Urwatul-Wusqaa - An-Noor : 35
اَللّٰهُ نُوْرُ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ١ؕ مَثَلُ نُوْرِهٖ كَمِشْكٰوةٍ فِیْهَا مِصْبَاحٌ١ؕ اَلْمِصْبَاحُ فِیْ زُجَاجَةٍ١ؕ اَلزُّجَاجَةُ كَاَنَّهَا كَوْكَبٌ دُرِّیٌّ یُّوْقَدُ مِنْ شَجَرَةٍ مُّبٰرَكَةٍ زَیْتُوْنَةٍ لَّا شَرْقِیَّةٍ وَّ لَا غَرْبِیَّةٍ١ۙ یَّكَادُ زَیْتُهَا یُضِیْٓءُ وَ لَوْ لَمْ تَمْسَسْهُ نَارٌ١ؕ نُوْرٌ عَلٰى نُوْرٍ١ؕ یَهْدِی اللّٰهُ لِنُوْرِهٖ مَنْ یَّشَآءُ١ؕ وَ یَضْرِبُ اللّٰهُ الْاَمْثَالَ لِلنَّاسِ١ؕ وَ اللّٰهُ بِكُلِّ شَیْءٍ عَلِیْمٌۙ
اَللّٰهُ : اللہ نُوْرُ : نور السَّمٰوٰتِ : آسمانوں وَالْاَرْضِ : اور زمین مَثَلُ : مثال نُوْرِهٖ : اس کا نور كَمِشْكٰوةٍ : جیسے ایک طاق فِيْهَا : اس میں مِصْبَاحٌ : ایک چراغ اَلْمِصْبَاحُ : چراغ فِيْ زُجَاجَةٍ : ایک شیشہ میں اَلزُّجَاجَةُ : وہ شیشہ كَاَنَّهَا : گویا وہ كَوْكَبٌ دُرِّيٌّ : ایک ستارہ چمکدار يُّوْقَدُ : روشن کیا جاتا ہے مِنْ : سے شَجَرَةٍ : درخت مُّبٰرَكَةٍ : مبارک زَيْتُوْنَةٍ : زیتون لَّا شَرْقِيَّةٍ : نہ مشرق کا وَّلَا غَرْبِيَّةٍ : اور نہ مغرب کا يَّكَادُ : قریب ہے زَيْتُهَا : اس کا تیل يُضِيْٓءُ : روشن ہوجائے وَلَوْ : خواہ لَمْ تَمْسَسْهُ : اسے نہ چھوئے نَارٌ : آگ نُوْرٌ عَلٰي نُوْرٍ : روشنی پر روشنی يَهْدِي اللّٰهُ : رہنمائی کرتا ہے اللہ لِنُوْرِهٖ : اپنے نور کی طرف مَنْ يَّشَآءُ : وہ جس کو چاہتا ہے وَيَضْرِبُ : اور بیان کرتا ہے اللّٰهُ : اللہ الْاَمْثَالَ : مثالیں لِلنَّاسِ : لوگوں کے لیے وَاللّٰهُ : اور اللہ بِكُلِّ شَيْءٍ : ہر شے کو عَلِيْمٌ : جاننے والا
اللہ آسمانوں اور زمین کا نور ہے ، اس کا نور ایک ایسے طاق جیسا ہے جس میں ایک چراغ روشن ہے اور وہ روشن چراغ ایک فانوس میں ہے اور فانوس گویا موتی کی طرح چمکتا ہوا ایک ستارہ ہے ، وہ چراغ ہے کہ شجر مبارکہ زیتون (کے تیل) سے روشن کیا گیا ہے جو نہ مشرق کے رخ واقع ہے اور نہ مغرب (کے رُخ) اس کا تیل (اتنا لطیف ہے) کہ اگر اس کو آگ نہ بھی چھوئے تو بھڑک پڑے (اور فضاؤں کو منور کردے) وہ نور پر نور ہے اللہ جس کو چاہتا ہے (اپنے قانون کے مطابق) اپنے نور کی راہ دکھاتا ہے اور اللہ لوگوں کو سمجھانے کی خاطر مثالیں بیان فرماتا ہے اور اللہ کو ہرچیز کا علم ہے
