Tafseer-Ibne-Abbas - An-Nisaa : 176
یَسْتَفْتُوْنَكَ١ؕ قُلِ اللّٰهُ یُفْتِیْكُمْ فِی الْكَلٰلَةِ١ؕ اِنِ امْرُؤٌا هَلَكَ لَیْسَ لَهٗ وَلَدٌ وَّ لَهٗۤ اُخْتٌ فَلَهَا نِصْفُ مَا تَرَكَ١ۚ وَ هُوَ یَرِثُهَاۤ اِنْ لَّمْ یَكُنْ لَّهَا وَلَدٌ١ؕ فَاِنْ كَانَتَا اثْنَتَیْنِ فَلَهُمَا الثُّلُثٰنِ مِمَّا تَرَكَ١ؕ وَ اِنْ كَانُوْۤا اِخْوَةً رِّجَالًا وَّ نِسَآءً فَلِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الْاُنْثَیَیْنِ١ؕ یُبَیِّنُ اللّٰهُ لَكُمْ اَنْ تَضِلُّوْا١ؕ وَ اللّٰهُ بِكُلِّ شَیْءٍ عَلِیْمٌ۠   ۧ
يَسْتَفْتُوْنَكَ : آپ سے حکم دریافت کرتے ہیں قُلِ : کہ دیں اللّٰهُ : اللہ يُفْتِيْكُمْ : تمہیں حکم بتاتا ہے فِي الْكَلٰلَةِ : کلالہ (کے بارہ) میں ِاِنِ : اگر امْرُؤٌا : کوئی مرد هَلَكَ : مرجائے لَيْسَ : نہ ہو لَهٗ وَلَدٌ : اس کی کوئی اولاد وَّلَهٗٓ : اور اس کی ہو اُخْتٌ : ایک بہن فَلَهَا : تو اس کے لیے نِصْفُ : نصف مَا تَرَكَ : جو اس نے چھوڑا (ترکہ) وَهُوَ : اور وہ يَرِثُهَآ : اس کا وارث ہوگا اِنْ : اگر لَّمْ يَكُنْ : نہ ہو لَّهَا : اس کا وَلَدٌ : کوئی اولاد فَاِنْ : پھر اگر كَانَتَا : ہوں اثْنَتَيْنِ : دو بہنیں فَلَهُمَا : تو ان کے لیے الثُّلُثٰنِ : دو تہائی مِمَّا : اس سے جو تَرَكَ : اس نے چھوڑا (ترکہ) وَاِنْ : اور اگر كَانُوْٓا : ہوں اِخْوَةً : بھائی بہن رِّجَالًا : کچھ مرد وَّنِسَآءً : اور کچھ عورتیں فَلِلذَّكَرِ : تو مرد کے لیے مِثْلُ : برابر حَظِّ : حصہ الْاُنْثَيَيْنِ : دو عورت يُبَيِّنُ : کھول کر بیان کرتا ہے اللّٰهُ : اللہ لَكُمْ : تمہارے لیے اَنْ تَضِلُّوْا : تاکہ بھٹک نہ جاؤ وَاللّٰهُ : اور اللہ بِكُلِّ : ہر شَيْءٍ : چیز عَلِيْمٌ : جاننے والا
(اے پیغمبر) لوگ تم سے (کلالہ کے بارے میں) حکم (خدا) دریافت کرتے ہیں۔ کہہ دو کہ خدا کلالہ کے بارے میں یہ حکم دیتا ہے کہ اگر کوئی ایسا مرد مرجائے جس کے اولاد نہ ہو (اور نہ ماں باپ) اور اس کے بہن ہو تو اس کے بہن کو بھائی کے ترکے میں سے آدھا حصہ ملے گا اور اگر بہن مرجائے اور اسکے اولاد نہ ہو تو اس کے تمام مال کا وارث بھائی ہوگا اور اگر (مرنیوالے بھائی کی) دو بہنیں ہوں تو دونوں کو بھائی کے ترکے میں سے دو تہائی۔ اور اگر بھائی اور بہن یعنی مرد اور عورتیں ملے جلے وارث ہوں تو مرد کا حصہ دو عورتوں کے حصے کے برابر ہے۔ (یہ احکام) خدا تم سے اسلئے بیان فرماتا ہے کہ بھٹکتے نہ پھرو۔ اور خدا ہر چیز سے واقف ہے۔
