Urwatul-Wusqaa - Al-Kahf : 12
ثُمَّ بَعَثْنٰهُمْ لِنَعْلَمَ اَیُّ الْحِزْبَیْنِ اَحْصٰى لِمَا لَبِثُوْۤا اَمَدًا۠   ۧ
ثُمَّ : پھر بَعَثْنٰهُمْ : ہم نے انہیں اٹھایا لِنَعْلَمَ : تاکہ ہم دیکھیں اَيُّ : کون۔ کس الْحِزْبَيْنِ : دونوں گروہ اَحْصٰى : خوب یاد رکھا لِمَا لَبِثُوْٓا : کتنی دیر رہے اَمَدًا : مدت
پھر انہیں اٹھا کھڑا کیا تاکہ واضح ہوجائے کہ دونوں جماعتوں میں سے کون ہے جو گزری ہوئی مدت کا زیادہ بہتر طریقہ پر احاطہ کرسکتا ہے
اللہ تعالیٰ نے اپنے وقت پر اٹھا کھڑا کیا اور ان کا پروگرام ظاہر ہوگیا : 12۔ ” پھر ہم نے ان کو اٹھا لیا تاکہ معلوم کرلیں کہ دو جماعتوں میں سے کس نے اس مدت کو محفوظ رکھا جس میں وہ ہے ۔ “ یہاں دو جماعتوں سے کیا مراد ہے ؟ بعض مفسرین نے غار والوں ہی کو دو جماعتوں میں تقسیم کیا اور کہا ہے کہ انہوں نے آپس میں اختلاف کیا جیسا کہ آگے آرہا ہے ، لیکن ہمارے خیال میں ان مفسرین کی بات میں زیادہ وزن ہے اور زیادہ صحیح ہے جنہوں نے دو جماعتوں سے ایک اصحاب کہف اور دوسرے اہل ملک یا اہل شہر مراد لئے ہیں جو ان کے مخالف تھے ۔ ایک نے حق کی پیروی کی اور دوسری نے ظلم وتشدد پر کمر باندھی پھر چند سالوں کی مدت دونوں جماعتوں پر گزری گھی اس پر بھی جو غار میں پناہ لینے پر مجبور ہوئی اور اس پر بھی جس نے غار میں پناہ لینے کے لئے انہیں مجبور کیا ، اب دیکھنا یہ تھا کہ دونوں میں سے کس نے کمایا ہے ؟ اور کس نے کھویا ہے ؟ کون ان دونوں میں وقت کا بہتر اندازہ شناس تھا ؟ چناچہ آگے چل کر جو تفصیلات آتی ہیں ان سے واضح ہوجاتا ہے کہ ظالم جماعت کے ظلم کی عمر بہت تھوڑی تھی اور بالآخر وہی راہ فتح مند ہونے والی تھی جو اصحاب کہف نے اختیار کی تھی کیونکہ بالآخر مسیحی دعوت تمام ملک میں پھیل گئی اور جب کچھ عرصے کے بعد وہ غار سے نکلے اور ایک آدمی کو آبادی میں بھیجا تو اب مسیحی ہونا کوئی ناقابل معافی جرم نہیں تھا بلکہ انہی کے لئے عزت وسربراہی کی سب سے بڑی عزت تھی ، جس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ یہ ان پرستاران حق کی استقامت ہی تھی جس نے دعوت حق کو فتح من کیا اور اگر وہ مظالم سے تنگ آکر اتباع حق سے دست بردار ہوجاتے تو یقینا یہ انقلاب ظہور میں نہ آتا۔
Top