Madarik-ut-Tanzil - Al-Baqara : 211
سَلْ بَنِیْۤ اِسْرَآءِیْلَ كَمْ اٰتَیْنٰهُمْ مِّنْ اٰیَةٍۭ بَیِّنَةٍ١ؕ وَ مَنْ یُّبَدِّلْ نِعْمَةَ اللّٰهِ مِنْۢ بَعْدِ مَا جَآءَتْهُ فَاِنَّ اللّٰهَ شَدِیْدُ الْعِقَابِ
سَلْ : پوچھو بَنِىْٓ اِسْرَآءِ يْلَ : بنی اسرائیل كَمْ : کس قدر اٰتَيْنٰھُمْ : ہم نے انہیں دیں مِّنْ : سے اٰيَةٍ : نشانیاں بَيِّنَةٍ : کھلی وَ : اور مَنْ : جو يُّبَدِّلْ : بدل ڈالے نِعْمَةَ : نعمت اللّٰهِ : اللہ مِنْۢ بَعْدِ : اس کے بعد مَا : جو جَآءَتْهُ : آئی اس کے پاس فَاِنَّ : تو بیشک اللّٰهَ : اللہ شَدِيْدُ : سخت الْعِقَابِ : عذاب
(اے محمد ﷺ بنی اسرائیل سے پوچھو کہ ہم نے ان کو کتنی کھلی نشانیاں دیں اور جو شخص خدا کی نعمت کو اپنے پاس آنے کے بعد بدل دے تو خدا سخت عذاب کرنے والا ہے
211۔ سَلْ بَنِیْٓ اِسْرَآئِ یْلَ کَمْ ٰاتَیْنٰہُمْ مِّنْ ٰایَۃٍم بَیِّنَۃٍ وَمَنْ یُّبَدِّلْ نِعْمَۃَ اللّٰہِ مِنْم بَعْدِ مَا جَآئَ تْہُ فَاِنَّ اللّٰہَ شَدِیْدُ الْعِقَابِ ۔ (اے محمد ﷺ آپ بنی اسرائیل سے پوچھیں کہ ہم نے بنی اسرائیل کو کتنی کھلی نشانیاں دیں۔ اور جس نے اللہ کی نعمت کو بدل دیا۔ ان کے آجانے کے بعد پس بیشک اللہ تعالیٰ سخت عذاب دینے والا ہے) سَلْ اصل میں اسئل ہے۔ ہمزہ کو فتح سے بدل کر سین کردیا اور ہمزہ کو حذف کردیا۔ اب سین کے متحرک ہونے کی وجہ سے ہمزئہ وصل کی بھی ضرورت نہ رہی پس یہ سَلْ ہوگیا اس میں رسول اللہ ﷺ کو حکم دیا گیا۔ یا ہر مخاطب کو۔ یہ سوال تو بیخ کیلئے ہے۔ جس طرح کہ کافروں سے قیامت کے دن پوچھا جائے گا۔ معجزات و دلائل : ایَۃٍم بَیِّنَۃٍ ۔ سے مراد وہ آیات جو انبیاء کے ذریعے ان کو دی گئیں۔ دوسرا قول : یا وہ آیتیں جو ان کی کتابوں میں دین اسلام کے صحیح ہونے پر گواہی دے رہی ہیں۔ نحو : یہ کم یہاں استفہامیہ ہے یا خبر یہ۔ کم استفہامیہ کی صورت میں سل کو مفعول ثانی کی ضرورت نہ ہوگی۔ مگر خبر یہ کی صورت میں یہ سَلْ کا مفعول ثانی ہوگا۔ اسبابِ ہدایت کو گمراہی کے لئے استعمال کرنا : وَمَنْ یُّبَدِّلْ نِعْمَۃَ اللّٰہِ ۔ نعمت اللہ سے مراد اللہ کی نشانیاں ہیں اور وہ حقیقت میں اللہ کی عظیم نعمتیں ہیں۔ کیونکہ وہ ہدایت کے اسباب اور گمراہی سے نجات کا ذریعہ ہیں اور یبدل کا مطلب یہ ہے کہ اللہ نے وہ آیات اس لئے ظاہر فرمائیں۔ تاکہ وہ ان کی ہدایت کا سبب بن جائیں۔ انہوں نے انہی کو اپنی گمراہی کا سبب بنادیا۔ جیسا کہ سورة التوبہ آیت نمبر 125۔ فزادتھم رجسا الٰی رجسہم۔ میں فرمایا گیا کہ ان آیات نے ان کی پلیدی میں (بوجہ شدید انکار کے) اضافہ کردیا۔ یا دوسرا قول : انہوں نے اپنی کتابوں کی ان آیات کو بدل ڈالا جو دین محمد ﷺ پر دلالت کرنے والی تھیں۔ مِنْ 0 بَعْدِ مَآجَآئَ تْہُ (اس کے بعد کہ وہ آچکیں) ۔ آنے کا مطلب یہ ہے اس کے بعد کہ انہوں نے اس کو پہچان لیا اور ان کی صحت ان کے ہاں ثابت ہوگئی کیونکہ جب آدمی کسی چیز کو نہ پہچانے تو وہ چیز اس سے غائب شمار ہوتی ہے۔ فَاِنَّ اللّٰہَ شَدِیْدُ الْعِقَابِ ۔ (بےشک اللہ تعالیٰ سخت عذاب دینے والا ہے) اس کو جو اس کا مستحق ہو۔
Top