Urwatul-Wusqaa - Al-Baqara : 211
سَلْ بَنِیْۤ اِسْرَآءِیْلَ كَمْ اٰتَیْنٰهُمْ مِّنْ اٰیَةٍۭ بَیِّنَةٍ١ؕ وَ مَنْ یُّبَدِّلْ نِعْمَةَ اللّٰهِ مِنْۢ بَعْدِ مَا جَآءَتْهُ فَاِنَّ اللّٰهَ شَدِیْدُ الْعِقَابِ
سَلْ : پوچھو بَنِىْٓ اِسْرَآءِ يْلَ : بنی اسرائیل كَمْ : کس قدر اٰتَيْنٰھُمْ : ہم نے انہیں دیں مِّنْ : سے اٰيَةٍ : نشانیاں بَيِّنَةٍ : کھلی وَ : اور مَنْ : جو يُّبَدِّلْ : بدل ڈالے نِعْمَةَ : نعمت اللّٰهِ : اللہ مِنْۢ بَعْدِ : اس کے بعد مَا : جو جَآءَتْهُ : آئی اس کے پاس فَاِنَّ : تو بیشک اللّٰهَ : اللہ شَدِيْدُ : سخت الْعِقَابِ : عذاب
بنی اسرائیل سے پوچھو ، ہم نے انہیں کتنی روشن نشانیاں دی تھیں ؟ اور جو کوئی اللہ کی نعمت پا کر پھر اسے بدل ڈالے تو یاد رکھو کہ اللہ بھی سزا دینے میں بہت ہی سخت ہے
اللہ کا قانون مکافات بھی سزا دینے میں بہت سخت ہے : 361 : اگر تمہیں کسی قسم کا شک و اشتباہ ہو کہ یہ قانون کس طرح ایک قوم کے لئے زندگی بخش ہو سکتا ہے اور محض جہاد فی سبیل اللہ پر کیسے حیات قومی کا انحصار ہے تو بنی اسرائیل سے پوچھ لو۔ ان کو توراۃ دی گئی کہ اس کے ذریعہ سے دنیا میں ترقی کرسکیں اور جہاد فی سبیل اللہ ان پر فرض کیا گیا۔ جب تک وہ ان دونوں کے پابند رہے خلافت ارضی ان کے پاس تھی اور جہاں انہوں نے ان سے بعد وہجر اختیار کیا ۔ فنا ہوگئے ۔ ان کے تنزل وانحطاط کے اعظم ترین اسباب یہی دو تھے ۔ جیسا کہ ارشاد الٰہی ہے : الف۔ کتاب اللہ کو پس پشت ڈال دیا اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے۔ نَبَذَ فَرِیْقٌ مِّنَ الَّذِیْنَ اُوْتُوا الْكِتٰبَ 1ۙۗ کِتٰبَ اللّٰهِ وَرَآءَ ظُهُوْرِهِمْ (البقرہ 2 : 101) ” ان اہل کتاب میں سے ایک فریق نے کتاب اللہ کو اس طرح پس پشت ڈال دیا گویا کہ وہ کچھ جانتے ہی نہیں۔ “ ب۔ جہاد فی سبیل اللہ کو چھوڑ بیٹھے جیسے ارشاد فرمایا : فَلَمَّا کُتِبَ عَلَیْهِمُ الْقِتَالُ تَوَلَّوْا اِلَّا قَلِیْلًا مِّنْهُمْ 1ؕ(البقرہ : 2) ” جب ان کو یعنی یہود کو جنگ کا حکم دیا گیا تو ایک قلیل تعداد کے سوا وہ سب پیٹھ موڑ گئے۔ “ حقیقت یہ ہے کہ ان سے بڑھ کر بنی اسرائیل کے لئے اور کون سی نعمتیں ہو سکتی تھیں مگر انہوں نے قدرنہ کی۔ ایسے ہی تم مسلمانوں کو دو چیزیں نوازش کی گئی ہیں : ایک قرآن کریم اور دوسرا جہاد فی سبیل اللہ چناچہ قرآن کریم کے بارے میں ارشاد ہوا : لَّا یَاْتِیْهِ الْبَاطِلُ مِنْۢ بَیْنِ یَدَیْهِ وَ لَا مِنْ خَلْفِهٖ 1ؕ(حم السجدہ 41 : 42) ” نہ تو اس کے آگے باطل جم سکتا ہے اور نہ اس کے پیچھے اسے جگہ مل سکتی ہے۔ “ اور جہاد کے متعلق فرمایا : وَ جَاہِدُوْا فِی اللّٰهِ حَقَّ جِهَادِهٖ 1ؕ (الحج 22 : 78) ” اور اللہ کی راہ میں جان لڑادو اس کی راہ میں جان لڑانے کا جو حق ہے پوری طرح ادا کرو۔ “ فرمایا کہ اگر تم بھی ان کو چھوڑ بیٹھے تو تمہیں سخت عذاب دیا جائے گا اور تم پر فنا طاری ہوجائے گی اور فی الواقعہ وہی ہوا جو قرآن کریم نے فرمایا تھا۔
Top