Fi-Zilal-al-Quran - Al-Kahf : 5
مَا لَهُمْ بِهٖ مِنْ عِلْمٍ وَّ لَا لِاٰبَآئِهِمْ١ؕ كَبُرَتْ كَلِمَةً تَخْرُجُ مِنْ اَفْوَاهِهِمْ١ؕ اِنْ یَّقُوْلُوْنَ اِلَّا كَذِبًا
مَا : نہیں لَهُمْ بِهٖ : ان کو اس کا مِنْ عِلْمٍ : کوئی علم وَّلَا : اور نہ لِاٰبَآئِهِمْ : ان کے باپ دادا كَبُرَتْ : بڑی ہے كَلِمَةً : بات تَخْرُجُ : نکلتی ہے مِنْ : سے اَفْوَاهِهِمْ : ان کے منہ (جمع) اِنْ : نہیں يَّقُوْلُوْنَ : وہ کہتے ہیں اِلَّا : مگر كَذِبًا : جھوٹ
اس بات کا نہ انہیں کوئی علم ہے اور نہ ان کے باپ دادا کو تھا۔ بڑی بات ہے جو ان کے منہ سے نکلتی ہے ، وہ محض جھوٹ بکتے ہیں۔
مالھم بہ من علم ولا لابئھم (81 : 5) ” بڑی بات ہے جو ان کے منہ سے نکلتی ہے ، وہ محض جھوٹ بکتے ہیں۔ “ قرآن کریم نے ان کے کلام اور ان کے عقیدے کے لئے جو الفاظ چنے ہیں وہ تعبیر مفہوم اور الفاظ کی آواز دونوں کے اعتبار سے ان کے کلمہ اور ان کی بات کے قابل مذمت ہونے کا اظہار کرتے ہیں۔ پہلا لفظ ہے (کبرت) تاکہ سننے والے کو معلوم ہوجائے کہ یہ لوگ جو بات کرتے ہیں وہ غایت درجے کی قابل مذمت اور بہت بڑی بات ہے باعتبار نتائج۔ کلمۃ تو ضمیر جملہ سے تمیز کے طور پر لایا گیا۔ یعنی کبرت کے اندر موجود ضمیر ہے۔ یہ زیادہ متوجہ کرنے کے لئے کہ ان کے منہ سے یہ عظیم با بڑی لاپرواہی اور بےت کے انداز میں نکل رہی ہے اور بغیر کسی احتیاط اور جھجک کے بس نکلی چلی آرہی ہے۔ تخرج من افواھھم (81 : 5) ” ان کے منہ سے نکلتی ہے۔ “ افواھھم کا تلفظ بھی بڑا برا ہے اور مفہوم کے اعتبار سے بھی اس لفظ سے ان کی بات زیادہ قابل مذمت معلوم ہوتی ہے اور لفظی اعتبار سے بھی ایک شخص اس لفظ کو منہ کھول کر افوا ادا کرتا ہے اور اس کے بعد باہم متصل دوھاء کی ادائیگی سے اس کا منہ بھر جاتا ہے اور ہم تک پہنچتے پہنچتے اس کا منہ پھول جاتا ہے۔ لہٰذا مفہوم اور ترکیب اور تلفظ تینوں اعتبار سے اس بات اور کلمہ کی شناخت کا اظہار ہوتا ہے اور پھر اس کی بعد تاکید منفی بھی آجاتی ہے۔ یعنی : ان یقولون الا کذباً (81 : 5) (نہیں کہتے وہ مگر جھوٹ۔ “ پھر یہاں ما یقولون نہیں کہا ہے۔ ان یقولون کہا ہے کیونکہ لفظ ان میں نون سکان ہونے کی وجہ سے سختی اور فیصلہ کن انداز پایا جاتا ہے اور ما میں مد الف ہے جو نرم بات کو ظاہر کرتی ہے۔ اور یہ سب لفظی اور معنوی سختی محض تاکید کے لئے کہی گئی ہے کہ یہ کلمہ یا یہ بات جو یہ آگ کہتے ہیں ، نہایت ہی عظیم بات ہے اور اس کے نتائج ان کے لئے بہت ہی سنگین ہیں۔ “ ان کی اس بات پر گرفت شدید کے ساتھ ساتھ اس طرح کی ایک تنبیہ نبی ﷺ کو بھی کی جاتی ہے۔ حضور اکرم ﷺ اس بات پر بہت ہی پریشان تھے کہ آپ کی قوم کی تکذیب کر رہی ہے اور ایسے طریقے اختیار کر رہی ہے جن کا انجام ہلاکت کے سوا کچھ نہیں ، تو حضور اکرم کو بھی ذرا سخت الفاظ میں کہا جاتا ہے۔
Top