Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Tafseer-e-Jalalain - An-Noor : 35
اَللّٰهُ نُوْرُ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ١ؕ مَثَلُ نُوْرِهٖ كَمِشْكٰوةٍ فِیْهَا مِصْبَاحٌ١ؕ اَلْمِصْبَاحُ فِیْ زُجَاجَةٍ١ؕ اَلزُّجَاجَةُ كَاَنَّهَا كَوْكَبٌ دُرِّیٌّ یُّوْقَدُ مِنْ شَجَرَةٍ مُّبٰرَكَةٍ زَیْتُوْنَةٍ لَّا شَرْقِیَّةٍ وَّ لَا غَرْبِیَّةٍ١ۙ یَّكَادُ زَیْتُهَا یُضِیْٓءُ وَ لَوْ لَمْ تَمْسَسْهُ نَارٌ١ؕ نُوْرٌ عَلٰى نُوْرٍ١ؕ یَهْدِی اللّٰهُ لِنُوْرِهٖ مَنْ یَّشَآءُ١ؕ وَ یَضْرِبُ اللّٰهُ الْاَمْثَالَ لِلنَّاسِ١ؕ وَ اللّٰهُ بِكُلِّ شَیْءٍ عَلِیْمٌۙ
اَللّٰهُ
: اللہ
نُوْرُ
: نور
السَّمٰوٰتِ
: آسمانوں
وَالْاَرْضِ
: اور زمین
مَثَلُ
: مثال
نُوْرِهٖ
: اس کا نور
كَمِشْكٰوةٍ
: جیسے ایک طاق
فِيْهَا
: اس میں
مِصْبَاحٌ
: ایک چراغ
اَلْمِصْبَاحُ
: چراغ
فِيْ زُجَاجَةٍ
: ایک شیشہ میں
اَلزُّجَاجَةُ
: وہ شیشہ
كَاَنَّهَا
: گویا وہ
كَوْكَبٌ دُرِّيٌّ
: ایک ستارہ چمکدار
يُّوْقَدُ
: روشن کیا جاتا ہے
مِنْ
: سے
شَجَرَةٍ
: درخت
مُّبٰرَكَةٍ
: مبارک
زَيْتُوْنَةٍ
: زیتون
لَّا شَرْقِيَّةٍ
: نہ مشرق کا
وَّلَا غَرْبِيَّةٍ
: اور نہ مغرب کا
يَّكَادُ
: قریب ہے
زَيْتُهَا
: اس کا تیل
يُضِيْٓءُ
: روشن ہوجائے
وَلَوْ
: خواہ
لَمْ تَمْسَسْهُ
: اسے نہ چھوئے
نَارٌ
: آگ
نُوْرٌ عَلٰي نُوْرٍ
: روشنی پر روشنی
يَهْدِي اللّٰهُ
: رہنمائی کرتا ہے اللہ
لِنُوْرِهٖ
: اپنے نور کی طرف
مَنْ يَّشَآءُ
: وہ جس کو چاہتا ہے
وَيَضْرِبُ
: اور بیان کرتا ہے
اللّٰهُ
: اللہ
الْاَمْثَالَ
: مثالیں
لِلنَّاسِ
: لوگوں کے لیے
وَاللّٰهُ
: اور اللہ
بِكُلِّ شَيْءٍ
: ہر شے کو
عَلِيْمٌ
: جاننے والا
خدا آسمانوں اور زمین کا نور ہے اس کے نور کی مثال ایسی ہے کہ گویا ایک طاق ہے جس میں چراغ ہے اور چراغ ایک قندیل میں ہے اور قندیل (ایسی صاف و شفاف ہے کہ) گویا موتی کا سا چمکتا ہوا تارا ہے اس میں ایک مبارک درخت کا تیل جلایا جاتا ہے (یعنی) زیتون کہ نہ مشرق کی طرف ہے نہ مغرب کی طرف (ایسا معلوم ہوتا ہے کہ) اس کا تیل خواہ آگ اسے نہ بھی چھوئے جلنے کو تیار ہے (بڑی) روشنی پر روشنی (ہو رہی ہے) خدا اپنے نور سے جس کو چاہتا ہے سیدھی راہ دکھاتا ہے اور خدا (جو مثالیں) بیان فرماتا ہے (تو) لوگوں کے (سمجھانے کے) لئے اور خدا ہر چیز سے واقف ہے
آیت نمبر 35 تا 40 ترجمہ : اللہ آسمانوں اور زمین کا نور ہے یعنی ان دونوں کو شمس و قمر کے ذریعہ منور کرنے والا ہے اور اس کے نور کی مثال یعنی اس کی صفت قلب مومن میں ایسی ہے جیسے ایک طاق ہے اس میں ایک چراغ ہے اور وہ چراغ ایک قندیل میں ہے زُجَاجَۃٌ بمعنی قندیل اور المصباح بمعنی چراغ یعنی جلتی ہوئی بتی (شعلہ) اور المشکوٰۃ بمعنی طاق جو آرپار نہ ہو یعنی قندیل کی نلکی (پائپ) اور وہ قندیل حال یہ کہ اس میں نور ہو ایسا ہے جیسا کہ روشن ستارہ دال کے کسرہ کے ساتھ اور دال کے ضمہ کے ساتھ (اس وقت) دَرْءٌ سے