اللہ آسمانوں اور زمین کا نور ہے یہ ایک مثال بیان کی گئی ہے : 56۔ انبیاء کرام (علیہ السلام) کی تعلیمات یکسر رشد وہدایت ‘ نوروبصیرت اور پندوموعظت ہوتی ہیں ‘ ان پر عمل پیرا ہونے سے انسانی قلوب و دماغ میں روشنی پیدا ہوتی ہے اور برکات الہیہ کا نزول ہوتا ہے کہ مگر ان فیوض خداوندی سے مستفید ہونے کے لئے اولین شرط یہ ہے کہ قوم میں اخلاق فاضلہ ہوں ‘ وہ فسق وفجور سے پرہیز کرتی ہو اور نیکی و طہارت اس کا شکار ہو اس لئے ابتدائے سورت میں ایک بدترین اخلاقی جرم پر بحث کی گئی تاکہ آئندہ تعلیم اور نیکی و طہارت اس کا شکار ہو اس لئے ابتدائے سورت میں ایک بدترین اخلاقی جرم پر بحث کی گئی تاکہ آئندہ تعلیم الہی کی نشر و اشاعت میں رکاوٹ نہ پیدا ہو اور نور الہیہ برابر فائز ہوتے رہیں اب بتایا جاتا ہے کہ جب انسانوں کی ایک جماعت اس قانون پر عمل کرے گی تو ان کے قلوب وصدور اللہ کی نور سے روشن ہوجائیں گے اس لئے اللہ تعالیٰ کے نور کی مثال بیان کی گئی ۔ نور کیا ہے ؟ ” نور “ لغت میں اس کیفیت کو کہتے ہیں جو سورج ‘ چاند اور آگ سے پیدا ہو کر زمین اور دیواروں وغیرہ پر پڑتی ہے ۔ ” نار “ اور ” نور “ دونوں کا مادہ ایک ہے نور نورا النور نور نور۔ اسم نکرہ مرفوع ومنصوب ومجرور ومعرفہ مضاف مرفوع ومجرور ۔ سب کا معنی روشنی اگرچہ مختلف آیات میں مراد مختلف ہے مثلا آگ کی روشنی ‘ سورج ‘ چاند اور ستاروں کی روشنی ‘ ایمان کی روشنی ‘ ہدایت کی روشنی ‘ احکام الہی کی روشنی ‘ قرآن کریم کی روشنی ‘ محمد رسول اللہ ﷺ کی روشنی ‘ عام روشنی ‘ شریعت اور براہین الہیہ کی روشنی ‘ اسلام کی روشنی ‘ تجلیات الہیہ کی روشنی ‘ توحید و اعمال صالحہ کی روشنی اور زیر نظر آیت میں نور بمعنی منور ہے روشن کرنے والا ۔ دوسروں کو روشنی عطا کرنے والا ، نور کی اصل تنقیح نار سے ہوتی ہے ۔ ” مشکوۃ “ اسی طاق کو کہتے ہیں جو دیوار کے آر پار نہ ہو ۔ ” مصباح “ چراغ۔ صبح کو صبح اس لئے کہتے ہیں کہ اس میں روشنی ہوتی ہے ” زجاجۃ “ شیشے کی قندیل جو نہایت صافوشفاف ہو۔ ” دری “ میں یائے نسبتی ہے یعنی قندیل صفائی اور چمک میں موتی کے مشابہ ہے ” یوقد “ ایقاد سے لیا گیا ہے اور یہ لفظ آگ یا چراغ روشن کرنے پر بولا جاتا ہے ۔ (السموت والارض) کے الفاظ پوری کائنات کے لئے استعمال ہوتے ہیں مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ” کائنات “ کی روشنی ہے ۔ اللہ ان دیکھی اور ان سمجھی ذات ہے جس کا عقل انسانی احاطہ نہیں کرسکتی اور ظاہر ہے کہ جس کا احاطہ عقل انسانی نہ کرسکتی ہو اس کا احاطہ ممکن ہی نہیں ہے پھر اس کو بیان کرنے کے لئے کیا کیا جائے ؟ یہی کہ اس کو کسی مثال سے سمجھایا جائے اگرچہ اس کی مثال بھی ممکن نہیں ہے کیونکہ ” لیس کمثلہ شیئ “ خود اس کا ارشاد گرامی ہے اس لئے اس کے سمجھنے کے لئے جو الفاظ بھی استعمال کئے جائیں گے محض تفہیم کے لئے ہوں گے ، غور کرو کہ جسم انسانی میں مختلف اعضاء اور جو راح اپنااپنا کام کر رہے ہیں اور ان کے بغیر ہمارا زندہ رہنا ممکن نہیں ہے مگر آپ جب عمیق غور وفکر سے کام لیں گے تو آپ پر یہ حقیقت منکشف ہوجائے گی کہ اصل میں کام کرنے والی ” روح “ انسانی ہے جو ہر رگ وپے میں جاری وساری ہے اور جو ان تمام اعضائے بدن سے اپنا اپنا کام لے رہی ہے اگر وہ نہ ہو تو جسم انسانی ہڈیوں اور گوشت و پوست کے سوا کچھ بھی نہیں جو سب کا سبب بیکار و حرام ہے ۔ بالکل اسی طرح اگرچہ اس کائنات ارض وسماوی میں مختلف چیزیں نظر آتی ہیں لیکن دراصل اللہ ہی کی قدرت ہر جگہ کار فرما ہے اور اس کا نور زمین و آسمان کی روشنی کا باعث ہے ، اس کے نور کا فیضان ایک چراغ میں ہوتا ہے جسے ” خطیرۃ القدس “ کے نام سے بھی یاد کیا جاتا ہے ۔ بلاشبہ اللہ کا تصور فطری چیز ہے جو شخص کسی فطری چیز سے انکار کرتا ہے دراصل اس کا اپنی ذات سے انکار ہے اور پھر جو شخص اپنے ہونے سے انکار کرے اس کو کیا کہا جائے گا ؟ اس کو کیا کہا جاسکتا ہے ؟ فیصلہ خود کرلو جو تمہارا فیصلہ ہوگا وہی اصل فیصلہ قرار پائے گا ، ہم تو یہی کہہ سکتے ہیں کہ جو اللہ رب العزت کو نہیں مانتا وہ اپنی ذات سے ہی انکار کرتا ہے اور اس کے لئے یہ کائنات ایک ظلمت واندھیرے کے سو کچھ بھی نہیں ہے اور جو شخص اللہ رب ذوالجلال والاکرام کی ذات کو مانتا اور تسلیم کرتا ہے اس کی رات بھی دن کی طرح روشن ہے بشرطیکہ اس کا ماننا اس کے دل سے ہو کیونکہ دل کے تسلیم کرنے کے بغیر صرف زبان کی تصدیق کوئی چیز نہیں الا یہ کہ وہ ایک دھوکا ہے اور ایک فریب ہے جو اس نے خود اپنی ذات کو دے رکھا ہے اور پھر اس پر طرہ یہ کہ وہ اس بات کو مانتا بھی نہیں ہے اچھا تو کیا اس کے نہ ماننے سے حقیقت بدل جائے گی ؟ اس مثال کو بھی مثال ہی سے بیان کیا جاسکتا ہے اس لئے زیتون کے تیل کا ذکر کیا گیا : 57۔ اس کا تیل وہ روحانیت ہے جو روح اعظم اور ملاء اعلی کے مجموعہ سے ترتیب دی گئی ہے اور اس کی آگ اللہ کی تجلی کی روشنی ہے پھر جس طرح چراغ سے نور نکل کر قندیل میں روشن ہوتا ہے اور اس طرح تمام مکان کو بقعہ نور بنا دیتا ہے ایسے ہی ملاء سافل ملاء اعلی خطیرۃ القدس سے انوار و تجلیات لے کر زمین و آسمان کی روشنی کا سبب بن جاتے ہیں