Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Urwatul-Wusqaa - An-Noor : 35
اَللّٰهُ نُوْرُ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ١ؕ مَثَلُ نُوْرِهٖ كَمِشْكٰوةٍ فِیْهَا مِصْبَاحٌ١ؕ اَلْمِصْبَاحُ فِیْ زُجَاجَةٍ١ؕ اَلزُّجَاجَةُ كَاَنَّهَا كَوْكَبٌ دُرِّیٌّ یُّوْقَدُ مِنْ شَجَرَةٍ مُّبٰرَكَةٍ زَیْتُوْنَةٍ لَّا شَرْقِیَّةٍ وَّ لَا غَرْبِیَّةٍ١ۙ یَّكَادُ زَیْتُهَا یُضِیْٓءُ وَ لَوْ لَمْ تَمْسَسْهُ نَارٌ١ؕ نُوْرٌ عَلٰى نُوْرٍ١ؕ یَهْدِی اللّٰهُ لِنُوْرِهٖ مَنْ یَّشَآءُ١ؕ وَ یَضْرِبُ اللّٰهُ الْاَمْثَالَ لِلنَّاسِ١ؕ وَ اللّٰهُ بِكُلِّ شَیْءٍ عَلِیْمٌۙ
اَللّٰهُ
: اللہ
نُوْرُ
: نور
السَّمٰوٰتِ
: آسمانوں
وَالْاَرْضِ
: اور زمین
مَثَلُ
: مثال
نُوْرِهٖ
: اس کا نور
كَمِشْكٰوةٍ
: جیسے ایک طاق
فِيْهَا
: اس میں
مِصْبَاحٌ
: ایک چراغ
اَلْمِصْبَاحُ
: چراغ
فِيْ زُجَاجَةٍ
: ایک شیشہ میں
اَلزُّجَاجَةُ
: وہ شیشہ
كَاَنَّهَا
: گویا وہ
كَوْكَبٌ دُرِّيٌّ
: ایک ستارہ چمکدار
يُّوْقَدُ
: روشن کیا جاتا ہے
مِنْ
: سے
شَجَرَةٍ
: درخت
مُّبٰرَكَةٍ
: مبارک
زَيْتُوْنَةٍ
: زیتون
لَّا شَرْقِيَّةٍ
: نہ مشرق کا
وَّلَا غَرْبِيَّةٍ
: اور نہ مغرب کا
يَّكَادُ
: قریب ہے
زَيْتُهَا
: اس کا تیل
يُضِيْٓءُ
: روشن ہوجائے
وَلَوْ
: خواہ
لَمْ تَمْسَسْهُ
: اسے نہ چھوئے
نَارٌ
: آگ
نُوْرٌ عَلٰي نُوْرٍ
: روشنی پر روشنی
يَهْدِي اللّٰهُ
: رہنمائی کرتا ہے اللہ
لِنُوْرِهٖ
: اپنے نور کی طرف
مَنْ يَّشَآءُ
: وہ جس کو چاہتا ہے
وَيَضْرِبُ
: اور بیان کرتا ہے
اللّٰهُ
: اللہ
الْاَمْثَالَ
: مثالیں
لِلنَّاسِ
: لوگوں کے لیے
وَاللّٰهُ
: اور اللہ
بِكُلِّ شَيْءٍ
: ہر شے کو
عَلِيْمٌ
: جاننے والا
اللہ آسمانوں اور زمین کا نور ہے ، اس کا نور ایک ایسے طاق جیسا ہے جس میں ایک چراغ روشن ہے اور وہ روشن چراغ ایک فانوس میں ہے اور فانوس گویا موتی کی طرح چمکتا ہوا ایک ستارہ ہے ، وہ چراغ ہے کہ شجر مبارکہ زیتون (کے تیل) سے روشن کیا گیا ہے جو نہ مشرق کے رخ واقع ہے اور نہ مغرب (کے رُخ) اس کا تیل (اتنا لطیف ہے) کہ اگر اس کو آگ نہ بھی چھوئے تو بھڑک پڑے (اور فضاؤں کو منور کردے) وہ نور پر نور ہے اللہ جس کو چاہتا ہے (اپنے قانون کے مطابق) اپنے نور کی راہ دکھاتا ہے اور اللہ لوگوں کو سمجھانے کی خاطر مثالیں بیان فرماتا ہے اور اللہ کو ہرچیز کا علم ہے