مشتق ہوگا اور معنی دفع کرنے کے ہوں گے اس کے تاریکی کو دفع کرنے کی وجہ سے، اور دال کے ضمہ اور یا کی تشدید کے ساتھ (دُرِّیٌ) دُرٌّ کی طرف منسوب ہوگا اور معنی ہوں گے موتی تَوَفَّدَ ماضی ۂتفعَّلَ ) ای تَوَفَّدَ المصباحُ اور ایک قرأۃ میں اَوْقَدَ سے مضارع مجہول ہے یُوْقَدُ (اس وقت نائب فاعل المصباح ہوگا) اور تیسری قرأۃ میں تا کے ساتھ ہے ای تُوْقَدُ اس وقت نائب فاعل الزجاجہ ہوگا، روشن کیا جاتا ہے وہ چراغ ایک مبارک درخت کے قیل سے جو کہ وہ زیتون کا ہے وہ درخت نہ شرقی اور نہ غربی بلکہ ان کے درمیان میں واقع ہے چناچہ وہ گرمی اور سردی اس (درخت) پر مضر ہو کر واقع نہیں ہوتی، ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اس کا تیل اپنی صفائی کی وجہ سے جل اٹھے گا اگرچہ اس کو آگ نہ چھوئے وہ زیت آگ کی وجہ سے نورٌ علیٰ نورٍ ہے اللہ جس کو چاہتا ہے اپنے نور یعنی دین اسلام تک رہنمائی کرتا ہے اور اللہ تعالیٰ لوگوں کیلئے مثال بیان فرماتا ہے ان کی عقلوں سے قریب کرنے کیلئے تاکہ عبرت حاصل کریں اور ایمان لائیں اور اللہ ہر چیز کو خوب جاننے والا ہے اور اسی (علم) میں سے مثالیں بیان کرنا بھی ہے اور ان گھروں میں اس کی تسبیح بیان کی جاتی ہے جن کے متعلق اللہ نے حکم دیا ہے کہ ان کی تعظیم کی جائے اور ان میں اس کی توحید کے ساتھ اس کا نام لیا جائے فِی بُیُوتٍ آنے والے یُسبِّحُ کے متعلق ہے یُسبِّحُ کی یاء کے فتحہ اور کسرہ کے ساتھ اور یُسَبَّحُ کے معنی یُصَلّٰی کے ہیں صبح کے وقت الغُدُوُّ مصدر بمعنی غَدَوات کے ہے بمعنی تڑکے اور شام کے وقت زوال کے بعد رجالٌ یُسَبَحُ کا فاعل ہے با کے کسرہ کی صورت میں اور اگر با کے فتحہ کے ساتھ ہو تو لہٗ میں ہٗ ضمیر اس کا نائب فاعل ہوگی، اور رجالٌ فعل مقدر کا فاعل ہوگا، اور سوال مقدر کا جواب ہوگا، گویا کہ سوال کیا گیا کون تسبیح بیان کرے ؟ تو جواب دیا گیا، رِجَالٌ وہ ایسے لوگ ہیں کہ جن کو اللہ کے ذکر سے اور اقامت صلوٰۃ سے اور اداء زکوٰۃ سے نہ خرید غفلت میں ڈالتی ہے اور نہ فروخت اقام کے آخر سے ۃ کو تخفیفاً حذف کردیا گیا ہے (اصل میں اقامۃ تھا) وہ ایسے دن سے ڈرتے ہیں جس میں بہت سے دل اور بہت سی آنکھیں خوف کی وجہ سے مضطرب ہوں گے، قلوب نجات اور ہلاک کے درمیان مضطرب ہوں گے اور آنکھیں دائیں بائیں جانب مضطرب ہوں گی اور وہ قیامت کا دن ہوگا (اور وہ) ایسا اس لئے کریں گے تاکہ اللہ تعالیٰ ان کے اعمال کا اچھا بدلہ عطا فرمائے، یعنی اعمال کا ثواب اور اَحَسَنَ بمعنی حسن ہے اور ان کو اپنے فضل سے اور بھی زیادہ دے گا اور اللہ جس کو چاہے بےحساب دیتا ہے کہا جاتا ہے فلاں بےحسان خرچ کرتا ہے یعنی خرچ میں اس قدر فراخی کرتا ہے گویا کہ وہ جو کچھ خرچ کرتا ہے اس کا حساب نہیں کرتا اور جو لوگ کافر ہیں ان کے اعمال ایسے ہیں جیسے چٹیل میدان میں چمکتا ہوا ریت قِیعۃ جمع قاعٍ بِقِیعَۃٍ بمعنی فی فلاۃٍ ، فلاۃ بمعنی صحرا، چٹیل میدان سراب ان شعاعوں کو کہتے ہیں جو دوپہر کے وقت سخت گرمی میں بہتے