Al-Qurtubi - An-Nisaa : 46
وَ اللّٰهُ اَعْلَمُ بِاَعْدَآئِكُمْ١ؕ وَ كَفٰى بِاللّٰهِ وَلِیًّا١٘ۗ وَّ كَفٰى بِاللّٰهِ نَصِیْرًا
وَاللّٰهُ : اور اللہ اَعْلَمُ : خوب جانتا ہے بِاَعْدَآئِكُمْ : تمہارے دشمنوں کو وَكَفٰى : اور کافی بِاللّٰهِ : اللہ وَلِيًّۢا : حمایتی وَّكَفٰى : اور کافی بِاللّٰهِ : اللہ نَصِيْرًا : مددگار
اور خدا تمہارے دشمنوں سے خوب واقف ہے اور خدا ہی کافی کارساز اور کافی مددگار ہے
سابقہ آیت کی بقیہ تفسیر اور ترمذی میں حضرت علی بن ابی طالب سے مروی ہے فرمایا : ” قرآن میں مجھے اس آیت سے زیادہ کوئی محبوب آیت نہیں ہے۔ (آیت) ” ان اللہ لا یغفر ان یشرک بہ ویغفر ما دون ذالک لمن یشآء “۔ فرمایا : یہ حدیث حسن غریب ہے (3) (جامع ترمذی، ابواب التفسیر جلد 2، صفحہ 129) اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے (آیت) ” الم ترالی الذین یزکون انفسھم “۔ اس میں تین مسائل ہیں : مسئلہ نمبر : (1) اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے (آیت) ” الم ترالی الذین یزکون انفسھم “۔ یہ لفظ اپنے ظاہر میں عام ہے اور کبھی اور حسن نے کہا : ان کا یہ قول ہے۔ (آیت) ” نحن ابنؤا اللہ واحبآؤہ “۔ (المائدہ : 18) (ہم اللہ کے بیٹے اور اس کے محبوب ہیں) اور ان کا یہ قول ہے : (آیت) ” لن یدخل الجنۃ الا من کان ھودا اونصری “۔ (بقرہ : 111) نہیں داخل ہوگا جنت میں (کوئی بھی) بغیر ان کے جو کہ یہودی ہیں یاعیسائی، اور ضحاک ؓ اور سعدی (رح) نے کہا : ان کا یہ قول ہے ہمارا کوئی گناہ نہیں ہے، جو ہم دن کے وقت کرتے ہیں وہ رات کو معاف کردیا جاتا ہے اور جو ہم رات کو کرتے ہیں اور دن کو معاف کردیئے جاتے ہیں، ہم گناہوں کے نہ ہونے میں بچوں کی طرح ہیں، مجاہد، ابو مالک اور عکرمہ (رح) نے کہا : ان کا نماز کے لیے چھوٹے بچوں کا آگے کرنا اس لیے تھا، کیونکہ ان پر گناہ نہیں ہیں، یہ آیت کے مقصد سے بعید ہے، حضرت ابن عباس ؓ نے کہا : یہ ان قول ہے کہ جو ہمارے آباء فوت ہوگئے ہیں اور وہ ہمارے لیے شفاعت کریں گے اور ہمارا تزکیہ کریں گے، حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ نے فرمایا : یہ ان کی ایک دوسرے پر ثنا ہے۔ (4) (المحرر الوجیز، جلد 2، صفحہ 65 دارالکتب العلمیہ) جو کچھ کہا گیا ہے یہ قول اس سے بہتر ہے، کیونکہ یہ آیت کے معنی سے ظاہر ہے، الزکیۃ کا معنی گناہوں سے پاک کرنا ہے۔ مسئلہ نمبر : (2) یہ آیت اور فلا تزکوا انفسکم “۔ (النجم : 32) کا ارشاد تقاضا کرتا ہے کہ مزکی اپنی تعریف سے اپنی زبان کو روکے اور کسی کو اپنے اعمال کے بارے نہ بتائے، کیونکہ حقیقت میں قابل ستائش وہ ہے جس کے افعال اچھے ہوں اور اللہ تعالیٰ اس کا تزکیۃ فرمائے (1) (المحرر الوجیز، جلد 2، صفحہ 66۔ 