Tafseer-e-Madani - An-Nisaa : 45
وَ اللّٰهُ اَعْلَمُ بِاَعْدَآئِكُمْ١ؕ وَ كَفٰى بِاللّٰهِ وَلِیًّا١٘ۗ وَّ كَفٰى بِاللّٰهِ نَصِیْرًا
وَاللّٰهُ : اور اللہ اَعْلَمُ : خوب جانتا ہے بِاَعْدَآئِكُمْ : تمہارے دشمنوں کو وَكَفٰى : اور کافی بِاللّٰهِ : اللہ وَلِيًّۢا : حمایتی وَّكَفٰى : اور کافی بِاللّٰهِ : اللہ نَصِيْرًا : مددگار
اور اللہ خوب جانتا ہے تمہارے دشمنوں کو، اور (ان کی فکر سے زیادہ تم اللہ سے اپنا معاملہ درست رکھنے کی فکر کرو کہ) اللہ کافی ہے حمایت کرنے کو، اور اللہ کافی ہے مدد کرنے کو،3
113 اللہ کے کمال علم کا حوالہ و ذکر : سو ارشاد فرمایا گیا کہ اللہ خوب جانتا ہے تمہارے دشمنوں کو۔ اور تم لوگوں سے بھی کہیں زیادہ اور اچھی طرح جانتا ہے۔ پس تم لوگ ہمیشہ اسی وحدہ لاشریک کے بتانے پر اعتماد و یقین رکھو۔ اور اسی کی ہدایات وتعلیمات پر صدق دل سے عمل کرو۔ اور تمہارے جن دشمنوں کی اس نے اپنی رحمت و عنایت سے تمہارے لیے نشاندہی فرما دی ہے ان کو تم اپنا دشمن ہی سمجھو اور ان کی عداوت و دشمنی سے بچنے کی فکر و کوشش میں رہو۔ سو اس جملے میں مسلمانوں کے لئے تسلیہ و تسکین کا سامان ہے کہ اللہ تمہارے دشمنوں اور ان کی چالوں سے بیخبر نہیں ۔ سبحانہ و تعالیٰ ۔ پس تم اسی سے اپنا معاملہ صحیح رکھو ۔ وباللہ التوفیق - 114 حاجت روا و کارساز سب کا اللہ ہی ہے : سو ارشاد فرمایا گیا کہ اللہ ہی کافی ہے سب کی کارسازی اور حاجت روائی کیلئے ہر اس شخص کیلئے جو اس کی طرف جھکے اور اس سے مدد چاہے۔ مگر اس کا کیا کیا جائے کہ آج کا جاہل مسلمان اس قادر مطلق کو پکارنے کی بجائے اس کی عاجز مخلوق کو پکارتا ہے۔ کہیں وہ کہتا ہے " یا علی مدد " کہیں " یا غوث دستگیر " اور کہیں " یا حسین " کے نعرے لگاتا ہے وغیرہ وغیرہ۔ اور وہ اگر نہیں کہتا تو " یا اللہ مدد " ہی نہیں کہتا ۔ اِلَّاما شَائَ اللّٰہٗ وَالْعِیَاذ باللّٰہ الْعَظِیْم ۔ بہرکیف جو صدق دل سے اس کی طرف رجوع کرے گا اس کو وہ اپنی نصرت سے نوازے گا۔ اور جس کو اس کی نصرت و حمایت کی سعادت نصیب ہوجائے اس کو کسی کی کیا پرواہ ہوسکتی ہے۔ سب کچھ تو اسی وحدہ لاشریک کے قبضہ قدرت و اختیار میں ہے۔ بس تم لوگ اے مسلمانو ! اسی وحدہ لا شریک کی کارسازی کے بھروسہ و اعتماد پر راہ حق میں آگے بڑھتے چلو۔ اور کسی اور کی کوئی پرواہ مت کرو۔ اللہ تم کو کافی ہے ۔ سبحانہ وتعالی -
Top