Tafseer-e-Madani - An-Noor : 35
اَللّٰهُ نُوْرُ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ١ؕ مَثَلُ نُوْرِهٖ كَمِشْكٰوةٍ فِیْهَا مِصْبَاحٌ١ؕ اَلْمِصْبَاحُ فِیْ زُجَاجَةٍ١ؕ اَلزُّجَاجَةُ كَاَنَّهَا كَوْكَبٌ دُرِّیٌّ یُّوْقَدُ مِنْ شَجَرَةٍ مُّبٰرَكَةٍ زَیْتُوْنَةٍ لَّا شَرْقِیَّةٍ وَّ لَا غَرْبِیَّةٍ١ۙ یَّكَادُ زَیْتُهَا یُضِیْٓءُ وَ لَوْ لَمْ تَمْسَسْهُ نَارٌ١ؕ نُوْرٌ عَلٰى نُوْرٍ١ؕ یَهْدِی اللّٰهُ لِنُوْرِهٖ مَنْ یَّشَآءُ١ؕ وَ یَضْرِبُ اللّٰهُ الْاَمْثَالَ لِلنَّاسِ١ؕ وَ اللّٰهُ بِكُلِّ شَیْءٍ عَلِیْمٌۙ
اَللّٰهُ : اللہ نُوْرُ : نور السَّمٰوٰتِ : آسمانوں وَالْاَرْضِ : اور زمین مَثَلُ : مثال نُوْرِهٖ : اس کا نور كَمِشْكٰوةٍ : جیسے ایک طاق فِيْهَا : اس میں مِصْبَاحٌ : ایک چراغ اَلْمِصْبَاحُ : چراغ فِيْ زُجَاجَةٍ : ایک شیشہ میں اَلزُّجَاجَةُ : وہ شیشہ كَاَنَّهَا : گویا وہ كَوْكَبٌ دُرِّيٌّ : ایک ستارہ چمکدار يُّوْقَدُ : روشن کیا جاتا ہے مِنْ : سے شَجَرَةٍ : درخت مُّبٰرَكَةٍ : مبارک زَيْتُوْنَةٍ : زیتون لَّا شَرْقِيَّةٍ : نہ مشرق کا وَّلَا غَرْبِيَّةٍ : اور نہ مغرب کا يَّكَادُ : قریب ہے زَيْتُهَا : اس کا تیل يُضِيْٓءُ : روشن ہوجائے وَلَوْ : خواہ لَمْ تَمْسَسْهُ : اسے نہ چھوئے نَارٌ : آگ نُوْرٌ عَلٰي نُوْرٍ : روشنی پر روشنی يَهْدِي اللّٰهُ : رہنمائی کرتا ہے اللہ لِنُوْرِهٖ : اپنے نور کی طرف مَنْ يَّشَآءُ : وہ جس کو چاہتا ہے وَيَضْرِبُ : اور بیان کرتا ہے اللّٰهُ : اللہ الْاَمْثَالَ : مثالیں لِلنَّاسِ : لوگوں کے لیے وَاللّٰهُ : اور اللہ بِكُلِّ شَيْءٍ : ہر شے کو عَلِيْمٌ : جاننے والا
اللہ نور ہے آسمانوں اور زمین کا اس کے نور کی مثال ایسی ہے جیسے کہ ایک طاق ہو اس میں ایک چراغ ہو، وہ چراغ ایک فانوس میں ہو، وہ فانوس ایسا کہ گویا کہ وہ موتی جیسا چمکتا ہوا ایک ستارہ ہے وہ چراغ زیتون کے ایک ایسے مبارک درخت کے تیل سے روشن کیا جاتا ہو جو نہ مشرقی ہو نہ مغربی اس کا تیل بھی ایسا صاف و شفاف ہو کہ وہ خود بخود بھڑکا پڑتا ہو، اگرچہ آگ نے اس کو چھوا تک بھی نہ ہو (بس) نور پرنور ہے اللہ اپنے اس نور کی طرف ہدایت کی توفیق و عنایت سے نوازتا ہے جس کو چاہتا ہے اور وہ بیان فرماتا ہے لوگوں کے لیے طرح طرح کی اور عمدہ عمدہ مثالیں اور اللہ ہر چیز کا پورا پورا علم رکھتا ہے
