Tafseer-e-Madani - Al-Baqara : 207
وَ مِنَ النَّاسِ مَنْ یَّشْرِیْ نَفْسَهُ ابْتِغَآءَ مَرْضَاتِ اللّٰهِ١ؕ وَ اللّٰهُ رَءُوْفٌۢ بِالْعِبَادِ
وَ : اور مِنَ : سے النَّاسِ : لوگ مَنْ : جو يَّشْرِيْ : بیچ ڈالتا ہے نَفْسَهُ : اپنی جان ابْتِغَآءَ : حاصل کرنا مَرْضَاتِ : رضا اللّٰهِ : اللہ وَاللّٰهُ : اور اللہ رَءُوْفٌ : مہربان بِالْعِبَادِ : بندوں پر
وہ اور دوسری طرف کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو کہ اللہ کی رضا کی طلب میں اپنی جان عزیز کو بھی بیچ دیتے ہیں اور اللہ بڑا ہی مہربان ہے اپنے بندوں پر5
572 ایمان کا تقاضا کہ جان بھی اللہ کیلئے قربان : کہ یہ جان ہماری نہیں، ہمارے اسی خالق ومالک کی ہے۔ اس پر ہماری مرضی نہیں چلے گی، بلکہ اسی وحدہ لاشریک کی مرضی چلے گی۔ یہ اس کا ہم پر حق ہے اور اسی میں ہماری بہتری و بھلائی اور فوز و فلاح ہے۔ روایات میں ہے کہ جب حضرت صہیب رومی ۔ ؓ ۔ ہجرت کے ارادے سے نکلے، تو کفار قریش نے ان کا راستہ روک لیا کہ تم نہیں جاسکتے۔ تو آپ ؓ نے ان سے فرمایا کہ دیکھو تم لوگ اچھی طرح جانتے ہو، کہ میں تم میں سب سے بڑا تیر انداز ہوں، جب تک ایک بھی تیر میرے ترکش میں باقی رہا تم لوگ میرے قریب نہیں آ سکو گے، اور جب تیر ختم ہوگئے تو میں تمہارے ساتھ اپنی تلوار سے لڑونگا، جب تک میرے اندر تلوار اٹھانے کی سکت رہی، اور جب اس سے بھی رہ گیا، تو پھر تمہاری مرضی، تم میرے ساتھ جو چاہو سلوک کرلینا، مجھے اس کی کوئی پرواہ نہیں۔ اور اگر تم لوگ مال چاہتے ہو، تو آؤ میں تم کو اپنے مال کا پتہ دے دیتا ہوں، جا کرلے لو، اور میرا راستہ خالی کردو۔ تو ان لوگوں نے آپ ؓ کی یہ بات مان لی، اور وہ مال کے بدلے آپ ؓ کا راستہ خالی کرنے پر راضی ہوگئے، اور آپ ؓ اپنے دین و ایمان کی حفاظت کی خاطر اپنا سب مال و دولت ان کے حوالے کر کے خالی ہاتھ مکہ مکرمہ سے مدینہ منورہ پہنچ گئے، اور وہاں پہنچ کر اپنا سب ماجرا آنحضرت ﷺ کی خدمت میں پیش کیا، تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ " رَبِحَ الْبَیْعُ اَبَا یَحْییٰ ، رَبِحَ الْبَیْعُ اَبَا یَحْییٰ " " ابو یحییٰ تمہارا یہ سودا کامیاب ہوگیا، ابو یحییٰ تمہارا یہ سودا کامیاب ہوگیا " اور فرمایا کہ تمہارے بارے میں یہ آیت کریمہ نازل ہوئی ۔ صَلَوَات اللّٰہ وَسََلامُہٗ عَلَیْہ وَرِضْوَان اللّٰہ عَلَیْہِم اَجْمَعِیْنَ ۔ سو اللہ پاک کی راہ میں اور اس کی رضا کیلئے اپنا سب کچھ قربان کردینا، خسارے کا نہیں سراسر نفع کا سودا ہے کہ اس خالق کل اور مالک مطلق کی رضاء و خوشنودی دارین کی فوز و فلاح کی ضامن اور کفیل ہے۔ وباللہ التوفیق لما یحب ویرید وہو الہادی الی سواء السبیل ۔ سبحانہ و تعالیٰ ۔ بہرکیف اس سے مومن مخلص کا نمونہ پیش فرمایا گیا ہے۔ 573 اللہ تعالیٰ اپنے بندوں پر بڑا ہی مہربان ہے : اتنا مہربان کہ اس کی عنایت و مہربانی کا کوئی کنارہ نہیں ۔ سبحانہ و تعالیٰ ۔ اور یہ اسی کے اس کرم بےپایاں کا ایک مظہر ہے کہ وہ غنی مطلق اہل ایمان سے ان کے جان و مال خریدتا ہے، کہ اس کے عوض ان کو وہ جنت کی ابدی اور سدا بہار نعمتوں سے نوازے، حالانکہ بندے خود اور جو کچھ ان کے ہاتھ میں ہے، وہ سب کا سب بھی اسی وحدہ لاشریک کا پیدا کیا ہوا اور اسی کی ملکیت ہے۔ بندہ سے صرف اسی قدر مطلوب ہے کہ وہ اپنے ارادہ و اختیار سے اس کی اطاعت و بندگی قبول کرے، اور اسی کا ہو کر رہے۔ اور اپنے خالق ومالک سے کئے گئے اس سودے پر خوش و خرم رہے اور بس ۔ { فَاسْتَبْشِرُوْا بِبَیْعِکُمُ الَّذِیْ بَایَعْتُمْ بِہٖ } ۔ اللہ تعالیٰ ہمیشہ اپنی عبادت و بندگی اور رضاء و خوشنودی کی راہوں پر چلنا نصیب فرمائے ۔ آمین ثم آمین ۔ سو وہ وحدہ لاشریک اپنی اسی رافت و رحمت اور مہربانی کی بناء پر اپنے بندے پر اس کی استطاعت سے زیادہ بوجھ نہیں ڈالتا، اور اگر بندے سے اس کے بشری تقاضوں کی بناء پر کوئی تقصیر ہوجاتی ہے تو وہ اس کو معاف فرما دیتا ہے۔ اور اس کی رحمت و عنایت اس کے سخط و غضب پر غالب ہے ۔ سبحانہ و تعالیٰ -
Top