Madarik-ut-Tanzil - Al-Kahf : 12
ثُمَّ بَعَثْنٰهُمْ لِنَعْلَمَ اَیُّ الْحِزْبَیْنِ اَحْصٰى لِمَا لَبِثُوْۤا اَمَدًا۠   ۧ
ثُمَّ : پھر بَعَثْنٰهُمْ : ہم نے انہیں اٹھایا لِنَعْلَمَ : تاکہ ہم دیکھیں اَيُّ : کون۔ کس الْحِزْبَيْنِ : دونوں گروہ اَحْصٰى : خوب یاد رکھا لِمَا لَبِثُوْٓا : کتنی دیر رہے اَمَدًا : مدت
پھر ان کو جگا اٹھایا تاکہ معلوم کریں کہ جتنی مدت وہ (غار میں) رہے دونوں جماعتوں میں سے اس کی مقدار کس کو خوب یاد ہے۔
نیند سے بیداری : 12: ثُمَّ بَعَثْنٰھُمْ (پھر ہم نے ان کو اٹھایا) نیند سے بیدار کیا لِنَعْلَمَ اَیُّ الْحِزْبَیْنِ (تاکہ ہم معلوم کرلیں کہ ان دونوں گروہوں میں کون گروہ) جو دو گروہ ان کے قیام کی مدت میں اختلاف کررہے تھے۔ کیونکہ جب وہ بیدار ہوئے تو خود بھی انہوں نے اختلاف کیا اور اس کا تذکرہ اس ارشاد : قال قائل منہم کم لبثتم قالوا لبثنا یومًا اوبعض یوم قالوا ربکم اعلم بما لبثتم اور وہ لوگ جنہوں نے ربکم اعلم بما لبثتم کہا تھا یہی وہ لوگ تھے جنہوں نے اندازہ کیا کہ وہ زیادہ دیر رہے ہیں۔ نمبر 2۔ الحزبین سے وہ دوسرے لوگ مراد ہیں جو ان کے متعلق اختلاف کرنے والے تھے۔ اَحْصٰی لِمَالَبِثُوْا اَمَدًا (ان کے رہنے کی مدت کو زیادہ شمار کرنے والے ہیں) امدغایت کو کہتے ہیں۔ : احصٰی فعل ماضی اور امدًا اس کا ظرف ہے یا مفعول لہ ہے۔ اور فعل ماضی ای مبتدا کی خبر ہے۔ اور خبرومبتدا ملکرنعلم کے دو مفعول کے قائم مقام ہیں۔ مطلب اس طرح ہوگا۔ ایھم ضبط امد الا وقات لبثہم واحاط علما بامد لبثہم۔ ان میں سے کس نے ان کی اقامت کے اوقات کو ضبط کیا اس مدت قیام کو پورے طور پر جانا۔ نمبر 2۔ احصی یہ احصاء سے افعل کا وزن ہے۔ اور احصاء کا معنی شمار کرنا ہے۔ توانکا قول غلط ہے۔ کیونکہ غیر ثلاثی مجرد سے اس کا وزن قیاسی نہیں آتا۔ سوال : اللہ تعالیٰ کا علم ازلی ہے مگر یہاں لِنَعْلَمَ کا صیغہ کیوں لایا گیا ؟ جواب : نمبر 1۔ یہاں علم سے مراد ظہور ہے۔ تاکہ عبرت اور ایمان میں اضافہ ہو اور اس زمانہ کے ایمان والوں کے لئے کفار کے خلاف ایک واضح نشانی بن جائے۔ نمبر 2۔ تاکہ ہم انکا اختلاف موجود کے اعتبار سے جان لیں۔ جیسا کہ ہم اس کو وجود سے قبل اپنے علم کے اعتبار سے جانتے ہیں
Top