Mufradat-ul-Quran - Al-Kahf : 5
مَا لَهُمْ بِهٖ مِنْ عِلْمٍ وَّ لَا لِاٰبَآئِهِمْ١ؕ كَبُرَتْ كَلِمَةً تَخْرُجُ مِنْ اَفْوَاهِهِمْ١ؕ اِنْ یَّقُوْلُوْنَ اِلَّا كَذِبًا
مَا : نہیں لَهُمْ بِهٖ : ان کو اس کا مِنْ عِلْمٍ : کوئی علم وَّلَا : اور نہ لِاٰبَآئِهِمْ : ان کے باپ دادا كَبُرَتْ : بڑی ہے كَلِمَةً : بات تَخْرُجُ : نکلتی ہے مِنْ : سے اَفْوَاهِهِمْ : ان کے منہ (جمع) اِنْ : نہیں يَّقُوْلُوْنَ : وہ کہتے ہیں اِلَّا : مگر كَذِبًا : جھوٹ
ان کو اس بات کا کچھ بھی علم نہیں اور نہ ان کے باپ دادا ہی کو تھا (یہ) بڑی سخت بات ہے جو ان کے منہ سے نکلتی ہے (اور کچھ شک نہیں کہ) یہ جو کچھ کہتے ہیں محض جھوٹ ہے۔
مَا لَہُمْ بِہٖ مِنْ عِلْمٍ وَّلَا لِاٰبَاۗىِٕہِمْ۝ 0ۭ كَبُرَتْ كَلِمَۃً تَخْرُجُ مِنْ اَفْوَاہِہِمْ۝ 0ۭ اِنْ يَّقُوْلُوْنَ اِلَّا كَذِبًا۝ 5 علم العِلْمُ : إدراک الشیء بحقیقته، ( ع ل م ) العلم کسی چیز کی حقیقت کا اور راک کرنا أب الأب : الوالد، ويسمّى كلّ من کان سببا في إيجاد شيءٍ أو صلاحه أو ظهوره أبا، ولذلک يسمّى النبيّ صلّى اللہ عليه وسلم أبا المؤمنین، قال اللہ تعالی: النَّبِيُّ أَوْلى بِالْمُؤْمِنِينَ مِنْ أَنْفُسِهِمْ وَأَزْواجُهُ أُمَّهاتُهُمْ [ الأحزاب/ 6] ( اب و ) الاب ۔ اس کے اصل معنی تو والد کے ہیں ( مجازا) ہر اس شخص کو جو کسی شے کی ایجاد ، ظہور یا اصلاح کا سبب ہوا سے ابوہ کہہ دیا جاتا ہے یہی وجہ ہے کہ آیت کریمہ ۔ { النَّبِيُّ أَوْلَى بِالْمُؤْمِنِينَ مِنْ أَنْفُسِهِمْ وَأَزْوَاجُهُ أُمَّهَاتُهُمْ } [ الأحزاب : 6] میں آنحضرت کو مومنین کا باپ قرار دیا گیا ہے ۔ كبير وأكْبَرْتُ الشیء : رأيته كَبِيراً. قال تعالی: فَلَمَّا رَأَيْنَهُ أَكْبَرْنَهُ [يوسف/ 31] . ( ک ب ر ) کبیر اکبرت الشئی کے معنی کسی چیز کو بڑا خیال کرنے کے ہیں چناچہ قرآن میں ہے ؛ فَلَمَّا رَأَيْنَهُ أَكْبَرْنَهُ [يوسف/ 31] جب عورتوں نے ان کو دیکھا تو ان کا رعب ان پر چھا گیا كلم الكلْمُ : التأثير المدرک بإحدی الحاسّتين، فَالْكَلَامُ : مدرک بحاسّة السّمع، والْكَلْمُ : بحاسّة البصر، وكَلَّمْتُهُ : جرحته جراحة بَانَ تأثيرُها، ( ک ل م ) الکلم ۔ یہ اصل میں اس تاثیر کو کہتے ہیں جس کا ادراک دو حاسوں میں سے کسی ایک کے ساتھ ہوسکے چناچہ کلام کا ادراک قوت سامعہ کیساتھ ہوتا ہے ۔ اور کلم ( زخم ) کا ادراک قوت بصر کے ساتھ ۔ محاورہ ہے ۔ کلمتہ ۔ میں نے اسے ایسا زخم لگایا ۔ جس کا نشان ظاہر ہوا اور چونکہ یہ دونوں ( یعنی کلام اور کلم ) معنی تاثیر میں مشترک ہیں ۔ خرج خَرَجَ خُرُوجاً : برز من مقرّه أو حاله، سواء کان مقرّه دارا، أو بلدا، أو ثوبا، وسواء کان حاله حالة في نفسه، أو في أسبابه الخارجة، قال تعالی: فَخَرَجَ مِنْها خائِفاً يَتَرَقَّبُ [ القصص/ 21] ، ( خ رج ) خرج ۔ ( ن) خروجا کے معنی کسی کے اپنی قرار گاہ یا حالت سے ظاہر ہونے کے ہیں ۔ عام اس سے کہ وہ قرار گاہ مکان ہو یا کوئی شہر یا کپڑا ہو اور یا کوئی حالت نفسانی ہو جو اسباب خارجیہ کی بنا پر اسے لاحق ہوئی ہو ۔ قرآن میں ہے ؛ فَخَرَجَ مِنْها خائِفاً يَتَرَقَّبُ [ القصص/ 21] موسٰی وہاں سے ڈرتے نکل کھڑے ہوئے کہ دیکھیں کیا ہوتا ہے ۔ فوه أَفْوَاهُ جمع فَمٍ ، وأصل فَمٍ فَوَهٌ ، وكلّ موضع علّق اللہ تعالیٰ حکم القول بِالْفَمِ فإشارة إلى الکذب، وتنبيه أنّ الاعتقاد لا يطابقه . نحو : ذلِكُمْ قَوْلُكُمْ بِأَفْواهِكُمْ [ الأحزاب/ 4] ، وقوله : كَلِمَةً تَخْرُجُ مِنْ أَفْواهِهِمْ [ الكهف/ 5]. (و ہ ) افواہ فم کی جمع ہے اور فم اصل میں فوہ ہے اور قرآن پاک میں جہاں کہیں بھی قول کی نسبت فم یعنی منہ کی طرف کی گئی ہے وہاں در وغ گوئی کی طرف اشارہ ہے اور اس پر تنبیہ ہے کہ وہ صرف زبان سے ایسا کہتے ہیں ان کے اندرون اس کے خلاف ہیں جیسے فرمایا ذلِكُمْ قَوْلُكُمْ بِأَفْواهِكُمْ [ الأحزاب/ 4] یہ سب تمہارے منہ کی باتیں ہیں ۔ كَلِمَةً تَخْرُجُ مِنْ أَفْواهِهِمْ [ الكهف/ 5] بات جوان کے منہ سے نکلتی ہے ۔ صدق وکذب الصِّدْقُ والکذب أصلهما في القول، ماضیا کان أو مستقبلا، وعدا کان أو غيره، ولا يکونان بالقصد الأوّل إلّا في القول، ولا يکونان في القول إلّا في الخبر دون غيره من أصناف الکلام، ولذلک قال : وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء/ 122] ، ( ص دق) الصدق ۔ الکذب یہ ایک الکذب کی ضد ہے اصل میں یہ دونوں قول کے متعلق استعمال ہوتے ہیں خواہ اس کا تعلق زمانہ ماضی کے ساتھ ہو یا مستقبل کے ۔ وعدہ کے قبیل سے ہو یا وعدہ کے قبیل سے نہ ہو ۔ الغرض بالذات یہ قول ہی کے متعلق استعمال ہوتے ہیں پھر قول میں بھی صرف خبر کے لئے آتے ہیں اور اس کے ماسوا دیگر اصناف کلام میں استعمال نہیں ہوتے اسی لئے ارشاد ہے ۔ وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء/ 122] اور خدا سے زیادہ وہ بات کا سچا کون ہوسکتا ہے ۔
Top