اللہ آسمانوں اور زمین کا نور ہے یہ ایک مثال بیان کی گئی ہے : 56۔ انبیاء کرام (علیہ السلام) کی تعلیمات یکسر رشد وہدایت ‘ نوروبصیرت اور پندوموعظت ہوتی ہیں ‘ ان پر عمل پیرا ہونے سے انسانی قلوب و دماغ میں روشنی پیدا ہوتی ہے اور برکات الہیہ کا نزول ہوتا ہے کہ مگر ان فیوض خداوندی سے مستفید ہونے کے لئے اولین شرط یہ ہے کہ قوم میں اخلاق فاضلہ ہوں ‘ وہ فسق وفجور سے پرہیز کرتی ہو اور نیکی و طہارت اس کا شکار ہو اس لئے ابتدائے سورت میں ایک بدترین اخلاقی جرم پر بحث کی گئی تاکہ آئندہ تعلیم اور نیکی و طہارت اس کا شکار ہو اس لئے ابتدائے سورت میں ایک بدترین اخلاقی جرم پر بحث کی گئی تاکہ آئندہ تعلیم الہی کی نشر و اشاعت میں رکاوٹ نہ پیدا ہو اور نور الہیہ برابر فائز ہوتے رہیں اب بتایا جاتا ہے کہ جب انسانوں کی ایک جماعت اس قانون پر عمل کرے گی تو ان کے قلوب وصدور اللہ کی نور سے روشن ہوجائیں گے اس لئے اللہ تعالیٰ کے نور کی مثال بیان کی گئی ۔ نور کیا ہے ؟ ” نور “ لغت میں اس کیفیت کو کہتے ہیں جو سورج ‘ چاند اور آگ سے پیدا ہو کر زمین اور دیواروں وغیرہ پر پڑتی ہے ۔ ” نار “ اور ” نور “ دونوں کا مادہ ایک ہے نور نورا النور نور نور۔ اسم نکرہ مرفوع ومنصوب ومجرور ومعرفہ مضاف مرفوع ومجرور ۔ سب کا معنی روشنی اگرچہ مختلف آیات میں مراد مختلف ہے مثلا آگ کی روشنی ‘ سورج ‘ چاند اور ستاروں کی روشنی ‘ ایمان کی روشنی ‘ ہدایت کی روشنی ‘ احکام الہی کی روشنی ‘ قرآن کریم کی روشنی ‘ محمد رسول اللہ ﷺ کی روشنی ‘ عام روشنی ‘ شریعت اور براہین الہیہ کی روشنی ‘ اسلام کی روشنی ‘ تجلیات الہیہ کی روشنی ‘ توحید و اعمال صالحہ کی روشنی اور زیر نظر آیت میں نور بمعنی منور ہے روشن کرنے والا ۔ دوسروں کو روشنی عطا کرنے والا ، نور کی اصل تنقیح نار سے ہوتی ہے ۔ ” مشکوۃ “ اسی طاق کو کہتے ہیں جو دیوار کے آر پار نہ ہو ۔ ” مصباح “ چراغ۔ صبح کو صبح اس لئے کہتے ہیں کہ اس میں روشنی ہوتی ہے ” زجاجۃ “ شیشے کی قندیل جو نہایت صافوشفاف ہو۔ ” دری “ میں یائے نسبتی ہے یعنی قندیل صفائی اور چمک میں موتی کے مشابہ ہے ” یوقد “ ایقاد سے لیا گیا ہے اور یہ لفظ آگ یا چراغ روشن کرنے پر بولا جاتا ہے ۔ (السموت والارض) کے الفاظ پوری کائنات کے لئے استعمال ہوتے ہیں مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ” کائنات “ کی روشنی ہے ۔ اللہ ان دیکھی اور ان سمجھی ذات ہے جس کا عقل انسانی احاطہ نہیں کرسکتی اور ظاہر ہے کہ جس کا احاطہ عقل انسانی نہ کرسکتی ہو اس کا احاطہ ممکن ہی نہیں ہے پھر اس کو بیان کرنے کے لئے کیا کیا جائے ؟ یہی کہ اس کو کسی مثال سے سمجھایا جائے اگرچہ اس کی مثال بھی ممکن نہیں ہے کیونکہ ” لیس کمثلہ شیئ “ خود اس کا ارشاد گرامی ہے اس لئے اس کے سمجھنے کے لئے جو الفاظ بھی استعمال کئے جائیں گے محض تفہیم کے لئے ہوں گے ، غور کرو کہ جسم انسانی میں مختلف اعضاء اور جو راح اپنااپنا کام کر رہے ہیں اور ان کے بغیر ہمارا زندہ رہنا ممکن نہیں ہے مگر آپ جب عمیق غور وفکر سے کام لیں گے تو آپ پر یہ حقیقت منکشف ہوجائے گی کہ اصل میں کام کرنے والی ” روح “ انسانی ہے جو ہر رگ وپے میں جاری وساری ہے اور جو ان تمام اعضائے بدن سے اپنا اپنا کام لے رہی ہے اگر وہ نہ ہو تو جسم انسانی ہڈیوں اور گوشت و پوست کے سوا کچھ بھی نہیں جو سب کا سبب بیکار و حرام ہے ۔ بالکل اسی طرح اگرچہ اس کائنات ارض وسماوی میں مختلف چیزیں نظر آتی ہیں لیکن دراصل اللہ ہی کی قدرت ہر جگہ کار فرما ہے اور اس کا نور زمین و آسمان کی روشنی کا باعث ہے ، اس کے نور کا فیضان ایک چراغ میں ہوتا ہے جسے ” خطیرۃ القدس “ کے نام سے بھی یاد کیا جاتا ہے ۔ بلاشبہ اللہ کا تصور فطری چیز ہے جو شخص کسی فطری چیز سے انکار کرتا ہے دراصل اس کا اپنی ذات سے انکار ہے اور پھر جو شخص اپنے ہونے سے انکار کرے اس کو کیا کہا جائے گا ؟ اس کو کیا کہا جاسکتا ہے ؟ فیصلہ خود کرلو جو تمہارا فیصلہ ہوگا وہی اصل فیصلہ قرار پائے گا ، ہم تو یہی کہہ سکتے ہیں کہ جو اللہ رب العزت کو نہیں مانتا وہ اپنی ذات سے ہی انکار کرتا ہے اور اس کے لئے یہ کائنات ایک ظلمت واندھیرے کے سو کچھ بھی نہیں ہے اور جو شخص اللہ رب ذوالجلال والاکرام کی ذات کو مانتا اور تسلیم کرتا ہے اس کی رات بھی دن کی طرح روشن ہے بشرطیکہ اس کا ماننا اس کے دل سے ہو کیونکہ دل کے تسلیم کرنے کے بغیر صرف زبان کی تصدیق کوئی چیز نہیں الا یہ کہ وہ ایک دھوکا ہے اور ایک فریب ہے جو اس نے خود اپنی ذات کو دے رکھا ہے اور پھر اس پر طرہ یہ کہ وہ اس بات کو مانتا بھی نہیں ہے اچھا تو کیا اس کے نہ ماننے سے حقیقت بدل جائے گی ؟ اس مثال کو بھی مثال ہی سے بیان کیا جاسکتا ہے اس لئے زیتون کے تیل کا ذکر کیا گیا : 57۔ اس کا تیل وہ روحانیت ہے جو روح اعظم اور ملاء اعلی کے مجموعہ سے ترتیب دی گئی ہے اور اس کی آگ اللہ کی تجلی کی روشنی ہے پھر جس طرح چراغ سے نور نکل کر قندیل میں روشن ہوتا ہے اور اس طرح تمام مکان کو بقعہ نور بنا دیتا ہے ایسے ہی ملاء سافل ملاء اعلی خطیرۃ القدس سے انوار و تجلیات لے کر زمین و آسمان کی روشنی کا سبب بن جاتے ہیں اور تمام کائنات ارض وسماوی روشن ہوجاتی ہے ، اس وقت جب یہ مثال بیان کی جا رہی تھی لوگ چراغ جلانے کے لئے مختلف قسم کے تیل استعمال کیا کرتے تھے لیکن ان تیلوں میں سے زیتوں کے تیل کے روشنی بڑی تیز اور دھوئیں سے پاک ہوتی تھی اور جس چراغ میں زیتوں کا تیل ڈالا جاتا تھا اس کی چمک دمک کا مقابلہ کوئی اور چراغ نہ کرسکتا تھا پھر زیتون کا درخت اور اس سے نکالا ہوا تیل ایک قسم کا نہیں ہوتا تھا بعض زیتون کے درکت اپنے علاقہ اور آب وہوا کی وجہ سے دوسرے زیتون کے درختوں سے زیادہ عمدہ ہوتے ہیں اور ان سے نکالا ہوا تیل بہت ہی صاف اور روشن ہوتا ہے خصوصا زیتون کا وہ درخت جو پہاڑ کی چوٹی یعنی زمین کے فراز پر اگا ہوا ہو کہ طلوع آفتاب کے وقت بھی اس کی عنابی کرنیں اسے زندگی بخش اثرات سے سرشار کردیں اور جب سورج غروب ہورہا ہو تب بھی۔ اس طرح تازہ ہوا اسے ہر وقت پہنچتی ہو اور خصوصا جب کہ وہ کاٹ کاٹ کر خراب بھی نہ کردیا گیا ہو اور اس طرح کا درخت اپنی قدوقامت میں بھی نمایاں ہوتا ہے اور پھل بھی اور پھر دہنیت میں بھی اور اس کا تیل بھی بڑا نفیس ہوتا ہے یوں محسوس ہوتا ہے کہ اگر اسے آگ نہ بھی لگائی جائے تو بھی از خود روشنی کے شعلے بھڑک اٹھیں گے اور جب اس طرح کا صاف و شفاف تیل اس میں جل رہا ہے جو زیتون کے ایک خاص درخت کا تیل ہے اور پھر دیا بھی ایسا بہترین جو اپنی مثال آپ ہے اور دیا مزید شیشے کی ڈبیا میں رکھا گیا ہے اور شیشے کی ڈبیا کو بھی ایک طاق میں رکھا گیا ہے تاکہ روشنی بندھ کر ایک طرف کو پڑتی رہے اور اس کے جلنے سے دھوئیں کا نام ونشان بھی نہ اٹھے کیا ایسے چراغ کی روشنی دوسرے چراغوں کو مات نہ کرے گی ؟ کیوں نہیں بلاشبہ اس چراغ پر کوئی چراغ بھی فوقیت نہیں رکھے گا بالکل اسی طرح دین اسلام باقی ادیان پر محمد رسول اللہ ﷺ کی نبوت و رسالت دوسرے نبیوں رسولوں کی نبوت و رسالت پر اور قرآن کریم دوسری آسمانی کتابوں پر فوقیت رکھتے ہیں اور رہی اللہ رب ذوالجلال والاکرام کی ذات تو اس کی رفعت شان اور بلندی مرتب کا اندازہ لگایا جا ہی نہیں سکتا اور نہ ہی اس کی مثال کسی مخلوق کے ساتھ دی جاسکتی ہے ۔ ” اس کو آگ نہ بھی چھوئے تو وہ بس بھڑک پڑے “ کا مطلب کیا ؟ 58۔ (آیت) ” یکاد زیتھا یضیء ولولم تمسسہ نار “۔ دراصل ایک محاورہ ہے جو زیتون کے تیل کے صاف شفاف ہونے پر دلالت کرتا ہے اور بلاشبہ اس میں اس چیز کی طرف اشارہ ہے جو چیز زیتون کے تیل سے مراد اصل ہے اور بلاشبہ وہ قلب مومن ہے اس طرح اس کا مطلب بالکل صاف ہوجاتا ہے کہ یہ ایمان ان لوگوں کے سینوں کو اپنا نشیمن بناتا ہے جن کے قلوب ہر قسم کے فساد اور بگاڑ سے محفوظ ہوں جن کی فطرت کا روغن غیر فطری ملاوٹوں سے پاک ہوتا ہے اس لئے وہ خود بخود دعوت ایمانی کی ذرا سی رگڑ سے بھڑک اٹھتا ہے اور وہ انسان نہ صرف یہ کہ خود صالح ہوتا ہے بلکہ وہ دوسروں کو بھی صالح بنانے میں بھرپور حصہ لیتا ہے ، آپ کہہ سکتے ہیں کہ یہ وہ عطر ہے جس کا ڈھکنا اٹھائے بغیر ہی پوری فضا کو معطر کردیتا ہے اور اس کی خوشبو ہر طرف پھیل جاتی ہے ۔ اللہ جسے چاہتا ہے اپنے نور کی طرف رہنمائی فرما دیتا ہے : 59۔ بلاشبہ نور خداوندی ہی نور مطلق ہے جو سارے جہان کو منور کر رہا ہے مگر اس کا ادراک ہر ایک کو نصیب نہیں ہوتا اس کے ادراک کی توفیق اور اس کے فیض سے مستفیض ہونے کی نعمت اللہ تعالیٰ ہی جس کو چاہتا ہے بخشتا ہے ورنہ جس طرح اندھے کے لئے دن رات برابر ہیں اسی طرح بےبصیرت انسان کے لئے ، اس طرح اس آیت میں (نورہ) کی ضمیر کا مرجع اللہ رب ذوالجلال والاکرام ہے اور مصباح سے مراد ذات الہ ہے اور مشکوۃ سے مراد ساری کائنات لی جائے گی اور فانوس (زجاجہ) اس کا وہ نوری پردہ ہوگا جس کے باعث وہ عیاں اور آشکارا ہونے کے باوجود اپنی مخلوقات کی نگاہوں سے مخفی اور پنہاں ہے یہ فنا اس لئے نہیں کہ اس کے ظہور میں کچھ کمی ہے بلکہ تجلیات کی فراوانی اور انوار کی کثرت اس بات سے مانع ہے کہ کوئی آنکھ کھول کر اس کو دیکھنے کی جرات کرسکے کیونکہ کسی انسان کی یہ ظاہری آنکھ اس کی ذات کے جلوہ کی متحمل ہی نہیں ہے ، بلاشبہ انسان محض اپنی کوشش اور علم وفضل سے اس نور محض تک رسائی حاصل نہیں کرسکتا بلکہ یہ اللہ تعالیٰ کا انعام ہے اور وہ جس پر چاہتا ہے اور جتنا چاہتا ہے فرما دیتا ہے اور یہ بھی اللہ رب العزت صاحب جبروت کی بندہ پروری ہے کہ وہ ان حقائق ومعارف کو محسوس مثالوں کے ذریعہ سے ہمیں سمجھا دیتا ہے ورنہ ان کو سمجھنا بھی کسی انسان کے بس کا روگ نہ تھا ۔ واضح ہوگیا کہ جنہوں نے خارجی اثرات ضلالت سے اپنی باطنی شمع ہدایت کو گل نہیں کیا ہوتا وہی اس کے نور سے مستفید ومستفیض ہوسکتے ہیں اللہ تعالیٰ ہر فرزند انسانی کی ہدایت و رہنمائی کے لئے مثالیں پیش کرتا ہے اگر وہ آفاق وانفس میں غور کرے تو اس کی ہدایت کے لئے کافی سامان موجود ہے ۔ آفاق میں غور کیا ہے ؟ یہی کہ انسان غور وفکر کرے کہ اس ہماری زمین کا وجود اور اس کی ساخت ‘ اس کا سورج سے ایک خاص فاصلے پر اور ایک خاص زاوئیے پر رکھا جانا ‘ اس پر حرارت اور روشنی کا انتظام ‘ اس پر مختلف موسموں کی آمدورفت ‘ اس کے اوپر ہوا اور پانی کی فراہمی ‘ اس کے پیٹ میں طرح طرح کے بیشمار خزانوں کا مہیا کیا جانا ‘ اس کی سطح پر ایک زرخیز چھلکا چڑھا جانا ‘ اس میں قسم قسم کی بیحد و حساب نباتات کو اگایا جانا اس کے اندر خشکی اور تری اور ہوا کے جانوروں کی بیشمار نسلیں جاری کرنا اور اس میں ہر نوع کی زندگی کے لئے مناسب حالات اور موزوں خوراک کا انتظام کرنا اس پر انسان کے وجود میں لانے سے پہلے وہ تمام ذرائع ووسائل فراہم کردینا جو تاریخ کے ہر مرحلے میں اس کی روز افزوں ضروریات ہی کا نہیں بلکہ اس کی تہذیب و تمدن کے ارتقاء کا ساتھ بھی دیتے چلے جائیں یہ اور دوسری ان گنت نشانیاں ایسی ہیں کہ دیدہ بینا رکھنے والا جس طرف بھی زمین اور اس کے ماحول میں نگاہ ڈالے وہ اس کا دامن دل کھینچ لیتی ہیں جو شخص یقین کے لئے اپنے دل کے دروازے بند کرچکا ہو اس کی بات تو دوسری ہے وہ ان میں اور تو سب کچھ دیکھ لے گا بس حقیقت کی طرف اشارہ کرنے والی کوئی نشانی ہی نہ دیکھے گا مگر جس کا دل تعصب سے پاک اور سچائی کے لئے کھلا ہوا ہے وہ ان چیزوں کو دیکھ کر ہرگز یہ تصور قائم نہ کرے گا کہ یہ سب کچھ کسی اتفاقی دھماکے کا نتیجہ ہے جو کئی ارب سال پہلے کائنات میں اچانک برپا ہوا تھا بلکہ اسے یقین آجائیگا کہ یہ کمال درجہ کی حکیمانہ صفت ضرور ایک قادر مطلب اور دانا وبینا اللہ رب ذوالجلال والاکرام کی تخلیق ہے اور وہ رب جس نے یہ زمین بنائی ہے نہ اس بات سے عاجز ہو سکتا ہے کہ انسان کے مرنے کے بعد دوبارہ پیدا کر دے اور نہ ایسا نادان ہو سکتا ہے کہ اپنی زمین میں عقل و شعور رکھنے والی ایک مخلوق کو اختیارات دے کر بےلگام گھوڑے کی طرح چھوڑے دے ۔ اختیارات کا دیا جانا آپ سے محاسبے کا تقاضا کرتا ہے جو اگر نہ ہو تو حکمت و انصاف کے خلاف ہوگا اور قدرت مطلقہ کا پایا جانا خود بخود اس بات کا ثبوت ہے کہ دنیا میں نوع انسانی کا کام ختم ہونے کے بعد اس کا خالق جب چاہے محاسبے کے لئے اس کے تمام افراد کو زمین کے ہر گوشے میں جہاں بھی وہ بکھرے پڑے ہوں اٹھا کر لاسکتا ہے ۔ انفس میں غور کیا ہے ؟ وہ یہ کہ انسان کو باہر دیکھنے کی بھی حاجت نہیں خود اپنے اندر دیکھو تو تمہیں اس حقیقت پر گواہی دینے والی بیشمار نشانیاں مل جائیں گی کہ کس طرح ایک خوردبینی کیڑے اور جرثومے کو ملا کر ماں کے ایک گوشہ جسم میں جو اس کے لئے مخصوص کردیا گیا ہے تمہاری تخلیق کی بنا ڈالی گئی اور تم میں سے ہر ایک خواہ وہ کوئی ہو کس طرح تمہیں اس تاریک گوشے میں پرورش کرکے بتدریج بڑھایا گیا اور پھر کس طرح تمہیں ایک بےنظیر ساخت کا جسم اور حیرت انگیز قوتوں سے مالا مال نفس عطا کیا گیا ہے ، کس طرح تمہاری بناوٹ کی تکمیل ہوتے ہی شکم مادر کی تنگ وتاریخ دنیا میں سے نکال کر تمہیں اس وسیع و عریض اور روشن دنیا میں اس شان کے ساتھ لایا گیا کہ ایک زبردست خود کار مشین تمہارے اندر نصب ہے جو روز پیدائش سے جوانی اور بڑھاپے تک سانس لینے ‘ غذا ہضم کرنے ‘ خون بنانے اور رگ رگ میں اس کو دوڑانے ‘ فضلات خارج کرنے ‘ تحلیل شدہ اجزائے جسم کی جگہ دوسرے اجزاء تیار کرنے اور اندر سے پیدا ہونے والی یا باہر سے آنے والی آفات کا مقابلہ کرنے اور نقصانات کی تلافی کرنے حتی کہ تھکاوٹ کے بعد تمہیں آرام کے لئے سلا دینے تک کا کام خود بخود کئے جاتی ہے بغیر اس کے تمہاری توجہات اور کوششوں کا کوئی حصہ زندگی کی ان بنیادی ضروریات پر صرف ہو ۔ پھر یہ کہ ایک عجیب دماغ تمہارے کاسہ سر میں رکھ دیا گیا ہے جس کا پیچیدہ تہوں میں عقل وفکر ‘ تخیل و شعور ‘ تمیز و ارادہ ‘ حافظہ ‘ خواہش ‘ احساسات وجذبات ‘ میلانات ورجحانات اور دوسری ذہنی قوتوں کی ایک انمول دولت بھری پڑی ہے ، بہت سے ذرائع علم تم کو دیئے گئے ہیں جو آنکھ ‘ ناک ‘ کان اور پورے جسم کی کھال سے تم کو ہر نوعیت کی اطلاعات بہم پہنچاتے ہیں ۔ زبان اور گویائی کی طاقت تم کو دے دی گئی ہے جس کے ذریعہ تم اپنے مافی الضمیر کا اظہار کرسکتے ہیں اور پھر تمہارے وجود کی اس پوری سلطنت پر تمہاری انا کو ایک رئیس اعظم بنا کر بٹھا دیا گیا ہے کہ ان تمام قوتوں سے کام لے کر رائیں کام کرو اور یہ فیصلہ کرو کہ تمہیں کن راہوں میں اپنے اوقات ‘ محنتوں اور کوششوں کو صرف کرنا ہے کیا چیز رد کرنی ہے اور کیا قبول کرنی ہے ‘ کسی چیز کو اپنا مقصود بنانا ہے اور کس کو نہیں بنانا ۔ ایک ایسی ہستی بنا کر جب تمہیں دنیا میں لایا گیا تو ذرا دیکھو کہ یہاں آتے ہی کتنا سروسامان تمہاری پرورش ‘ نشو ونما اور ترقی وتکمیل ذات کے لئے تیار تھا جس کی بدولت تم زندگی کے ایک خاص مرحلے پر پہنچ کر اپنے ان اختیارات کو استعمال کرنے کے قابل ہوگئے ان اختیارات کو استعمال کرنے کے لئے زمین میں تم کو ذرائع دیئے گئے ‘ مواقع فراہم کئے گئے ‘ بہت سی چیزوں پر تم کو تصرف کی طاقت دی گئی ‘ بہت سے انسانوں کے ساتھ تم نے طرح طرح کے معاملات کیے ‘ تمہارے سامنے کفر و ایمان ‘ فسق وطاعت ‘ ظلم و انصاف ‘ نیکی وبدی ‘ حق و باطل