان پر آسمان سے عذاب بھیجا اس لیے کہ ظلم کرتے تھے
فبدل الذین ظلموا منہم قولا غیر الذی قیل لہم فارسلنا علیہم رجزا من السمآء بما کانوا یظلمون سو بدل دیا ان میں سے ظالموں نے اس لفظ کو جو ان سے کہا گیا تھا۔ غیر لفظ کے ساتھ اس پر ہم نے ان پر ایک آفت آسمان سے بھیجی اس وجہ سے کہ وہ حکم کو ضائع کرتے تھے۔ آیات مذکورہ بالا کی تفسیر سورة بقرہ میں مفصل گزر چکی ہے سورة بقرہ کی آیات اور ان آیات میں فرق صرف یہ ہے کہ سورة بقرہ میں فکلوا فاء کے ساتھ آیا ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ سکونت قریہ سبب اکل ہے (وہاں جا کر رہو تو کھاؤ) اور اس جگہ فاء نہیں ہے وہاں فاء کا ذکر کافی سمجھا گیا یا یہ کہ آیات کی رفتار خود بتارہی ہے کہ سکونت سبب اکل ہے۔ کذا قال البیضاوی۔ میں کہتا ہوں کہ سورة بقر میں ادخلوا ہذہ القریۃ فکلوا آیا ہے۔ ظاہر ہے کہ کھانا داخل ہونے کے بعد ہی ہوگا اس لئے فاء (تعقیبیہ) ذکر کردی گئی اور اس جگہ اسکنوا ہذہ القریۃ آیا ہے اس جگہ کلوا پر فاء (تعقیبیہ) لانا مناسب نہیں کیونکہ سکونت کے ساتھ ہی کھانا بھی ہوسکتا ہے۔ دونوں فعل ایک وقت میں جمع ہوسکتے ہیں اس لئے واؤ جو محض جمعیت پر دلالت کرتا ہے ذکر کیا اور وادخلوا سے پہلے قولواذکر کرنے سے معنی پر کوئی جدید اثر نہیں پڑتا۔
Top