(176) یہ آیت جابر بن عبداللہ ؓ کے بارے میں نازل ہوئی ہے انہوں نے رسول اکرم ﷺ سے دریافت کیا تھا یا رسول اللہ ﷺ میری ایک بہن ہے اس کے مرنے پر مجھے کیا حصہ ملے گا، اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت میراث نازل فرمائی کہ محمد ﷺ آپ سے کلالہ کی میراث کے بارے میں دریافت کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ تمہارے سامنے کلالہ کی میراث بیان فرماتا ہے، کلالہ وہ ہے، جس کے نہ اولاد ہو اور نہ ماں باپ ہوں، اگر کوئی شخص مرجائے جس کے نہ اولاد ہو اور نہ ماں باپ ہو اور ایک عینی یا علاتی بہن ہو تو اس بہن کو مرنے والے کے کل ترکہ میں سے آدھا ملے گا اور اگر یہ کلالہ بہن مرجائے تو وہ شخص اس بہن کے تمام ترکہ کا وارث ہوگا، اور اگر علاتی یا عینی دو بہنیں ہوں تو ان کو مرنے والے کے کل ترکہ میں سے دو تہائی ملیں گے اور اگر اس کلالہ کے چند عینی یا علاتی بھائی بہن ہوں تو پھر میراث کی تقسیم اس طرح ہوگی کہ بھائی کو دہرا اور بہن کو اکہرا حصہ ملے گا (مگر عینی بھائی سے علاتی بہن بھائی سب ساقط ہوجاتے ہیں اور عینی بہن سے کبھی وہ ساقط ہوجاتے ہیں اور کبھی حصہ گھٹ جاتا ہے) اور اللہ تعالیٰ یہ چیزیں اس لیے بیان فرماتے ہیں تاکہ تم میراث وغیرہ کی تقسیم میں غلطی نہ کرو اور وہ ان تمام باتوں کو جاننے والا ہے۔ شان نزول : (آیت) ”یستفتونک قل اللہ“۔ (الخ) امام نسائی ؒ نے ابو الزبیر ؓ کے واسطہ سے حضرت جابر ؓ سے روایت نقل کی ہے فرماتے ہیں کہ میں بیمار ہوا تو رسول اکرم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ اپنی بہنوں کے لیے تہائی مال کی وصیت کرنا چاہتا ہوں، آپ نے فرمایا بہت اچھا ہے، پھر میں نے عرض کیا کہ آدھے مال کی وصیت کرنا چاہتا ہوں، آپ نے فرمایا بہت ہی اچھا ہے، اس کے بعد آپ باہر تشریف لے گئے پھر میرے پاس تشریف لائے اور فرمایا کہ میرا خیال ہے کہ تمہیں اس بیماری موت نہیں آئے گی اور تمہاری بہنوں کو جو حصہ ملنا چاہیے اس کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے حکم نازل فرمادیا اور وہ دو ثلث ہے۔ حضرت جابر ؓ فرمایا کرتے تھے کہ یہ آیت ان کے بارے میں نازل ہوئی ہے، یعنی لوگ آپ سے حکم دریافت کرتے ہیں، آپ فرمادیجیے کہ اللہ تعالیٰ تمہیں کلالہ کے بارے میں حکم دیتا ہے۔ حافظ ابن حجر عسقلانی ؒ فرماتے ہیں، اس سورت کے شروع میں جو حضرت جابر ؓ کا واقعہ بیان کیا گیا ہے۔ یہ اس کے علاوہ دوسرا واقعہ ہے۔ اور ابن مردویہ ؒ نے حضرت عمر ؓ سے روایت کیا ہے کہ انہوں نے رسول اللہ ﷺ سے دریافت کیا کہ کلالہ کی میراث کا کیا ہوگا، اس پر اللہ تعالیٰ یہ آیت نازل فرمائی کہ لوگ آپ سے حکم دریافت کرتے ہیں۔ (الخ) جب تم اس سورت کی تمام آیات کے ان اسباب نزول پر غور کرو گے تو ہم نے بیان کیے ہیں تو اس قول کی تردید سے اچھی طرح واقف ہوجاؤ گے جو سورة نساء کو مکی سورت کہتا ہے۔ (یعنی یہ مدنی سورة ہے نہ کہ مکی)
Top