کی تمام راہیں کھلی ہوئی تھیں اور ان راہوں میں سے ہر ایک کی طرف بلانے والے اور ہر ایک کی طرف لے جانے والے اسباب موجود تھے ، تم میں سے جس نے جس راہ کا بھی انتخاب کیا اپنی ذمہ داری پر کیا ‘ کیونکہ فیصلہ وانتخاب کی طاقت اس کے اندر ودیعت تھی ہر ایک کے اپنے ہی انتخاب کے مطابق اس کی نیتوں اور ارادوں کو عمل میں لانے کے جو مواقع اس کو حاصل ہوئے ان سے فائدہ اٹھا کر کوئی نیک بنا اور کوئی بد ‘ کسی نے ایمان کی راہ اختیار کی اور کسی نے کفر وشرک یا دہریت کی راہ لی ‘ کسی نے مرتے دم تک دنیا میں بھلائی کی اور کوئی زندگی کی آخری ساعت تک برائیاں کرتا رہا ‘ کسی نے حق کا بول بالا کرنے کے لئے جان لڑائی اور کوئی باطل کو بلند کرنے کے لئے اہل حق پر دست درازیاں کرتا رہا ۔ ذرا غور کرو کہ کوئی شخص جس کے دیدے بالکل ہی پھوٹ نہ گئے ہوں یہ کہہ سکتا ہے کہ اس طرح کی ایک ہستی زمین پر اتفاقا وجود میں آگئی ہے ؟ کوئی حکمت اور کوئی منصوبہ اس کے پیچھے کارفرما نہیں ہے ؟ زمین پر اس کے ہاتھوں ثمرہ اور کسی بدی کا کوئی پھل نہیں ؟ کسی ظلم کی کوئی داد اور کسی ظالم کی کوئی بازپرس نہیں ؟ اس طرح کی باتیں ایک عقل کا اندھا تو کہہ سکتا ہے یا پھر وہ شخص کہہ سکتا ہے جو پہلے سے قسم کھائے بیٹھا ہو کہ تخلیق انسان کے پیچھے کسی حکیم کی حکمت کو نہیں ماننا ہے مگر ایک غیر متعصب صاحب عقل آدمی یہ مانے بغیر نہیں رہ سکتا کہ انسان جس طرح جن قوتوں اور قابلیتوں کے ساتھ اس دنیا میں پیدا کیا گیا ہے اور جو مشیت اس کو یہاں دی گئی ہے یقینا وہ ایک بہت بڑا حکیمانہ منصوبہ ہے اور جس اللہ رب ذوالجلال والاکرام کا یہ منصوبہ ہے اس کی حکمت لازما یہ تقاضا کرتی ہے کہ انسان سے اس کے اعمال کی باز پرس ہو اور اس کی قدرت کے بارے میں یہ گمان کرنا ہرگز درست نہیں ہو سکتا کہ جس انسان کو وہ ایک خوردبینی خلئے سے شروع کرکے اس مرتبے پر پہنچا سکا ہے اسے پھر وجود میں نہ لاسکے گا ؟ قرآن کریم نے دوسری جگہ اس حقیقت کو ان الفاظ میں بیان کیا ہے (آیت) ” وفی الارض ایت اللموقنین ، وفی انفسکم افلا تبصرون “۔ زمین میں یقین لانے والوں کے لئے بہت سی نشانیاں ہیں اور خود تمہارے اپنے وجود میں بھی کیا تم دیکھتے نہیں “ مزید وضاحت کے لئے سورة یوسف کی آیت 105 کی تفسیر کو دیکھیں ۔ اللہ رب کریم ہی جانتا ہے کہ کتنے لوگ ان امثال ونظائر اور دلائل وبراہین سے کام لیں گے ہاں ! آگے ان لوگوں کی نشاندہی کی جارہی ہے جو ایسی مثالوں سے کام لیتے ہیں کہ وہ کون لوگ ہیں ۔
Top