Tadabbur-e-Quran - Al-Baqara : 207
وَ مِنَ النَّاسِ مَنْ یَّشْرِیْ نَفْسَهُ ابْتِغَآءَ مَرْضَاتِ اللّٰهِ١ؕ وَ اللّٰهُ رَءُوْفٌۢ بِالْعِبَادِ
وَ : اور مِنَ : سے النَّاسِ : لوگ مَنْ : جو يَّشْرِيْ : بیچ ڈالتا ہے نَفْسَهُ : اپنی جان ابْتِغَآءَ : حاصل کرنا مَرْضَاتِ : رضا اللّٰهِ : اللہ وَاللّٰهُ : اور اللہ رَءُوْفٌ : مہربان بِالْعِبَادِ : بندوں پر
اور لوگوں میں کچھ ایسے بھی ہیں جو اللہ کی رضا جوئی کے لیے اپنے آپ کو تج دیتے ہیں اور اللہ اپنے بندوں پر نہایت مہربان ہے۔
اہل اخلاص کی حوصلہ افزائی : شری یشری کے معنی بیچنے کے ہیں۔ یہ اشارہ ہے مخلص اہل ایمان کی طرف جنہوں نے اللہ کی رضا جوئی اور خوشنودی کے لیے اپنا سب کچھ تج دیا ہے۔ ان کا ذکر یہاں دو پہلوؤں سے ہے۔ ایک یہ کہ ان منافقین کو غیرت آئے جن کا ذکر اوپر کی آیات میں ہوا ہے کہ سب تمہارے ہی جیسے مفاد پرست اور ابن الوقت نہیں ہیں بلکہ تمہارے ہی آنکھوں کے سامنے اللہ کے وہ بندے بھی ہیں جو اپنا تن، من، دھن سب کچھ خدا کی راہ میں قربان کرنے کا عہد کرچکے ہیں اور اپنی زندگی کا مقصد اس کی رضا کے سوا کچھ نہیں سمجھتے۔ دوسرا یہ کہ اس ذکر سے ان اہل ایمان کی حوصلہ افزائی ہو، جو ان منافقین کے برعکس اللہ ہی کے لیے جینے اور اللہ ہی کے لیے مرنے والے تھے۔ منافقین کے ذکر کے پہلو بہ پہلو اللہ تعالیٰ نے ان کی طرف اشارہ کر کے یہ ظاہر فرما دیا کہ اس کے جانباز و وفادار بندے بھی موجود ہیں اور وہی اس کی رافت و رحمت کے سزا وار ہیں۔ وَاللّٰهُ رَءُوْفٌۢ بِالْعِبَادِ میں اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ ہرچند اللہ تعالیٰ کے ساتھ بیع و شرا کا عہد بڑا کٹھن ہے اور اللہ کی رضا جوئی کے یے اپنی ساری زندگی کو تج دینا ایک عظیم جہاد ہے جس کے تقاضے بڑے صبر آزما ہیں لیکن اللہ تعالیٰ اپنے بندوں پر بڑا مہربان ہے، وہ ان پر ان کی استطاعت سے زیادہ بوجھ نہیں ڈالتا، اور اگر اس عہد کے تقاضوں میں ان سے کوئی بھول چوک ہوجاتی ہے تو اس کو معاف کرتا ہے، لغزشوں اور کوتاہیوں کے لیے اس نے توبہ کی و اصلاح کی راہیں کھلی رکھی ہیں۔
Top