Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Bayan-ul-Quran - An-Noor : 35
اَللّٰهُ نُوْرُ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ١ؕ مَثَلُ نُوْرِهٖ كَمِشْكٰوةٍ فِیْهَا مِصْبَاحٌ١ؕ اَلْمِصْبَاحُ فِیْ زُجَاجَةٍ١ؕ اَلزُّجَاجَةُ كَاَنَّهَا كَوْكَبٌ دُرِّیٌّ یُّوْقَدُ مِنْ شَجَرَةٍ مُّبٰرَكَةٍ زَیْتُوْنَةٍ لَّا شَرْقِیَّةٍ وَّ لَا غَرْبِیَّةٍ١ۙ یَّكَادُ زَیْتُهَا یُضِیْٓءُ وَ لَوْ لَمْ تَمْسَسْهُ نَارٌ١ؕ نُوْرٌ عَلٰى نُوْرٍ١ؕ یَهْدِی اللّٰهُ لِنُوْرِهٖ مَنْ یَّشَآءُ١ؕ وَ یَضْرِبُ اللّٰهُ الْاَمْثَالَ لِلنَّاسِ١ؕ وَ اللّٰهُ بِكُلِّ شَیْءٍ عَلِیْمٌۙ
اَللّٰهُ
: اللہ
نُوْرُ
: نور
السَّمٰوٰتِ
: آسمانوں
وَالْاَرْضِ
: اور زمین
مَثَلُ
: مثال
نُوْرِهٖ
: اس کا نور
كَمِشْكٰوةٍ
: جیسے ایک طاق
فِيْهَا
: اس میں
مِصْبَاحٌ
: ایک چراغ
اَلْمِصْبَاحُ
: چراغ
فِيْ زُجَاجَةٍ
: ایک شیشہ میں
اَلزُّجَاجَةُ
: وہ شیشہ
كَاَنَّهَا
: گویا وہ
كَوْكَبٌ دُرِّيٌّ
: ایک ستارہ چمکدار
يُّوْقَدُ
: روشن کیا جاتا ہے
مِنْ
: سے
شَجَرَةٍ
: درخت
مُّبٰرَكَةٍ
: مبارک
زَيْتُوْنَةٍ
: زیتون
لَّا شَرْقِيَّةٍ
: نہ مشرق کا
وَّلَا غَرْبِيَّةٍ
: اور نہ مغرب کا
يَّكَادُ
: قریب ہے
زَيْتُهَا
: اس کا تیل
يُضِيْٓءُ
: روشن ہوجائے
وَلَوْ
: خواہ
لَمْ تَمْسَسْهُ
: اسے نہ چھوئے
نَارٌ
: آگ
نُوْرٌ عَلٰي نُوْرٍ
: روشنی پر روشنی
يَهْدِي اللّٰهُ
: رہنمائی کرتا ہے اللہ
لِنُوْرِهٖ
: اپنے نور کی طرف
مَنْ يَّشَآءُ
: وہ جس کو چاہتا ہے
وَيَضْرِبُ
: اور بیان کرتا ہے
اللّٰهُ
: اللہ
الْاَمْثَالَ
: مثالیں
لِلنَّاسِ
: لوگوں کے لیے
وَاللّٰهُ
: اور اللہ
بِكُلِّ شَيْءٍ
: ہر شے کو
عَلِيْمٌ
: جاننے والا
اللہ نور ہے آسمانوں اور زمین کا اس کے نور کی مثال ایسے ہے جیسے ایک طاق اس (طاق) میں ایک روشن چراغ ہے وہ چراغ شیشے (کے فانوس) میں ہے اور وہ شیشہ ایک چمکدار ستارے کی مانند ہے وہ (چراغ) جلایا جاتا ہے زیتون کے ایک مبارک درخت سے جو نہ شرقی ہے اور نہ غربیقریب ہے کہ اس کا روغن (خود بخود) روشن ہوجائے چاہے اسے آگ نے ابھی چھوا بھی نہ ہو روشنی پر روشنی اللہ ہدایت دیتا ہے اپنے نور کی جس کو چاہتا ہے اور اللہ یہ مثالیں بیان کرتا ہے لوگوں (کی راہنمائی) کے لیے جبکہ اللہ تو ہرچیز کا علم رکھنے والا ہے
