Dure-Mansoor - Yaseen : 38
وَ الشَّمْسُ تَجْرِیْ لِمُسْتَقَرٍّ لَّهَا١ؕ ذٰلِكَ تَقْدِیْرُ الْعَزِیْزِ الْعَلِیْمِؕ
وَالشَّمْسُ : اور سورج تَجْرِيْ : چلتا رہتا ہے لِمُسْتَقَرٍّ : ٹھکانے (مقررہ راستہ لَّهَا ۭ : اپنے ذٰلِكَ : یہ تَقْدِيْرُ : نظام الْعَزِيْزِ : غالب الْعَلِيْمِ : جاننے والا (دانا)
اور سورج اپنے ٹھکانے کی طرف چلتا ہے یہ اس کا مقرر کیا ہوا ہے جو زبردست ہے علم والا ہے
1:۔ عبد بن حمید (رح) والبخاری والترمذی وابن ابی حاتم (رح) وابوالشیخ فی العظمہ، ابن مردویہ اور بیہقی نے الاسماء والصفات میں ابوذر ؓ سے روایت کیا کہ میں نبی کریم ﷺ کے ساتھ مسجد میں تھا سورج کے غروب ہونے کے وقت آپ نے فرمایا اے ابوذر کیا تو جانتا ہے کہ سورج کہاں غروب ہوتا ہے میں کہا اللہ اور اس کا رسول ہی زیادہ جانتے ہیں آپ نے فرمایا یہ جاتا ہے اور عرش کے نیچے سجدہ کرتا ہے اسی کو فرمایا (آیت) ” والشمس تجری لمستقرلھا “ (اور سورج جو اپنے ٹھکانے کی طرف چلتا رہتا ہے) یعنی اس کا ٹھکانہ عرش کے نیچے سے۔ 2:۔ سعید بن منصور، احمد و بخاری ومسلم و ابوداؤد والترمذی والنسائی وابن ابی حاتم (رح) وابوالشیخ وابن مردویہ و بیہقی نے ابوذر ؓ سے روایت کیا کہ میں نے نبی کریم ﷺ سے اللہ تعالیٰ کے اس قول (آیت) ” والشمس تجری لمستقرلھا “ کے بارے میں پوچھا تو آپ نے فرمایا کہ اس کا ٹھکانہ عرش کے نیچے ہے۔ سورج کا سجدہ ریز ہونا : 3:۔ سعید بن منصور (رح) واحمد (رح) والترمذی وابن جریر (رح) وابن المنذر (رح) وابن ابی حاتم (رح) نے ابوذر ؓ سے روایت کیا کہ میں مسجد میں داخل ہوا جبکہ سورج غروب ہوچکا تھا اور نبی کریم ﷺ تشریف فرما رہے تھے آپ نے فرمایا اے ابوذر ! کیا تو جانتا ہے کہ یہ کہاں جاتا ہے ؟ میں نے عرض کیا اللہ اور اس کا رسول ہی زیادہ جانتے ہیں۔ فرمایا : یہ جاتا ہے یہاں تک کہ اپنے رب کے سامنے سجدہ کرتا ہے پھر واپس لوٹنے کی اجازت طلب کرتا ہے تو اس کو اجازت دی جاتی ہے اور گویا اس سے فرمایا گیا وہاں سے طلوع ہو جہاں سے تو آیا ہے تو وہ اپنے مغرب سے طلوع کرتا ہے پھر یہ (آیت) ” وذلک مستقرلھا “ (اور یہ اس کا ٹھکانہ ہے) پھر فرمایا اور یہ عبداللہ کی قرأت ہے۔ 4:۔ عبدالرزاق وابن المنذر (رح) وابن ابی حاتم (رح) وابوالشیخ نے عبد اللہ بن عمر ؓ سے اس آیت کے بارے میں روایت کیا کہ (آیت) ” مستقرلھا “ اگر وہ طلوع کرے تو بنی آدم کے گناہ اس کو لوٹا دیتے ہیں۔ جب وہ غروب ہوتا ہے تو عاجزی کا اظہار کرتا ہے۔ اور سجدہ کرتا ہے، اور اجازت طلب کرتا ہے تو اس کو اجازت دے دی جاتی ہے۔ یہاں تک کہ جب وہ غروب ہوتا ہے عاجزی کا اظہار کرتا ہے تو اس کو اجازت نہیں ملتی اور وہ کہتا ہے سفر دور ہے اگر مجھے اجازت نہ دی گئی تو میں نہیں پہنچ سکوں گا تو اس کو روک دیا جاتا ہے جتنا عرصہ اللہ تعالیٰ اس کو روکنا چاہتا ہے پھر اسے کہا جائے گا اس طرف سے طلوع ہو جس طرف سے غروب ہوتا ہے فرمایا یہ اس دن سے قیامت کا سلسلہ یوں ہی جاری رہے گا فرمایا (آیت ) ’ لاینفع نفسا ایمانھا “ (الانعام آیت 158) (کہ کسی شخص کو اس کا ایمان نفع نہیں دے گا) 5:۔ ابوعبید نے اپنے فضائل میں وابن الانباری نے المصاحف میں واحمد نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ وہ اس کو (آیت) ” والشمس تجری لمستقرلھا “ پڑھتے تھے۔ 6:۔ ابن ابی حاتم (رح) وابوالشیخ نے العظمہ میں ابن عمر ؓ سے روایت کیا کہ اگر سورج زمین والوں سے ایک ہی راستہ پر چلتا تو وہ اس سے ڈرجاتے لیکن گرمی کے موسم میں جلد پناہ لیتا ہے اور ایک طرف ہو کر چلتا ہے، سردی کے موسم میں اگر وہ سردی کے موسم میں اس مطلع سے طلوع ہو جو اس کا گرمی کے موسم کا مطلع ہے تو گرمی لوگوں کو بھون ڈالے اور اگر وہ گرمی کے موسم میں اس مطلع سے طلوع ہو جو اس کے سردی کے موسم کا مطلع ہے تو سردی ان کو ہلاک کردے۔ 7:۔ ابن المنذر (رح) وابن ابی حاتم (رح) نے ابو راشد (رح) سے روایت کیا کہ (آیت) ” والشمس تجری لمستقرلھا “ سے مراد سجدہ کرنے کی جگہ ہے۔ 8:۔ عبد بن حمید وابن جریر (رح) وابن ابی حاتم (رح) وابن الانباری نے المصاحف میں قتادہ ؓ سے روایت کیا کہ (آیت) ” والشمس تجری لمستقرلھا “ سے مراد ہے کہ (سورج چلتا ہے) اپنے وقت اور مدت میں اس سے تجاوز نہیں کرتا۔
Top