65 دارالکتب العلمیہ) انسان کے اپنے تزکیۃ کا کوئی اعتبار نہیں اصل اعتبار اللہ تعالیٰ کا اپنے بندے کا تزکیہ کرنا ہے۔ صحیح مسلم میں محمد بن عمرو بن عطا، سے مروی ہے فرمایا : میں نے اپنی بیٹی کا نام برہ رکھا، مجھے زینب بنت ابی سلمہ نے کہا : رسول اللہ ﷺ نے اس نام سے منع کیا ہے اور تو نے اس کا نام برہ رکھا ہے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ” تم اپنی تعریف خود نہ کرو اللہ تعالیٰ تم سے نیکو کاروں کو بہتر جانتا ہے “۔ صحابہ نے کہا : ہم اس کا کیا نام رکھیں : فرمایا :” اس کا نام زینب رکھو “۔ (2) (صحیح مسلم کتاب الادب، جلد 2، صفحہ 208) کتاب وسنت دلالت کرتی ہیں کہ انسان اپنا تزکیہ نہ کرے، اس طرح اب مصری شہروں میں کثرت سے اپنی صفات لوگ ذکر کرتے ہیں جو تزکیہ کا تقاضا کرتی ہیں مثلا زکی الدین، محی الدین اور اس کے مشابہ القاب لیکن جب ان اسماء کے ساتھ مسلمانوں کی قباحتیں زیادہ ہوگئیں تو ان صفات کا اپنے اصل سے دور ہونا ظاہر ہوگیا اور یہ اس طرح ہوگئیں کہ اب کوئی فائدہ نہیں دیتیں۔ مسئلہ نمبر : (3) کسی دوسرے کا تزکیہ کرنا اور اس کی مدح کرنا، بخاری میں ابو بکرہ کی حدیث میں ہے کہ ایک شخص کا نبی مکرم ﷺ کے پاس ذکر کیا گیا اور ایک شخص نے اس کی خیر کے ساتھ تعریف کی، نبی مکرم ﷺ نے فرمایا : ” تجھ پر افسوس تو نے اپنے بھائی کی گردن توڑ دی، آپ ﷺ نے یہ کئی مرتب فرمایا۔ اگر تم میں سے کوئی لامحالہ کسی کی تعریف کرنے والا ہو تو اسے کہنا چاہیے میں اسے اس طرح گمان کرتا ہوں اگر وہ اسے اس طرح دیکھتا ہو اور اسے اللہ تعالیٰ کافی ہے اور کوئی شخص اللہ تعالیٰ پر کسی کا تزکیہ نہ کرے “۔ (3) (صحیح بخاری کتاب الادب، جلد 2، صفحہ 895) اور نبی مکرم ﷺ نے انسان کی ایسی تعریف کرنے سے منع فرمایا جو اس میں نہ ہو ورنہ اس میں اعجاب وکبر داخل ہوجائے گا اور گمان کرے گا کہ وہ حقیقت میں اس مقام پر فائز ہے اور یہ چیز اسے عمل کے ضائع کرنے اور فضیلت کی زیادتی کو ترک کرنے تک پہنچا دے گی، اسی وجہ سے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ویحک قطعت عنق صاحبک تجھ پر افسوس تو نے اپنے ساتھی کی گردن کاٹ دی۔ اور دوسری حدیث میں ہے : قطعتم ظھر الرجل (4) (صحیح بخاری کتاب الادب، جلد 2، صفحہ 895) تم نے آدمی کی پیٹھ توڑ دی، یہ آپ نے اس وقت فرمایا جب لوگوں نے ایک شخص کی ایسی تعریف کی جو اس میں نہیں تھی، اس بناء پر علماء نے نبی مکرم ﷺ کے ارشاد احثوا التراب فی وجوہ المداحین “۔ (5) (تہذیب تاریخ دمشق الکبیر، جلد 7، صفحہ 214) (تعریف کرنے والوں کے مونہوں میں مٹی ڈالو) کی تاویل کی ہے، یہاں ایسے تعریف کرنے والے مراد ہیں جو باطل طریقہ سے مدح کریں اور ایسی صفات بیان کریں جو انسان میں نہ ہوں حتی کہ اس کو ذریعہ معاش بنائے ہوئے ہوں اس کے ذریعے ممدوح سے کھانا حاصل کرتے ہو اور اسے فتنہ میں مبتلا کرتے ہوں، رہا کسی کا کسی کی ایسے اچھے عمل اور محمود امر پر تعریف کرنا جو واقعی اس میں ہے تاکہ اس میں مزید اچھے اعمال کی ترغیب ہو اور لوگوں کو اس کی اقتدا پر ابھارا جائے تو یہ وہ مدح نہیں ہوگی (جس کی مذمت کی گئی ہے) اگرچہ وہ انسان کے اچھے افعال واقوال کی تعریف کرنے والا ہو۔ نبی مکرم ﷺ نے اشعار، خطبوں اور کلام کی خود تعریف فرمائی اور تعریف کرنے والوں کے مونہوں میں مٹی نہ ڈالی اور نہ اس کا حکم دیا جیسے ابوطالب کا قول ہے۔ : وابیض یستسقی الغمام بوجہہ ثمال الیتامی عصمۃ للررالمل : اس طرح نبی مکرم ﷺ نے حضرت عباس ؓ اور حضرت حسان ؓ کی ان کے اشعار کی وجہ سے تعریف فرمائی، حضرت کعب بن زہیر ؓ کی مدح فرمائی اور اپنے صحابہ رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین کی مدح فرمائی فرمایا : ” تم طمع کے وقت کم ہوگئے اور گھبراہٹ کین وقت زیادہ ہوگئے “ صحیح حدیث میں رہا نبی مکرم ﷺ کا یہ ارشاد ” لا تطرونی کما اطرت النصاری عیسیٰ بن مریم وقولوا عبداللہ ورسولہ “ (1) (صحیح بخاری کتاب الانبیائ، جلد 2، صفحہ 490) (یعنی تم میری اس طرح تعریف میں مبالغہ نہ کرو جس طرح نصاری نے عیسیٰ بن مریم کی تعریف میں مبالغہ کیا اور تم کہو عبداللہ ورسولہ) اس کا مطلب یہ ہے کہ تم میری ایسی صفات بیان نہ کرو جو مجھ میں نہیں ہیں جنکے ذریعے میری مدح تلاش کرتے ہو، جس طرح نصاری نے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی ایسی صفات بیان کی تھیں جو ان میں تھیں جوان میں نہیں تھیں، انہوں نے کہا کہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) اللہ کے بیٹے ہیں، پس اس طرح انہوں نے کفر کیا اور گمراہ ہوئے، یہ اس بات کا تقاضا کرتا ہے کہ جس کسی کو اس کی حد سے بلند کیا اور اس کی ایسی صفات بیان کیں کہ اس کی قدر تجاوز کیا تو وہ شخص حد سے بڑھنے والا گنہگار ہے، کیونکہ یہ اگر کسی میں جائز ہوتا تو سب مخلوق سے زیادہ اس کے مستحق رسول اللہ ﷺ ہوتے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے (آیت) ” ولا یظلمون فتیلا، یظلمون “ میں ضمیر ان لوگوں کی طرف لوٹ رہی ہے جو اپنا تزکیہ کرتے ہیں اور جن کا اللہ تعالیٰ تزکیہ فرماتا ہے، اور ان دو اصناف کے علاوہ جو لوگ ہیں معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ کسی پر ظلم کرنے والا نہیں۔ الفتیل کھجور کی گٹھلی کی شق میں جو سفید دھاگا ہوتا ہے اسے کہتے ہیں : یہ حضرت ابن عباس ؓ عطا اور مجاہد کا قول ہے (2) (المحرر الوجیز، جلد 2، صفحہ 66 دارالکتب العلمیہ) بعض علماء نے فرمایا : اس سے مراد وہ باریک پردہ ہے جو گٹھلی کے اردگرد ہوتا ہے جب کھجور پکی اور کچی کیفیت کے درمیان ہوتی ہے۔ حضرت ابن عباس ؓ اور ابو مالک اور سدی ؓ کا قول ہے جب تو اپنی انگلیوں اور ہتھیلیوں کو ملتا ہے تو جو میل نکلتی ہے اس کو فتیل کہتے ہیں (3) (المحرر الوجیز، جلد 2، صفحہ 66 دارالکتب العلمیہ) یہ فعیل بمعنی مفعول ہے، یہ تمام مفہوم کسی شے کی تحقیر اور تصغیر سے کنایہ ہیں، اور اللہ تعالیٰ کسی پر کچھ بھی ظلم نہیں کرتا اسی تحقیر کی مثال یہ ارشاد ہے : ولا یظلمون نقیرا “ ، نقیر اس نکتہ کو کہتے ہیں جو گٹھلی کی پشت پر ہوتا ہے، اسی سے کھجور پیدا ہوتی ہے۔ شاعر نے کسی بادشاہ کی مذمت میں کہا : تجمع الجیش ذا الالوف وتغرر ثم لا ترزا العدو فتیلا : پھر نبی مکرم ﷺ کو اس سے تعجب کرایا، فرمایا (آیت) ” انظر کیف یفترون علی الکذب “۔ (دیکھیے کیسے اللہ پر افترا باندھتے ہیں) اپنے اس قول میں کہ ہم اللہ کے بیٹے اور اس کے محبوب ہیں، بعض علماء نے فرمایا : وہ اپنی ستائش خود کرتے ہیں (4) (المحرر الوجیز، جلد 2، صفحہ 66 دارالکتب العلمیہ) یہ ابن جریج سے مروی ہے روایت ہے کہ انہوں نے کہا : ہمارے لیے کوئی گناہ نہیں سوائے اس کے جس طرح ہمارے بیٹوں کے گناہ ہیں جس دن کی پیدائش ہوتی ہے الافتراء کا معنی جھوٹ گھڑنا ہے، اسی سے ہے : افتری فلان علی فلان، یعنی اس نے اس پر جھوٹی تہمت لگائی، فریت الشیء، میں نے اسے کاٹ دیا، (آیت) ” وکفی بہ اثما مبینا “۔ بیان کی بنا پر منصوب ہے مطلب گناہ کی بڑائی اور اس کی مذمت ہے، عرب اس کی مثل مدح اور مذمت میں استعمال کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے (آیت) ” الم تر الی الذین اتو انصیبا من الکتب “۔ یعنی یہود، (آیت) ” یؤمنون بالجبت والطاغوت “۔ اہل تاویل کا الجبت اور الطاغوت کی تاویل میں اختلاف ہے، حضرت ابن عباس ؓ ، ابن جبیر، اور ابو العالیہ نے کہا : حبشی زبان میں الجبت جادوگر کو کہتے ہیں اور الطاغوت کاہن کو کہتے ہیں (1) (المحرر الوجیز، جلد 2، صفحہ 66 دارالکتب العلمیہ) حضرت فاروق اعظم سیدنا عمر ؓ نے فرمایا : الجبت سے مراد جادو ہے اور الطاغوت سے مراد شیطان ہے۔ (2) (احکام القرآن للطبری، جلد 5، صفحہ 158) حضرت ابن مسعود ؓ سے فرمایا : الجبت اور الطاغوت سے مراد یہاں کعب بن اشرف اور حی بن اخطب ہے۔ عکرمہ ؓ نے کہا : اجبت سے مراد حی بن اخطب ہے اور الطاغوت سے مراد کعب بن اشرف ہے۔ اس کی دلیل اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے (آیت) ” یریدون ان یتحاکموا الی الطاغوت “۔ قتادہ ؓ نے کہا : الجبت سے مراد شیطان ہے اور الطاغوت سے مراد کاہن ہے۔ (3) (احکام القرآن للطبری، جلد 5، صفحہ 158) ابن وہب نے حضرت مالک بن انس ؓ سے روایت کیا ہے الطاغوت ہر وہ چیز ہے جس کی اللہ کے سوا عبادت کی جاتی ہے، فرمایا میں نے کسی شخص کو یہ کہتے سنا کہ جبت سے مراد شیطان ہے، یہ نحاس نے ذکر کیا ہے، بعض نے فرمایا : یہ دونوں اللہ کے سوا ہر معبود کے لیے استعمال ہوتے ہیں یا وہ جس کی اللہ کی معصیت میں اطاعت کی جاتی ہے۔ یہ احسن ہے۔ الجبت کا اصل الخبس ہے وہ جس میں خیر نہ ہو، تاسین کا بدل ہے، یہ قطرب کا قول ہے۔ بعض علماء نے فرمایا : الجبت سے مراد ابلیس ہے اور الطاغوت سے مراد اس کے اولیاء ہیں، اس باب میں امام مالک (رح) کا قول بہتر ہے۔ اس پر اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے (آیت) ” ان اعبدوا اللہ واجتنبوالطاغوت “۔ (النحل : 36) اور فرمایا (آیت) ” والذین اجتنبوا الطاغوت ان یعبدوھا “۔ (الزمر : 17) قطن بن المخارق نے اپنے باپ سے روایت کیا ہے فرمایا : رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اطرق والطیرۃ والعیافۃ من الجبت “۔ (4) (مسند احمد بن حنبل، جلد 3، صفحہ 477) الطرق، سے مراد جھڑکنا ہے اور العیافۃ سے مراد خط ہے، اس حدیث کو ابو داؤد نے اپنی سنن میں روایت کیا ہے بعض علماء نے فرمایا : الجبت سے مراد ہر وہ چیز ہے جس کو اللہ نے حرام کیا اور الطاغوت سے مراد ہر سرکش انسان ہے، واللہ اعلم۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے (آیت) ” ویقولون للذین کفروا “۔ یہود، قریش کے کفار کو کہتے : تم محمد ﷺ پر ایمان لانے والوں سے زیادہ ہدایت یافتہ ہو۔ یہ واقعہ اس طرح ہے کہ کعب بن اشرف ستر سوار لے کر مکہ کی طرف جنگ احد کے بعد نکلا تاکہ رسول اللہ ﷺ سے جنگ پر قریش سے معاہدہ کرے، کعب ابو سفیان کے پاس اترا اس نے اسے اچھا ٹھکانا دیا اور باقی یہود دوسرے قریش کے گھروں میں ٹھہرے سب نے معاہدہ کیا کہ محمد ﷺ سے لڑیں گے، ابو سفیان نے کہا : تو ایک ایسا شخص ہے جو کتاب پڑھتا ہے اور جانتا ہے اور ہم امی (ان پڑھ) لوگ ہیں، ہم نہیں جانتے ہم میں سے کون حق کے زیادہ قریب اور ہدایت یافتہ ہے، ہم یا محمد ﷺ کعب نے کہا : اللہ کی قسم ! تم محمد ﷺ سے زیادہ راہ راست پر ہو۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے (آیت) ” ام لھم نصیب من الملک “۔ ام متصلہ ہے نصیب کا معنی حصہ ہے، ” من الملک “۔ ملک سے ہے۔ یہ بطور انکار ہے یعنی انکے لیے کوئی ملک نہیں ہے اگر اس میں سے ان کے لیے کچھ ہوتا تو اپنے بخل اور حسد کی وجہ سے کسی کو کچھ نہ دیتے، بعض علماء نے فرمایا : اس کا معنی ہے بلکہ کیا انکے لیے حصہ ہے (1) ؟ (المحرر الوجیز، جلد 2، صفحہ 67 دارالکتب العلمیہ) اس صورت میں ام منقطعہ ہوگا اس کا معنی پہلی بات سے اضراب اور دوسری کے لیے آغاز ہے، بعض علماء نے فرمایا : یہ عاطفہ ہے، محذوف پر عطف ہے، کیونکہ وہ حضرت محمد ﷺ کی اتباع سے نفرت کرتے تھے، تقدیر اس طرح ہے اھم اولی بالنبوۃ ممن ارسلتہ ام لھم نصیب من الملک۔ (آیت) ” فاذا لا یؤتون الناس نقیرا “۔ یعنی وہ لوگوں کے حقوق روکتے ہیں، اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کے متعلق ان کے عمل کی خبر دی جو ان کے متعلق وہ جانتا ہے۔ النقیرگٹھلی کی پیٹھ پر نکتہ کو کہتے ہیں، یہ حضرت ابن عباس ؓ اور قتادہ ؓ وغیرہ سے مروی ہے، حضرت ابن عباس ؓ سے یہ بھی مروی ہے کہ النقیر جو انسان اپنی انگلی سے کریدتا ہے جس طرح وہ زمین کو کریدتا ہے۔ ابو العالیہ نے کہا میں نے حضرت ابن عباس ؓ سے النقیر کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے اپنے انگوٹھے کی طرف اپنی شہادت کی انگلی کے باطن پر رکھی پھر دونوں کو بلند کیا اور کہا یہ نقیر ہے۔ (2) (احکام القرآن للطبری، جلد 5، صفحہ 165) النقیر اصل میں وہ لکڑی ہے جس کو کریدا جاتا ہے اور اس میں نبیذ بنائی جاتی ہے، اس کے استعمال میں پہلے نہی وارد ہوئی تھی پھر منسوخ ہوگئی، فلان کریم النقیر ‘۔ یعنی کریم الاصل ہے۔ اذا یہاں معلغہ ہے، غیر عاملہ ہے، کیونکہ اس پر فاعاطفہ داخل ہے اور اگر نصب دیتا تو جائز ہوتا، سیبویہ نے کہا : اذا افعال کے عوامل میں اس طرح ہے جس طرح اسماء کے عوامل میں اظن ہے، یعنی جب کلام کا اعتماد اس پر نہ ہو لغو ہوتا ہے اور اگر کلام کی ابتدا میں ہو تو اس کے بعد فعل مستقبل ہو تو یہ نصب دیتا ہے جیسے تیرا قول ہے : انا ازورک میں تیری زیارت کو آؤں گا، وہ تجھے جوابا کہے : اذا اکرمک، عبداللہ بن عتمہ الضبی نے کہا : اردد حمارک لا یرتع بروضتنا اذن یرد وقید العیر مکروب : یہاں اذن نے نصب دی ہے، کیونکہ اذن سے پہلے جو کلام ہے وہ مکمل ہے اور یہ ابتدائے کلام میں واقع ہوا ہے اگر یہ دو چیزوں کے درمیان واقع ہو جیسے تیرا قول ہے، زید اذا یزورک تو لغو ہوتا ہے۔ اگر اس پر یا عاطفہ یا واؤ عاطفہ داخل ہو تو اس میں اعمال اور الغاجائز ہے۔ اعمال اس کے لیے کہ واؤ کے بعد نئی کلام ہے، جملہ کا عطف جملہ پر ہے، اور غیر قرآن میں فاذا لا یوتوا جائز ہے، قرآن میں ہے : (آیت) ” واذا لایلبثون “۔ (الاسراء : 76) اور مصحف ابی میں تھا : واذا لا یلبثوا “۔ اور الغا اس لیے کہ واؤ کے بعد جو ہوتا ہے وہ اس کلام کے بعد ہوتا ہے جس پر عطف کیا جاتا ہے، سیبویہ کے نزدیک فعل کے لیے ناصب اذن ہے اور خلیل کے نزدیک اذن کے بعد ان مضمرہ ناصب ہے، فراء نے کہا : اذا الف کے ساتھ لکھا جاتا ہے، اور یہ منون ہے ،۔ نحاس نے کہا : میں نے علی بن سلیمان کو یہ کہتے سنا کہ میں نے ابو العباس محمد بن یزید کو یہ کہتے سنا کہ میں چاہتا ہوں کہ میں اس شخص کے ہاتھ کو داغ دوں جو اذا کو الف کے ساتھ لکھتا ہے کیونکہ یہ لن اور ان کی مثل ہے اور حروف میں تنوین داخل نہیں ہوتی۔
Top