Ruh-ul-Quran - An-Noor : 35
اَللّٰهُ نُوْرُ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ١ؕ مَثَلُ نُوْرِهٖ كَمِشْكٰوةٍ فِیْهَا مِصْبَاحٌ١ؕ اَلْمِصْبَاحُ فِیْ زُجَاجَةٍ١ؕ اَلزُّجَاجَةُ كَاَنَّهَا كَوْكَبٌ دُرِّیٌّ یُّوْقَدُ مِنْ شَجَرَةٍ مُّبٰرَكَةٍ زَیْتُوْنَةٍ لَّا شَرْقِیَّةٍ وَّ لَا غَرْبِیَّةٍ١ۙ یَّكَادُ زَیْتُهَا یُضِیْٓءُ وَ لَوْ لَمْ تَمْسَسْهُ نَارٌ١ؕ نُوْرٌ عَلٰى نُوْرٍ١ؕ یَهْدِی اللّٰهُ لِنُوْرِهٖ مَنْ یَّشَآءُ١ؕ وَ یَضْرِبُ اللّٰهُ الْاَمْثَالَ لِلنَّاسِ١ؕ وَ اللّٰهُ بِكُلِّ شَیْءٍ عَلِیْمٌۙ
اَللّٰهُ : اللہ نُوْرُ : نور السَّمٰوٰتِ : آسمانوں وَالْاَرْضِ : اور زمین مَثَلُ : مثال نُوْرِهٖ : اس کا نور كَمِشْكٰوةٍ : جیسے ایک طاق فِيْهَا : اس میں مِصْبَاحٌ : ایک چراغ اَلْمِصْبَاحُ : چراغ فِيْ زُجَاجَةٍ : ایک شیشہ میں اَلزُّجَاجَةُ : وہ شیشہ كَاَنَّهَا : گویا وہ كَوْكَبٌ دُرِّيٌّ : ایک ستارہ چمکدار يُّوْقَدُ : روشن کیا جاتا ہے مِنْ : سے شَجَرَةٍ : درخت مُّبٰرَكَةٍ : مبارک زَيْتُوْنَةٍ : زیتون لَّا شَرْقِيَّةٍ : نہ مشرق کا وَّلَا غَرْبِيَّةٍ : اور نہ مغرب کا يَّكَادُ : قریب ہے زَيْتُهَا : اس کا تیل يُضِيْٓءُ : روشن ہوجائے وَلَوْ : خواہ لَمْ تَمْسَسْهُ : اسے نہ چھوئے نَارٌ : آگ نُوْرٌ عَلٰي نُوْرٍ : روشنی پر روشنی يَهْدِي اللّٰهُ : رہنمائی کرتا ہے اللہ لِنُوْرِهٖ : اپنے نور کی طرف مَنْ يَّشَآءُ : وہ جس کو چاہتا ہے وَيَضْرِبُ : اور بیان کرتا ہے اللّٰهُ : اللہ الْاَمْثَالَ : مثالیں لِلنَّاسِ : لوگوں کے لیے وَاللّٰهُ : اور اللہ بِكُلِّ شَيْءٍ : ہر شے کو عَلِيْمٌ : جاننے والا
اللہ ہی آسمانوں اور زمین کی روشنی ہے، اس کے نور کی مثال ایسی ہے جیسے ایک طاق ہو، اس میں ایک چراغ ہو، وہ چراغ ایک شیشہ میں ہو، وہ شیشہ ایک چمکتے تارے کی مانند ہو جو روشن کیا جاتا ہے ایک برکت والے زیتون کے درخت سے، جو نہ شرقی ہو نہ غربی، اس کا تیل بھڑک اٹھتا ہے اگرچہ اسے آگ نہ چھوئے، روشنی کے اوپر روشنی، اللہ اپنے نور کی ہدایت جس کو چاہتا ہے بخشتا ہے اور اللہ تعالیٰ یہ مثالیں لوگوں کی رہنمائی کے لیے بیان فرماتا ہے اور اللہ ہر چیز کو خوب جاننے والا ہے