یہ اس سورت کا پانچواں رکوع ہے جو اپنے مضامین کے اعتبار سے بہت اہم ہے۔ مطالعہ قرآن حکیم کے منتخب نصاب کے دوسرے حصے میں ایمان کی بحث کے ضمن میں ایک اہم درس درس 7 اس رکوع پر مشتمل ہے۔ اس رکوع کی پہلی آیت آیت 35 قرآن مجید کی عظیم ترین آیات میں سے ہے۔ سورة الاحزاب اور سورة النور کا آپس میں جوڑا ہونے کا تعلق ہے۔ ان دونوں سورتوں کے درمیان بہت سی دوسری مناسبتوں اور مشابہتوں کے علاوہ ایک خاص بات یہ بھی ہے کہ سورة الاحزاب کی آیت 35 بھی اسی موضوع پر ہے ‘ یعنی ایمان اور اسلام کی کیفیات کے حوالے سے یہ دونوں آیات قرآن مجید کی عظیم ترین آیات میں سے ہیں۔ اس رکوع میں ایمان کے حوالے سے انسانوں کی تین اقسام زیر بحث آئی ہیں۔ اس سے پہلے سورة البقرۃ کے آغاز میں بھی دعوت حق کے رد عمل کے حوالے سے تین قسم کے انسانوں کا ذکر ہوچکا ہے۔ دراصل دین کی دعوت اور اسلامی تحریک کے جواب میں کسی بھی معاشرے کے اندر عام طور پر تین طرح کا رد عمل سامنے آتا ہے۔ کچھ لوگ تو نتائج و عواقب سے بےپروا ہو کر اس دعوت پر دل و جان سے لبیک کہتے ہیں اور پھر اپنے عمل سے اپنے ایمان اور دعویٰ کی سچائی ثابت بھی کردکھاتے ہیں۔ ان کے مقابلے میں کچھ لوگ دوسری انتہا پر ہوتے ہیں۔ وہ تعصبّ ‘ حسد ‘ ضد اور تکبر کی وجہ سے انکار اور مخالفت پر کمر کس لیتے ہیں اور آخر دم تک اس پر ڈٹے رہتے ہیں۔ ان کے علاوہ معاشرے میں ایک تیسری قسم کے لوگ بھی پائے جاتے ہیں۔ یہ لوگ پورے یقین اور خلوص کے ساتھ اس دعوت کو قبول بھی نہیں کرتے اور کچھ دنیوی مفادات اور متفرق وجوہات کے پیش نظر مکمل طور پر اسے رد بھی نہیں کرتے۔ جب حالات کچھ ساز گار ہوں تو اہل حق کا ساتھ دینے کے لیے تیار بھی ہوجاتے ہیں ‘ لیکن جونہی کوئی آزمائش آتی ہے یا قربانی کا تقاضا سامنے آتا ہے تو فوراً اپنی راہ الگ کرلیتے ہیں۔ ایسے لوگوں کی دلی کیفیات اور کردار کا نقشہ سورة الحج کی آیت 11 میں یوں کھینچا گیا ہے : وَمِنَ النَّاسِ مَنْ یَّعْبُدُ اللّٰہَ عَلٰی حَرْفٍج فَاِنْ اَصَابَہٗ خَیْرُ ناطْمَاَنَّ بِہٖج وَاِنْ اَصَابَتْہُ فِتْنَۃُ نِ انْقَلَبَ عَلٰی وَجْہِہٖج خَسِرَ الدُّنْیَا وَالْاٰخِرَۃَط ذٰلِکَ ہُوَ الْخُسْرَانُ الْمُبِیْنُ ”اور لوگوں میں سے کوئی وہ بھی ہے جو اللہ کی عبادت کرتا ہے کنارے پر رہ کر ‘ تو اگر اسے کوئی فائدہ پہنچے تو اس کے ساتھ مطمئن رہے اور اگر اسے کوئی آزمائش آجائے تو منہ کے بل الٹا پھرجائے۔ یہ خسارہ ہے دنیا اور آخرت کا ‘ یہ بہت ہی بڑی تباہی ہے۔“ زیر مطالعہ آیات میں ایک دوسرے زاویے سے معاشرے کے تین کرداروں کا ذکر کیا گیا ہے۔ ان میں پہلی قسم ایسے سلیم الفطرت انسانوں کی ہے جن کے دلوں میں اللہ کی معرفت فطری طور پر پائی جاتی ہے۔ پھر جب وحی کے پیغام تک ان کی رسائی ہوتی ہے تو وہ اس کے فیوض و برکات سے بھی بہترین انداز میں مستفیض ہوتے ہیں۔ نتیجتاً ان کا باطن ایمان حقیقی کے نور سے جگمگا اٹھتا ہے۔ ایسے لوگوں کی اس کیفیت کو یہاں ”نورٌ علٰی نُور“ سے تعبیر کیا گیا ہے۔ دوسری انتہا پر وہ لوگ ہیں جن کے دل نور ایمان سے محروم ہیں۔ وہ خالص دنیا پرست انسان ہیں جن کے دامن جھوٹ موٹ کی نیکیوں سے بھی خالی ہیں۔ ان کے دلوں میں زندگی بھر نفسانی خواہشات کے علاوہ کسی اور خیال اور جذبے کا گزر تک نہیں ہوتا۔ ان لوگوں کی اس کیفیت کا نقشہ ”ظُلُمٰتٌ بَعْضُھَا فَوْقَ بَعْضٍ“ کے الفاظ میں کھینچا گیا ہے۔ ان دو انتہاؤں کے درمیان ایک تیسرا کردار بھی ہے ‘ جس کا ذکر یہاں کیا گیا ہے۔ اس کردار کے حامل وہ لوگ ہیں جن کے دل اگرچہ حقیقی ایمان سے محروم ہیں ‘ لیکن وہ اپنے ضمیر کو مطمئن کرنے یا دنیوی اغراض و مقاصد کے لیے نیکی کے کام بھی کرتے رہتے ہیں۔ ایسے لوگوں کے نیک اعمال کو یہاں سراب سے تشبیہہ دی گئی ہے۔ مَثَلُ نُوْرِہٖ کَمِشْکٰوۃٍ ” نور سے مراد یہاں نور ایمان ہے ‘ یعنی اللہ پر ایمان کے نور کی مثال ایک طاق کی سی ہے : فِیْہَا مِصْبَاحٌط اَلْمِصْبَاحُ فِیْ زُجَاجَۃٍ ط ” وہ چراغ شیشے کے فانوس میں رکھا گیا ہے ‘ جیسے پچھلے زمانے میں شیشے کی چمنیوں میں چراغ رکھے جاتے تھے۔ اَلزُّجَاجَۃُ کَاَنَّہَا کَوْکَبٌ دُرِّیٌّ ” اس مثال میں انسانی سینے کو طاق اور دل کو چراغ سے تشبیہہ دی گئی ہے۔ انسانی پسلیوں کا ڈھانچہ ‘ جسے ہم سینہ کہتے ہیں ‘ یہ نیچے سے چوڑا اور اوپر سے تنگ ہونے کی وجہ سے پرانے زمانے کے طاق سے مشابہت رکھتا ہے۔ ڈایا فرام diaphragm جو نچلے دھڑ کے اندرونی حصے abdominal cavity کو سینے کے اندرونی حصے chest cavity سے علیحدہ کرتا ہے اس طاق کا گویا فرش ہے جس کے اوپر یہ چراغ یعنی دل رکھا گیا ہے۔ یہ دل ایک بندۂ مؤمن کا دل ہے جو نور ایمان سے جگمگا رہا ہے۔ یہ نور ایمان مجموعہ ہے نور فطرت جو اس کی روح کے اندر پہلے سے موجود تھا اور نوروحی کا۔ یُّوْقَدُ مِنْ شَجَرَۃٍ مُّبٰرَکَۃٍ زَیْتُوْنَۃٍ لَّا شَرْقِیَّۃٍ وَّلَا غَرْبِیَّۃٍلا ” کسی درخت پر جس سمت سے دھوپ پڑتی ہو ‘ اسی سمت کے حوالے سے وہ شرقی یا غربی کہلاتا ہے۔ اگر کوئی درخت کسی اوٹ میں ہو یا درختوں کے ُ جھنڈ کے اندر ہو تو اس پر صرف ایک سمت سے ہی دھوپ پڑ سکتی ہے۔ اس لحاظ سے ایسا درخت یا شرقی ہوگا یا غربی۔ لیکن یہاں ایک مثالی درخت کی مثال دی جا رہی ہے جو نہ شرقی ہے اور نہ غربی۔ وہ نہ تو کسی اوٹ میں ہے اور نہ ہی درختوں کے جھنڈ میں ‘ بلکہ وہ کھلے میدان میں بالکل یکہ و تنہا کھڑا ہے اور پورے دن کی دھوپ مسلسل اس پر پڑتی ہے۔ اس مضمون کی اہمیت یہ ہے کہ زیتون کا وہ درخت جس پر زیادہ سے زیادہ دھوپ پڑتی ہو اور مشرق و مغرب دونوں سمتوں سے پڑتی ہو ‘ اس کے پھلوں کا روغن بہت صاف ‘ شفاف اور اعلیٰ معیار کا ہوتا ہے۔ یَّکَادُ زَیْتُہَا یُضِیٓئُ وَلَوْ لَمْ تَمْسَسْہُ نَارٌ ط ” گویا وہ آگ کے چھوئے بغیر ہی بھڑک اٹھنے کے لیے تیار ہے۔ نُوْرٌ عَلٰی نُوْرٍ ط ” یعنی جب اسے آگ دکھائی جائے تو وہ بھڑک اٹھتا ہے اور نورٌ علیٰ نور کی کیفیت پیدا ہوجاتی ہے۔ یہ خوبصورت مثال ایمان کے اجزائے ترکیبی کے بارے میں ہے اور میں نے مختلف مواقع پر اس مثال کی وضاحت بہت تفصیل سے کی ہے۔ اس تفصیل کا خلاصہ یہ ہے کہ فطرت انسانی کے اندر اللہ تعالیٰ کی معرفت یا اس پر ایمان کی کیفیت پیدائشی طور پر موجود ہے ‘ مگر دنیا میں رہتے ہوئے یہ معرفت ماحول اور حالات کے منفی اثرات کے باعث عام طور پر غفلت اور مادیت کے پردوں میں چھپ کر شعور سے اوجھل ہوجاتی ہے۔ البتہ کچھ لوگ اس حد تک سلیم الفطرت ہوتے ہیں کہ ان کے اندر معرفت خداوندی خارجی حالات کے تمام تر منفی اثرات کے باوجود بھی مسلسل اجاگر اور فعال رہتی ہے۔ فطری معرفت کی اس روشنی کے بعد انسانی ہدایت کا دوسرا بڑا ذریعہ یا منبع وحی الٰہی ہے۔ وحی کے ذریعہ حاصل ہونے والی ہدایت بنیادی طور پر انسانی فطرت کے اندر پہلے سے موجود غیر فعال اور خوابیدہ dormant ایمان اور معرفت خداوندی کو بیدار اور فعال activate کرنے میں مدد دیتی ہے۔ چناچہ جب وحی کا پیغام لوگوں تک پہنچتا ہے تو اس پر ہر انسان کا رد عمل اس کی فطرت کے مطابق ہوتا ہے۔ اگر کسی انسان کی فطرت میں تکدر ہے تو وہ وحی کے اس پیغام کی طرف فوری طور پر متوجہ نہیں ہوتا۔ ایسے شخص کی فطرت کی کثافت کو دور کرنے اور اس کے اندر فطری طور پر موجود معرفت خداوندی کو غفلت کے پردوں سے نکال کر شعور کی سطح پر لانے کے لیے وقت اور محنت کی ضرورت ہوتی ہے۔ دوسری طرف ایک سلیم الفطرت انسان وحی کے پیغام کو پہچاننے میں ذرہ بھر تأمل و تاخیر نہیں کرتا۔ فطری معرفت اس کے اندر چونکہ پہلے سے شعوری سطح پر موجود ہوتی ہے اس لیے نور وحی جونہی اس کے سامنے آتا ہے اس کے دل کا آئینہ جگمگا اٹھتا ہے اور وہ فوراً اس پیغام کی تصدیق کردیتا ہے۔ ایسے لوگ پیغام وحی کی فوری تصدیق کی وجہ سے ِ ”صدیقین“ ّ کہلاتے ہیں۔ اس حوالے سے نبی مکرم ﷺ کا یہ فرمان بھی ذہن میں تازہ کر لیجیے کہ : ”میں نے جس کسی کو بھی ایمان کی دعوت دی اس نے کچھ نہ کچھ توقف یا تردّد ضرور کیا ‘ سوائے ابوبکر رض کے ‘ جنہوں نے ایک لمحے کا بھی توقف نہیں کیا“۔ سورة التوبہ کی آیت 100 میں جن خوش نصیب لوگوں کو : وَالسّٰبِقُوْنَ الْاَوَّلُوْنَ کا خطاب ملا ‘ یہ وہی لوگ تھے جن کی فطرت کے آئینے غیر معمولی طور پر شفاف تھے۔ دوسری طرف اسی ماحول میں کچھ ایسے لوگ بھی تھے جن کی فطرت کے تکدرّ کو دور کرنے کے لیے اضافی وقت اور محنت کی ضرورت پڑی۔ ایسے لوگ بعد میں اپنی اپنی طبیعت کی کیفیت اور استطاعت کے مطابق ”سابقون الاولون“ کی پیروی کرنے والوں کی صف میں شامل ہوتے رہے۔ ان لوگوں کا ذکر اسی آیت میں وَالَّذِیْنَ اتَّبَعُوْہُمْ بِاِحْسَانٍا کے الفاظ میں ہوا ہے۔ آیت زیر مطالعہ میں دی گئی مثال کو سمجھنے کے لیے تیل کی مختلف اقسام کے فرق کو سمجھنا بھی ضروری ہے۔ پرانے زمانے میں تیل کے دیے جلائے جاتے تھے۔ ہمارے ہاں عام طور پر ان میں سرسوں کا تیل جلایا جاتا تھا جسے کڑوا تیل کہا جاتا تھا۔ یہ تیل زیادہ کثیف ہونے کی وجہ سے دیا سلائی دکھانے پر بھی آگ نہیں پکڑ سکتا۔ چناچہ اسے کپڑے یا روئی کے فتیلے بتی کی مدد سے جلایا جاتا تھا۔ اس کے مقابلے میں پٹرول بھی ایک تیل ہے جو جلنے کے لیے ہر وقت بیتاب رہتا ہے اور چھوٹی سی چنگاری بھی اگر اس کے قریب آجائے تو بھڑک اٹھتا ہے۔ جلنے کے اعتبار سے جس طرح کڑوے تیل اور پٹرول میں فرق ہے اسی نوعیت کا فرق انسانی طبائع میں بھی پایا جاتا ہے۔ چناچہ مذکورہ مثال میں اعلیٰ قسم کے زیتون سے حاصل شدہ انتہائی شفاف تیل گویا ”صدیقین“ کی فطرت سلیم ہے جو وحی الٰہی کے نور سے مستفیض ہونے اور ”نُوْرٌ عَلٰی نُوْرٍ“ کی کیفیت کو پانے کے لیے ہر وقت بےتاب و بےچین رہتی ہے۔ گویا انسانی روح ایک نورانی یا ملکوتی چیز ہے۔ اس ملکوتی روح سے جب وحی یا قرآن کے نور کا اتصال ہوتا ہے تو نُوْرٌ عَلٰی نُوْرٍکی کیفیت پیدا ہوتی ہے اور اسی کیفیت سے نور ایمان وجود میں آتا ہے ‘ جس سے بندۂ مؤمن کا دل منور ہوتا ہے۔ وَیَضْرِبُ اللّٰہُ الْاَمْثَال للنَّاسِط وَاللّٰہُ بِکُلِّ شَیْءٍ عَلِیْمٌ ” یہ مثال لوگوں کو سمجھانے کے لیے بیان کی گئی ہے ‘ کیونکہ انسانی ذہن ایسے لطیف حقائق کو براہ راست نہیں سمجھ سکتا۔۔ اب آئندہ آیات میں ان لوگوں کے کردار و عمل کی جھلک دکھائی جا رہی ہے جن کے دل نور ایمان سے منور ہوتے ہیں۔
Top