72 اللہ نور ہے آسمانوں اور زمین کا : کہ اسی نے اپنے کرم لامتناہی، رحمت ِبے نہایت اور قدرت لامحدود سے ان کو خلعت وجود سے نوازا۔ سو وجود نور ہے اور عدم ظلمت و اندھیرا۔ پھر اسی نے اپنی قدرت بےپایاں سے زمین و آسمان کی اس مخلوق میں ظاہری و باطنی اور حسی و معنوی نور اور روشنیوں کے طرح طرح کے سامان رکھ دئیے جن میں سب سے بڑی سب سے اہم اور سب سے عظیم الشان روشنی ایمان و یقین کی وہ روشنی ہے جو دلوں کی دنیا کو روشن کرنے والی اور انسان کو دارین کی سعادت و سرخروئی اور فوز و فلاح سے سرفراز کرنے والی ہے۔ اس لئے اللہ پاک کے نور کے ذکر کے بعد اسی کا ذکر فرمایا گیا۔ چناچہ ارشاد فرمایا گیا ۔ { مَثَلُ نُوْرِہ } ۔ اسی لئے حضرات اہل علم اس کی تشریح و توضیح میں فرماتے ہیں ۔ " مَثَلُ نُوْرِ مَنْ اٰمَنَ بِہ " ۔ (ابن کثیر، ابن جریر، روح، قرطبی، معالم وغیرہ) ۔ اور { نورہ } کی ضمیر میں دو احتمال اور دو قول ہیں۔ ایک یہ کہ اس کا مرجع اللہ ہے جو کہ آیت کریمہ کے شروع میں مذکور و موجود ہے۔ تو اس صورت میں معنیٰ ہوگا ۔ " اَیْ مَثَلَ ہُدَاہُ فِیْ قَلْبِ الْمُؤْمِن " ۔ یعنی اس کے اس نور ایمان و ہدایت کی مثال جو کہ اس نے قلب مومن میں ودیعت فرمایا ہے یہ ہے کہ جیسے ایک طاقچہ ہو وغیرہ۔ اور دوسرا احتمال اس میں یہ ہے کہ اس کا مرجع مومن ہو جو کہ سیاق کلام سے مفہوم ہوتا ہے۔ (ابن کثیر وغیرہ) ۔ سو آگے اسی نور مومن کی تشریح و توضیح ہے۔ سو اللہ پاک۔ سبحانہ و تعالیٰ ۔ نے آسمان و زمین کی اس عظیم الشان کائنات کو نور وجود سے نواز کر اس میں طرح طرح کی ایسی عظیم الشان حسی اور معنوی روشنیاں اپنی قدرت کاملہ اور حکمت بالغہ سے رکھ دیں جو اس کی وحدانیت ویکتائی، اس کے کمال و جمال اور اس کے عطاء و نوال اور اس کی عنایتوں اور کار سازیوں اور تصرف و تدبیر کی پکار پکار کر گواہی دیتی ہیں۔ اور اسی نے اپنی ان آیات کونیہ کے ساتھ ساتھ آیات قرآنیہ بھی نازل فرمائیں جو اس کی معرفت و رضاء اور اس تک وصول اور حقیقی فوز و فلاح کی راہیں کھولتی ہیں ۔ سبحانہ و تعالیٰ ۔ سو اس مثال سے واضح فرما دیا گیا کہ ایمان نور اور روشنی بلکہ روشنیوں کی روشنی اور کفر اندھیرا بلکہ اندھیروں کا اندھیرا ہے ۔ والعیاذ باللہ جل وعلا - 73 نور ایمان کی تمثیل اور اس کی عظمت شان : سو ارشاد فرمایا گیا کہ اس کے نور کی مثال یعنی اس کے اس نور حق و ہدایت کی مثال جس سے وہ اپنے بندہ مومن کو اپنے کرم سے نوازتا ہے ۔ اَیْ مَثَلَ ہُدَاہ فِیْ قَلْبِ الْمُؤْمِنِ- (ابن جریر، قرطبی، ابن کثیر وغیرہ) اور یہ اس لئے کہ نور ہدایت ہی اصل اور سب نوروں سے بڑھ کر نور ہے۔ اور یہی اس واہب مطلق کی وہ سب سے بڑی عنایت وعطاء ہے جس سے وہ اپنے خاص بندوں کو نوازتا ہے ۔ سبحانہ و تعالیٰ ۔ کیونکہ نور حق و ہدایت سے اس کیلئے اس کی زندگی کی سب راہیں روشن ہوجاتی ہیں۔ وہ اپنی زندگی کے آغاز و انجام اور مقصد حیات اور طریق حیات اور آداب زندگی، سب سے پوری طرح واقف و آگاہ ہوجاتا ہے۔ اس کے نور ایمان کی برکت سے ہر چیز اور اس کا ہر پہلو اس کے لیے روشن اور واضح ہوجاتا ہے۔ جیسا کہ نبی اکرم ﷺ نے اپنی امت کو خطاب کرکے ارشاد فرمایا کہ " میں تم لوگوں کو ایک ایسی واضح شاہراہ پر چھوڑ چلا ہوں جس کی رات بھی اس کے دن کی طرح روشن اور واضح ہے۔ اور اس سے منحرف نہیں ہوگا مگر وہی شخص جسکے نصیب میں ہی ہلاکت لکھی ہے "۔ جبکہ نور ایمان سے محروم انسان کیلئے یہ پوری کائنات ہی عالم ظلمات ہے۔ نہ اس کو اپنی زندگی کے آغاز و انجام کا کچھ پتہ نہ اپنے خالق ومالک کی معرفت کی کچھ خبر اور نہ ہی اس کو اپنی زندگی کے مقصد اور نصب العین سے کچھ آگاہی۔ بلکہ وہ ان تمام امور سے غافل و لاپرواہ حیوان محض بن کر رہ جاتا ہے۔ بلکہ اس سے بھی کہیں برا اور بدتر۔ والعیاذ باللہ العظیم ۔ سو نور حق و ہدایت سے محروم ایسا انسان اس اندھے بھین سے کی طرح ہوجاتا ہے جو اندھیروں میں بھٹکتا رہتا ہے۔ یہاں تک کہ وہ ہلاکت و تباہی کے کسی گڑھے میں گر کر اپنے انجام کو پہنچ کر رہتا ہے۔ جبکہ مومن صادق کے لیے اس کائنات کی ایک ایک چیز اس کے نور ایمان میں اضافے کا ذریعہ بنتی جاتی ہے ۔ وباللہ التوفیق لما یحب ویرید - 74 نور ایمان کی عظمت شان کی توضیح و تمثیل : سو ارشاد فرمایا گیا کہ جیسا کہ ایک طاقچہ ہو کہ اس کی روشنی مجتمع اور یکجا ہونے کی وجہ سے خاص طور پر زیادہ زور دار اور تیز ہوتی ہے۔ سو مشکوۃ سے مراد مومن کا دل ہے جس کو چراغ رکھنے کے طاق یا چراغ داں سے تشبیہہ دی گئی ہے۔ کیونکہ چراغ کیلئے عام قاعدہ یہ ہوتا ہے کہ اس کو گھر میں کسی اونچے مقام اور طاقچہ وغیرہ میں رکھا جاتا ہے تاکہ اس کی روشنی پورے گھر کے اندر پھیلے اور انسان کے اندر دل ہی ایسی عظمت اور بلندی والی چیز ہے کہ اس کی روشنی انسانی جسم کے ظاہر اور باطن سب پر پھیل جاتی ہے اور انسان کا یہ خاکی پتلہ کچھ کا کچھ بن جاتا ہے۔ اس لیے ایمان و یقین کی قندیل کے لیے دل کے اس طاقچے ہی کو چنا گیا اور دل کی اسی اہمیت کی بنا پر صحیح اور مشہور حدیث میں دل کی زندگی کو انسانی جسم کی زندگی اور اس کی موت کو ۔ والعیاذ باللہ ۔ انسانی زندگی کی موت قرار دیا گیا ہے۔ چناچہ ارشاد فرمایا گیا کہ " جسم کے اندر گوشت کا ایک ایسا ٹکڑا ہے کہ اگر وہ ٹھیک ہوا تو سارا جسم ٹھیک اور اگر وہ بگڑا تو سارا جسم بگڑ گیا۔ آگاہ رہو کہ وہ ٹکڑا دل ہے " ۔ " الا وہی القلب " ۔ اللہ تعالیٰ سلطنت دل کو ہمیشہ معمور ومنور رکھے ۔ آمین ثم آمین - 75 نور ایمان کے لیے بےمثال اور عظیم الشان فانوس کا ذکر : سو ارشاد فرمایا گیا کہ وہ فانوس ایسا ہو جیسا کہ ایک چمکتا ہوا ستارہ۔ اپنی غایت درجہ کی صفائی اور ستھرائی کی وجہ سے۔ اور یہی مثال ہے بندہ مومن کے قلب صافی کی۔ سو وہ طاقچہ بھی عظیم الشان اور بےمثال اور اس کا شیشہ بھی عظیم الشان اور بےمثال۔ کیونکہ شیشہ اگر صاف نہ ہو تو وہ نہ صرف یہ کہ روشنی میں کوئی اضافہ نہیں کرتا بلکہ وہ اس کیلئے حجاب بن جاتا ہے۔ سو اس طرح ایمان کی روشنی قلب مومن کو ہر قسم کی کثافت سے پاک کرکے ایسے بےمثال آئینے کی طرح صاف کردیتی ہے۔ سو جب روشنی اس طرح کے فانوس کے اندر ہوتی ہے تو وہ ہوا کے جھونکوں سے متاثر نہیں ہوتی۔ اور ایسے چراغ کی لو ہوا کے جھونکوں سے منتشر نہیں ہونے پاتی بلکہ ایک مرکز پر مرتکز رہتی ہے جس سے اس کی تابانی میں اضافہ ہوجاتا ہے۔ اور یہی حال قلب مومن کا ہوتا ہے کہ فیض ایمان سے اس کی تابانی میں اضافہ ہوتا ہے اور وہ ڈانواں ڈول ہونے سے محفوظ رہتا ہے۔ خواہ کیسے ہی حالات پیش آئیں وہ ہر حال میں راضی اور مطمئن رہتا ہے۔ ایسے ہی دل کو قرآن حکیم میں نفس مطمئنۃ سے تعبیر فرمایا گیا۔ اور یہ سب سے بڑی دولت ہے جس سے انسان کو اس کے ایمان کی بدولت نوازا جاتا ہے۔ 76 بےمثال چراغ کا تیل بےمثال و مبارک درخت سے : سو ارشاد فرمایا گیا کہ وہ چراغ زیتون کے ایسے مبارک درخت سے روشن کیا جاتا ہو جو نہ شرقی ہو نہ غربی۔ بلکہ ایسی کھلی اور بلند جگہ پر ہو جہاں اس کو سورج کی روشنی اور گرمی صبح سے شام تک برابر پہنچتی ہو کہ ایسے درخت کا تیل خاص طور سے زیادہ صاف ستھرا، پاکیزہ اور عمدہ ہوتا ہے۔ سو یہی مثال ہے مومن صادق کے شجرہ صدق و اخلاص کی کہ وہ نہ مشرقی ہوتا ہے نہ مغربی۔ بلکہ وہ جنت کا ایک ایسا عمدہ اور پاکیزہ درخت ہوتا ہے جو ہر وقت ہرا بھرا اور ترو تازہ رہتا ہے اور ہر وقت پاکیزہ پھل دیتا رہتا ہے ۔ { تُؤْتِیْ اُکُلَہَا کُلَّ حِیْنٍ بِاِذْنِ رَبِّہَا } ۔ (ابراہیم : 25) ۔ سو اس طرح نور ایمان ان لوگوں کے سینوں کو اپنا نشیمن بناتا ہے جن کی فطرت ہر قسم کے فساد اور بگاڑ سے پاک اور محفوظ ہوتی ہے اور ان کی فطرت کا تیل غیر فطری ملاوٹوں سے ایسا پاک اور صاف ہوتا ہے کہ دعوت حق کی ذرا سی رگڑ سے پھڑک اٹھتا ہے۔ اور اس طرح فطرت کے نور کے اوپر ایمان اور ہدایت کے نور سے مومن کا سینہ نور علی نور ہوجاتا ہے۔ جس طرح کہ زیتون کے عمدہ درخت کا عمدہ تیل اپنی صفائی کی بنا پر آگ کے چھوئے بغیر ہی بھڑک اٹھتا ہے۔ 77 بےمثال چراغ کا تیل بھی بےمثال : سو ارشاد فرمایا گیا کہ اس چراغ کا تیل بھی ایسا عمدہ اور پاکیزہ کہ خود ہی بھڑک پڑتا ہے۔ اگرچہ اس کو آگ نے چھوا بھی نہ ہو۔ اپنی پاکیزگی اور صفائی و ستھرائی کی وجہ سے۔ سو یہی مثال ہے مومن کی فطرت سیلمہ اور حسن استعداد کی اس عظیم و بےمثل اور پاکیزہ دولت کی جو حضرت واہب مطلق ۔ جل و علا شانہ ۔ کی طرف سے اس کو عطا فرمائی جاتی ہے اور جس کو ۔ { فِطْرَۃَ اللّٰہِ الَّتِیْ فَطَرَ النَّاسَ عَلَیْہَا } ۔ (الروم :30) کے ارشاد ربانی اور " کُلُّ مَوْلُوْدٍ یُّوْلَدَ عَلَی الْفِطْرَۃِ " کے فرمان نبوی میں بیان فرمایا گیا ہے کہ یہی فطرت سیلمہ اور حسن استعداد اس کے چراغ معرفت کی اصل اساس ہے۔ اور اپنے اسی نور فطرت کی بنا پر مومن بسا اوقات اپنی داخلی شہادت اور فطری پکار کی بناء پر نور حق و معرفت تک رسائی حاصل کرلیتا ہے اگرچہ ابھی تک اس کو نور وحی و ہدایت کا علم نہ پہنچا ہو۔ پھر نور وحی سے یہ نور فطرت و وجدان اور بھی چمک اٹھتا ہے ۔ سبحان اللہ ۔ حضرت خالق ۔ جل مجدہ ۔ نے کیا کیا عجائب وغرائب رکھ دئیے اس انسان میں اور اس کون و مکان میں۔ اور اپنے اس عالی شان کلام حق ترجمان میں۔ سو انسان کو اللہ پاک نے اپنے کرم بےپایاں سے دو عظیم الشان نوروں سے نوازا ہے۔ ایک وہ نور فطرت جو اس کی طبیعت وجبلت میں ودیعت و پیوست فرمایا گیا ہے اور دوسرا وہ نور حق و ہدایت جس کو وہ وحی کے ذریعے عنایت فرماتا ہے۔ جس سے اس نور فطرت کی چمک دمک دوچند ہوجاتی ہے۔ ورنہ انسان کی غفلت سے نور فطرت کا اصل سرمایہ بھی ضائع ہوجاتا ہے ۔ والعیاذ باللہ العظیم ۔ اور یہ ایسے ہی ہے جیسا کہ دوسرے مقام پر ارشاد فرمایا گیا ۔ { اَفَمَنْ کَانَ عَلٰی بَیِّنَۃٍ مِّنْ رَّبِّہٖ وَیَتْلُوْہُ شَاہِدٌ مِّنْہُ } ۔ (ھود : 17) ۔ سو نور ایمان کی فیض رسانی سے مومن صادق کا دل ڈانواں ڈال ہونے سے محفوظ ہوجاتا ہے اور اس پر خواہ کیسے ہی حالات آئیں وہ راضی و مطمئن رہتا ہے۔ اور ایسے ہی دل کو قرآن حکیم میں نفس مطمئنہ سے تعبیر فرمایا گیا ہے۔ اور یہ سب سے بڑی دولت ہے جو انسان کو ایمان کی بدولت نصیب ہوتی ہے۔ سو ایمان صادق کی دولت دارین کی سعادت و سرخروئی سے سرفراز کرنی والی واحد دولت ہے۔ 78 نور علی نور کا مصداق : سو یہ نور علی نور یعنی نور پر نور کا مصداق ہے کہ ایک تو وہ اصل نور فطرت جو انسان کی فطرت وجبلت میں قدرت نے اپنی فیاضیوں سے ودیعت فرمایا ہوتا ہے اور دوسرا نور حق و ہدایت جو وحی خداوندی کے ذریعے انسان کو عطا فرمایا جاتا ہے۔ جس سے اس نور فطرت کو مزید جلا ملتی ہے۔ اور تیسری طرف وہ نور خداوندی جو انسان کو اس کائنات میں ہر طرف پھیلی بکھری آیات تکوینیہ و تشریعیہ میں صحیح غور و فکر سے ملتا ہے۔ جس سے اس کی قوت ایمان و یقین کو مزید جلا ملتی اور قوت حاصل ہوتی رہتی ہے۔ یہاں تک کہ وہ حق کو اس کے اظہار وبیان سے پہلے ہی پہچان لیتا ہے۔ جیسا کہ نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا " اِتَّقُوْا فِرَاسَۃَ الْمُؤْمِنَ فَاِنَّہُ یَنْظُرُ بِنُوْرِ اللّٰہِ " (المراغی وغیرہ) ۔ اور اس طرح مومن صادق اپنے ایمان و یقین کی لذت سے ہمیشہ فیضیاب اور شاد کام ہوتا رہتا ہے اور اس کے پاکیزہ پھلوں سے وہ برابر اور لگاتار مستفید ہوتا رہتا ہے۔ جیسا کہ دوسرے مقام پر ارشاد فرمایا گیا ۔ { تُوْتِیْ اُکَلَہَا کَلَّ حِیْنٍ بِاِذْنِ رَبِّہَا } ۔ اور یہاں پر اس کی توضیح و تشریح کے لئے جو یہ عظیم الشان مثال بیان فرمائی گئی ہے اس میں بھی اس کی پوری وضاحت اور بیان ہے کہ جیسے ایک چراغ ہو عمدہ قسم کا جس میں تیل جلتا ہو زیتون کے مبارک درخت کا اور یہ درخت بھی ایسا عمدہ ہو کہ جو نہ شرقی ہو نہ غربی۔ سورج کی دھوپ و گرمی اور تازہ ہوا اس کو برابر ملتی ہو۔ پھر وہ چراغ بھی ایسے عمدہ فانوس اور قندیل میں ہو جو ایک چمکتے دمکتے تارے کی مانند ہو۔ جس میں اس کی روشنی اور تیز ہوجاتی ہے اور وہ فانوس اور قندیل بھی ایسے طاقچے میں رکھا ہو جہاں اسکی روشنی مجتمع اور یکجا ہونے کی وجہ سے اور بھی زیادہ تیز اور روشن ہوجاتی ہو تو ایسے نور اور روشنی کی عظمتوں کے کیا کہنے ؟ کیا نور علی نور کی اس سے بڑھ کر کوئی اور مثال ہوسکتی ہے ؟ (ابن جریر، ابن کثیر، روح، قرطبی، کبیر، معارف اور صفوہ وغیرہ) ۔ سو مومن صادق قلب و باطن ہر اعتبار سے منور اور نور ایمان و یقین سے سرفراز و سرشار ہوتا ہے ۔ فالحمد للہ جل وعلا - 79 نور ہدایت کی دولت اللہ تعالیٰ ہی کی طرف سے : سو ارشاد فرمایا گیا کہ اللہ اپنے نور کی طرف ہدایت سے نوازتا ہے جس کو چاہتا ہے کہ وہی ہے جو پوری طرح جانتا ہے کہ کس کی صلاحیت و استعداد کیا ہے۔ اس کے خبایا و نوایا کیا ہیں ؟ کون کس لائق ہے اور کون اپنے اندر حق و ہدایت کے لئے طلب صادق رکھتا ہے اور کون طلب صادق کی اس دولت سے محروم ہے ۔ والعیاذ باللہ ۔ سو اس واہب مطلق کے یہاں کی تقسیم کوئی اندھی بانٹ نہیں بلکہ وہ نہایت ہی کامل علم و حکمت پر مبنی ہوتی ہے ۔ سبحانہ و تعالیٰ ۔ ہدایت کا صلہ جب دل پہ آجاتا ہے جیسا کہ یہاں پر ہے تو اس وقت یہ لفظ توفیق اور فیض بخشی کے معنیٰ کو بھی متضمن ہوجاتا ہے۔ ہم نے اپنے ترجمے کے اندر اس مفہوم کو بین القوسین کے لفظوں سے ظاہر کرنے کی کوشش کی ہے ۔ والحمدللہ ۔ سو جو لوگ ہدایت فطرت کی قدر اور اس کی حفاظت کرتے ہیں اور وہ صدق دل سے نور حق و ہدایت کے طالب اور متلاشی ہوتے ہیں، اللہ پاک ۔ سبحانہ و تعالیٰ ۔ اپنی فیض بخشی سے ان کو نور حق و ہدایت سے نوازتا اور سرفراز فرماتا ہے۔ اور اس کے برعکس جو لوگ اس سے اعراض برتتے، منہ موڑتے اور اس کی ناقدری کرتے ہیں انکا نور فطرت بھی بجھ کر رہتا ہے۔ جسکے نتیجے میں ایسے لوگ نور علی نور کے منصہ شرف سے گر کر۔ { ظُلُمَاتٌ بَعْضُہَا فَوْقَ بَعْضٍ } ۔ کے گھٹا ٹوپ اندھیروں میں ڈوب کر رہ جاتے ہیں۔ اور اس کی واضح مثال یہود و نصاریٰ ہیں جنہوں نے دین حق کے قبول کرنے سے انکار و اعراض کیا۔ اور اس پر ہٹ دھرمی سے کام لیا جس کے نتیجے میں یہ لوگ قبول اسلام کی سعادت اور نور حق سے سرفرازی میں نمونہ اور قدوہ بننے کے شرف سے ہمیشہ کیلئے محروم ہوگئے ۔ والعیاذ باللہ العظیم ۔ اللہ ہمیشہ راہ حق و ہدایت پر مستقیم و ثابت قدم رکھے اور اپنی رضا و خوشنودی سے سرفراز ومالا مال فرمائے ۔ آمین۔ 80 توضیحِ حق کے لیے ضرب الامثال کا اہتمام : یعنی توضیحِ حق کے لیے تمثیلوں کا اہتمام چونکہ ادب و بلاغت کا ایک معروف اسلوب ہے اس لیے قرآن حکیم میں بھی اس کا اہتمام فرمایا گیا ہے۔ سو ارشاد فرمایا گیا اور اللہ لوگوں کیلئے طرح طرح کی مثالیں بیان فرماتا ہے۔ تاکہ معاملہ پوری طرح واضح ہوجائے اور اس طرح لوگ حق اور حقیقت تک رسائی حاصل کرسکیں اور معنوی وغیر محسوس چیزوں کو ان کے لئے ایسی مثالوں کے ذریعے ممکنہ حد تک محسوسات کے قریب اور سمجھنے کے لئے آسان کردیا جائے۔ اور ایسی مثالیں وہی وحدہ لاشریک بیان فرما سکتا ہے کہ وہی ہے جو حقائقِ اشیاء سے پوری طرح واقف اور آگاہ ہے ۔ سبحانہ و تعالیٰ ۔ سو وہ طرح طرح کی ایسی عظیم الشان مثالیں بیان فرماتا ہے جس سے لوگ حق اور حقیقت کو پہچان سکیں تاکہ وہ ایمان و یقین کے نور سے منور ہو کر اپنے لیے سعادت دارین کا سامان کرسکیں۔ سو تمثیلیں حق اور حقیقت کو واضح کرنے کا سب سے عمدہ اور موثر و کارگر طریقہ ہوتا ہے۔ جو لوگ اس کے بعد بھی حق کو قبول کرنے اور اپنی اصلاح کے لیے آمادہ اور تیار نہیں ہوتے وہ بڑے ہی محروم اور بدبخت لوگ ہوتے ہیں ۔ والعیاذ باللہ العظیم - 81 کمال علم اللہ تعالیٰ ہی کی شان ہے ۔ سبحانہ وتعالیٰ : اس لیے کہ وہی وحدہ لا شریک سب کا خالق اور مالک ہے۔ اس لیے وہی پوری طرح جانتا ہے۔ سو ارشاد فرمایا گیا اور اللہ ہر چیز کا پورا علم رکھتا ہے۔ اس لئے اسی کی بیان فرمودہ مثالیں غیبی حقائق اور معنوی امور کی صحیح طور پر ترجمانی اور عکاسی کرسکتی ہیں۔ اور وہی وحدہ لاشریک جانتا ہے کہ کون کس لائق ہے اور کس کو کتنا اور کس درجے تک نوازا جائے اور اس کی مشیت اس کے علم و حکمت پر مبنی ہوتی ہے۔ وہ ہر ایک کے ظاہر اور باطن کو پوری طرح اور ایک برابر جانتا ہے۔ اور وہ ہر ایک کے ساتھ وہی معاملہ فرماتا ہے جس کا وہ اہل اور مستحق ہوتا ہے۔ اور یہ شان چونکہ صرف اسی وحدہ لاشریک کی ہے اس کے سوا اور کسی کیلئے ایسا ہونا ممکن ہی نہیں۔ اس لیے اس وحدہ لاشریک کے کسی حکم و ارشاد کی دوسری کوئی نظیر و مثال اور اس کا کوئی متبادل ممکن ہی نہیں۔ سو کمال علم اللہ تعالیٰ ہی کی صفت و شان ہے ۔ سبحانہ وتعالیٰ ۔ اللہ تعالیٰ اپنے فضل وکرم سے اور محض اپنے فضل وکرم سے نور معرفت سے مالامال فرمائے ۔ آمین۔
Top