Maarif-ul-Quran - Yaseen : 71
اَوَ لَمْ یَرَوْا اَنَّا خَلَقْنَا لَهُمْ مِّمَّا عَمِلَتْ اَیْدِیْنَاۤ اَنْعَامًا فَهُمْ لَهَا مٰلِكُوْنَ
اَوَلَمْ يَرَوْا : یا کیا وہ نہیں دیکھتے ؟ اَنَّا خَلَقْنَا : ہم نے پیدا کیا لَهُمْ : ان کے لیے مِّمَّا : اس سے جو عَمِلَتْ اَيْدِيْنَآ : بنایا اپنے ہاتھوں (قدرت) سے اَنْعَامًا : چوپائے فَهُمْ : پس وہ لَهَا : ان کے مٰلِكُوْنَ : مالک ہیں
کیا اور نہیں دیکھتے وہ کہ ہم نے بنا دیئے ان کے واسطے اپنے ہاتھوں کی بنائی ہوئی چیزوں سے چوپائے پھر وہ ان کے مالک ہیں
(آیت) اولم یروا انا خلقنا لہم مما عملت ایدینا انعاماً فہم لہا مالکون۔
اس آیت میں چوپائے جانوروں کی تخلیق میں انسانی منافع اور ان میں قدرت کی عجیب و غریب صنعت کاری کا ذکر فرمانے کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے ایک اور احسان عظیم کو بتلایا گیا ہے کہ یہ چوپائے جانور جن کی تخلیق میں کسی انسان کا کوئی دخل نہیں، خالص دست قدرت کے بنائے ہوئے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے صرف یہی نہیں کیا کہ انسان کو ان چوپاؤں سے نفع اٹھانے کا موقع ملا اور اجازت دے دی بلکہ اس کو ان کا مالک بنادیا کہ وہ ان میں ہر طرح کے مالکانہ تصرفات کرسکتے ہیں، خود نفع اٹھائیں یا ان کو فروخت کر کے ان کی قیمت سے فائدہ اٹھائیں۔
ملکیت اشیاء کی اصل علت عطاء حق ہے، نہ سرمایہ محنت
آج کل نئے نئے معاشی ازموں اور نظریات میں یہ بحث چھڑی ہوئی ہے کہ تخلیق اشیاء اور ان کی ملکیت میں سرمایہ اور دولت اصل ہے، یا محنت ؟ سرمایہ دارانہ نظام معیشت کے قائل دولت وسرمایہ کو اصل قرار دیتے ہیں اور سوشلزم اور کمیونزم والے محنت کو اصل علت تخلیق و ملکیت کی قرار دیتے ہیں۔ قرآن مجید کے اس فیصلے نے بتلا دیا کہ تخلیق اشیاء اور ان کی ملکیت میں دونوں کا کوئی دخل نہیں، تخلیق کسی چیز کی انسان کے قبضہ میں نہیں، وہ براہ راست حق تعالیٰ کا فعل ہے۔ اور عقل کا تقاضا ہے کہ جو کسی چیز کو پیدا کرے وہی اس کا مالک بھی ہو۔ اس طرح اصل اور حقیقی ملکیت اشیائے عالم میں حق تعالیٰ کی ہے، انسان کی ملکیت کسی بھی چیز میں صرف اللہ تعالیٰ کے عطا کرنے سے ہو سکتی ہے، اللہ تعالیٰ نے اشیاء کی اثبات ملکیت اور انتقال ملکیت کا قانون اپنے پیغمبروں کے ذریعہ نازل فرما دیا ہے۔ اس قانون کے خلاف کوئی کسی چیز کا مالک نہیں ہو سکتا۔
Top