Mafhoom-ul-Quran - An-Noor : 41
اَلَمْ تَرَ اَنَّ اللّٰهَ یُسَبِّحُ لَهٗ مَنْ فِی السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ وَ الطَّیْرُ صٰٓفّٰتٍ١ؕ كُلٌّ قَدْ عَلِمَ صَلَاتَهٗ وَ تَسْبِیْحَهٗ١ؕ وَ اللّٰهُ عَلِیْمٌۢ بِمَا یَفْعَلُوْنَ
اَلَمْ تَرَ : کیا تونے نہیں دیکھا اَنَّ اللّٰهَ : کہ اللہ يُسَبِّحُ : پاکیزگی بیان کرتا ہے لَهٗ : اس کی مَنْ : جو فِي السَّمٰوٰتِ : آسمانوں میں وَالْاَرْضِ : اور زمین وَالطَّيْرُ : اور پرندے صٰٓفّٰتٍ : پر پھیلائے ہوئے كُلٌّ : ہر ایک قَدْ عَلِمَ : جان لی صَلَاتَهٗ : اپنی دعا وَتَسْبِيْحَهٗ : اور اپنی تسبیح وَاللّٰهُ : اور اللہ عَلِيْمٌ : جانتا ہے بِمَا : وہ جو يَفْعَلُوْنَ : وہ کرتے ہیں
کیا تو نے نہیں دیکھا کہ جو آسمانوں اور زمین میں ہیں اللہ کی تسبیح کرتے رہتے ہیں اور پر پھیلائے ہوئے پرندے بھی سب اپنی نماز اور تسبیح کے طریقوں سے واقف ہیں اور جو کچھ وہ کرتے ہیں سب اللہ کو معلوم ہے۔
ہر چیز اللہ کی تسبیح کرتی ہے، تخلیق الٰہی کے نمونے اور منافقین کارویہ تشریح : ان آیات میں اللہ کی حاکمیت کو بڑی وضاحت سے بیان کیا گیا ہے۔ انسان کو غور کرنے کی دعوت دی گئی ہے۔ اگر غور کریں تو آسمان و زمین اور تمام چرند پرند اللہ کی موجودگی اور حاکمیت کو ظاہر کرتے ہیں۔ اور پھر دوسری بات یہ کہ ہر پرندہ اور ہر چیز اللہ کی تسبیح کر رہی ہے۔ جو طریقہ اللہ نے اس کو سکھا رکھا ہے اس کے مطابق تسبیح کر رہی ہے۔ پھر بادلوں کی طرف توجہ دلائی جا رہی ہے۔ بادل ‘ ہوائیں ‘ بارش اور اولے یہ سب اللہ تعالیٰ کے نظام اور ایک بہت بڑی حکمت کے تحت وجود میں آتے ہیں انسان لاکھ ترقی کرلے زور لگا لے یہ نظام نہ پیدا کرسکتا ہے نہ چلا سکتا ہے۔ ڈاکٹر موریس بکائے سائنسی تحقیقات کے بعد یوں بیان کرتے ہیں۔ ” بادلوں کی دس بڑی قسمیں ہیں۔ تین قسم کے بادل بڑی بلندی پر ہوتے ہیں دو قسم کے درمیانہ بلندی پر تیسری قسم کے نہایت کم بلندی پر دو قسمیں ایسی ہیں جو نیچے سے اوپر کی طرف بڑھتی چلی جاتی ہیں اور ان کی بلندی بعض اوقات کئی کئی میل کی ہوتی ہے۔ اور اوپر کے بادلوں میں اتنی ٹھنڈ ہوتی ہے کہ پانی کے بخارات منجمد ہو کر برف کے تراشے بن جاتے ہیں اس لیے ان سے بارش ہونے کا کوئی امکان نہیں ہوتا۔ متوسط بادلوں میں سے ایک قسم اور زیریں بادلوں میں سے دو قسمیں ایسی ہیں ‘ جن سے بارش کا امکان ہوتا ہے۔ ان میں بھی زیریں قسم کے بادل ” سحاب باراں “ بارش کے لیے مخصوص ہیں۔ اوپر کی طرف بڑھنے والے بادلوں میں کیومیونمبس سے گرج چمک اور ژالہ باری ہوتی ہے سحاب باراں کے ٹکڑے بدلیاں کہلاتی ہیں وہ بھی بارش برساتی ہیں۔ جب مائیات کی جدید معلومات کا موازنہ ان بیانات سے کیا جاتا ہے جو قرآن کی متعدد آیات میں ملتا ہے۔ تو یہ اعتراف کرنا پڑتا ہے کہ ان میں بڑی مطابقت پائی جاتی ہے۔ (بائبل قرآن اور سائنس) جب یہ تمام حقائق ہمیں پتہ چلتے ہیں تو پھر انسان کو اپنی کمزوری اور اللہ کی بےپناہ طاقت کا خوب اندازہ ہوجاتا ہے کوئی شخص نہ تو اس انتظام میں دخل دے سکتا ہے نہ خود کرسکتا ہے تو پھر انسان بےاختیار کہہ اٹھتا ہے سبحان اللہ۔ لا الہ الا اللہ۔ سب تعریف اللہ کے لیے ہے اور اس کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں۔ بات یہیں ختم نہیں ہوجاتی پھر سوچنا پڑتا ہے کہ کسی حکمت سے سمندر سے اٹھ کر دور دراز علاقوں میں تمام مخلوقات کی زندگی کا بندوبست کس خوبی اور ریاضیاتی توڑ جوڑ سے کیا جاتا ہے۔ پانی کے باریک قطرے کائناتی دھول کے گرد اکٹھا ہو کر بادل بنتے ہیں یہ معلوم نہیں کہ دھول کے ذرے بادل میں کس طرح ٹھہرتے ہیں۔ پھر یہ کہ پانی زندگی کے لیے انتہائی ضروری ہے کوئی بھی زندہ چیز پانی کے بغیر سوکھا ہوا پنجر ہے چاہے وہ DNA اور جینیانی فارمولے محفوظ کیے ہوئے ہوتا ہے۔ یہ نہ تو تخلیقات کو بڑھا سکتا ہے نہ حرکت کرسکتا ہے۔ جب پانی آتا ہے تو اسے اپنے ؓ اور QH آئن سے ہائیڈروجن مہیا کرتا ہے تو حیاتیاتی فارمولا CODE اچانک کام شروع کردیتا ہے۔ مگر یہ خوردبینی اجسام کے لیے ہے۔ پھر یہ کہ ہر جاندار پانی سے پیدا ہوا ہے۔ سب کا ایک ہی فارمولہ ہے مگر حیرت کی بات ہے کہ لاکھوں کروڑوں اربوں کھربوں قسم کے حشرات الارض ‘ چوپائے اور دریائوں پر چلنے والی مخلوقات ایک دوسرے سے مختلف ہے۔ شیرنی کا بچہ شیر ہی ہوتا ہے خرگوش نہیں ہوسکتا۔ تمام مخلوقات کے رنگ ‘ عادات ‘ شکلیں اور آوازیں بالکل مختلف ہیں۔ اور صرف انسان کو ہی علم ‘ عقل اور ارادہ دیا گیا ہے جب کہ یہ بھی حیوان ہی شمار ہوتا ہے ہاں یہ فرق ہے کہ اس کو حیوان ناطق (بولنے والا حیوان) کہتے ہیں۔ یہ سب کچھ اللہ کی قدرت اور اپنی تخلیقات پر اس کا پورا پورا کنٹرول ظاہر کرنے کے لیے کافی نہیں ہے ؟ یہ تو صرف چند معمولی حقائق ہیں پوری کائنات اس طرح کے بیشمار حقائق سے بھری پڑی ہے۔ مگر پھر بھی کئی بیوقوف لوگ ایمان لے آنے کے بعد بھی ایمان کے راستے سے ہٹ جاتے ہیں۔ تو ایسے لوگوں کا کوئی علاج نہیں۔ اصل میں یہ ایمان پوری طرح لاتے ہی نہیں بلکہ شکوک و شبہات میں ہی گھرے رہتے ہیں اور اپنے اوپر ظلم کرتے رہتے ہیں۔ اللہ نے ایسے ہی لوگوں کے لیے کہا ہے۔ ” بلکہ وہ خود ظالم ہیں۔ (النور آیت : 50) ایسے لوگ منافق کہلاتے ہیں۔
Top