Ruh-ul-Quran - Al-Baqara : 207
وَ مِنَ النَّاسِ مَنْ یَّشْرِیْ نَفْسَهُ ابْتِغَآءَ مَرْضَاتِ اللّٰهِ١ؕ وَ اللّٰهُ رَءُوْفٌۢ بِالْعِبَادِ
وَ : اور مِنَ : سے النَّاسِ : لوگ مَنْ : جو يَّشْرِيْ : بیچ ڈالتا ہے نَفْسَهُ : اپنی جان ابْتِغَآءَ : حاصل کرنا مَرْضَاتِ : رضا اللّٰهِ : اللہ وَاللّٰهُ : اور اللہ رَءُوْفٌ : مہربان بِالْعِبَادِ : بندوں پر
اور لوگوں میں کچھ ایسے بھی ہیں جو اللہ کی رضاجوئی کے لیے اپنے آپ کو بیچ دیتے ہیں ‘ اور اللہ اپنے بندوں پر نہایت مہربان ہے
وَمِنَ النَّاسِ مَنْ یَّشْرِیْ نَفْسَہُ ابْتِغَـآئَ مَرْضَاتِ اللّٰہِ ط وَاللّٰہُ رَئُ وْفٌ م بِالْعِبَادِ ۔ ( اور لوگوں میں کچھ ایسے بھی ہیں جو اللہ کی رضاجوئی کے لیے اپنے آپ کو بیچ دیتے ہیں ‘ اور اللہ اپنے بندوں پر نہایت مہربان ہے) (207) اسلامی قافلے کا اصل اثاثہ منافقین کی اس مایوس کن اور حوصلہ شکن تصویر کشی کے بعد پروردگار اس آیت کریمہ میں ایک اور تصویر دکھا رہے ہیں۔ اس تصویر دکھانے سے معلوم یہ ہوتا ہے کہ مسلمانوں کی حوصلہ افزائی کرنا ہے تاکہ وہ یہ نہ سمجھیں کہ ان کے گردوپیش میں ایسے ہی کم ظرف اور تھڑدلے لوگ موجود ہیں جن پر کسی طرح بھی اعتماد نہیں کیا جاسکتا۔ انھیں دکھایا جارہا ہے کہ تمہارے اندر ایسے لوگ بھی موجود ہیں ‘ جنھوں نے اپنا سب کچھ اللہ کی رضاجوئی کے لیے قربان کرنے کا عزم کر رکھا ہے ‘ جن کی زندگی کا مقصد اللہ کی رضاجوئی کے سوا اور کچھ نہیں۔ وہ اللہ ہی کے لیے جینا اور اللہ ہی کے لیے مرناپسند کرتے ہیں۔ تم اپنے آپ کو تنہا مت سمجھو۔ تم ایک ایسے قافلے کے فرد ہو جس میں اگر کہیں کہیں منافقت کے داغ دکھائی دیتے ہیں تو وہیں ایک قطعی اکثریت ان مخلص مسلمانوں کی ہے جن کے پیش نظر اسلام کی سربلندی کے سوا اور کچھ نہیں۔ وہ اپنا تن من دھن اللہ کی راہ میں لٹانے کا عہد کرچکے ہیں۔ جب بھی کبھی حالات نے ان کو پکارا ہے ‘ انھوں نے آگے بڑھ کر کھرا سونا ہونے کا ثبوت دیا ہے۔ مال کی ضرورت پڑی ہے تو انھوں نے بڑھ چڑھ کر ایثار کرنے سے تأمل نہیں کیا۔ جان دینے کا وقت آیا ہے تو انھوں نے گردن کٹوانے سے دریغ نہیں کیا۔ ہجرت کا حکم آیا تو انھیں وطن چھوڑنے میں ذرا پس وپیش نہیں ہوا۔ بدر اور احد کے میدان میں اپنے خونی رشتوں کے خلاف تلوار نکالنے میں انھیں تأمل نہ ہوا۔ اللہ کے رشتے کے سامنے وہ اپنا ہر رشتہ کاٹ چکے ہیں اور اسلام کے مفاد کے مقابلے میں ہر مفاد کو شکست دے چکے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جو اسلام کا اثاثہ ہیں اور یہی وہ لوگ ہیں کہ قیامت تک ان کے اعمال کی روشنی تاریخ کو روشن رکھے گی۔ اور آج تک مسلمان انہی کے حوصلوں سے گرمی محسوس کرتے ہیں۔ لیکن یہ بھی امرواقعہ ہے کہ مقدس لوگوں کا کوئی گروہ بھی ہر چھوٹی بڑی غلطی سے یکسر مبرا نہیں ہوسکتا۔ معصوم صرف اللہ کے نبی ہوتے ہیں۔ بالخصوص وہ مسلمان جو ابھی نئے نئے آنحضرت ﷺ کی تربیت میں آئے ہیں ‘ ان کے حوصلوں اور عزائم میں تو کوئی کمی نہیں ‘ ان کے اخلاص میں بھی کوئی شبہ نہیں ہوسکتا۔ لیکن کبھی نہ کبھی کسی غلطی کا صدور یہ انسانی فطرت کا تقاضا ہے۔ اسی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا : وَاللّٰہُ رَئُ وْفٌم بِالْعِبَادِِ ” اللہ اپنے بندوں پر بہت مہربان ہے۔ “ صحابہ اپنی ہمت سے بڑھ کر اخلاص کا ثبوت دے چکے ہیں اور انھوں نے اپنا سب کچھ اس کی جنت کے عوض میں بیچ دیا ہے لیکن یہ عہد اتنا کٹھن ہے کہ کبھی نہ کبھی اس کے تقاضوں کو بروئے کار لاتے ہوئے بھول چوک ہوسکتی ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ تمہارا پروردگار ایسا نہیں کہ ایسی بھول چوک پر بھی تمہارا مؤاخذہ کرے وہ تو بہت مہربان ہے۔ اس نے لغزشوں اور کوتاہیوں کی معافی کے لیے بہت سے دروازے کھلے رکھے ہیں ‘ جس سے وہ اپنے نیک بندوں کو ہمیشہ نوازتا رہتا ہے۔ اس آیت کریمہ میں اصحاب رسول ﷺ کے حوالے سے بیع وشراء کے جس عہد کا ذکر فرمایا گیا ہے ‘ حقیقت یہ ہے یہ محض الفاظ نہیں بلکہ ان الفاظ کے پیچھے ایک ایک صحابی کا زندہ عمل اور فدائیت اور ایثار کا بیش بہا نمونہ موجود ہے۔ جس طرح ہر مرحلے پر صحابہ نے ایثار و قربانی کی تاریخ رقم کی ہے۔ دنیا ہزار کوشش کے باوجود اس کا ادنیٰ سے ادنیٰ نمونہ دکھانے سے بھی قاصر ہے۔ کوئی بھی مشکل مرحلہ آتا تو صحابہ کی زبان پر ایک ہی جملہ رقصاں ہوتا تھا۔ رَضِیْتُ بِاللّٰہِ رَبًّا وَّ بِالاِْسْلَامِ دِیْنًا وَّ بِمُحَمَّدِ نَبِیًّا ” میں نے اللہ کو اپنی پسند سے رب مانا ہے اور اسلام کو بطور دین اختیار کیا ہے اور محمد ﷺ کو نبی تسلیم کیا ہے۔ “ ان میں سے ہر عقیدے کے پیچھے میرے دل کی آمادگی اور میرے جذبات کی فراوانی شامل ہے۔ میں جب تک زندہ ہوں تو اسی کی خاطر زندہ ہوں اور جب میں مروں گا تو میری اللہ سے دعا ہے کہ میری موت بھی اسی راستے میں آئے۔ میری تمنا یہ ہے : میں تو کیا میرا سارا مال و منال میرا گھر بار میرے اہل و عیال میرے ان ولولوں کا جاہ و جلال میری عمر رواں کے ماہ و سال میرا سب کچھ میرے خدا کا ہے یٰٓـاَیُّھَاالَّذِیْنَ اٰمَنُوا ادْخُلُوْا فِی السِّلْمِ کَآفَّـۃً ص وَلَاتَتَّبِعُوْا خُطُوٰتِ الشَّیْطٰنِ ط اِنَّـہٗ لَـکُمْ عَدُوٌّمُّبِیْنٌ۔ ( اے ایمان والو اللہ کی اطاعت میں پورے پورے داخل ہوجاؤ اور شیطان کے نقش قدم کی پیروی نہ کرو ‘ وہ تمہارا کھلا دشمن ہے) (208) سِلْم کا مفہوم سِلْم اور سَلْم دونوں قرأ تیں ہیں دونوں کا معنی سرتسلیم خم کرنا اور غیرمشروط اطاعت کرنا ہے۔ بعض اہل علم نے اس کا معنی اسلام کیا ہے۔ دونوں معنوں میں کوئی تضاد نہیں ‘ محض ظاہر کا فرق ہے۔ کیونکہ اسلام کی اصل حقیقت بھی اللہ اور رسول کی اطاعت ہی ہے۔ کَآفَّـۃً کا معنی جمیعاً ہے۔ اسے جماعت کے معنوں میں بھی استعمال کیا جاتا ہے۔ یہ حال ہے اس کا ذوالحال ادْخُلُوْا میں ضمیر مستتر ‘ انتم بھی ہوسکتی ہے اور السلم بھی ہوسکتا ہے۔ منافقین کو مخلصانہ اطاعت کی دعوت یٰٓاَیُّھَاالَّذِیْنَ اٰمَنُوا کا خطاب اگرچہ الفاظ کے لحاظ سے عام ہے لیکن سیاق کلام کو دیکھتے ہوئے یہ کہا جاسکتا ہے کہ روئے سخن ان منافقین کی طرف ہے جن کا ذکر سابقہ آیات میں گزرا ہے۔ ان سے یہ کہا جارہا ہے کہ تمہاری منافقت کا اصل سبب یہ ہے کہ تمہاری اطاعت کا اصل رشتہ صرف اللہ سے نہیں بلکہ تم نے اس اطاعت کو مختلف آستانوں میں تقسیم کر رکھا ہے۔ تم اللہ سے اطاعت کا دم بھی بھرتے ہو لیکن ساتھ ساتھ اسلام کے مخالفین سے بھی تمہارے اطاعت کے رشتے قائم ہیں۔ اسلام کے آنے سے پہلے اوس و خزرج کے لوگ بھی اور مدینہ کے گردونواح میں رہنے والے قبائل بھی یہود سے حلیفانہ تعلق رکھتے تھے اور جن کا تعلق حلیفانہ سطح تک نہیں پہنچا تھا ‘ وہ بھی مختلف کاروباری رشتوں میں منسلک تھے۔ جب اسلام آیا تو ایمان لانے والوں میں اکثریت تو مخلص مسلمانوں کی تھی لیکن کچھ لوگ عبداللہ اور ان کے ساتھیوں جیسے ایسے ضرور موجود رہے جو مسلمان ہونے کا دعویٰ کرتے تھے لیکن یہود سے تعلقات سے دستبردار بھی نہیں ہوتے تھے۔ بلکہ بعض دفعہ مسلمانوں کی خبریں انہیں پہنچاتے تھے اور ان کی مفادات کی نگرانی کرتے تھے۔ مدینہ کے اطراف و جوانب میں رہنے والے قبائل کے بعض لوگوں کا حال ان سے بھی بدتر تھا۔ وہ آکر اسلام کا اظہار کرتے تھے لیکن درپردہ یہود سے اخلاص کا رشتہ رکھتے تھے۔ چناچہ ایسے ہی لوگوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے سورة محمد میں ارشاد فرمایا گیا ہے : ذٰالِکَ بِاَنَّہُمْ قَالُوْا لِلّٰذِیْنَ کِرِھُوْا مَا نَزَّلَ اللّٰہُ سَنُطِیْعُکُمْ فِیْ بَعْضِ الْاَمْرِوَاللّٰہُ یَعْلَمُ اَسْرَارَھُمْ ۔ یہ اس وجہ سے ہے کہ منافقین نے ان لوگوں سے جنھوں نے اللہ کی اتاری ہوئی چیز کا برا منایا ‘ یہ کہا کہ ہم بعض معاملات میں آپ ہی لوگوں کی اطاعت کریں گے۔ اللہ ان کی اس رازداری کو خوب جانتا ہے۔ یہاں لِلّٰذِیْنَ کِرِھُوْاسے اشارہ یہود اور مشرکین کے لیڈروں ہی کی طرف ہوسکتا ہے۔ سورة نساء میں ان کی اس منافقانہ روش کو پوری طرح نمایاں کیا گیا ہے۔ ارشاد فرمایا : الم تر الی الذین یزعمون انہم اٰمنوا بما انزل الیک و ما انزل من قبلک یریدون ان یتحاکموا الی الطاغوت و قد امروا ان یکفروا بہ ویرید الشیطان ان یضلہم ضلالاً بعیداً ۔ و اذا قیل لہم تعالوا الی ما انزل اللہ و الی الرسول رأیت المنافقین یصدون عنک صدوداً ۔ ( ذرا ان لوگوں کو دیکھو جو مدعی ہیں ‘ کہ وہ اس چیز پر ایمان لائے ہیں جو تم پر اتری ہے اور اس چیز پر بھی جو تم سے پہلے اتری ہے۔ یہ چاہتے ہیں کہ اپنے معاملات فیصلہ کے لیے طاغوت کے پاس لے جائیں ‘ حالانکہ ان کو ہدایت کی گئی ہے کہ وہ اس کا انکار کریں۔ شیطان چاہتا ہے کہ ان کو بڑی ہی دور کی گمراہی میں پھینک دے اور جب ان سے کہا جاتا ہے کہ اس چیز کی طرف آؤ جو اللہ نے اتاری ہے اور رسول کی طرف تو تم ان منافقین کو دیکھتے ہو کہ وہ طرح طرح سے گریز کی راہیں اختیار کرتے ہیں) طاغوت سے مراد یہاں طاغوت سے مراد یہود کی عدالتیں ہیں۔ یہود نے اپنی کتاب میں ترمیم و تحریف کے ذریعے بہت سے احکام اپنی خواہشات کے مطابق کردیے تھے اور مزید یہ کہ ان کی عدالتوں میں ہماری عدالتوں کی طرح رشوت کا کاروبار چلتا تھا۔ دوسرے لفظوں میں یہ کہنا چاہیے کہ وہاں انصاف بکتا تھا۔ اس لیے جب کبھی ایسے لوگوں کو کوئی معاملہ پیش آتا جس کے لیے عدالت میں جانے کی ضرورت ہوتی ‘ تو وہ مسلمان ہونے کا دعویٰ کرنے کے باوجود آنحضرت ﷺ کی عدالت میں آنے کی بجائے یہود کی عدالت کا رخ کرتے تھے تاکہ وہ رشوت کے ذریعے یا ان کے قانون کی کمزوری سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنی خواہش کے مطابق فیصلہ کرانے میں کامیاب ہوجائیں اور جب ان سے یہ کہا جاتا کہ تم ایمان واسلام کا دعویٰ کرنے کے باوجود یہود کی عدالتوں میں کیوں جاتے ہو۔ کیا تمہارا ایمان تمہیں اس کی اجازت دیتا ہے تو مختلف حیلوں بہانوں سے اپنے روش کو سچا ثابت کرنے کی کوشش کرتے۔ وفاداری کی یہ تقسیم جس نے منافقین کو دو کشتیوں کا سوار بنادیا تھا۔ اس آیت کریمہ میں اسی بات سے روکا جارہا ہے کہ تم اگر واقعی مومن ہو اور تمہاری اسلام سے وابستگی کا دعویٰ سچا ہے تو پھر تمہارے ایمان کا تقاضا یہ ہے کہ تم پورے کے پورے اسلام میں داخل ہوجاؤ۔ کَـآفَّـۃً کا مفہوم میں پہلے عرض کرچکا ہوں کہ کَآفَّـۃًحال ہے اور اس کا ذوالحال ادْخُلُوْا کی ضمیر خطاب بھی ہوسکتی ہے اور السلمبھی ہوسکتا ہے۔ اگر اسے ادْخُلُوْاکی ضمیر سے حال مانیں تو پھر اس کا مطلب یہ ہوگا کہ تم مکمل طور پر اسلام میں داخل ہوجاؤ۔ تمہارا کوئی رشتہ بھی اسلام کے سوا کسی اور سے نہیں ہونا چاہیے۔ تم جس طرح ایک مسلمان کی حیثیت سے نماز پڑھتے ہو اور تمہارا جسم اللہ کے سامنے جھکتا ہے ‘ اسی طرح تمہارے دل و دماغ کی قوتوں کو بھی اللہ کے سامنے جھکنا چاہیے۔ یہ نہیں ہوسکتا کہ تم نماز تو اللہ کے لیے پڑھو لیکن تمہارا دماغ اس کے دیے ہوئے شرعی احکام سے مطمئن نہ ہو۔ کبھی تمہیں اسلامی تہذیب پر اعتراض ہو کبھی اسلامی تمدن پر کبھی اسلامی ثقافت پر ‘ کبھی اس کے دیے ہوئے آئین پر ‘ کبھی اس کی قانونی دفعات پر۔ مختصر یہ کہ تمہارے جسم کے ایک ایک عضو کے ساتھ ساتھ تمہارے دل و دماغ کی ایک ایک صلاحیت اور ایک ایک احساس اسلام سے وابستہ ہونا چاہیے۔ تم ایک مسلمان کی طرح زندگی گزارو اور ایک مسلمان کی طرح سوچو۔ اور اگر ہم کَآفَّـۃً کو السلم سے حال بنائیں تو پھر اس کا مطلب یہ ہوگا کہ جس طرح تمہاری پوری شخصیت کو اسلام کی تصویر بننا چاہیے۔ اسی طرح مکمل اسلام کو تمہارا عقیدہ اور تمہارے عمل کی روح بننا چاہیے۔ تم یہ نہیں کہ سکتے کہ میں اسلام کے نماز ‘ روزہ ‘ زکوٰۃ اور حج کو تو مانتا ہوں لیکن اس کی معاشرت ‘ اس کی معیشت ‘ اس کی تہذیب ‘ اس کی سیاست ‘ اس کے آئین اور اس کے طرز حکومت کو نہیں مانتا۔ ان چیزوں کا کوئی تعلق اسلام سے نہیں۔ اسلام چند عقائد اور چند عبادات کی رسموں کا نام ہے۔ مولویوں نے بلاوجہ اسے ایک مکمل نظام بنادیا ہے۔ اس میں فوجداری ‘ مالیاتی اور عائلی قوانین کا کوئی تصور نہیں۔ ہمارے ملک کے ایک مشہور ماہر قانون گزرے ہیں جن کا تعلق سندھ سے تھا اور وہ وزیر قانون بھی رہے۔ وہ عالمی شہرت کے قانون دان ہونے کے باوجود ہمیشہ یہ کہتے تھے کہ اسلام میں کوئی نظام نہیں اور نہ اس کا اپنا کوئی آئین ہے۔ تفہیم القرآن مکمل ہونے پر جو تقریب منعقد ہوئی۔ اس میں انھوں نے خود تسلیم کیا کہ میں اسلام کو ایک نظام زندگی ماننے کے لیے ہرگز تیار نہیں تھا لیکن اتفاق یہ ہوا کہ اس سلسلے میں مولانا مودودی مرحوم سے میری مراسلت ہوئی۔ تب مجھے اندازہ ہوا کہ یہ قرآن کریم سے میری بیخبر ی ہے ‘ جس کی وجہ سے میں اتنی بڑی گمراہی کا شکار تھا۔ قدرت اللہ شہاب صاحب کی وفات پر غالباً مدیر تکبیر جناب صلاح الدین مرحوم کا ایک مضمون چھپا تھا ‘ جس میں انھوں نے اسلام آباد میں شہاب صاحب سے اپنی ملاقات کا ذکر کیا۔ جس میں جناب نعیم صدیقی صاحب مرحوم بھی موجود تھے ‘ اس میں شہاب صاحب نے تسلیم کیا کہ ہم لوگ تو ساری عمر فائلوں کی ورق گردانی میں لگے رہتے ہیں۔ کبھی اسلام کا گہرا مطالعہ نہیں کیا اس کا نتیجہ یہ ہے کہ اپنے طور پر اسلام کے بارے میں ایک رائے قائم کرلیتے ہیں پھر اس پر جمے رہتے ہیں۔ انھوں نے صلاح الدین صاحب سے کہا کہ اگر میں آپ کا مضمون نہ پڑھتا جو آپ نے مولانا مودودی ( رح) پر لکھا اور میرے بعض خیالات پر تنقید کی تو میں ہمیشہ یہی سمجھتا رہتا کہ واقعی اسلام نے ہمیں کوئی نظام نہیں دیا۔ اس کے بعد میں نے خود قرآن حکیم کا مطالعہ شروع کیا تو مجھے یقین آیا کہ میں واقعی غلطی پر ہوں۔ یہ میں نے آپ کے سامنے دو صالح دانشوروں کے واقعات ذکر کیے ہیں جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ہمارے تعلیم یافتہ لوگوں کا اصل مسئلہ کیا ہے اور کس طرح ان کی وفاداریاں مختلف حصوں میں بٹی ہوئی ہیں۔ عجیب بات یہ ہے کہ عہد نبوت کے منافقین تو اپنی منقسم وفاداریوں کے باعث منافق کہلائے لیکن آج کے مسلمان کو نہ جانے کیا نام دیا جائے کہ اس نے اپنی شخصیت کو بھی مختلف حصوں میں تقسیم کر رکھا ہے اور اسلام کا بھی ایک من پسند سیٹ اپ یا قالب تیار کر رکھا ہے ‘ جس میں وہ قرآن وسنت کی وضاحتوں کو قبول کرنے کے لیے تیار نہیں۔ ان کی مثال اس شخص کی ہے جس نے ایک مصور سے اپنے بازو پر شیر کی تصویر گودنے کے لیے کہا تھا۔ مصور نے جب بازو سے م اس نکال کر رنگ بھرنے کا آغاز کیا تو اس نے پوچھا کہ کیا بنا رہے ہو۔ کہا دم بنا رہا ہوں۔ کہنے لگا دم بنانے کی کیا ضرورت ہے۔ یہ کون سا سچ مچ کا شیر ہے۔ پھر اس نے سوئی چبھوئی۔ تکلیف ہوئی۔ پوچھا اب کیا بنا رہے ہو۔ کہا ٹانگیں بنانے لگا ہوں۔ کہنے لگا کہ یہ کوئی سچ مچ کا شیر ہے جو کہیں بھاگ کر جائے گا۔ غرضیکہ وہ جس عضوکو بنانے کے لیے سوئی چبھوتا ‘ تصویر بنوانے والا تکلیف کی شدت کی وجہ سے اسے روک دیتا۔ مصور نے تنگ آکر پرکار زمین پر رکھ دی اور کہا اللہ نے تو ایسا شیر پیدا نہیں کیا۔ جس کا کوئی عضو نہ ہو اور وہ پھر بھی شیر ہو۔ ہمارا آج کے دانشور ‘ سیاست دان اور حکمران ایسے ہی اسلام کی تصویر چاہتے ہیں۔ جس میں سوائے چند رسوم کی پابندی کے اور کچھ بھی نہ ہو اور باقی ان کی پوری زندگی پر غیر اللہ کی حکومت ہو۔ جس طرح عہدنبوت کا منافق اپنی منقسم وفاداری کے باعث اللہ کے یہاں قابل قبول نہیں تھا اور اسے حکم دیا گیا تھا کہ پورے کے پورے اسلام میں داخل ہوجاؤ۔ آج کے مسلمان کو بھی حکم دیا جارہا ہے کہ اللہ کی وفاداری کو تقسیم کرنا ‘ اس کے اسلام میں غیراسلام کو داخل کرنا یہ شرک ہے ‘ جسے پروردگار کبھی برداشت نہیں کرتا۔ باطل دوئی پسند ہے حق لا شریک ہے شرکت میانہ حق و باطل نہ کر قبول اسلام مکمل نظام حیات ہے اسلام جس طرح اپنے عقائد رکھتا ہے۔ اسی طرح اپنا ایک نظام زندگی بھی رکھتا ہے۔ توحید ‘ رسالت اور آخرت اس کے عطاکردہ عقائد ہیں۔ ان میں کوئی کمی بیشی نہیں ہوسکتی۔ اسی طرح اس کی معاشرت ‘ معیشت ‘ اخلاق ‘ معاملات ‘ سیاست ‘ آئین اور آداب زندگی میں بھی کوئی تبدیلی اور قلم کاری قابل برداشت نہیں۔ یہ وہ خالص راستہ ہے جس پر چلنا ایمان کا اولین تقاضا ہے۔ اس کے علاوہ جتنے راستے ہیں ‘ وہ شیطان کے راستے ہیں اور ان پر چلنا شیطان کا اتباع کرنا ہے۔ اس لیے فرمایا کہ شیطان کا اتباع مت کرو۔ اور تمہیں خوب معلوم ہے کہ شیطان تمہارا کھلا کھلا دشمن ہے۔ اس نے تمہارے باپ آدم کو جنت سے نکلوانے کی کوشش کی۔ اس نے آدم کے سامنے جھکنے سے انکار کیا اور اللہ کے حکم سے سرتابی کی۔ اور جب اسے وہاں سے نکال دیا گیا تو اس نے چیلنج کیا کہ میں آدم کی اولاد کو اللہ کے راستے پر چلنے نہیں دوں گا۔ میں ہر طرح سے انھیں گمراہ کروں گا۔ فکری راستے سے بھی حملہ کروں گا اور تہذیبی اور تمدنی راستے سے بھی۔ تعلیم کے ذریعے سے میں ان کے تصورات بگاڑ دوں گا۔ میں ان کے سامنے آرزؤوں اور امیدوں کے ایسے جال پھیلاؤں گا جس کی وجہ سے یہ اسلام کے راستے پر ثابت قدم نہیں رہ سکیں گے۔ قرآن کریم نے اس کی ان تمام باتوں کو دہرایا تاکہ مسلمان اس کی دشمنی کو اچھی طرح سمجھ لے اور اس کی گمراہ کن کوششوں سے بچنے کی کوشش کرے۔ لیکن دکھ کی بات یہ ہے کہ انسان قدم قدم پر اس کا اتباع کرتا ہے اور پھر اسے گالی بھی دیتا ہے۔ وہ جن راستوں پر چلانا چاہتا ہے بڑی آمادگی سے انہی راستوں پر چلتا ہے لیکن وہ اسے احساس ہی نہیں ہونے دیتا کہ تم شیطان کے راستے پر چل رہے ہو۔
Top