اور تمام کائنات ارض وسماوی روشن ہوجاتی ہے ، اس وقت جب یہ مثال بیان کی جا رہی تھی لوگ چراغ جلانے کے لئے مختلف قسم کے تیل استعمال کیا کرتے تھے لیکن ان تیلوں میں سے زیتوں کے تیل کے روشنی بڑی تیز اور دھوئیں سے پاک ہوتی تھی اور جس چراغ میں زیتوں کا تیل ڈالا جاتا تھا اس کی چمک دمک کا مقابلہ کوئی اور چراغ نہ کرسکتا تھا پھر زیتون کا درخت اور اس سے نکالا ہوا تیل ایک قسم کا نہیں ہوتا تھا بعض زیتون کے درکت اپنے علاقہ اور آب وہوا کی وجہ سے دوسرے زیتون کے درختوں سے زیادہ عمدہ ہوتے ہیں اور ان سے نکالا ہوا تیل بہت ہی صاف اور روشن ہوتا ہے خصوصا زیتون کا وہ درخت جو پہاڑ کی چوٹی یعنی زمین کے فراز پر اگا ہوا ہو کہ طلوع آفتاب کے وقت بھی اس کی عنابی کرنیں اسے زندگی بخش اثرات سے سرشار کردیں اور جب سورج غروب ہورہا ہو تب بھی۔ اس طرح تازہ ہوا اسے ہر وقت پہنچتی ہو اور خصوصا جب کہ وہ کاٹ کاٹ کر خراب بھی نہ کردیا گیا ہو اور اس طرح کا درخت اپنی قدوقامت میں بھی نمایاں ہوتا ہے اور پھل بھی اور پھر دہنیت میں بھی اور اس کا تیل بھی بڑا نفیس ہوتا ہے یوں محسوس ہوتا ہے کہ اگر اسے آگ نہ بھی لگائی جائے تو بھی از خود روشنی کے شعلے بھڑک اٹھیں گے اور جب اس طرح کا صاف و شفاف تیل اس میں جل رہا ہے جو زیتون کے ایک خاص درخت کا تیل ہے اور پھر دیا بھی ایسا بہترین جو اپنی مثال آپ ہے اور دیا مزید شیشے کی ڈبیا میں رکھا گیا ہے اور شیشے کی ڈبیا کو بھی ایک طاق میں رکھا گیا ہے تاکہ روشنی بندھ کر ایک طرف کو پڑتی رہے اور اس کے جلنے سے دھوئیں کا نام ونشان بھی نہ اٹھے کیا ایسے چراغ کی روشنی دوسرے چراغوں کو مات نہ کرے گی ؟ کیوں نہیں بلاشبہ اس چراغ پر کوئی چراغ بھی فوقیت نہیں رکھے گا بالکل اسی طرح دین اسلام باقی ادیان پر محمد رسول اللہ ﷺ کی نبوت و رسالت دوسرے نبیوں رسولوں کی نبوت و رسالت پر اور قرآن کریم دوسری آسمانی کتابوں پر فوقیت رکھتے ہیں اور رہی اللہ رب ذوالجلال والاکرام کی ذات تو اس کی رفعت شان اور بلندی مرتب کا اندازہ لگایا جا ہی نہیں سکتا اور نہ ہی اس کی مثال کسی مخلوق کے ساتھ دی جاسکتی ہے ۔ ” اس کو آگ نہ بھی چھوئے تو وہ بس بھڑک پڑے “ کا مطلب کیا ؟ 58۔ (آیت) ” یکاد زیتھا یضیء ولولم تمسسہ نار “۔ دراصل ایک محاورہ ہے جو زیتون کے تیل کے صاف شفاف ہونے پر دلالت کرتا ہے اور بلاشبہ اس میں اس چیز کی طرف اشارہ ہے جو چیز زیتون کے تیل سے مراد اصل ہے اور بلاشبہ وہ قلب مومن ہے اس طرح اس کا مطلب بالکل صاف ہوجاتا ہے کہ یہ ایمان ان لوگوں کے سینوں کو اپنا نشیمن بناتا ہے جن کے قلوب ہر قسم کے فساد اور بگاڑ سے محفوظ ہوں جن کی فطرت کا روغن غیر فطری ملاوٹوں سے پاک ہوتا ہے اس لئے وہ خود بخود دعوت ایمانی کی ذرا سی رگڑ سے بھڑک اٹھتا ہے اور وہ انسان نہ صرف یہ کہ خود صالح ہوتا ہے بلکہ وہ دوسروں کو بھی صالح بنانے میں بھرپور حصہ لیتا ہے ، آپ کہہ سکتے ہیں کہ یہ وہ عطر ہے جس کا ڈھکنا اٹھائے بغیر ہی پوری فضا کو معطر کردیتا ہے اور اس کی خوشبو ہر طرف پھیل جاتی ہے ۔ اللہ جسے چاہتا ہے اپنے نور کی طرف رہنمائی فرما دیتا ہے : 59۔ بلاشبہ نور خداوندی ہی نور مطلق ہے جو سارے جہان کو منور کر رہا ہے مگر اس کا ادراک ہر ایک کو نصیب نہیں ہوتا اس کے ادراک کی توفیق اور اس کے فیض سے مستفیض ہونے کی نعمت اللہ تعالیٰ ہی جس کو چاہتا ہے بخشتا ہے ورنہ جس طرح اندھے کے لئے دن رات برابر ہیں اسی طرح بےبصیرت انسان کے لئے ، اس طرح اس آیت میں (نورہ) کی ضمیر کا مرجع اللہ رب ذوالجلال والاکرام ہے اور مصباح سے مراد ذات الہ ہے اور مشکوۃ سے مراد ساری کائنات لی جائے گی اور فانوس (زجاجہ) اس کا وہ نوری پردہ ہوگا جس کے باعث وہ عیاں اور آشکارا ہونے کے باوجود اپنی مخلوقات کی نگاہوں سے مخفی اور پنہاں ہے یہ فنا اس لئے نہیں کہ اس کے ظہور میں کچھ کمی ہے بلکہ تجلیات کی فراوانی اور انوار کی کثرت اس بات سے مانع ہے کہ کوئی آنکھ کھول کر اس کو دیکھنے کی جرات کرسکے کیونکہ کسی انسان کی یہ ظاہری آنکھ اس کی ذات کے جلوہ کی متحمل ہی نہیں ہے ، بلاشبہ انسان محض اپنی کوشش اور علم وفضل سے اس نور محض تک رسائی حاصل نہیں کرسکتا بلکہ یہ اللہ تعالیٰ کا انعام ہے اور وہ جس پر چاہتا ہے اور جتنا چاہتا ہے فرما دیتا ہے اور یہ بھی اللہ رب العزت صاحب جبروت کی بندہ پروری ہے کہ وہ ان حقائق ومعارف کو محسوس مثالوں کے ذریعہ سے ہمیں سمجھا دیتا ہے ورنہ ان کو سمجھنا بھی کسی انسان کے بس کا روگ نہ تھا ۔ واضح ہوگیا کہ جنہوں نے خارجی اثرات ضلالت سے اپنی باطنی شمع ہدایت کو گل نہیں کیا ہوتا وہی اس کے نور سے مستفید ومستفیض ہوسکتے ہیں اللہ تعالیٰ ہر فرزند انسانی کی ہدایت و رہنمائی کے لئے مثالیں پیش کرتا ہے اگر وہ آفاق وانفس میں غور کرے تو اس کی ہدایت کے لئے کافی سامان موجود ہے ۔ آفاق میں غور کیا ہے ؟ یہی کہ انسان غور وفکر کرے کہ اس ہماری زمین کا وجود اور اس کی ساخت ‘ اس کا سورج سے ایک خاص فاصلے پر اور ایک خاص زاوئیے پر رکھا جانا ‘ اس پر حرارت اور روشنی کا انتظام ‘ اس پر مختلف موسموں کی آمدورفت ‘ اس کے اوپر ہوا اور پانی کی فراہمی ‘ اس کے پیٹ میں طرح طرح کے بیشمار خزانوں کا مہیا کیا جانا ‘ اس کی سطح پر ایک زرخیز چھلکا چڑھا جانا ‘ اس میں قسم قسم کی بیحد و حساب نباتات کو اگایا جانا اس کے اندر خشکی اور تری اور ہوا کے جانوروں کی بیشمار نسلیں جاری کرنا اور اس میں ہر نوع کی زندگی کے لئے مناسب حالات اور موزوں خوراک کا انتظام کرنا اس پر انسان کے وجود میں لانے سے پہلے وہ تمام ذرائع ووسائل فراہم کردینا جو تاریخ کے ہر مرحلے میں اس کی روز افزوں ضروریات ہی کا نہیں بلکہ اس کی تہذیب و تمدن کے ارتقاء کا ساتھ بھی دیتے چلے جائیں یہ اور دوسری ان گنت نشانیاں ایسی ہیں کہ دیدہ بینا رکھنے والا جس طرف بھی زمین اور اس کے ماحول میں نگاہ ڈالے وہ اس کا دامن دل کھینچ لیتی ہیں جو شخص یقین کے لئے اپنے دل کے دروازے بند کرچکا ہو اس کی بات تو دوسری ہے وہ ان میں اور تو سب کچھ دیکھ لے گا بس حقیقت کی طرف اشارہ کرنے والی کوئی نشانی ہی نہ دیکھے گا مگر جس کا دل تعصب سے پاک اور سچائی کے لئے کھلا ہوا ہے وہ ان چیزوں کو دیکھ کر ہرگز یہ تصور قائم نہ کرے گا کہ یہ سب کچھ کسی اتفاقی دھماکے کا نتیجہ ہے جو کئی ارب سال پہلے کائنات میں اچانک برپا ہوا تھا بلکہ اسے یقین آجائیگا کہ یہ کمال درجہ کی حکیمانہ صفت ضرور ایک قادر مطلب اور دانا وبینا اللہ رب ذوالجلال والاکرام کی تخلیق ہے اور وہ رب جس نے یہ زمین بنائی ہے نہ اس بات سے عاجز ہو سکتا ہے کہ انسان کے مرنے کے بعد دوبارہ پیدا کر دے اور نہ ایسا نادان ہو سکتا ہے کہ اپنی زمین میں عقل و شعور رکھنے والی ایک مخلوق کو اختیارات دے کر بےلگام گھوڑے کی طرح چھوڑے دے ۔ اختیارات کا دیا جانا آپ سے محاسبے کا تقاضا کرتا ہے جو اگر نہ ہو تو حکمت و انصاف کے خلاف ہوگا اور قدرت مطلقہ کا پایا جانا خود بخود اس بات کا ثبوت ہے کہ دنیا میں نوع انسانی کا کام ختم ہونے کے بعد اس کا خالق جب چاہے محاسبے کے لئے اس کے تمام افراد کو زمین کے ہر گوشے میں جہاں بھی وہ بکھرے پڑے ہوں اٹھا کر لاسکتا ہے ۔ انفس میں غور کیا ہے ؟ وہ یہ کہ انسان کو باہر دیکھنے کی بھی حاجت نہیں خود اپنے اندر دیکھو تو تمہیں اس حقیقت پر گواہی دینے والی بیشمار نشانیاں مل جائیں گی کہ کس طرح ایک خوردبینی کیڑے اور جرثومے کو ملا کر ماں کے ایک گوشہ جسم میں جو اس کے لئے مخصوص کردیا گیا ہے تمہاری تخلیق کی بنا ڈالی گئی اور تم میں سے ہر ایک خواہ وہ کوئی ہو کس طرح تمہیں اس تاریک گوشے میں پرورش کرکے بتدریج بڑھایا گیا اور پھر کس طرح تمہیں ایک بےنظیر ساخت کا جسم اور حیرت انگیز قوتوں سے مالا مال نفس عطا کیا گیا ہے ، کس طرح تمہاری بناوٹ کی تکمیل ہوتے ہی شکم مادر کی تنگ وتاریخ دنیا میں سے نکال کر تمہیں اس وسیع و عریض اور روشن دنیا میں اس شان کے ساتھ لایا گیا کہ ایک زبردست خود کار مشین تمہارے اندر نصب ہے جو روز پیدائش سے جوانی اور بڑھاپے تک سانس لینے ‘ غذا ہضم کرنے ‘ خون بنانے اور رگ رگ میں اس کو دوڑانے ‘ فضلات خارج کرنے ‘ تحلیل شدہ اجزائے جسم کی جگہ دوسرے اجزاء تیار کرنے اور اندر سے پیدا ہونے والی یا باہر سے آنے والی آفات کا مقابلہ کرنے اور نقصانات کی تلافی کرنے حتی کہ تھکاوٹ کے بعد تمہیں آرام کے لئے سلا دینے تک کا کام خود بخود کئے جاتی ہے بغیر اس کے تمہاری توجہات اور کوششوں کا کوئی حصہ زندگی کی ان بنیادی ضروریات پر صرف ہو ۔ پھر یہ کہ ایک عجیب دماغ تمہارے کاسہ سر میں رکھ دیا گیا ہے جس کا پیچیدہ تہوں میں عقل وفکر ‘ تخیل و شعور ‘ تمیز و ارادہ ‘ حافظہ ‘ خواہش ‘ احساسات وجذبات ‘ میلانات ورجحانات اور دوسری ذہنی قوتوں کی ایک انمول دولت بھری پڑی ہے ، بہت سے ذرائع علم تم کو دیئے گئے ہیں جو آنکھ ‘ ناک ‘ کان اور پورے جسم کی کھال سے تم کو ہر نوعیت کی اطلاعات بہم پہنچاتے ہیں ۔ زبان اور گویائی کی طاقت تم کو دے دی گئی ہے جس کے ذریعہ تم اپنے مافی الضمیر کا اظہار کرسکتے ہیں اور پھر تمہارے وجود کی اس پوری سلطنت پر تمہاری انا کو ایک رئیس اعظم بنا کر بٹھا دیا گیا ہے کہ ان تمام قوتوں سے کام لے کر رائیں کام کرو اور یہ فیصلہ کرو کہ تمہیں کن راہوں میں اپنے اوقات ‘ محنتوں اور کوششوں کو صرف کرنا ہے کیا چیز رد کرنی ہے اور کیا قبول کرنی ہے ‘ کسی چیز کو اپنا مقصود بنانا ہے اور کس کو نہیں بنانا ۔ ایک ایسی ہستی بنا کر جب تمہیں دنیا میں لایا گیا تو ذرا دیکھو کہ یہاں آتے ہی کتنا سروسامان تمہاری پرورش ‘ نشو ونما اور ترقی وتکمیل ذات کے لئے تیار تھا جس کی بدولت تم زندگی کے ایک خاص مرحلے پر پہنچ کر اپنے ان اختیارات کو استعمال کرنے کے قابل ہوگئے ان اختیارات کو استعمال کرنے کے لئے زمین میں تم کو ذرائع دیئے گئے ‘ مواقع فراہم کئے گئے ‘ بہت سی چیزوں پر تم کو تصرف کی طاقت دی گئی ‘ بہت سے انسانوں کے ساتھ تم نے طرح طرح کے معاملات کیے ‘ تمہارے سامنے کفر و ایمان ‘ فسق وطاعت ‘ ظلم و انصاف ‘ نیکی وبدی ‘ حق و باطل کی تمام