Jawahir-ul-Quran - Al-Kahf : 5
مَا لَهُمْ بِهٖ مِنْ عِلْمٍ وَّ لَا لِاٰبَآئِهِمْ١ؕ كَبُرَتْ كَلِمَةً تَخْرُجُ مِنْ اَفْوَاهِهِمْ١ؕ اِنْ یَّقُوْلُوْنَ اِلَّا كَذِبًا
مَا : نہیں لَهُمْ بِهٖ : ان کو اس کا مِنْ عِلْمٍ : کوئی علم وَّلَا : اور نہ لِاٰبَآئِهِمْ : ان کے باپ دادا كَبُرَتْ : بڑی ہے كَلِمَةً : بات تَخْرُجُ : نکلتی ہے مِنْ : سے اَفْوَاهِهِمْ : ان کے منہ (جمع) اِنْ : نہیں يَّقُوْلُوْنَ : وہ کہتے ہیں اِلَّا : مگر كَذِبًا : جھوٹ
کچھ خبر نہیں ان کو اس بات کی6 اور نہ ان کے باپ دادوں کو کیا بڑی بات7 نکلتی ہے ان کے منہ سے سب جھوٹ ہے جو کہتے ہیں
6:۔ یہ ان کے قول باطل کا رد ہے ” بہ “ میں ضمیر مجرور ان کے قول مذکور کی طرف راجع ہے۔ یعنی ان کا قول سراسر جہالت سے ناشی ہے اس پر ان کے پاس کوئی دلیل ہے نہ ان کے باپ دادا کے پاس اس دعوی کی کوئی دلیل تھی۔ جن سے ان مشرکوں نے یہ غلط بات سیکھی اور جن کی تقلید میں وہ بھی اللہ تعالیٰ پر ایسا ناپاک افترا کرنے لگے۔ و ذکر الاباء لان تلک المقالۃ قد اخذوھا عنھم وتلقوھا منہم (بحر ج 6 ص 97) ۔ ” ابآء “ (باپ دادا) سے مراد عام ہے خواہ جسمانی ہوں یا روحانی اس طرح یہ لفظ ان غلط کار عالموں اور پیروں کو بھی شامل ہوجائے گا۔ جنہوں نے انہیں اس گمراہی اور شرک کی راہ پر ڈالا۔ ولا لابائھم ای اسلافہم (قرطبی ج 10 ص 353، ابن کثیر ج 3 ص 70) ۔ 7:۔ ” کبرت کلمۃ الخ “ کلمۃ منصوب ہے۔ اور ” کبرت “ کی ضمیر سے تمییز ہے۔ اللہ تعالیٰ کے کے لیے ولد اور نائب متصرف تجویز کرنا بہت سنگین بات ہے اور کفر و افترا کے اعتبار سے بہت بڑی ہے۔ تعجب ہے کہ ایسی بری اور ناپاک بات ان کی زبان پر کس طرح آتی ہے۔ ” ان یقولون الا کذبا “ یہ جملہ ماقبل ہی کی تاکید اور قول مذکر کی مزید قباحت وشناعت بیان کرنے کے لیے لایا گیا ہے یعنی ان کا قول صریح جھوٹ اور خلاف واقعہ ہے اور اس میں سچائی اور واقعیت کا شائبہ تک نہیں۔ ای ما یقولون فی ذالک الشان الا قولا کذبا لا یکاد یدخل تحت امکان الصدق اصلا (روح ج 15 ص 204، ابو السعود ج 5 ص 676) ۔
Top