ہوئے پانی کے مانند نظر آتی ہیں اور اس سراب کو پیاسا پانی سمجھتا ہے یہاں تک کہ جب اس کے پاس آیا تو اس کو کچھ بھی نہ پایا جس کو وہ پانی سمجھتا تھا، اسی طرح کافر سمجھتا ہے کہ اس کا عمل مثلاً صدقہ اس کو نفع پہنچائے گا حتی کہ جب مرجائے گا اور اپنے رب کے پاس پہنچے گا تو اپنے عمل کو نہ پائے گا یعنی اس کا عمل اس کو کوئی نفع نہیں دے گا، اور اللہ کو اپنے عمل کے پاس پایا کہ اس نے اس کا پورا پورا حساب چکا دیا یعنی (اللہ نے) اس (کافر) کے عمل کی جزا دنیا ہی میں پوری پوری دیدی، اور اللہ تعالیٰ بہت جلد حساب کرنے والا ہے یعنی جلدی جزا دینے والا ہے یا کافروں کے اعمال سیئہ کی مثال ایسی ہے جیسا کہ گہرے سمندر کی تاریکی جس کو ایک بڑی موج نے ڈھانپ لیا ہو اور اس موج کے اوپر ایک اور موج ہو اور اس دوسری موج کے اوپر بادل ہو، یہ تاریکیاں تہہ بہ تہہ بہت سی تاریکیاں ہیں دریا کی تاریکی موج اول کی تاریکی موج ثانی کی تاریکی اور بادل کی تاریکی اگر دیکھنے والا ان تاریکیوں میں اپنا ہاتھ نکالے تو اس کو نہ دیکھ سکے، یعنی اس (ہاتھ) کے دیکھنے کا امکان ہی نہیں اور جس کو اللہ ہی نور نہ دے تو اسکو نور نہیں جس کو اللہ نے ہدایت نہ دی اس کو کوئی ہدایت نہیں دے سکتا۔ تحقیق، ترکیب و تفسیری فوائد اللہُ نُورُ السمٰوٰتِ وَالاَرْضِ یہ جملہ مستانفہ ماقبل کی تاکید کیلئے ہے اللہ مبتداء اور نور السمٰوات والارض اس کی خبر، نور کا حمل ذات باری پر یا تو مبالغۃً ہے، جیسا زیدٌ عدلٌ میں یا پھر مضاف محذوف ہے ای اللہ ذُوْ نُورِ السَّمٰوٰتِ وَالَارْضِ یا نُورٌ مصدر اسم فاعل مُنَوِّرٌ کے معنی میں ہے جیسا کہ علامہ محلی نے اختیار کیا ہے۔ قولہ : مَثَلُ نورہٖ بترکیب اضافی مبتداء کمشکوٰۃ فیھا مصباحٌ اس کی خبر، مشکوٰۃ سے پہلے نور مضاف محذوف ہے ای صفتہ نورہ تعالیٰ فی قلب المؤمن کنور مشکوٰۃ فیھا مصباحٌ۔ قولہ : زُجاجۃ بالتثلیث شیشہ، شیشہ کا برتن، قندیل بھی چونکہ شیشیہ کا ہوتا ہے لہٰذا قندیل کو بھی کہا جاسکتا ہے۔ قولہ : الموقودۃ صحیح المُوْقَدَۃُ ہے، قولہ : الاُنبوبۃ وہ نلکی جس میں بتی ہوتی ہے یہ مشکوٰۃ کی دوسری تفسیر ہے مناسب تھا کہ مفسر علام اور الانبوبۃ فرماتے۔ قولہ : توقد المصباحُ توقد میں تین قرأتیں ہیں (2) فعل ماضی تَوَفَّدَ بروزن تَفَعَّلَ ، المصباح اس کا فاعل ہے (2) یُوقَدُ اَوْقَدَ سے مضارع مجہول واحد مذکر غائب المصباح نائب فاعل (3) تُوْقَدُ بالتاء اَوْقَدَ سے مضارع مجہول، نائب فاعل الزجاجۃ حذف مضاف کے ساتھ ای فَتِیلَۃُ الزُجَاجَۃِ ۔ قولہ : زیتونۃٍ یہ شجرۃ سے بدل ہے یہی اظہر ہے یا عطف بیان ہے کو فیین کے نزدیک اس لئے کہ نکرات میں کو فیین عطف بیان کو جائز کہتے ہیں، شجرۃ موصوف مبارکۃ صفت موصوف صفت سے مل کر مبدل منہ زیتونۃ بدل، بدل مبدل منہ سے مل کر مضاف الیہ زیتٌ مضاف محذوف، مضاف مضاف الیہ سے مل کر مجرور جار مجرور سے مل کر متعلق ہوا توقد کے۔ قولہ : لاشرقیۃٍ ولا غربیۃٍ شجرۃٍ کی صفت ہے۔ قولہ : مُضِرَّیْنِ یہ جَرٌّ ولا بَرْدً سے حال ہے۔ قولہ : وَلَوْ لَمْ تَمْسَسْہُ نارٌ شرط ہے اس کا جواب محذوف ہے ای لأضَاءَ نورٌ بہٖ ای بالزیت۔ قولہ : علیٰ نورٍ ای مع نورٍ ایمان خود ایک نور ہے، ایمان کے ساتھ ساتھ دیگر اعمال صالحہ کی توفیق و ہدایت یہ نورٌ علیٰ نور ہے، اللہ تعالیٰ تقریب الی الفھم کیلئے معقولات کو محسوسات کے ذریعہ مثال دے کر سمجھاتا ہے تاکہ عبرت حاصل کریں اور ایمان لائیں۔ تنبیہ : آیت کریمہ مَثَلُ نُوْرِہٖ کِمِشْکٰوۃٍ (الآیہ) اس میں تشبیہ معقول بالمحسوس ہے، نور اللہ سے اَدِلَّہ یا قرآن، یا توحید والشرایع، یا ہدایت مراد ہیں اور یہ مشبہ ہے اور نور مشکوٰۃ مع اپنی صفات کے مشبہ بہ ہے، تشبیہ کیلئے مشبہ کا اشہر ہونا کافی ہے، اقوی ہونا ضروری نہیں ہے لہٰذا تشبیہ مذکور درست ہے، مشبہ بہ میں چونکہ اجزاء نہیں ہیں کہ جس سے وجہ شبہ کو متنزع کیا جائے اور اس کی وجہ سے تشبیہ کو مرکب یا مفرق (مفرد) کہا جائے۔ (روح المعانی) نیز بعض حضرات نے یہ بھی کہا ہے کہ اگر نورٌ بمعنی ہدایت ہو جس پر آیات مبینات دلالت کرتی ہیں تو اس صورت میں تشبیہ مرکب عقلی ہوگی اس لئے کہ اس صورت میں مشبہ سے ہیئت منتزعہ کو تشبیہ اس ہیئۃ منتزع سے ہے جو مشبہ بہ سے اتتزاع کی گئی ہے اس لئے کہ لفظ نور اگرچہ مفرد ہے مگر دال علی المتعدد ہے اس لئے کہ نور سے مراد متعدد چیزیں ہیں مثلاً ادلہ، قرآن، توحید و شرائع، ہدایت وغیرہ اسی طرح مشبہ بہ میں بھی متعدد چیزیں مراد ہیں، مشبہ بہ قلب مومن ہے جس کو اللہ نے نور ہدایت سے منور کیا ہے جو کہ علوم و معارف ہیں۔ (روح المعانی) قولہ : بل بینھما یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ وہ درخت نہ انتہائی مشرق میں ہے اور نہ مغرب میں بلکہ درمیان میں ہے، جس کو مشرق و سطیٰ کہتے ہیں، ملک شام بھی اسی علاقہ میں واقع ہے مشرق وسطیٰ کی آب و ہوا چونکہ معتدل ہے نہ زیادہ گرم ہے اور نہ سرد، اس لئے زیتون کا تیل نہایت صاف شفاف ہوتا ہے بخلاف انتہائی مشرق و مغرب کے کہ ان میں گرمی سردی زیادہ ہوتی ہے جو کہ مضر ہیں۔ قولہ : فی بیوت اس کا تعلق آئندہ آنے والے یُسَبِحُ سے ہے اس صورت میں ظرف یعنی (فیہا) تاکید کیلئے مکرر ہوگا، مفسر علام کا بھی یہی مختار ہے، اور محذوف کے متعلق بھی ہوسکتا ہے تقدیر عبارت یہ ہوگی سبحوا ربکم فی بیوت اس صورت میں علیمٌ پر وقف ہوگا، اور یہ بھی درست ہے کہ فی بیوت کائن وغیرہ محذوف کے متعلق ہو کر مشکوٰۃٌ یا مصباح یا زجاجۃ کی صفت ہو یا توقد کے متعلق ہو، ان چاروں صورتوں میں علیمٌ پر وقف نہ ہوگا، قولہ : اذِن اللہ أن ترفَعَ یہ جملہ بیوت کی صفت ہے اَنْ ترفع الخ بتاویل مصدر ہو کر باحرف جار مقدر کا مجرور ہے تقدیر عبارت یہ ہے اَمَرَ اللہُ بِرَفْعِھَا یُسَبِّحُ کو اگر فتح باء کے ساتھ پڑھا جائے تو لہٗ نائب فاعل ہوگا، اور رجال فعل محذوف کا فاعل ہوگا اور وہ فعل مقدر سوال مقدر کا جواب ہوگا جب کہا گیا یُسَبِّحُ لہٗ تو سوال پیدا ہوا مَنْ یُّسَبِّحُ قال رجلٌ لاتلھیھم تجارۃ۔ قولہ : لیجزیھم میں لام عاقبیہ کا ہے ای عاقِبَۃُ امرھم الجزاءُ الحسن، یسبح سے بھی متعلق ہوسکتا ہے ای یُسَبِّحُوْنَ لاجل الجزاء اور محذوف کے متعلق بھی ہوسکتا ہے تقدیر عبارت یہ ہوگی فَعَلُوْا ذٰلک لِیَجزیَھُم اللہ۔ قولہ وَالذیَن کفرُوْا اعمالُھُمْ کسَرابٍ بِقِیْعَۃٍ والذین کفروْا موصول صلہ سے مل کر مبتداء اول والذین کی خبر ہے، اور یہ بھی درست ہے کہ اعمالُھم والَّذینَ کفرُوْا سے بدل الاشتمال ہو اور کسرابٍ ، الذین کی خبر۔ قولہ : بِقیْعَۃ باء جارہ ہے اور قیعۃٌ قاع کی جمع ہے چٹیل میدان کو کہتے ہیں۔ قولہ : ظمآن ظمآن کی شدت حاجت کی وجہ سے تخصیص کی گئی ہے ورنہ تو ظمآن اور غیر ظمآن سب کو دوپہر کے وقت ریت دھوپ میں سراب (جاری پانی) نظر آتا ہے اَوْ کظلماتٍ او تقسیم کے لئے ہے یعنی کافر کے اعمال دو قسم کے ہیں ایک وہ جو سراب کے مانند ہوں گے یہ ان کے وہ اعمال صالحہ ہوں گے جو انہوں نے دنیا میں صدقہ و خیرات یا صلہ رحمی کی شکل میں کئے ہوں گے یہ بظاہر اعمال صالحہ ہیں مگر آخرت میں چونکہ ان کا کوئی صلہ نہیں اس لئے کچھ نہیں دوسرے ان کے اعمال سیئہ ہوں گے ان کی مثال ظلمات کی سی ہے، ظلمات کا عطف کسرابٍ پر ہے حذف مضاف کے ساتھ، تقدیر عبارت یہ ہے او کذی ظلماتٍ ۔ تنبیہ : اَوْ کظُلُماتٍ الخ میں تشبیہ مرکب بالمرکب ہے آیت میں تین قسم کی ظلمتوں کو تین قسم کی ظلمتوں کے ساتھ تشبیہ دی گئی ہے ظلمت اعتقاد، ظلمت قول، ظلمت فعل کو تشبیہ دی گئی ہے ظلمت بحر، ظلمت امواج، ظلمت سحاب کے ساتھ۔ تفسیر و تشریح اللہ نور السموت والارض، اس آیت کو اہل علم آیت نور لکھتے ہیں اس آیت میں نور ایمان اور ظلمت کفر کو بڑی تفصیل سے مثال کے ذریعہ سمجھایا گیا ہے۔ نور کی تعریف : ایک تعریف تحقیق و ترکیب کے زیر عنوان تحریر کی جا چکی ہے یہ دوسری تعریف ہے، امام غزالی نے نور کی تعریف اس طرح بیان فرمائی ہے النور الظاھر بنفسہٖ والمظھر لغیرہٖ یعنی خود اپنی ذات میں ظاہر اور روشن ہو اور دیگر اشیاء کو ظاہر اور روشن کرنے والا ہو، اور تفسیر مظہری میں ہے کہ نور دراصل اس کیفیت کا نام ہے جس کو انسان کی قوت باصرہ پہلے ادراک کرتی ہے اور پھر اس کے ذریعہ ان تمام چیزوں کا ادراک کرتی ہے جو آنکھ سے دیکھی جاتی ہیں، جیسے آفتاب اور چاند کی شعائیں اپنے مقابل اجسام کثیفہ پر پڑ کر اول اس چیز کو روشن کردیتی ہیں پھر اس سے شعاعیں منعکس ہو کر دوسری چیزوں کو روشن کردیتی ہیں، اس سے معلوم ہوا لفظ نور کا اطلاق اپنے لغوی اور عرفی معنی کے اعتبار سے حق تعالیٰ شانہ کی ذات پر نہیں ہوسکتا کیونکہ وہ جسم اور جسمانیات میں سے بری اور پاک ہے اس لئے آیت مذکورہ میں جو حق تعالیٰ کیلئے لفظ نور کا اطلاق ہوا ہے اس کے معنی باتفاق ائمہ تفسیر منور یعنی روشن کرنے والے کے ہیں یا پھر مبالغہ کے طور پر صاحب نور کو نور سے تعبیر کردیا گیا ہے جیسے صاحب عدل کو عدل کہہ دیا جاتا ہے، اللہ تعالیٰ آسمان اور زمین کی تمام مخلوق کو منور کرنے والے، نور بخشنے والے ہیں اور نور سے نور ہدایت مراد ہے، ابن کثیر نے حضرت ابن عباس ؓ سے اس کی تفسیر میں نقل کیا ہے ” اللہُ ھادی اھل السمٰوات والارض “۔ نور مؤمن : مثل نورہ کمشکوۃ (الآیہ) اللہ تعالیٰ کا نور ہدایت جو قلب مومن میں آتا ہے یہ اس کی ایک عجیب مثال ہے، ابن جریر نے حضرت ابی بن کعب ؓ سے اس کی تفسیر میں نقل کیا ہے ھو المومن الذی جعل اللہ الایمان والقرآن فی صدرہ فَضَرَبَ اللہ مثلہ فقال اللہ نورُ السمٰوات والارض فبدأ بنور نفسہٖ ثمَّ ذکرَ نور المومنِ فقال مَثَلُ نور مَنْ آمَنَ بہٖ فکان ابی بن کعب یقرأھا مثَلُ نور مَنْ آمَنَ بہٖ ۔ (ابن کثیر) یعنی یہ مثال اس مومن کی ہے جس کے دل میں اللہ نے ایمان اور قرآن کا نور ہدایت ڈال دیا ہے اس آیت میں پہلے تو اللہ نے خود اپنے نور کا ذکر فرمایا اللہ نُورُ السَّمٰوات والارْضِ پھر قلب مومن کے نور کا ذکر فرمایا مَثَ نورہٖ اور اس آیت کی قرأت بھی حضرت ابی بن کعب کی مَثلُ نورہٖ کے بجائے مَثَلُ نور مَنْ آمَنَ بہٖ کی ہے، مَثَلُ نورہٖ کی ضمیر کے متعلق ائمہ تفسیر کے دو قول ہیں ایک یہ کہ یہ ضمیر اللہ تعالیٰ کی طرف راجع ہے اور معنی آیت کے یہ ہیں کہ اللہ کا نور ہدایت جو مومن کے قلب میں فطرۃُ رکھا گیا ہے اس کی مثال کمشکٰوۃ الخ ہے یہ حضرت ابن عباس کا قول ہے، دوسرا قول یہ ہے کہ یہ ضمیر مومن کی طرف راجع ہے جس پر سیاق کلام دلالت کر رہا ہے اس لئے حاصل اس مثال کا یہ ہے کہ مومن کا سینہ ایک طاق کی مثل ہے اس میں اس کا دل ایک قندیل کی مثل ہے اس میں نہایت شفاف روغن زیتون فطری نور ہدایت کی مثل ہے جو مومن کی فطرت میں ودیعت رکھا گیا ہے جس کا خاصہ خود بخود ہی قبول حق کا ہے پھر جس طرح روغن زیتون آگ کے شعلہ سے روشن ہو کر دوسروں کو روشن کرنے لگتا ہے اسی طرح فطری نور ہدایت جو قلب مومن میں رکھا گیا ہے جب وحی الٰہی اور علم الہٰی کے ساتھ اس کا اتصال ہوجاتا ہے تو روشن ہو کر عالم کو روشن کرنے لگتا ہے یہ نور ہدایت اگرچہ آغاز تخلیق میں ہر فرد کے قلب میں ودیعت رکھا گیا ہے، مومن کے ساتھ خاص نہیں ہے مگر چونکہ اس کا فائدہ مومن کو ہوتا ہے اس لئے مثال میں قلب مومن کو خاص فرمایا ہے، ایک حدیث سے بھی اس عموم کی تائید ہوتی ہے کل مولود یولد علی الفطرۃ یعنی ہر پیدا ہونے والا بچہ فطرت پر پیدا ہوتا ہے پھر اس کے والدین اس کو فطرت کے تقاضوں سے ہٹا کر غلط راستوں پر ڈال دیتے ہیں، اس فطرت سے مراد ہدایت ایمان ہے۔ (معارف) نور نبی کریم ﷺ : امام بغوی نے ایک روایت نقل کی ہے کہ حضرت ابن عباس ؓ نے کعب احبار جو توریت و انجیل کے بڑے مسلمان عالم تھے، انہوں نے فرمایا کہ یہ مثال رسول اللہ ﷺ کے قلب مبارک کی بیان کی گئی ہے مشکوٰۃ آپ کا سینہ ہے زجاجۃ (قندیل) آپ کے قلب مبارک ہے اور مصباح (چراغ) نبوت ہے، اور اس نور ہدایت کا خاصہ یہ ہے کہ نبوت کے اظہار و اعلان سے پہلے ہی اس میں لوگوں کیلئے روشنی کا سامان ہے پھر جب وحی الٰہی اور اس کے اعلان کا اس کے ساتھ اتصال ہوجاتا ہے تو یہ ایسا نور ہوتا ہے کہ سارے عالم کو روشن کرنے لگتا ہے۔ نبی کریم ﷺ کے اظہار نبوت، بعثت بلکہ آپ کی پیدائش سے بھی پہلے جو بہت سے عجیب و غریب واقعات عالم میں ایسے پیش آئے جو آپ کی نبوت کی بشارت دینے والے تھے جن کو اصطلاح محدیثن میں ارہاصات کہا جاتا ہے، جن کو بہت سے علماء نے مستقل کتاب کے طور پر جمع کردیا ہے، شیخ جلال الدین سیوطی (رح) نے خصائص کبریٰ میں، اور ابو نعیم نے دلائل النبوۃ میں جمع کردیا ہے قولہ : فی بُیُوتٍ اَذِنَ اللہُ (الآیہ) سابقہ آیت میں حق تعالیٰ نے قلب مومن میں اپنا نور ہدایت ڈالنے کی ایک خاص مثال بیان فرمائی تھی، اور آخر میں یہ فرمایا تھا کہ اس نور سے فائدہ وہی لوگ اٹھاتے ہیں جن کو اللہ توفیق عطا فرماتے ہیں، اس آیت میں ایسے مومن کا محل اور مستقر بیان فرمایا گیا ہے کہ ایسے مومنین کا اصل مقام و مستقر جہاں وہ اکثر اوقات رہتے ہیں خصوصاً پانچ وقت نمازوں کے اوقات میں دیکھے جاتے ہیں وہ بیوت (مساجد) ہیں جن کیلئے اللہ کا حکم یہ ہے کہ ان کو بلندو الا رکھا جائے اور ان میں اللہ کا نام ذکر کیا جائے۔ آیت کی اس تقریر کی بنا اس پر ہے کہ نحوی ترکیب میں فی بیوتٍ کا تعلق (یھدی اللہ لنورہٖ ) کے ساتھ ہو اَذِنَ اللہُ ان تُرفَعَ ، اَذِنَ اِذْنٌ سے مشتق ہے اس کے معنی اجازت دینے کے ہیں اور تُرْفَعَ رفعٌ سے مشتق ہے جس کے معنی بلند کرنا اور تعظیم کرنے کے ہیں آیت کے معنی یہ ہیں کہ اللہ نے حکم دیا ہے کہ مساجد کی تعظیم کی جائے یعنی ان میں لغوکام اور لغوکلام کرنے سے منع فرمایا ہے۔ (ابن کثیر) ۔ عکرمہ اور مجاہد امام تفسیر نے فرمایا، رفع سے مراد مسجد بنانا ہے جیسے بناء کعبہ کے متعلق قرآن میں آیا ہے اِذْ یَرفَعُ اِبْرَاھِیْمُ القَوَاعِدَ مِنَ البَیْتِ اس آیت میں رفع قواعد سے مراد بناء قواعد ہے اور حسن بصری (رح) نے فرمایا رفع مساجد سے مراد مساجد کی تعظیم ہے۔ یْسَبَّحُ لَہٗ فِیْھَا بِالغُدُوِّ وَالآصَالِ الغُدُوّ غداۃٌ کی جمع ہے یا مصدر ہے اس کا اطلاق وقت کیلئے ہوا ہے اور آصال اصیل کی جمع ہے جیسے شریف کی جمع اشراف ہے، ایک جماعت نے اس کو اختیار کیا ہے حالانکہ فعیل کی جمع افعال قیاسی نہیں ہے، آیت کا مطلب یہ ہے کہ تمام مناسب اوقات میں خدا کو یاد کرتے ہیں، بعض مفسرین نے غُدُوٌ سے صبح کی نماز مراد لی ہے، اور آصال میں باقی چار نمازیں داخل کی ہیں اس لئے کہ اصیل زوال شمس سے صبح تک کے اوقات کو کہتے ہیں۔ قولہ : لا تُلْھِیْھِمْ تِجَارَۃٌ وَلاَ بَیْعٌ عن ذِکْرِ اللہِ اس میں ان مومنین کی ایک خاص صفت بیان کی گئی ہے جو اللہ کے نور ہدایت کے خاص مقامات اور مساجد کو آباد رکھتے ہیں، اس میں رجال کی تعبیر میں اس طرف اشارہ ہے کہ مساجد کی حاضری دراصل مردوں ہی کے لئے ہے عورتوں کی نماز ان کے گھروں میں افضل ہے، مسند احمد اور بیہقی میں حضرت ام سلمہ ؓ کی حدیث ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا خیر مساجِدِ النِّساءِ قَعْرَ بَیْتِھِنَّ یعنی عورتوں کی بہترین مساجد ان کے گھر کے تنگ و تاریک گوشے ہیں، اس آیت میں مومنین صالحین کی یہ صفت بھی بیان کی گئی ہے کہ ان کو تجارت خریدو فروخت اور لین دین کا مشغلہ اللہ کی یاد سے غافل نہیں کرتا۔ حضرت عبداللہ بن عمر ؓ نے فرمایا کہ یہ آیت بازار والوں کے بارے میں نازل ہوئی ہے اور ان کے صاحبزادے حضرت سالم نے فرمایا کہ ایک روز حضرت عبداللہ بن عمر بازار سے گذرے تو نماز کا وقت ہوگیا تھا لوگوں کو دیکھا کہ دکانیں بند کرکے مسجد کی طرف جا رہے ہیں تو فرمایا انہی لوگوں کے بارے میں قرآن کا یہ ارشاد ہے رِجَالٌ لاتُلْھِیْھِمْ تِجارۃ ولاَبَیْعٌ عنْ ذِکْرِ اللہِ ۔ عہد رسالت میں دو صحابی تھے، ایک تجارت کرتے تھے اور دوسرے لوہار کا کام کرتے اور تلوار بنا کر بیچتے تھے، پہلے صحابی کی تجارت کا یہ حال تھا کہ اگر سودا تولنے کے وقت اذان کی آواز کان میں پڑگئی تو ترازو کو پٹک کر نماز کیلئے کھڑے ہوجاتے تھے، اور دوسرے بزرگ کا یہ عالم تھا کہ اگر گرم لوہے پر ہتھوڑے کی ضرب لگا رہے ہیں اور کان میں اذان کی آواز آگئی تو اگر ہتھوڑا مونڈھے پر اٹھائے ہوئے ہیں تو ہتھوڑا مونڈھے کے پیچھے ڈال کر نماز کو چل دیتے تھے، اٹھائے ہوئے ہتھوڑے کی ضرب سے کام لینا بھی گوارا نہیں تھا، ان کی مدح میں یہ آیت نازل ہوئی۔ (قرطبی) یوما۔۔۔۔ والابصار اس آیت کا مطلب یہ ہے اس روز دل وہ باتیں سمجھ لیں گے جو ابھی تک نہیں سمجھتے تھے، اور آنکھیں وہ ہولناک واقعات دیکھیں گی جو کبھی نہ دیکھے تھے، یا مطلب یہ ہے کہ قلوب میں کبھی نجات کی توقع پیدا ہوگی اور کبھی ہلاکت اور خوف کا اندیشہ اور آنکھیں کبھی داہنی جانب دیکھیں گی اور کبھی بائیں جانب کہ کس طرف سے پکڑے جائیں ؟ یا اعمال نامے کس جانب سے ملتے ہیں ؟ دائیں جانب سے یا بائیں جانب سے ؟ والذین۔۔۔ کسراب (الآیہ) کافر دو قسم کے ہیں ایک وہ جو اپنے خیال اور عقیدے کے اعتبار سے کچھ اچھے کام کرتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ مرنے کے بعد یہ کام آئیں گے، حالانکہ اگر کوئی کام بظاہر اچھا بھی ہو تو وہ کفر کی نحوست سے عند اللہ مقبول و معتبر نہیں، ان فریب خوردہ کافروں کی مثال ایسی سمجھو کہ دوپہر کے وقت جنگل میں ایک پیاسے کو دور سے پانی دکھائی دیا اور وہ حقیقت میں چمکتی ہوئی ریت تھی پیاسا شدت تشنگی سے بیتاب ہو کر وہاں پہنچا تو پانی وانی کچھ نہیں، ہاں ہلاکت کی گھڑی سامنے کھڑی تھی، اور اللہ تعالیٰ عمر بھر کا حساب لینے کیلئے وہاں موجود تھا چناچہ اضطراب و حسرت کے وقت اللہ تعالیٰ نے اس کا حساب ایک دم میں چکا دیا کیونکہ وہاں حساب کرتے کیا دیر لگتی ہے، کافر کی دوسری قسم وہ ہے جو سر سے پاؤں تک دنیا کے مزوں میں غرق اور کفر و جہل، ظلم و عصیان کی اندھیریوں میں پڑے گو طے کھا رہے ہیں ان کی مثال آگے بیان فرمائی، ان کے پاس روشنی کی اتنی بھی چمک نہیں جتنی کہ سراب سے دھوکا کھانے والے کو نظر آتی تھی، یہ لوگ خالص اندھیریوں میں اور تہہ بہ تہہ ظلمات میں بند ہیں کسی طرف سے روشنی کی شعاع اپنے تک نہیں پہنچنے دیتے، نعوذ باللہ منہا، کافروں کی اسی قسم کو اَوْ کظُلُمٰتٍ فی بحرٍ لُجِّیٍ (الآیہ) سے بیان فرمایا ہے۔
Top