راہیں کھلی ہوئی تھیں اور ان راہوں میں سے ہر ایک کی طرف بلانے والے اور ہر ایک کی طرف لے جانے والے اسباب موجود تھے ، تم میں سے جس نے جس راہ کا بھی انتخاب کیا اپنی ذمہ داری پر کیا ‘ کیونکہ فیصلہ وانتخاب کی طاقت اس کے اندر ودیعت تھی ہر ایک کے اپنے ہی انتخاب کے مطابق اس کی نیتوں اور ارادوں کو عمل میں لانے کے جو مواقع اس کو حاصل ہوئے ان سے فائدہ اٹھا کر کوئی نیک بنا اور کوئی بد ‘ کسی نے ایمان کی راہ اختیار کی اور کسی نے کفر وشرک یا دہریت کی راہ لی ‘ کسی نے مرتے دم تک دنیا میں بھلائی کی اور کوئی زندگی کی آخری ساعت تک برائیاں کرتا رہا ‘ کسی نے حق کا بول بالا کرنے کے لئے جان لڑائی اور کوئی باطل کو بلند کرنے کے لئے اہل حق پر دست درازیاں کرتا رہا ۔ ذرا غور کرو کہ کوئی شخص جس کے دیدے بالکل ہی پھوٹ نہ گئے ہوں یہ کہہ سکتا ہے کہ اس طرح کی ایک ہستی زمین پر اتفاقا وجود میں آگئی ہے ؟ کوئی حکمت اور کوئی منصوبہ اس کے پیچھے کارفرما نہیں ہے ؟ زمین پر اس کے ہاتھوں ثمرہ اور کسی بدی کا کوئی پھل نہیں ؟ کسی ظلم کی کوئی داد اور کسی ظالم کی کوئی بازپرس نہیں ؟ اس طرح کی باتیں ایک عقل کا اندھا تو کہہ سکتا ہے یا پھر وہ شخص کہہ سکتا ہے جو پہلے سے قسم کھائے بیٹھا ہو کہ تخلیق انسان کے پیچھے کسی حکیم کی حکمت کو نہیں ماننا ہے مگر ایک غیر متعصب صاحب عقل آدمی یہ مانے بغیر نہیں رہ سکتا کہ انسان جس طرح جن قوتوں اور قابلیتوں کے ساتھ اس دنیا میں پیدا کیا گیا ہے اور جو مشیت اس کو یہاں دی گئی ہے یقینا وہ ایک بہت بڑا حکیمانہ منصوبہ ہے اور جس اللہ رب ذوالجلال والاکرام کا یہ منصوبہ ہے اس کی حکمت لازما یہ تقاضا کرتی ہے کہ انسان سے اس کے اعمال کی باز پرس ہو اور اس کی قدرت کے بارے میں یہ گمان کرنا ہرگز درست نہیں ہو سکتا کہ جس انسان کو وہ ایک خوردبینی خلئے سے شروع کرکے اس مرتبے پر پہنچا سکا ہے اسے پھر وجود میں نہ لاسکے گا ؟ قرآن کریم نے دوسری جگہ اس حقیقت کو ان الفاظ میں بیان کیا ہے (آیت) ” وفی الارض ایت اللموقنین ، وفی انفسکم افلا تبصرون “۔ زمین میں یقین لانے والوں کے لئے بہت سی نشانیاں ہیں اور خود تمہارے اپنے وجود میں بھی کیا تم دیکھتے نہیں “ مزید وضاحت کے لئے سورة یوسف کی آیت 105 کی تفسیر کو دیکھیں ۔ اللہ رب کریم ہی جانتا ہے کہ کتنے لوگ ان امثال ونظائر اور دلائل وبراہین سے کام لیں گے ہاں ! آگے ان لوگوں کی نشاندہی کی جارہی ہے جو ایسی مثالوں سے کام لیتے ہیں کہ وہ کون لوگ ہیں ۔
Top