اَللّٰہُ نُوْرُالسَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ ط مَثَلُ نُوْرِہٖ کَمِشْکٰوِۃٍ فِیْھَا مِصْبَاحٌ ط اَلْمِصْبَاحُ فِیْ زُجَاجَۃٍ ط اَلزُّجَاجَۃُ کَاَنَّھَا کَوْکَبٌ دُرِّیٌّ یُّوْقَدُمِنْ شَجَرَۃٍ مُّبٰـرَکَۃٍ زَیْتُوْنَۃٍ لاَّشَرْقِیـَّۃٍ وَّلاَ غَرْبِیَّۃٍ لا یَّکَادُزَیْتُـھَا یُضِیْٓ ئُ وَلَوْلَمْ تَمْسَسْہُ نَارٌ ط نُوْرٌ عَلٰی نُوْرٍ ط یَھْدِی اللّٰہُ لِنُوْرِہٖ مَنْ یَّشَآئُ ط وَیَضْرِبُ اللّٰہُ الْاَمْثَالَ لِلنَّاسِ ط وَاللّٰہُ بِکُلِّ شَیْ ئٍ عَلِیْمٌ۔ (النور : 35) (اللہ ہی آسمانوں اور زمین کی روشنی ہے، اس کے نور کی مثال ایسی ہے جیسے ایک طاق ہو، اس میں ایک چراغ ہو، وہ چراغ ایک شیشہ میں ہو، وہ شیشہ ایک چمکتے تارے کی مانند ہو جو روشن کیا جاتا ہے ایک برکت والے زیتون کے درخت سے، جو نہ شرقی ہو نہ غربی، اس کا تیل بھڑک اٹھتا ہے اگرچہ اسے آگ نہ چھوئے، روشنی کے اوپر روشنی، اللہ اپنے نور کی ہدایت جس کو چاہتا ہے بخشتا ہے اور اللہ تعالیٰ یہ مثالیں لوگوں کی رہنمائی کے لیے بیان فرماتا ہے اور اللہ ہر چیز کو خوب جاننے والا ہے۔ ) پیشِ نظر آیت کریمہ کو اہل علم آیت نور لکھتے ہیں کیونکہ اس میں نورایمان اور ظلمت کفر کو بڑی تفصیلی مثال سے سمجھایا گیا ہے۔ یہ آیت اور اس سے پیوستہ چند آیات کی حیثیت سورة کے اندر ایک درخشندہ آفتاب کی سی ہے جس کا پرتو سورة کے تمام اجزاء پر پڑ رہا ہے۔ ہم اس کی وضاحت میں چند گزارشات پیش کرتے ہیں :۔ گزشتہ آیات سے ربط اور منافقین کو تنبیہ گزشتہ آیت کریمہ میں پروردگار نے قرآن کریم کے مخاطبوں کو وارننگ دی ہے کہ ہم نے تمہاری طرف تفصیل سے احکام نازل کردیئے ہیں جو انسانی اصلاح کی ضمانت دے سکتے ہیں اور ان لوگوں کی مثالیں بھی ذکر کردی ہیں جنھوں نے اللہ تعالیٰ کے احکام سے سرتابی کی، تو تاریخ میں سامانِ عبرت بن گئے۔ اب تم پر اس بات کا دارومدار ہے کہ تم ان احکام سے فائدہ اٹھاتے ہو یا نہیں۔ اس کے بعد اچانک یہ آیت نور ہمارے سامنے آجاتی ہے۔ اس سے بظاہر یہ تأثر ملتا ہے کہ شاید اس آیت اور بعد کی آیات کا سابقہ آیات سے کوئی ربط نہیں جبکہ قرآن کریم ایک مربوط کتاب ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ تأثر قلت فکر کا نتیجہ ہے۔ اگر ان آیات کو گہری نظر سے پڑھا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ روئے سخن منافقین کی طرف ہے۔ جو اوس و خزرج سے تعلق رکھتے تھے، ایمان اور اسلام کے مدعی تھے، مسلمانوں میں گھلے ملے رہتے تھے، لیکن بجائے اسلام سے فائدہ اٹھانے کے اسلام اور مسلمانوں کے خلاف آئے دن فتنے اٹھانے میں لگے رہتے تھے۔ ان کی بدنصیبی پر توجہ دلاتے ہوئے فرمایا جارہا ہے کہ ” نادانو ! تمہارے سامنے قرآن کریم نازل ہورہا ہے، اللہ تعالیٰ کے رسول پوری شان کے ساتھ تمہارے سامنے جلوہ گر ہیں، اسلام قدم قدم آگے بڑھ رہا ہے، وہ دن دور نہیں جب اس دھرتی کی قسمت اسلام سے وابستہ ہوگی، یہ ایک روشنی ہے جو چارسو پھیل رہی ہے، لیکن تم تاحال اندھیری راتوں کے مسافر ہو اور تم ان تاریکیوں سے نہ جانے کیوں نکلنا نہیں چاہتے۔ “ امرِواقعہ یہ ہے کہ یہ آسمان و زمین بلکہ پوری کائنات اس شخص کے لیے عالم ظلمات اور اندھیر نگری کے سوا کچھ نہیں۔ جو خدا کو نہیں مانتا یا مانتا تو ہے لیکن اس کی صفات اور ان کے مقتضیات کو تسلیم نہیں کرتا۔ وہ بظاہر سورج کی روشنی میں اور چاند کی چاندنی میں رہتا ہے۔ اس کے سامنے مسکراتی ہوئی بہار اپنے گیسو بکھیرتی ہے اور زمین پر پھیلا ہوا حسن اور فضاء میں بکھری ہوئی رعنائیاں اس کے دل و دماغ کو روشن کرتی ہیں لیکن ان سب کے باوجود وہ یہ نہیں جان پاتا کہ یہ دنیا کہاں سے آئی ہے اور نہ یہ جان سکتا ہے کہ اس کے وجود میں آنے کی غایت اور مقصد کیا ہے۔ وہ خود اپنے متعلق بھی فیصلہ نہیں کرسکتا کہ اس کا مقصد وجود کیا ہے۔ زندگی کیا ہے اور زندگی کی حقیقت کیا ہے۔ اسے مسئول پیدا کیا گیا ہے یا غیرمسئول۔ اسے شتر بےمہار بنایا گیا ہے یا محکوم و مجبور۔ وہ یہ بھی نہیں جانتا کہ خیر کیا ہے اور شر کیا ہے۔ اسے ظلم کی روش اختیار کرنی چاہیے یا عدل کی۔ موت کی حقیقت کیا ہے۔ آخرت کیا ہے۔ کیا اسے کبھی اپنے خالق ومالک کے سامنے پیش ہو کر جوابدہی بھی کرنی ہے یا نہیں۔ یہی وہ سوالات ہیں جن پر انسان کی زندگی کی کامیابی یا ناکامی کا انحصار ہے۔ لیکن جو شخص اللہ تعالیٰ کو اور اس کی صحیح صفات کو نہیں مانتا وہ ان سوالوں کا جواب کبھی نہیں پاسکتا۔ اس کے لیے یہ دنیا ہمیشہ اندھیرنگری بنی رہے گی۔ وہ سائنس اور ٹیکنالوجی میں بڑے سے بڑا مقام حاصل کرسکتا ہے۔ وہ عالم ایجاد میں حیرت انگیز اضافے کرسکتا ہے۔ وہ انسانی ضروریات میں غیرمعمولی تنوع پیدا کرسکتا ہے۔ لیکن حقیقتِ نفس الامری تک کبھی نہیں پہنچ سکتا۔ لیکن وہ جیسے ہی اللہ تعالیٰ کے وجود کو تسلیم کرتا ہے اور اس کی صفات اور ان کے مقتضیات پر ایمان لاتا ہے تو یہ نور کا ایسا رشتہ ہے جس سے اس کی زندگی کا ہر پہلو روشن ہوجاتا ہے۔ کیونکہ اللہ ہی کائنات کی روشنی ہے، اس کے بغیر ہر چیز تاریکی میں ڈوبی ہوئی ہے اور جسے یہ روشنی نصیب نہیں ہوتی اس کے لیے کہیں اور سے روشنی کا حصول ناممکن ہے۔ یہ وہ حقیقت ہے جس کے لیے ان آیات کو یہاں لایا گیا۔ اَللّٰہُ نُوْرُالسَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ ” اللہ آسمانوں اور زمین کا نور ہے۔ “ قرآن کریم میں بالعموم آسمان اور زمین کو کائنات کے مفہوم میں لیا گیا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ساری کائنات کا نور ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ نور سے مراد کیا ہے ؟ نور کا مفہوم آج جبکہ ہم اپنے وضعی علوم کا ایک قالب بنا چکے ہیں تو اس کی حدود میں رہنے کی وجہ سے ہم نے اپنے آپ کو بعض اصطلاحات کا پابند بنا لیا ہے۔ اس لیے جب بھی ہم کوئی لفظ بولتے ہیں تو کبھی اہل لغت سے پوچھتے ہیں اور کبھی مختلف علوم و فنون کے ماہرین سے۔ حالانکہ قرآن کریم ہماری وضعی قیود کا پابند نہیں۔ وہ ہماری اصطلاحات سے بےنیاز ہے اور جب کوئی بات اللہ تعالیٰ کی ذات جل وعلا کے بارے میں کہی جاتی ہے تو وہ ایسے تمام پیمانوں سے بلند ہوتی ہے۔ جب ہم عام معنوں میں نور کا لفظ بولتے ہیں تو ہم اسے اس معنی میں لیتے ہیں کہ وہ سورج کی شعاع ہے جو ایک لاکھ 86 ہزار میل فی سیکنڈ کی رفتار سے چلتی ہے اور ہماری آنکھ کے پردے پر پڑ کر دماغ کی مرکزی بینائی کو متأثر کرتی ہے۔ لیکن جب یہ لفظ اللہ تعالیٰ کی ذات کے تعارف یا اس کی صفت کے طور پر بولا جاتا ہے تو اس کا یہ مطلب نہیں ہوتا، بلکہ اس کا مطلب وہ ہے جو علامہ ابوالفضل جمال الدین ابن منظور اپنی شہرہ آفاق کتاب لسان العرب میں النور کی وضاحت کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ جو خود ظاہر ہو اور اپنی روشنی سے دوسروں کو آشکارا کردے، اسے نور کہا جاتا ہے۔ امام غزالی ( رح) فرماتے ہیں کہ نور اس کو کہتے ہیں جو خود ظاہر ہو اور دوسروں کو ظاہر کرنے والا ہو۔ کسی چیز کے ظاہر ہونے کے لیے ضروری ہے کہ وہ موجود ہو۔ جو چیز موجود نہیں ہوگی اس کا ظاہر ہونا ممکن نہیں۔ چونکہ اللہ تعالیٰ کی ذات واجب الوجود ہے اس لیے وہ ازل سے موجود ہے اور ابد تک موجود رہے گی۔ نیز وہ اپنے موجود ہونے میں کسی سبب، کسی علت اور کسی فاعل کی محتاج بھی نہیں۔ اس لیے وہی ہے جو صفت نور و ظہور سے متصف ہونے کی مستحق ہے۔ حاصل کلام یہ ہے کہ انسان نے فطری طور پر کچھ نہ سوجھنے کی کیفیت کا نام اندھیرا، تاریکی اور ظلمت رکھا ہے۔ اور اس کے برعکس جب سب کچھ سوجھائی دینے لگے اور ہر چیز ظاہر ہوجائے تو آدمی کہتا ہے کہ روشنی ہوگئی۔ ہم ایک عام آدمی کو بھی دیکھتے ہیں کہ جب اس کے دل میں کوئی بات اتر جاتی ہے اور اس کا ہر شک اور تردد ختم ہوجاتا ہے تو وہ کہتا ہے کہ میرا دل روشن ہوگیا یا مجھے روشنی مل گئی۔ اللہ تعالیٰ کے لیے لفظ نور کا استعمال اسی بنیادی مفہوم کے لحاظ سے کیا گیا ہے۔ اور جب بھی ہم اس طرح کے الفاظ جو انسانوں کے لیے صفت کے طور پر استعمال ہوتے ہیں، اللہ تعالیٰ کے لیے بولتے ہیں، تو ان کے اندر ایک اطلاقی شان پائی جاتی ہے۔ مثلاً اللہ تعالیٰ دیکھتا ہے یا بولتا ہے یا سنتا ہے یا پکڑتا ہے تو اس کا یہ معنی ہرگز نہیں کہ وہ آنکھ جیسا ایک عضو رکھتا ہے، وہ ہماری طرح کانوں کے ذریعے سنتا ہے اور ہمارے جیسے اس کے ہاتھ ہیں جن سے وہ پکڑتا ہے۔ بلکہ یہ ساری صفات اس کے لیے اطلاقی شان کے ساتھ ثابت ہیں جو ہر طرح کے آلات کی احتیاج سے پاک ہیں۔ ہم نے جو لغوی اور عرفی معنی نور کے بنا رکھے ہیں ان کا اطلاق اللہ تعالیٰ کی ذات پر نہیں ہوتا، کیونکہ وہ جسم اور جسمانیات سب سے بری اور وراء الوریٰ ہے۔ اسی لیے اکثر علمائے تفسیر نے نور کو منور کے معنی میں لیا ہے یا پھر صیغہ مبالغہ کی طرح صاحب نور کو نور سے تعبیر کردیا گیا ہے، جیسے صاحب کرم کو کرم اور صاحب عدل کو عدل کہہ دیا جاتا ہے۔ اس لحاظ سے پیش نظر آیت کے اس جملے کا مفہوم یہ ہوگا کہ اللہ تعالیٰ تمام کائنات کو نور اور روشنی بخشنے والا ہے۔ اور ابن کثیر کے نزدیک اس نور سے مراد نورہدایت ہے، یعنی وہ سب کو ہدایت عطا کرنے والا ہے۔ تمثیل کی وضاحت مَثَلُ نُوْرِہٖ …علامہ ابن کثیر نے حضرت ابی ابن کعب ( رض) اور حضرت عبداللہ ابن عباس ( رض) کے اقوال کو ذکر کرنے کے بعد لکھا ہے کہ مَثَلُ نُوْرِہٖکی ضمیر کے متعلق آئمہ تفسیر کے دو قول ہیں۔ ایک یہ کہ یہ ضمیر اللہ تعالیٰ کی طرف راجع ہے اور معنی آیت کے یہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ کا نورہدایت جو مومن کے قلب میں فطرۃً رکھا گیا ہے اس کی مثال یہ ہے۔ کَمِشْکٰوۃٍ ، الخ یہ قول حضرت ابن عباس ( رض) کا ہے۔ دوسرا قول یہ ہے کہ یہ ضمیر ہی مومن کی طرف راجع ہو جس پر سیاق کلام دلالت کررہا ہے، اور آگے اسی کی تمثیل بیان کی گئی ہے۔ اس تمثیل میں جو مشکل الفاظ آئے ہیں، بہتر ہے کہ ان کی تشریح کردی جائے۔ مِشْکٰوۃٍ…اس مخصوص جگہ کو کہتے ہیں جو دیوار میں چراغ رکھنے کے لیے بنائی جاتی ہے جو صرف ایک طرف سے کھلی اور باقی اطراف سے بند ہوتی ہے، اسے چراغ دان بھی کہتے ہیں۔ مِصْبَاحْ … بڑے چراغ کو کہتے ہیں، جو خوب روشنی دے۔ زُجَاجْ … شیشے سے بنا ہوا فانوس یا گلوب جس میں چراغ رکھا جاتا ہے۔ کَوْکَبٌ دُرِّیٌّ … وہ شیشہ جس میں چراغ رکھا گیا ہے وہ تارے کی مانند چمکدار ہے کیونکہ اگر وہ میلا ہوگا تو روشنی میں اضافے کی بجائے اس کے لیے حجاب بن جائے گا۔ مُبَارَکَۃٍ … یعنی کثیرالمنافع، بہت سے فائدوں کا حامل۔ یعنی ثمرآور درخت۔ لاَ شَرْقِیـَّـۃٍ وَلاَ غَرْبِـیَّـۃٍ … یہ شجرہ مبارکہ کی صفت ہے، یعنی یہ درخت کھلے میدان میں اونچی جگہ واقع ہے جہاں صبح سے شام تک اس پر دھوپ پڑتی ہے۔ کوئی اس کے سامنے رکاوٹ نہیں جو دھوپ کو روکنے والی ہو۔ زیتون کے ایسے درخت کا تیل زیادہ لطیف ہوتا ہے اور زیادہ تیز روشنی دیتا ہے۔ جس مومن کے دل میں اللہ تعالیٰ کا نور ہدایت داخل ہوجاتا ہے اور مومن اس کو ایمان کی قوت سے اپنے دل کی زینت بنا دیتا ہے تو اس سے اس کے دل کی کیفیت یہ ہوتی ہے کہ جیسے ایک طاق ہو۔ اس سے مراد مومن کا دل ہے۔ یہ دل چراغ رکھنے کے لیے ایک طاق یا چراغ دان کی مانند ہے۔ چراغ سے اگر زیادہ سے زیادہ روشنی لینا مقصود ہو تو اسے بلند جگہ پر رکھا جاتا ہے تاکہ روشنی پورے گھر میں پھیلے۔ انسان کے اندر دل ہی وہ جگہ ہے جہاں روشنی ہو تو وہ اس کے سارے ظاہر و باطن میں پھیلتی ہے۔ وہ چراغ ایک شیشہ کے اندر بند ہے جس کا فائدہ یہ ہے کہ چراغ کی لَو ہوا کے جھونکوں سے منتشر نہیں ہونے پاتی بلکہ ایک مرکز پر مرتکز رہتی ہے جس سے اس کی تابانی میں اضافہ ہوجاتا ہے۔ انسان کا دل بھی جب تک ایمان کے فیض سے محروم رہتا ہے اور نور ہدایت ان کے اندر داخل نہیں ہوتا تو وہ ڈانواں ڈول رہتا ہے۔ شیطانی وسوسے اور خواہشات کا دبائو اسے مسلسل اضطراب میں رکھتے ہیں، لیکن ایمان سے وابستگی کے بعد وہ ہرحال میں راضی اور مطمئن رہتا ہے۔ ایسے ہی دل کو قرآن کریم میں نفس مطمئنہ سے تعبیر فرمایا گیا ہے۔ اس شیشہ کے متعلق یہ بھی فرمایا کہ وہ ایک چمکتے ستارے کی مانند ہے۔ یعنی اس کی چمک دمک اور اس کا شفاف ہونا اس کی روشنی میں اور اضافے کا باعث بنتا ہے کیونکہ شیشہ اگر میلا ہو تو وہ بجائے اضافے کا باعث بننے کے حجاب بن جاتا ہے۔ روغنِ زیتون سے مراد چراغ چونکہ تیل سے جلتا ہے تو اس لیے فرمایا کہ اس چراغ میں جو تیل ڈالا گیا ہے وہ نہایت شفاف روغن زیتون ہے۔ یہ دراصل فطری نورہدایت کی مثال ہے جو مومن کی فطرت میں ودیعت رکھا گیا ہے جس کا خاصہ خودبخود بھی قبول حق کا ہے پھر جس طرح روغن زیتون آگ کے شعلہ سے روشن ہو کر دوسروں کو روشن کرنے لگتا ہے، اسی طرح نور فطرت جو قلب مومن میں رکھا گیا ہے جب وحی الٰہی اور علم الٰہی کے ساتھ اس کا اتصال ہوجاتا ہے تو روشن ہو کر عالم کو روشن کرنے لگتا ہے۔ یوں تو فطری نورہدایت جو ابتدائے تخلیق کے ساتھ انسان کے قلب میں رکھا جاتا ہے وہ مومن کے ساتھ مخصوص نہیں، لیکن اس سے فائدہ چونکہ مومن ہی اٹھاتا ہے اس لیے اسے قلب مومن کے ساتھ مخصوص فرمایا ہے۔ مومن کو جب نور ہدایت نصیب ہوجاتا ہے جو وحی الٰہی اور پیغمبر کی تبلیغ و دعوت کا نتیجہ ہے۔ تو اس کا فطری نورہدایت اس طرح اپنا کام دکھاتا ہے جیسے چراغ کی روشنی میں اس زیتون کا تیل جسے سورج کی تیز روشنی نے پالا ہو جو نہ دھواں دیتا ہے اور نہ اس کی روشنی مدھم پڑتی ہے۔ چناچہ فطری نور کے سلامت رہنے کا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ جیسے ہی اللہ تعالیٰ کے نبی کی صحبت اور قرآن کریم کی رفاقت میسر آتی ہے تو وہ اس طرح اس کی طرف لپکتا ہے جیسے خالص زیتون بغیر آگ کے مس کیے بھی بھڑکنے کے لیے تیار ہوتا ہے۔ اس میں شاید اشارہ اس بات کی طرف بھی ہے کہ ایمان ان لوگوں کے سینوں کو اپنا نشیمن بناتا ہے جن کی فطرت ہر قسم کے بگاڑ اور فساد سے محفوظ ہو اور جن کی فطرت کا روغن غیرفطری ملاوٹوں سے پاک ہوتا ہے۔ اس طرح فطرت کے نور کے اوپر ایمان کے نور سے سینہ نورعلیٰ نور ہوجاتا ہے۔ اس کے بعد فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کی ہدایت معمولی متاع نہیں جو خودبخود ہاتھ آجائے۔ یہ ایسی جنسِ گراں مایہ ہے جو صرف ان لوگوں کو نصیب ہوتی ہے جو اپنی فطرت کے روغن کو محفوظ رکھتے ہیں اور اسے زیغ و انحراف سے بگاڑ کا شکار نہیں کرتے۔ اللہ تعالیٰ ایسے ہی لوگوں کو اپنی نظر کرم کا مورد بناتا ہے۔ اس کے بعد فرمایا کہ اللہ تعالیٰ لوگوں کے لیے تمثیلیں بیان فرماتا ہے۔ یہاں لِلنَّاسْ میں مضاف محذوف ہے یعنی لوگوں کی تعلیم و تذکیر کے لیے مثالیں بیان فرماتا ہے کیونکہ حقائق کا ادراک تمثیلات کے ذریعے نہایت احسن طریقے سے ہوتا ہے۔ سپاٹ لب و لہجہ یا مدلل گفتگو یقینا اپنا ایک اثر رکھتی ہے۔ لیکن تمثیل کے ذریعے وہ حقائق جو عقل سے ماورا ہوں جس طرح دل و دماغ میں پیوست ہوجاتے ہیں اور کسی طریقے سے نہیں ہوتے۔ یہ توضیحِ حقائق کا سب سے اہم ذریعہ ہے۔ آخر میں فرمایا اللہ تعالیٰ ہر چیز کو جاننے والا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ انسان کی ہدایت کے لیے کون سے حقائق اس کے دل و دماغ میں اترنے چاہئیں اور اس کے اعمال کی درستی کے لیے کس طرح کے احکام کی ضرورت ہے۔ زندگی اور کائنات کے حقائق اور اسرارورموز کو جاننے کے لیے جس علم اور روشنی کی ضرورت ہے اس کا منبع صرف اللہ تعالیٰ کی ذات ہے۔ وحی سے وہ روشنی پھوٹتی ہے تو زندگی کا ہر گوشہ روشن ہوجاتا ہے۔ اس لیے اللہ تعالیٰ کے علیم ہونے کا حوالہ ہماری فکر و نظر کی درستی کے لیے نہایت اہمیت کا حامل ہے۔
Top