Dure-Mansoor - An-Nisaa : 176
یَسْتَفْتُوْنَكَ١ؕ قُلِ اللّٰهُ یُفْتِیْكُمْ فِی الْكَلٰلَةِ١ؕ اِنِ امْرُؤٌا هَلَكَ لَیْسَ لَهٗ وَلَدٌ وَّ لَهٗۤ اُخْتٌ فَلَهَا نِصْفُ مَا تَرَكَ١ۚ وَ هُوَ یَرِثُهَاۤ اِنْ لَّمْ یَكُنْ لَّهَا وَلَدٌ١ؕ فَاِنْ كَانَتَا اثْنَتَیْنِ فَلَهُمَا الثُّلُثٰنِ مِمَّا تَرَكَ١ؕ وَ اِنْ كَانُوْۤا اِخْوَةً رِّجَالًا وَّ نِسَآءً فَلِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الْاُنْثَیَیْنِ١ؕ یُبَیِّنُ اللّٰهُ لَكُمْ اَنْ تَضِلُّوْا١ؕ وَ اللّٰهُ بِكُلِّ شَیْءٍ عَلِیْمٌ۠   ۧ
يَسْتَفْتُوْنَكَ : آپ سے حکم دریافت کرتے ہیں قُلِ : کہ دیں اللّٰهُ : اللہ يُفْتِيْكُمْ : تمہیں حکم بتاتا ہے فِي الْكَلٰلَةِ : کلالہ (کے بارہ) میں ِاِنِ : اگر امْرُؤٌا : کوئی مرد هَلَكَ : مرجائے لَيْسَ : نہ ہو لَهٗ وَلَدٌ : اس کی کوئی اولاد وَّلَهٗٓ : اور اس کی ہو اُخْتٌ : ایک بہن فَلَهَا : تو اس کے لیے نِصْفُ : نصف مَا تَرَكَ : جو اس نے چھوڑا (ترکہ) وَهُوَ : اور وہ يَرِثُهَآ : اس کا وارث ہوگا اِنْ : اگر لَّمْ يَكُنْ : نہ ہو لَّهَا : اس کا وَلَدٌ : کوئی اولاد فَاِنْ : پھر اگر كَانَتَا : ہوں اثْنَتَيْنِ : دو بہنیں فَلَهُمَا : تو ان کے لیے الثُّلُثٰنِ : دو تہائی مِمَّا : اس سے جو تَرَكَ : اس نے چھوڑا (ترکہ) وَاِنْ : اور اگر كَانُوْٓا : ہوں اِخْوَةً : بھائی بہن رِّجَالًا : کچھ مرد وَّنِسَآءً : اور کچھ عورتیں فَلِلذَّكَرِ : تو مرد کے لیے مِثْلُ : برابر حَظِّ : حصہ الْاُنْثَيَيْنِ : دو عورت يُبَيِّنُ : کھول کر بیان کرتا ہے اللّٰهُ : اللہ لَكُمْ : تمہارے لیے اَنْ تَضِلُّوْا : تاکہ بھٹک نہ جاؤ وَاللّٰهُ : اور اللہ بِكُلِّ : ہر شَيْءٍ : چیز عَلِيْمٌ : جاننے والا
لوگ آپ سے فتوی طلب کرتے ہیں آپ فرما دیجئے اللہ تمہیں کلالہ کے بارے میں فتوی دیتا ہے، اگر کوئی شخص مرجائے اس کے کوئی اولاد نہیں اور اس کی ایک بہن ہے تو اس کے لئے اس مال میں کا آدھا ہے جو مرنے والے نے چھوڑا اور بہن کے پورے مال کا وارث ہوگا اگر اس بہن کے کوئی اولاد نہ ہو پس اگر دو بہنیں ہیں تو ان کے لئے اس مال میں سے دو تہائی ہے جو مرنے والے نے چھوڑا۔ اور اگر یہ لوگ بہن بھائی ہوں تو ایک مرد کے لئے دو عورتوں کے حصے کے برابر ہے، اللہ تمہارے لئے بیان فرماتا ہے تاکہ تم گمراہ نہ ہو، اور اللہ ہر چیز کا جاننے والا ہے
(1) ابن سعد واحمد و بخاری ومسلم و ابوداؤد و ترمذی و نسائی وابن ماجہ وابن جریر وابن المنذر والبیہقی نے جابر بن عبد اللہ ؓ سے روایت کیا کہ میرے پاس رسول اللہ ﷺ تشریف لائے اور میں مریض تھا اس حال میں کہ میری عقل ٹھکانے نہیں تھی آپ نے وضو فرمایا پھر مجھ پر پانی ڈالا تو مجھے عقل آگئی میں نے عرض کیا میرا کلالہ کے سوا کوئی وارث نہیں تو میراث کیسے تقسیم ہوگی تو یہ آیت فرائض (میراث) نازل ہوئی۔ (2) ابن سعد وابن ابی حاتم نے جابر ؓ سے لفظ آیت ” یستفتونک قل اللہ یفتیکم فی الکللۃ “ کے بارے میں روایت کیا کہ یہ آیت میرے بارے میں نازل ہوئی۔ (3) ابن راھویہ وابن مردویہ نے حضرت عمر ؓ سے روایت کیا کہ انہوں نے رسول اللہ ﷺ سے پوچھا کلالہ کی وراثت کیسے تقسیم ہوتی ہے تو اللہ تعالیٰ نے یہ اتارا لفظ آیت ” یستفتونک قل اللہ یفتیکم فی الکللۃ “ آخر تک۔ گویا حضرت عمر ؓ اس کو اچھی طرح نہ سمجھ سکے تو انہوں نے حفصہ ؓ سے فرمایا کہ جب تو رسول اللہ ﷺ کو ہشاش بشاش دیکھے تو ان سے پوچھ لینا۔ جب انہوں نے آپ کو ہشاش بشاش دیکھا تو ان سے پوچھ لیا آپ ﷺ نے فرمایا تیرے باپ نے تجھ سے یہ کہا تھا میرا خیال نہیں کہ وہ اسے جانتا ہے حضرت عمر ؓ فرمایا کرتے تھے کہ مجھے یہ خیال نہ تھا کہ میں اس کو جانتا ہوں اور رسول اللہ ﷺ نے جو کچھ فرمایا۔ (4) عبد الرزاق و سعید بن منصور وابن مردویہ نے طاؤس (رح) سے روایت کیا کہ حضرت عمر ؓ نے (اپنی بیٹی) حفصہ کو حکم فرمایا کہ وہ نبی ﷺ سے کلالہ کے بارے میں پوچھے میں نے آپ سے پوچھا تو آپ نے اس کو ایک کندھے کی ہڈی پر لکھ دیا آپ نے پوچھا تجھے اس کا کس نے کہا تھا کیا عمر نے ؟ میں نہیں خیال کرتا ہوں کہ وہ اس کو اچھی طرح سمجھتا ہے۔ کیا اس کو آیۃ الصیف کافی نہیں ہے ؟ سفیان نے کہا آیۃ الصیف جو سورة نساء میں ہے یعنی لفظ آیت ” وان کان رجل یورث کللۃ “ (النساء آیت 2) ” او امراہ “ جب لوگوں نے رسول اللہ ﷺ سے سوال کیا تو آیت نازل ہوئی جو سورة نساء کے آخر میں ہے۔ (5) مالک ومسلم وابن جریر و بیہقی نے عمر ؓ سے روایت کیا کہ میں نے نبی ﷺ سے زیادہ کبھی کسی چیز کے بارے میں سوال نہیں کیا جتنا میں نے کلالہ کے بارے میں سوال کیا یہاں تک کہ آپ نے میرے سینے میں اپنی انگلی چھبو دی اور فرمایا تجھ کو آیۃ الصیف کافی ہے جو سورة نساء کے آخر میں ہے۔ کلالہ کا حکم (7) عبد بن حمید وابو داؤد (مراسیل میں) اور بیہقی نے ابو سلمہ بن عبد الرحمن ؓ سے روایت کیا کہ ایک آدمی نبی ﷺ کے پاس آیا اور اس نے کلالہ کے بارے میں پوچھا آپ نے فرمایا کیا تو نے وہ آیت نہیں سنی جو سورة صیف میں نازل ہوئی۔ لفظ آیت ” یستفتونک قل اللہ یفتیکم فی الکللۃ “ یعنی جو کوئی شخص نہ اولاد چھوڑے اور نہ والد چھوڑے تو کلالہ اس کا وارث ہوگا۔ (8) عبد الرزاق و بخاری ومسلم وابن جریر وابن المنذر نے حضرت عمر ؓ سے روایت کیا کہ تین چیزیں اس میں ہیں کہ جن کے بارے میں، میں پسند کرتا تھا کہ رسول اللہ ﷺ ہم کو حتمی حکم ارشاد فرماتے جس پر ہم عمل کرتے یعنی دادا اور کلالہ اور سود کے دروازوں میں سے دروازے (یعنی سود کی صورتیں) ۔ (9) احمد نے عمر ؓ سے روایت کیا کہ میں نے نبی ﷺ سے کلالہ کے بارے میں پوچھا تو آپ نے فرمایا تجھ کو آیۃ الصیف کافی ہے اور میں اس بات کو زیادہ محبوب رکھتا تھا کہ میں آپ سے اس کے بارے میں سوال کروں اس بات سے بھی زیادہ محبوب کہ (اس کے بدلے میں) میرے لئے سرخ اونٹ ہوجائیں۔ (10) عبد الرزاق والمدنی وابن المنذر حاکم نے حضرت عمر ؓ سے روایت کیا کہ میں چند باتوں کو نبی ﷺ سے دریافت کروں یہ میرے نزدیک سرخ اونٹون سے بھی زیادہ محبوب تھا آپ کے بعد خلیفہ (کون ہوگا) اور اس قوم کے بارے میں جو یہ کہتی کہ ہم پہ تو تسلیم کرتے ہیں کہ ہمارے مالوں میں زکوٰۃ فرض ہے لیکن ہم تم کو نہیں دیں گے کیا ان کے ساتھ قتال کرنا حلال ہے ؟ اور کلالہ کے بارے میں۔ (11) الطیالسی وعبد الرزاق وابن ماجہ والنسائی وابن جریر وحاکم و بیہقی نے حضرت عمر ؓ سے روایت کیا کہ تین چیزیں ایسی ہیں کہ ان کے بارے میں نبی ﷺ کو وضاحت فرماتے تو یہ میرے لئے دنیا اور مافیھا سے بہتر ہوں خلافتہ کلالہ اور سود۔ (12) الطبرانی نے سمرہ بن جندب ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ کے پاس ایک آدمی کلالہ کے بارے میں فتوی لینے کے لئے آیا اور کہنے لگا یا رسول اللہ ! مجھے خبر دیجئے کیا کلالہ سے مراد اس کی ماں باپ کی طرف سے بھائی ہیں۔ رسول اللہ ﷺ نے اس کو کچھ نہیں فرمایا سوائے اس کے کہ اس پر آپ نے کلالہ کی آیت پڑھی جو سورة نساء میں ہے پھر آدمی نے اپنے سوال کو دہرایا جب بھی اس نے سوال تو آپ نے اس آیت (کلالہ والی) کو پڑھ دیا یہاں تک کہ جب اکثر مرتبہ ایسا ہوا تو وہ آدمی شور مچانے لگا اور اس کا شور سخت ہوا اور حرص کی وجہ سے کہ نبی ﷺ اس کے لئے مزید کچھ بیان فرمائیں گے مگر آپ نے (پھر بھی) اس پر وہی آیت پڑھی اور اس سے فرمایا اللہ کی قسم ! جو میں نے تجھے دے دیا اس پر میں زیادہ نہیں کروں گا۔ (13) عبد الرزاق و سعید بن منصور وابن ابی شیبہ وابن جریر وابن المنذر وابن ابی حاتم وحاکم و بیہقی نے اپنی سنن میں ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ میں وہ آخری آدمی ہوں عمر کے لحاظ سے میں نے آپ کو یہ فرماتے ہوئے سنا (میرا وہی قول ہے جو میں نے کہا۔ میں نے پوچھا آپ نے کیا فرمایا آپ نے فرمایا میں نے کہا کلالہ وہ ہوتا ہے جس کی کوئی اولاد نہ ہو۔ (14) ابن جریر نے طارق بن شہاب (رح) سے روایت کیا کہ حضرت عمر ؓ نے کندھا پکڑا اور نبی ﷺ کے اصحاب کو جمع فرمایا پھر فرمایا میں کلالہ کے بارے میں ضرور فیصلہ کروں گا ایسا فیصلہ کہ جس کو عورتیں اپنے پردہ میں بیان کریں گی اس وقت ایک سانپ گھر سے نکل پڑا تو سب لوگ متفرق ہوگئے تو حضرت عمر ضی اللہ عنہ نے فرمایا اگر اللہ تعالیٰ اس کام کو پورا کرنے کا ارادہ فرماتے تو میں اس کو ضرور پورا کرتا۔ کلالہ کے بارے میں حضرت عمر ؓ کی تحقیق (15) عبد الرزاق نے سعید بن المسیب (رح) سے روایت کیا کہ حضرت عمر ؓ نے جد اور کلالہ کے بارے میں ایک کتاب لکھی پھر وہ یونہی ٹھہرے رہے تاکہ اللہ تعالیٰ سے استخارہ کریں اور یوں دعا کرتے تھے اے اللہ ! اگر تو جانتا ہے کہ اس میں خیر ہے تو اسے جاری کرتے جب آپ کو زخمی کیا گیا تو آپ نے اس کتاب کو منگوایا اور مٹا دیا کسی نے نہیں جانا کہ اس میں انہوں نے کیا لکھا تھا اس کے بعد حضرت عمر ؓ نے فرمایا میں نے دادا اور کلالہ کے بارے میں لکھا تھا اور میں اللہ تعالیٰ اس بارے میں استخارہ کرتا رہا تو میں اس رائے پر پہنچا کہ میں تم کو اسی حال پر چھوڑدوں جس پر تم ہو۔ (16) عبد الرزاق وابن سعد نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ میں پہلا آدمی تھا جو عمر کے پاس آیا جب ان کو زخمی کیا گیا تو عمر نے فرمایا مجھ سے تین باتیں یاد کرلو بلاشبہ میں ڈرتا ہوں کہ مجھ کو لوگ نہیں پائیں گے کہ میں فوت ہوجاؤں گا۔ (1) میں نے کلالہ کے بارے میں فیصلہ نہیں کیا۔ (2) میں نے لوگوں پر کسی کو خلیفہ نامزد نہیں کیا۔ (3) میرا ہر غلام آزاد ہے۔ (17) احمد نے عمر والقاری ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ سعد کے پاس تشریف لائے جبکہ ان کو شدید درد تھا انہوں نے عرض کیا یا رسول اللہ ! میرے پاس مال ہے میرا ورثہ کلالہ کی صورت تقسیم ہوگا میں اپنے مال کے بارے میں کوئی وصیت کر جاؤں یا میں اس کو صدقہ کروں ؟ آپ نے فرمایا نہیں پھر میں نے عرض کیا کیا میں دو تہائی وصیت کروں ؟ فرمایا نہیں پھر میں نے عرض کیا کیا آدھے مال کی وصیت کروں ؟ فرمایا نہیں پھر میں عرض کیا کیا ایک تہائی کی وصیت کروں آپ نے فرمایا ہاں (یہ ٹھیک ہے) اور یہ بھی زیادہ ہے۔ (18) ابن سعد و نسائی وابن جریر و بیہقی نے اپنی سنن میں جابر ؓ سے روایت کیا کہ میں بیمار ہوا تو نبی ﷺ میرے پاس تشریف لائے میں نے عرض کیا یا رسول اللہ ! کیا میں اپنی بہنوں کے لئے ایک ثلث کی وصیت کروں آپ نے فرمایا اچھی بات ہے میں نے عرض کیا کیا آدھی وصیت کروں ؟ آپ نے فرمایا اچھی بات ہے۔ پھر آپ باہر تشریف لے گئے پھر آپ اندر تشریف لائے اور فرمایا میرا خیال نہیں ہے کہ اس تکلیف میں فوت ہوگا اور بلاشبہ اللہ تعالیٰ نے حکم نازل فرمایا اور تیری بہنوں کے حصے کی وضاحت کردی اور وہ دو ثلث ہے جابر ؓ فرمایا کرتے تھے کہ یہی آیت میرے بارے میں نازل ہوئی لفظ آیت ” یستفتونک قل اللہ یفتیکم فی الکللۃ “۔ (19) العدی والبزار نے اپنی مسندوں میں وابو الشیخ نے الفرائض میں (صحیح سند کے ساتھ) حذیفہ ؓ سے روایت کیا کہ کلالہ کی آیت نبی ﷺ پر سفر میں نازل ہوئی نبی ﷺ ٹھہر گئے تو حذیفہ ؓ حاضر تھے آپ نے آیت پڑھ کر سنائی حذیفہ نے دیکھا تو عمر کھڑے تھے تو وہی چیز عمر کو بتائی جب عمر خلیفہ ہوئے تو حضرت عمر ؓ نے کلالہ کے بارے میں غور کیا حذیفہ کو بلوایا اور اس بارے میں ان سے پوچھا حذیفہ نے فرمایا حذیفہ نے عرض کیا رسول اللہ نے وہ آیت مجھے عطا فرمائی جس طرح آپ نے مجھے عطا فرمائی میں نے آپ کو پڑھ کو سنائی اللہ کی قسم میں اس سے زیادہ کچھ نہ کہوں گا۔ (20) ابو الشیخ نے فرائض میں براء ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ سے کلالہ کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے فرمایا جس کی اولاد اور والد نہ ہو (یعنی فوت ہوگئے ہوں) ۔ (21) ابن ابی شیبہ والدارمی وابن جریر نے ابو الخیر (رح) سے روایت کیا کہ ایک آدمی نے عقبہ بن عامر سے کلالہ کے بارے میں پوچھا انہوں نے فرمایا کیا تم کو تعجب نہیں کہ یہ آدمی مجھ سے کلالہ کے بارے میں پوچھتا ہے رسول اللہ ﷺ کے صحابہ کو کسی چیز نے اتنا مشکل میں نہیں ڈالا جتنا کلالہ نے مشکل میں ڈالا۔ (22) عبد الرزاق و سعید بن منصور وابن ابی شیبہ والدارمی وابن جریر وابن المنذر و بیہقی نے اپنی سنن میں شعبی (رح) سے روایت کیا کہ ابوبکر صدیق ؓ سے کلالہ کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے فرمایا عنقریب میں اس میں اپنے رائے سے کہوں گا اگر وہ ٹھیل ہوگی تو اللہ وحدہ لاشریک کی طرف سے ہوگی اگر وہ غلط ہوگی تو مجھ سے اور شیطان کی طرف سے ہوگی اللہ تعالیٰ اس سے بری ہیں میرا خیال ہے کلالہ اسے کہتے ہیں جس کا والد اور اولاد نہ ہو جب عمر ؓ خلیفہ ہوئے تو انہوں نے فرمایا جو اولاد سے خالی ہو۔ جب عمر ؓ کو زخمی کیا گیا تو انہوں نے فرمایا کہ میں اللہ تعالیٰ سے حیا کرتا ہوں کہ میں ابوبکر ؓ کی مخالفت کروں۔ (23) عبد بن حمید نے ابوبکر صدیق ؓ سے روایت کیا کہ جس آدی کا لڑکا اور والد نہ ہو کلالہ اس کے وارث ہوں گے پھر حضرت علی ؓ نے آپ سے اختلاف کیا پھر ابوبکر ؓ نے علی ؓ کے اس قول کی طرف رجوع کرلیا۔ (24) عبد الرزاق نے عمرو بن شرحبیل (رح) سے روایت کیا کہ میرا خیال یہ ہے کہ صحابہ نے اس بات پر اتفاق کرلیا تھا کہ کلالہ اسے کہتے ہیں جس کی اولاد اور والد نہ ہو۔ (25) عبد الرزاق و سعید بن منصور وابن ابی شیبہ والدارمی وابن جریر وابن المنذر و بیہقی نے اپنی سنن میں حسن بن محمد بن حنیفہ (رح) سے روایت کیا کہ میں نے ابن عباس ؓ سے کلالہ کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے فرمایا جس کی اولاد اور والد نہ ہو میں نے ان سے کہا لفظ آیت ” ان امرؤا اھلک لیس لہ ولد ولہ “ تو اس پر وہ غضبنا ہوئے اور مجھ کو جھڑک دیا۔ (26) ابن جریر نے علی کے طریق سے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ کلالہ وہ ہے جو اپنے پیچھے والد اور اولاد نہ چھوڑے۔ (27) ابن ابی شیبہ نے سمیط (رح) سے روایت کیا کہ عمر ؓ فرماتے تھے کلالہ سے مراد بچے اور والد کے علاوہ رشتہ دار ہیں۔ (28) ابن المنذر نے شعبی (رح) سے روایت کیا کہ کلالہ سے وہ وارث مراد ہیں جو والد اور لڑکے کے علاوہ ہو بھائی یا دوسرے عصبہ میں سے اسی طرح علی بن مسعود اور زید بن ثابت ؓ نے فرمایا۔ (29) ابن ابی شیبہ نے مصنف میں اور ابن المنذر نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ کلالہ سے مراد خود میت ہے۔ (30) ابن جریر نے معدان بن ابی طلحہ العمری (رح) سے روایت کیا کہ عمر بن خطاب ؓ نے فرمایا مجھ سے رسول اللہ ﷺ کبھی غصے نہیں ہوئے یا میں رسول اللہ ﷺ سے کسی معاملہ میں نہیں جھگڑا مگر میں نے کلالہ کی آیت میں جھگڑا کیا یہاں تک کہ میرے سینے کو مار کر فرمایا تجھ کو آیت الصیف کافی ہے۔ لفظ آیت ” یستفتونک قل اللہ یفتیکم فی الکللۃ “ میں عنقریب اس بارے میں ایسا فیصلہ کروں گا کہ جس کو پڑھنے والا اور نہ پڑھنے والا جان لے گا یہ وہ آدمی ہے جس کا پرورش کرنے والا اور پرورش پانے والا نہ ہو۔ (31) عبد الرزاق وابن جریر وابن المنذر نے ابن سیرین رحمۃ اللہ سے روایت کیا کہ یہ آیت ” یستفتونک قل اللہ یفتیکم فی الکللۃ “ جب نازل ہوئی تو نبی ﷺ سفر میں تھے اور آپ کے ساتھ حذیفہ بن یمان ؓ تھے تو نبی ﷺ نے یہ آیت حذیفہ کو پہنچائی (پھر) حذیفہ نے یہ خبر عمر بن خطاب ؓ کو پہنچائی اور وہ آپ کے پیچھے چل رہے تھے جب حضرت عمر ؓ خلیفہ ہوئے تو اس بارے میں حذیفہ ؓ سے پوچھا یہ امید رکھتے ہوئے کہ ان کے پاس اس کی تفسیر ہوگی حذیفہ ؓ نے ان سے فرمایا اللہ کی قسم ! اگر آپ نے یہ گمان کیا کہ آپ کی امارت مجھے ایسی بات کرنے پر مجبور کر دے گی کہ میں تجھ کو وہ بات بیان کروں گا وہ چیز جو میں نے اس روز نہیں کہی تھی تو آپ عاجز رہیں گے حضرت عمر ؓ نے فرمایا میں نے کوئی ارادہ نہیں کیا اللہ تجھ پر رحم کرے۔ (32) ابن جریر (رح) نے حضرت عمر ؓ سے روایت کیا کہ میں کلالہ کو جاننے والا ہوجاتا یہ مجھے زیادہ محبوب ہے کہ میرے پاس شام کے محلات کا جزیہ پہنچے۔ کلالہ کے متعلق تفصیلی علم (33) ابن جریر نے حسن بن مسروق (رح) سے اور وہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ میں نے عمر ؓ سے سوال کیا اس حال میں کہ وہ لوگوں کو خطبہ دے رہے تھے اپنے ان قریبی رشتہ داروں کے بارے میں کلالہ کے وارث بنیں گے آپ نے فرمایا الکلالہ الکلالہ الکلالہ اور آپ نے اپنی داڑھی مبارک کو پکڑ کر فرمایا اللہ کی قسم اس کا علم مجھے زمین میں موجود ہر چیز سے زیادہ محبوب ہے میں نے اس بارے میں رسول اللہ ﷺ سے پوچھا تو آپ نے فرمایا کیا تو نے اس آیت کو نہیں سنا جو موسم گرما میں اتری ہے اور اس بات کو حضور ﷺ نے تین مرتبہ لوٹایا۔ (34) ابن جریر نے ابو سلمہ ؓ سے روایت کیا کہ ایک آدمی نبی ﷺ کے پاس آیا اور اس نے کلالہ کے بارے میں سوال کیا آپ نے فرمایا کیا تو نے اس آیت کو نہیں سنا جو موسم گرما میں اتری یعنی لفظ آیت ” وان کان رجل یورث الکللۃ “ آیت کے آخر تک۔ (35) احمد نے (جید سند کے ساتھ) زید بن ثابت ؓ سے روایت کیا کہ ان سے شوہر اور سگی بہن کے بارے میں پوچھا گیا تو آپ نے شوہر کو آدھا اور بہن کو آدھا دیا اس بارے میں گفتگو کی کہ میں نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر تھا تو آپ نے ایسے ہی فیصلہ فرمایا۔ (36) عبد الرزاق و بخاری حاکم نے اسود (رح) سے روایت کیا کہ ہمارے درمیان معاذ بن جبل ؓ نے رسول اللہ ﷺ کی موجودگی میں ایک بیٹی اور ایک بہن کے بارے میں فیصلہ فرمایا کہ بیٹی کے لئے آدھا اور بہن کے لئے آدھا ہوگا۔ (37) عبد الرزاق و بخاری وحاکم و بیہقی نے ھذیل بن شرحبیل (رح) سے روایت کیا کہ ابو موسیٰ اشعری سے بیٹی بیٹے کی بہن اور سگی بہن کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے فرمایا بیٹی کے لئے آدھا اور بہن کے لئے آدھا تم ابن مسعود ؓ کے پاس جاؤ وہ بھی میری موافقت کرے گا ابن مسعود ؓ سے اس بارے میں پوچھا گیا اور ابو موسیٰ اشعری ؓ کا قول بھی بتایا گیا ابن مسعود ؓ نے فرمایا اگر میں بھی ایسی ہی بات کروں تو میں گمراہ ہوجاؤں گا اور ہدایت پانے والوں میں سے نہیں ہوں گا میں اس بارے میں ایسا فیصلہ کروں گا جو نبی ﷺ کے فیصلہ کے مطابق ہوگا کہ بیٹی کے لئے آدھا اور بیٹے کی بیٹی کے لئے چھٹا حصہ ہوگا اس طرح دو ثلث مکمل ہوگیا جو باقی ہے وہ بہن کے لئے ہے ہم نے ابن مسعود ؓ کے قول کی ان کو خبر دی تو انہوں نے فرمایا مجھ سے نہ پوچھا کرو جب تک تمہارے اندر یہ عالم موجود ہیں۔ نرینہ اولاد ہو تو بہن کو میراث نہیں ملتی (38) عبد الرزاق وابن المنذر وحاکم و بیہقی نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ ان سے ایسے آدمی کے بارے میں پوچھا گیا جو فوت ہوگیا اور اس نے اپنی بیٹی اور سگی بہن چھوڑی انہوں نے فرمایا بیٹی کے لئے آدھا اور بہن کے لئے کوئی چیز نہیں اور جو باقی ہے وہ عصبات کے لئے ہے کہا گیا کہ مرد نے بہن کے لئے آدھا مقرر فرمایا ہے۔ ابن عباس ؓ نے فرمایا تم زیادہ جانتے ہو یا اللہ تعالیٰ نے فرمایا لفظ آیت ” ان امرؤا ھلک لیس لہ ولد ولہ اخت فلھا نصف ما ترک “ اور تم کہتے ہو بہن کو آدھا ملے گا اگرچہ اس کی اولاد ہو۔ (39) ابن المنذر وحاکم نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ ایک ایسی چیز ہے کہ تم اس کو اللہ کی کتاب میں نہیں پاتے ہو اور رسول اللہ ﷺ کے فیصلے میں بھی نہیں پاتے مگر تمام لوگوں میں یہ پاتے ہو کہ بیٹی کے لئے آدھا اور بہن کے لئے آدھا حالانکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا لفظ آیت ” ان امرؤا ھلک لیس لہ ولد ولہ اخت فلھا نصف ما ترک “۔ (40) الشیخان نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ فرائض کو ملا دو ان کے اہل کے ساتھ (یعنی حصے ان کے مستحقوں کے حوالے کرو) جو باقی بچے وہ قریبی مرد کو دے دو ۔ (41) ابن المنذر نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ ” یستفتونک “ سے مراد ہے کہ لوگوں نے نبی ﷺ سے کلالہ کے بارے میں سوال کیا (پھر فرمایا) لفظ آیت ” یبین اللہ لکم ان تضلوا “ یعنی میراث کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے یہ حکم نازل فرمایا۔ (42) ابن ابی شیبہ و بخاری ومسلم و ترمذی و نسائی وابن الضریس وابن جریر وابن المنذر والبیہقی نے دلائل میں براء ؓ سے روایت کیا کہ جو پوری سورت آخر میں نازل ہوئی وہ سورت برات ہے اور سب سے آخر میں جو آیت نازل ہوئی وہ سورة نساء کی یہ آیت ہے لفظ آیت ” یستفتونک قل اللہ یفتیکم فی الکللۃ “۔ (43) ابن جریر وعبد بن حمید و بیہقی نے اپنی سنن میں قتادہ (رح) سے روایت کیا کہ ہم کو یہ بات ذکر کی گئی کہ ابوبکر صدیق ؓ نے اپنے خطبہ میں فرمایا خبردار وہ آیت جو سورة نساء کے آخر میں نازل ہوئی فرائض کے بارے میں ہے اللہ تعالیٰ نے اس کو اولاد اور والد کے بارے میں نازل فرمایا اور دوسری آیت کو شوہر بیوی اور ماں شریک بھائیوں کے بارے میں نازل فرمایا اور وہ آیت کہ جس سے سورة نساء ختم ہوئی وہ بھائیوں اور سگی بہنوں کے بارے میں نازل ہوئی اور وہ آیت جس سے سورة انفال ختم ہوئی وہ اولی الارحام کے بارے میں نازل ہوئی کہ بعض بعض سے کتاب اللہ میں قریبی ہیں جس طرح رحم میں بعض بعض سے قریبی ہیں۔ (44) الطبرانی نے الصغیر میں ابو سعید ؓ سے روایت کیا کہ نبی ﷺ قباء کی طرف (جانے کے لئے) گدھے پر سوار ہوئے تاکہ استخارہ فرمائیں پھوپھی اور خالہ کے بارے میں تو اللہ تعالیٰ نے یہ حکم نازل فرمایا کہ ان دونوں کے لئے میراث نہیں۔ (45) عبد الرزاق وابن جریر وابن المنذر نے ابن سیرین (رح) نے فرمایا کہ عمر بن خطاب ؓ جب (یہ آیت) پڑھتے لفظ آیت ” یبین اللہ لکم ان تضلوا “ تو فرماتے اے اللہ ! کس کے لئے آپ نے کلالہ کی وضاحت کی میرے لئے تو یہ واضح نہیں۔ (46) احمد نے عمر والقاری (رح) سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ سعد کے پاس تشریف لائے اور وہ شدید درد میں مبتلا تھے انہوں نے عرض کیا یا رسول اللہ ! میرے پاس مال ہے جبکہ میرا ورثہ کلالہ میں تقسیم ہوگا کیا میں اپنے مال کی وصیت کر جاؤں یا میں اس کو صدقہ کر دوں ؟ آپ نے فرمایا نہیں پھر انہوں نے عرض کیا کیا میں دو تہائی کی و صیت کروں ؟ فرمایا نہیں پھر انہوں نے عرض کیا کیا میں آدھے مال کی وصیت کر دوں ؟ فرمایا نہیں پھر عرض کیا کیا میں ایک تہائی کی وصیت کردوں فرمایا ہاں۔ اور یہ بھی زیادہ ہے۔ (47) الطبرانی نے خارجہ بن زید بن ثابت (رح) سے روایت کیا کہ زید بن ثابت ؓ نے معاویہ ؓ کو خط لکھا جس میں یہ لکھا ہوا تھا بسم اللہ الرحمن الرحیم یہ خط اللہ کے بندے معاویہ امیر المؤمنین کے لئے ہے زید بن ثابت ؓ کی طرف سے سلام علیک امیر المؤمنین ورحمۃ اللہ۔ بلاشبہ میں تیرے سامنے اس اللہ کی تعریف کرتا ہوں کہ اس کے علاوہ کوئی معبود نہیں اما بعد آپ نے مجھ سے دادا اور بھائیوں کی میراث کے بارے میں پوچھا تھا بیشک کلالہ اور وراثت کے بہت سارے فیصلے ان کی حقیقت سے تو اللہ ہی واقف ہے۔ اور رسول اللہ ﷺ کے بعد ہم یہ معاملات خلفاء پر پیش کرتے تھے جن کو ہم نے یاد رکھنا چاہا وہ ہم نے یاد رکھا ہم سے اس بارے میں جو فتویٰ پوچھتا ہے ہم اس کا فتویٰ دے دیتے ہیں (واللہ اعلم ) ۔ الحمد للہ سورة النساء کے ساتھ دوسری جلد مکمل ہوئی
Top