Tafseer-e-Mazhari - Al-Kahf : 10
اِذْ اَوَى الْفِتْیَةُ اِلَى الْكَهْفِ فَقَالُوْا رَبَّنَاۤ اٰتِنَا مِنْ لَّدُنْكَ رَحْمَةً وَّ هَیِّئْ لَنَا مِنْ اَمْرِنَا رَشَدًا
اِذْ : جب اَوَى : پناہ لی الْفِتْيَةُ : جوان (جمع) اِلَى : طرف۔ میں الْكَهْفِ : غار فَقَالُوْا : تو انہوں نے کہا رَبَّنَآ : اے ہمارے رب اٰتِنَا : ہمیں دے مِنْ لَّدُنْكَ : اپنی طرف سے رَحْمَةً : رحمت وَّهَيِّئْ : اور مہیا کر لَنَا : ہمارے لیے مِنْ اَمْرِنَا : ہمارے کام میں رَشَدًا : درستی
جب وہ جوان غار میں جا رہے تو کہنے لگے کہ اے ہمارے پروردگار ہم پر اپنے ہاں سے رحمت نازل فرما۔ اور ہمارے کام درستی (کے سامان) مہیا کر
اِذْ اَوَى الْفِتْيَةُ اِلَى الْكَهْفِ : قابل ذکر ہے وہ وقت جب ان نوجوانوں نے اس غار میں جا کر پناہ لی تھی۔ یہاں سے اصحاب کہف کا قصہ شروع ہے۔ اٰوٰی فُلاَنٌ اِلٰی مَوْضِعٍ فلاں شخص نے اس جگہ کو اپنا ٹھکانہ بنا لیا۔ بغوی نے لکھا ہے یہ غار بیجلوس پہاڑ میں تھا اس غار کا نام تھا جیرم۔ فَقَالُوْا رَبَّنَآ اٰتِنَا مِنْ لَّدُنْكَ رَحْمَةً : انہوں نے کہا اے ہمارے رب ہم کو اپنے پاس سے رحمت عطا فرما۔ رحمت کا لفظ عام ہے دین کی ہدایت۔ گناہوں کی مغفرت۔ رزق کی وسعت۔ امن وغیرہ سب کو شامل ہے۔ وَّهَيِّئْ لَنَا مِنْ اَمْرِنَا رَشَدًا اور ہمارے لئے اس کام میں درستی کا سامان مہیا کر دیجئے۔ یعنی ایمان اور مفارقت کفر پر قائم رہنے کی کوئی صورت ہمارے لئے تیار کر دے (اس مطلب پر امرنا سے مراد ہوگا ایمان اور ترک کفر) یا یہ مطلب ہے کہ ہمارے تمام معاملات میں ہم کو حق پر استقامت عطا فرما (اس وقت امرنا سے تمام معاملات زندگی مراد ہوں گے) رَأَیْتُ مِنْکَ رَشَدًاعربی محاورہ ہے یعنی میں نے تیری طرف سے حق پر استقامت اور پختگی دیکھ لی۔ کذا فی القاموس۔ رَشِدَباب نصر و سمع دونوں سے آتا ہے ‘ اس کا مصدر رُشْد اور رَشَد اور رشاد ہے رَشِدَ ہدایت یاب ہوگیا۔ باب استفعال سے بمعنی رشد کے بھی آتا ہے اور طلب رشد بھی اس کا معنی ہوجاتا ہے۔ اللہ کی صفات میں رشید کا استعمال ہادی کے معنی میں ہوتا ہے۔ بغوی نے لکھا ہے اصحاب کہف غار کے اندر پناہ گیر ہونے پر کیوں مجبور ہوئے علماء نے اس کے مختلف اسباب بیان کئے ہیں۔ محمد بن اسحاق نے بیان کیا عام عیسائیوں کی دینی حالت بہت بگڑ گئی تھی ‘ بت پرستی تک نوبت پہنچ گئی تھی ‘ بتوں پر چڑھاوے چڑھانے اور ان کے نام پر قربانیاں کرنے کا بھی رواج ہوگیا تھا ‘ بادشاہ بھی سرکش اور بےدین ہوگئے تھے۔ لیکن کچھ لوگ صحیح دین عیسوی پر قائم تھے اور اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہیں کرتے تھے ‘ بےدین مخالف توحید بادشاہوں میں سے دقیانوس نام کا بھی ایک بادشاہ تھا اس کی حکومت بلاد روم پر تھی ‘ یہ بت پرستی کرتا اور بتوں کے نام کی قربانیاں کرتا تھا اور جو لوگ توحید پر قائم رہتے تھے ان کو قتل کرا دیتا اپنے ملکوں کی مختلف بستیوں میں جاتا اور وہاں کے باشندوں کی جانچ کرتا جو بت پرستی اختیار کرلیتا اس کو چھوڑ دیتا اور جو انکار کرتا اس کو قتل کرا دیتا تھا۔ حسب عادت ایک بار یہ شہر افسوس میں جا کر اترا ‘ جو لوگ اہل ایمان تھے ڈر کے مارے وہ چھپ گئے اور جدھر کو جس کا منہ اٹھا بھاگ نکلے جو اہل ایمان پکڑے جاتے ان کو بت پرستی کی ترغیب دی جاتی اگر وہ توحید چھوڑ کر بتوں کی پوجا کرنے لگتے تو ان کو چھوڑ دیا جاتا ورنہ قتل کردیا جاتا اور مقتولین کے ٹکڑے کر کے شہر پناہ کی دیواروں پر اور دروازوں پر لٹکا دیا جاتا۔ چند مؤمن نوجوان جن کی تعداد آٹھ بتائی گئی ہے ایمان میں بڑے پختہ اور نماز روزے کے بہت پابند تھے اور سب رومی امراء کے لڑکے تھے سخت گھبرا گئے اور مضطرب ہو کر زاری کے ساتھ انہوں نے دعا کی ربنا رب السموت والارض۔۔ ہمارا رب وہی ہے جو زمین و آسمان کا رب ہے ہم اس کے سوا کسی معبود کی عبادت ہرگز نہیں کریں گے ورنہ یہ بڑی زیادتی اور حق سے تجاوز ہوگا ‘ اے رب ! اپنے ایماندار بندوں سے اس فتنہ کو دور کر دے ان کی مصیبت دفع کر دے کہ وہ تیری عبادت علی الاعلان کرسکیں۔ یہ لوگ مسجد کے اندر سجدوں میں پڑے یہ دعا کر ہی رہے تھے کہ سرکاری آفیسر آپہنچے اور سب کو گرفتار کر کے دقیانوس کے پاس لے گئے اور کہا آپ دوسرے لوگوں کو تو اپنے معبودوں کی خوشنودی کے لئے قتل کراتے ہیں اور یہ لوگ جو آپ ہی کے خاندان کے ہیں آپ کے حکم کے خلاف کرتے اور آپ کا مذاق اڑاتے ہیں بادشاہ نے حکم دیا ان کو پیش کرو یہ نوجوان پیش کئے گئے۔ سب کے چہرے غبار آلود تھے اور آنکھوں سے آنسو جاری تھے ‘ بادشاہ نے کہا تمہارے شہر کے سردار ہمارے معبودوں کی پرستش کرتے اور ان پر قربانیاں چڑھاتے ہیں تم ان کی طرح کیوں نہیں کرتے اور ان کا رنگ ڈھنگ کیوں نہیں اختیار کرتے ‘ میں تم کو اختیار دیتا ہوں کہ یا تو ہمارے معبودوں پر بھینٹ چڑھاؤ اور ان کی پوجا کرو ‘ ورنہ میں تم کو قتل کرا دوں گا مکسلمینا نے جو سب میں بڑا تھا کہا ہمارا معبود وہ ہے جس کی عظمت سے تمام آسمان بھرے ہوئے ہیں ‘ ہم اس کے سوا کبھی کسی کی عبادت نہیں کریں گے ‘ اسی کے لئے حمد ‘ بزرگی اور پاکی ہے ہم اسی کی عبادت کرتے ہیں اسی سے نجات اور خیر کے طلبگار ہیں۔ آپ جو چاہیں کریں ہم آپ کے بتوں کی پوجا نہیں کرسکتے۔ مکسلمینا کے دوسرے ساتھیوں نے بھی دقیانوس کو یہی جواب دیا۔ یہ جواب سن کر دقیانوس نے حکم دیا کہ ان کے امیرانہ کپڑے اتروا لئے جائیں۔ حکم کی تعمیل کردی گئی ‘ پھر کہنے لگا میں ذرا (دوسروں سے) فارغ ہو لوں تو تم کو وہ سزا دوں گا جو تمہارے لئے میں نے تجویز کی ہے ‘ تم ابھی نوجوان ہو تم کو قتل کرنا میں نہیں چاہتا اسی لئے میں تم کو سزا دینے میں جلدی نہیں کر رہا ہوں اور تم کو مہلت دیتا ہوں کہ تم اپنے معاملہ پر غور کرلو۔ اس کے بعد ان کے سارے امیرانہ زیور اتار لئے گئے اور دربار سے نکال دیا گیا اور دقیانوس اس بستی کو چھوڑ کر کسی دوسرے شہر کو چل دیا (اور واپسی تک کی ان کو سوچنے کی مہلت دے گیا) جب وہ شہر سے چلا گیا تو سب نے باہم مشورہ کیا کہ اس کی واپسی سے پہلے پہلے کچھ تدبیر کرنی ضروری ہے چناچہ باہم مشورہ کر کے طے کیا کہ ہر شخص اپنے اپنے گھر سے کچھ روپیہ لے کر آئے اس میں سے کچھ تو غریبوں کو بانٹ دے اور کچھ کھانے پینے کے لئے رکھ لے پھر سب شہر کے قریب کوہ بیجلوس کے غار میں جا کر اللہ کی عبادت میں مشغول ہوگئے اور دقیانوس کی واپسی تک وہیں ٹھہرے رہیں ‘ جب دقیانوس آجائے تو اس کے سامنے آکر کھڑے ہوجائیں پھر وہ جو کچھ چاہے کرے (یعنی ہر ایک کو قتل ہونے کے لئے تیار ہو کر دقیانوس کے پاس جانا چاہئے) حسب مشورہ ہر شخص اپنے باپ کے گھر جا کر کچھ روپیہ لے آیا ‘ کچھ اس میں سے خیرات کردیا اور باقی اپنی گزر بسر کے لئے رکھ لیا اور ایک غار میں داخل ہوگئے ‘ ایک کتا بھی ان کے پیچھے ہو لیا وہ بھی غار میں چلا گیا۔ سب غار میں جا کر ٹھہر گئے ‘ کعب احبار کا بیان ہے اثناء راہ میں ایک کتا ان کے پیچھے ہو لیا ‘ انہوں نے بھگا دیا لیکن وہ پھر لوٹ آیا انہوں نے پھر بھگا دیا کتا پھر لوٹ آیا ایسا چند مرتبہ کیا تو کتا بولا لوگو ! تم چاہتے کیا ہو میری طرف سے اندیشہ نہ کرو۔ جن کو اللہ سے محبت ہے مجھے ان سے محبت ہے تم وہاں سونا میں تمہاری چوکیداری کروں گا۔ حضرت ابن عباس ؓ کی روایت ہے یہ لوگ رات کو دقیانوس سے بھاگے تھے ‘ کل سات آدمی تھے ایک چرواہے کی طرف سے گزرے جس کے پاس کتا تھا چرواہا بھی ان کا ہم مذہب ہوگیا اور ساتھ ہو لیا اور کتا بھی پیچھے پیچھے آگیا سب لوگ شہر سے نکل کر ایک قریبی غار کی طرف چلے گئے (اور اس میں داخل ہوگئے) اور وہیں قیام پذیر ہو کر نماز روزے تحمید ‘ تسبیح اور تکبیر (اللہ کی حمد کرنے اس کی پاکی بیان کرنے اور عظمت کا اقرار کرنے) میں مشغول ہوگئے اس کے علاوہ ہر شغل کو چھوڑ دیا اور کل روپیہ اپنے ایک ساتھی جس کا نام تملیخا تھا کے پاس رکھ دیا ‘ تملیخا بڑا ہی خوش تدبیر خوبصورت اور بہادر تھا شہر کو چھپ کرجاتا اور سب کے لئے کھانے پینے کی چیزیں خرید لاتا تھا ‘ تملیخا جب شہر کو جانا چاہتا تو اپنے بڑھیا خوب صورت کپڑے اتار کر فقیروں اور بھیک منگوں کے جیسے کپڑے پہن لیتا اور سکہ لے کر شہر میں جا کر کھانے پینے کی چیزیں خریدتا اور ٹوہ لگاتا کہ دقیانوس یا اس کے ساتھیوں میں سے کسی نے ان لوگوں کا کچھ تذکرہ کیا یا نہیں پھر لوٹ کر آجاتا اور ساتھیوں کو مطلع کردیتا اس طرح غار کے اندر یہ لوگ مدت تک رہے ‘ مدت کے بعد دقیانوس شہر میں (واپس) آیا اور سرداران شہر کو بتوں پر قربانیاں چڑھانے کا حکم دیا ‘ اہل ایمان میں پھر کھلبلی مچ گئی ‘ تملیخا بھی اس وقت شہر کے اندر ہی تھا ‘ ساتھیوں کے لئے کھانے پینے کی چیزیں خریدنے گیا تھا ‘ غریب تھوڑا سا کھانا لے کر روتا ہوا لوٹ آیا اور آکر ساتھیوں کو بتایا کہ وہ ظالم شہر میں آگیا ہے وہ اور اس کے ساتھی اور شہر کے بڑے لوگ ہماری جستجو میں ہیں ‘ یہ بات سن کر سب گھبرا گئے اور سجدہ میں پڑ کر گڑگڑا کر اللہ سے دعا کرنے اور فتنہ سے پناہ مانگنے میں مشغول ہوگئے۔ تملیخا نے کہا یارو ! سروں کو اٹھاؤ کھانا کھاؤ اور اللہ پر توکل رکھو ‘ سب نے سجدے سے سر اٹھائے آنکھوں سے آنسو جاری تھے پھر سب نے کھانا کھایا ‘ یہ واقعہ غروب آفتاب کے وقت کا تھا کھانے کے بعد آپس میں باتیں کرنے اور پڑھنے پڑھانے اور باہم نصیحتیں کرنے میں مشغول ہوگئے ‘ غار کے اندر باتوں میں ہی مشغول تھے کہ یکدم اللہ نے سب پر نیند کو مسلط کردیا ‘ سب سو گئے۔ کتا دروازے پر پاؤں پھیلائے پڑا تھا جو نیند اللہ نے ان لوگوں پر مسلط کی تھی وہی کتے پر بھی مسلط کردی ‘ اس وقت ان کا سارا روپیہ سرہانے پڑا رہا دوسرے دن صبح ہوئی تو دقیانوس نے ان کو تلاش کرایا لیکن کسی کو نہ پاسکا کہنے لگا مجھے ان جوانوں کے کیس نے پریشان کر رکھا ہے انہوں نے خیال کیا کہ میں ان پر ناراض ہوں (اور ضرور قتل کرا دوں گا اس لئے چھپ گئے) وہ اپنی نادانی کی وجہ سے میرے سلوک سے واقف نہ تھے اگر وہ توبہ کرلیتے اور میرے معبودوں کو پوجنے لگتے تو میں ان پر کسی قسم کا بار نہیں ڈالتا ‘ شہر کے سرداروں نے کہا آپ کو ان سرکشوں نافرمانوں اور بدکاروں پر رحم کرنا ہی نہیں چاہئے تھا (وہ اس قابل ہی نہیں تھے) آپ نے ان کو ایک محدود مہلت دے دی تھی اگر وہ چاہتے تو اس مدت کے اندر توبہ کرلیتے اور (فرماں برداری کی طرف) لوٹ آتے لیکن انہوں نے تو توبہ ہی نہیں کی بادشاہ یہ بات سن کر سخت مشتعل ہوگیا اور اصحاب کہف کے باپوں کو بلوایا اور ان کے بیٹوں کے متعلق جواب طلب کیا اور دریافت کیا تمہارے وہ سرکش بیٹے کہاں ہیں جنہوں نے میرے حکم سے سرتابی کی۔ وہ بولے ہم نے تو آپ کی نافرمانی نہیں کی ‘ پھر ان سرکشوں کے جرم کی وجہ سے آپ ہم کو قتل نہ کریں وہ تو ہمارا بھی مال لے گئے اور لے جا کر بازاروں میں برباد کردیا (یعنی فقیروں کو بانٹ دیا) یہ معذرت سن کر بادشاہ نے ان کو چھوڑ دیا اور کچھ آدمیوں کو کوہ بیجلوس کی طرف بھیجا اور اس کے سوا کوئی تدبیر سمجھ میں نہیں آئی کہ جس غار کے اندر اصحاب کہف داخل ہوئے تھے ‘ اس کا منہ بند کرا دے ‘ اللہ کی مشیت تھی کہ اصحاب کہف کو عزت عطا فرما دے اور آنے والی قوموں کے لئے اپنی قدرت کی نشانی بنا دے اور لوگوں کو دکھا دے کہ قیامت ضرور آئے گی اور (جس طرح اس غار کے اندر نیند کی حالت میں اللہ نے ان کو سینکڑوں برس رکھ کر پھر زندہ اٹھایا اسی طرح) اللہ قبروں سے مردوں کو زندہ کر کے اٹھائے گا۔ غرض دقیانوس نے غار کا منہ بند کرا دیا اور کہا جس غار کو انہوں نے اپنے لئے پسند کیا ہے اسی غار کو ان کے لئے قبریں بنادو۔ وہیں گھٹ گھٹ کر بھوکے پیاسے مرجائیں ‘ اس کا خیال تھا کہ اصحاب کہف بیدار ہیں اور غار کے بندہو جانے کا ان کو علم ہے ‘ حالانکہ اللہ نے نیند کی حالت کی طرح ان کی روحوں کو قبض کرلیا تھا ‘ کتا غار کے دروازے پر اگلے دونوں پاوؤں پھیلائے بیٹھا تھا اور جس طرح نیند اصحاب کہف پر مسلط کردی گئی تھی اسی طرح کتے پر بھی نیند چھا گئی تھی۔ اللہ کے حکم سے اصحاب کہف سوتے میں دائیں بائیں کروٹیں بھی لیتے تھے (اگر ایک پہلو پر پڑے رہتے تو ممکن تھا گوشت گل جاتا اس لئے کروٹ لینا ضروری تھا) شاہ (دقیانوس کے خاندان میں دو آدمی مؤمن بھی تھے جو اپنے ایمان کو چھپائے ہوئے تھے ایک کا نام یندروس اور دوسرے کا رایاش تھا ‘ دونوں نے مشورہ کرنے کے بعد اصحاب کہف کے نام نسب ‘ خاندان اور پورا واقعہ رانگ کی ایک تختی پر لکھ کر تانبے کے صندوق میں تختی کو رکھ کر ایک بنیاد میں صندوق کو اس خیال سے دفن کردیا کہ قیامت سے پہلے ممکن ہے اہل ایمان کا کوئی گروہ اس جگہ قابض ہوجائے اور اس تحریرکو پڑھ کر ان کو اصحاب کہف کا واقعہ معلوم ہوجائے۔ دقیانوس اور اس کی قوم کے بعد صدیاں گزر گئیں اور پے در پے بادشاہ آتے جاتے رہے (اور اصحاب کہف غار کے اندر استراحت فرماتے رہے اور صندوق دفن رہا) عبید بن عمیر کا بیان ہے کہ اصحاب کہف چند نوجوان تھے جو گلے میں طوق اور ہاتھوں میں کنگن پہنے ہوئے تھے زلفیں چھوڑی ہوئی تھیں ایک شکاری کتا ان کے ساتھ تھا کسی بڑے تہوار کے موقع پر بن سج کر گھوڑوں پر سوار ہو کر نکلے اور ساتھ میں ان بتوں کو بھی لے لیا جن کو پوجتے تھے اللہ نے ان کے دلوں میں ایمان پیدا کردیا ‘ ان میں سے ایک وزیر بھی تھا سب درپردہ مؤمن تو ہوگئے لیکن ہر ایک نے دوسرے سے اپنے ایمان کو پوشیدہ رکھا اور ہر ایک نے دل میں طے کرلیا کہ ان کافروں کے ساتھ مجھے نہ رہنا چاہئے کہیں ان کے جرائم پر آنے والا عذاب مجھ پر نہ آجائے غرض سب الگ الگ ہوگئے پہلا ایک جا کر کسی درخت کے سایہ میں تنہا بیٹھ گیا۔ دوسرے نے اس کو تنہا بیٹھے دیکھا تو خیال کیا کہ شاید اس کی حالت بھی میری حالت کی طرح ہوگئی ہے ‘ اس لئے زبان سے ظاہر کئے بغیر اس کے پاس جا کر بیٹھ گیا ‘ پھر تیسرا اسی خیال کو لے کر چلا اور دونوں کے پاس جا کر بیٹھ گیا اس طرح ایک ایک کر کے سب جمع ہوگئے۔ پھر ایک نے ایمان کو پوشیدہ رکھتے ہوئے ڈرتے ڈرتے دوسرے سے کہا ‘ آپ حضرات یہاں کس غرض سے جمع ہوئے ہیں ‘ دوسرے نے بھی یہی پوچھا اور تیسرے چوتھے غرض سب نے یہی سوال کیا ‘ پھر دو دو کی ٹکڑیاں بنا کر انتہائی راز داری کے ساتھ ایک نے دوسرے پر حقیقت ظاہر کی اور معلوم ہوا کہ سب مؤمن ہیں ‘ پہاڑ میں قریب ہی ایک غار تھا سب نے مشورہ کر کے اس کی طرف رخ کیا اور غار میں چلے گئے ‘ شکاری کتا بھی ساتھ تھا اندر جا کر سب سو گئے اور 309 برس تک سوتے رہے۔ قوم والوں نے ان کو تلاش کیا لیکن اللہ نے غار کو ہی ان کی نظر سے غائب کردیا اور تمام نشانات محو کردیئے ‘ مجبوراً ان کے نام ‘ نسب ‘ خاندان ایک تختی پر تحریر کئے اور لکھ دیا کہ فلاں فلاں اشخاص جو فلاں فلاں بادشاہ (امراء) کے بیٹے تھے ‘ فلاں بادشاہ کے دور حکومت میں فلاں سال فلاں مہینے کھو گئے اور تلاش کے بعد بھی نہیں ملے ‘ پھر یہ تختی سرکاری محافظ خانہ میں رکھ دی گئی ‘ کچھ مدت کے بعد وہ بادشاہ مرگیا اور صدیاں گزرتی گئی۔ وہب بن منبہ نے بیان کیا حضرت عیسیٰ ( علیہ السلام) کا ایک حواری اصحاب کہف کے شہر کو گیا تھا ‘ شہر کے اندر داخل ہونے کا ارادہ کیا ‘ کسی نے کہا شہر کے دروازے پر ایک بت ہے ‘ پہلے اس بت کو سجدہ کرنا پڑتا ہے ‘ پھر اندر داخل ہونے کی اجازت دی جاتی ہے ‘ حواری نے اس حرکت کو پسند نہیں کیا اور شہر کے قریب ایک حمام میں جا کر حمام والے کی نوکری کرلی اور کام کرنے لگا ‘ حمام والے کو حواری کے آتے ہی بڑی برکت حاصل ہوئی (اس کے کام کو بہت ترقی ہوگئی) شہر کے بعض نوجوانوں کا بھی اس حواری سے کچھ تعلق ہوگیا وہ اس کے پاس بیٹھنے لگے حواری ان کو آسمان و زمین کی خبریں سناتا تھا (اور وہ شوق سے سنتے تھے) آخر وہ لوگ حواری پر ایمان لے آئے اور عیسائی ہوگئے۔ حواری نے حمام والے سے شرط کرلی تھی کہ رات کو میری نماز میں کوئی مداخلت نہ کرے رات میری ہے ‘ رات کو کوئی کام نہیں کروں گا ایک روز شہزادہ ایک عورت کو لے کر حمام میں آیا ‘ حواری نے کہا آپ شہزادے ہیں اور اس عورت کو لے کر حمام میں داخل ہو رہے ہیں ‘ شہزادہ کو شرم آئی اور واپس چلا گیا ‘ لیکن دوسری مرتبہ پھر آیا اور حواری نے پہلی بار کی طرح نصیحت کی ‘ اس مرتبہ حواری کی بات کی طرف کوئی توجہ نہ کی بلکہ اس کو جھڑک دیا۔ دونوں حمام میں داخل ہوگئے۔ بادشاہ کو کسی نے اطلاع دی کہ شہزادہ کو حمامی نے قتل کردیا۔ بادشاہ نے حمامی کی تلاش کے لئے آدمی بھیجے مگر وہ بھاگ گیا ہاتھ نہیں آیا۔ بادشاہ نے پوچھا اس کے ساتھ کون لوگ رہتے تھے ‘ لوگوں نے بتایا فلاں فلاں جوان رہتے تھے ان جوانوں کی جستجو کی گئی لیکن وہ بھی شہر سے باہر نکل گئے اور راستہ میں ایک اور شخص کو بھی ساتھ لے لیا جو انہیں کی طرح ایمان پر قائم تھا۔ ایک کتا بھی ساتھ ہو لیا ‘ حمامی سب کو ایک غار پر لے گیا ‘ سب اس میں داخل ہوگئے اور وہیں رات گزارنے کا ارادہ کرلیا اور طے کرلیا کہ آج رات یہیں رہو صبح ہوگی تو کچھ سوچیں گے چناچہ اندر پہنچ کر رات کو بیخبر سو گئے ‘ بادشاہ اپنے ساتھیوں کو لے کر ان کی جستجو میں نکلا اور غار پر جا پہنچا معلوم ہوا وہ لوگ اندر جا چکے ہیں ‘ بادشاہ کے ساتھیوں میں سے کسی شخص نے اندر گھسنے کا ارادہ کیا مگر دہشت زدہ ہوگیا پھر کسی میں اندر گھسنے کی ہمت نہ ہوئی ایک شخص نے بادشاہ سے کہا اگر وہ آپ کے ہاتھ آجاتے تو کیا آپ کا ارادہ ان کو قتل کرا دینے کا نہ تھا ؟ بادشاہ نے کہا بلاشبہ یہی ارادہ تھا اس شخص نے کہا تو اب غار کے دروازے کو بند کرا کے کوئی دیوار بنوادیجئے کہ اندربھوکے مرجائیں (بہرحال قتل کردینا تو مقصد ہی ہے) بادشاہ نے ایسا ہی کیا۔ وہب کا بیان ہے ‘ دروازے کی بندش کو اس کے بعد طویل زمانہ گزر گیا ایک دور کے بعد دوسرا دور آیا اور گزرتا چلا گیا مدت کے بعد اتفاقاً جنگل میں کسی چرواہے کو بارش نے آگھیرا وہ بکریاں بھیڑیں لے کر پناہ لینے کے لئے اس غار کی طرف آیا اور بکریوں کو سایہ میں محفوظ رکھنے کے لئے کوشش کر کے اس نے دروازہ کھول دیا ادھر صبح ہوئی تو اللہ نے ان کی روحیں لوٹا دیں (یعنی ان کو بیدار کردیا اور ایسا معلوم ہوا کہ رات بھر سو کر صبح کو بیدار ہوئے ہیں) ۔ محمد بن اسحاق نے لکھا ہے (مدت کے بعد) وہاں کی حکومت ایک نیک آدمی کے ہاتھ آگئی اس شخص کا نام بیدوسیس تھا۔ اس کی حکومت کو جب 68 سال گزر گئے تو لوگ دو گروہوں میں بٹ گئے ‘ ایک گروہ مؤمنوں کا تھا جو اللہ پر ایمان رکھتا اور قیامت کو حق جانتا تھا اور دوسرا گروہ کافروں کا تھا جو اللہ اور قیامت کا منکر تھا۔ بیدوسیس کو یہ پھوٹ اور گمراہی کا پھیلاؤ دیکھ کر بڑا رنج ہوا وہ اللہ کے سامنے رو دیا گریہ وزاری کی اور اس کو اس بات سے بڑا دکھ ہوا کہ اہل باطل حق پرستوں پر غالب ہوتے بڑھتے چلے جا رہے ہیں ‘ اہل باطل حشر جسمانی کے قائل نہیں تھے صرف حشر روحانی کو مانتے تھے اور دنیوی زندگی پر ہی ریجھے ہوئے تھے ‘ بیدوسیس نے ان لوگوں کو بلوایا جن کے متعلق خیال تھا کہ وہ ائمۃ حق اور اصحاب خیر ہیں جب وہ آئے تو دریافت کرنے پر معلوم ہوا کہ وہ بھی قیامت کے قائل نہیں ہیں اور لوگوں کو حواریوں کے دین و مذہب سے مرتد بنا دینے اور لوٹا دینے کے خواستگار ہیں یہ دیکھ کر بادشاہ اپنے کمرے میں چلا گیا ‘ دروازہ بند کرلیا ‘ کمبل کا لباس (یعنی فقیرانہ لباس) پہن لیا اور راکھ بچھا کر اس پر بیٹھ گیا اور مدت تک رات دن مسلسل اللہ کے سامنے گریہ وزاری کرتا اور دعا کرتا رہا کہ الٰہی تو ان لوگوں میں تفرقہ پڑجانے سے واقف ہے کوئی ایسی نشانی ظاہر کر دے جس سے ان لوگوں کو اپنے عقیدہ کا غلط اور باطل ہونا واضح ہوجائے۔ یوں بھی اللہ رحمن و رحیم ہے اس کو اپنے بندوں کا تباہ ہونا پسند نہیں ‘ اس نے اپنے نیک بندے بیدوسیس کی دعا قبول فرما لی اور اصحاب کہف کی حالت کو ظاہر کرنا اور ان کو منکرین قیامت کے خلاف بطور دلیل پیش کرنا اور ثبوت قیامت اور مردوں کی بعثت پر یقین دلانے کے لئے ایک نشانی نمایاں کرنا چاہا اس کی یہ بھی مرضی ہوئی کہ مسلمانوں کا بکھرا ہوا شیرازہ پھر مجتمع ہوجائے جس کی صورت اس نے یہ پیدا کی کہ جس بستی میں اصحاب کہف کا غار تھا وہیں ایک باشندہ کے دل میں یہ ارادہ پیدا کردیا کہ غار کے دروازے پر جو عمارت بنائی گئی تھی اس کو ڈھا کر اپنی بکریوں کے لئے ایک باڑہ بنا دے اس شخص کا نام اولیاس تھا۔ اولیاس نے دو مزدور رکھ کر غار کے دروازے کی عمارت کے پتھر اکھڑوانا اور اپنی بکریوں کے لئے باڑہ بنوانا شروع کردیا آخر دروازہ کی ساری عمارت صاف کردی اور دروازہ کھل گیا۔ پھر اللہ نے اصحاب کہف کو اٹھا کر بٹھا دیا وہ خوش خوش شگفتہ رو ‘ ہشاش بشاش اٹھے اور خیال کیا کہ حسب معمول ہم رات کو سوئے تھے اور صبح ہوئی تو بیدار ہوگئے پھر معمول کے مطابق انہوں نے نمازیں پڑھیں اور کوئی ایسی علامت ان کے چہروں پر نمودار نہیں ہوئی جس سے اجنبیت یا انوکھاپن ظاہر ہوتا وہ یہ ہی سمجھتے رہے کہ بادشاہ دقیانوس ہماری جستجو میں لگا ہوا ہے۔ اتنی بات ضرور تھی کہ وہ یہ سمجھے تھے کہ ہم آج کچھ زیادہ سوئے اس لئے انہوں نے باہم پوچھنا شروع کیا ہم کتنی دیر سوئے ‘ کسی نے کہا ایک دن دوسرے نے کہا کچھ کم ایک دن سوئے ہوں گے (تعیین کے ساتھ صحیح مقدار خواب کوئی نہ بتا سکا) بالآخر بول اٹھے اللہ ہی جانے ہم کتنے وقت (سوتے) رہے۔ نماز کے بعد انہوں نے اپنے ایک ساتھی سے جس کا نام تملیخا تھا اور جس کے پاس سب کا خرچ تھا ‘ کہا ذرا جا کر خبر لاؤ کہ اس ظالم کے سامنے شام کو (ہمارے آنے کے بعد) لوگوں نے کیا باتیں کہیں تملیخا نے کہا کیا تم شہر میں نہیں ہو ‘ وہ ظالم چاہتا ہے کہ تم کو پکڑوا لے اور تم اس کے بتوں پر قربانیاں چڑھاؤ اور انکار کرو تو وہ تم کو قتل کرا دے جو اللہ چاہے گا وہ ہوگا (فکر کس بات کی ہے) ملسلمینا بولا دوستو ! خوب سمجھ لو کہ تم سب کو اللہ کے سامنے جانا ہے اللہ کے اس دشمن کے کہنے سے اپنا ایمان چھوڑ کر کافر نہ بن جانا ‘ اس کے بعد سب نے تملیخا کو مامور کیا کہ شہر کو جا کر خبر لائے کہ وہاں کیا تذکرے ہو رہے ہیں اور دقیانوس سے کیا باتیں کہی جا رہی ہیں اور ذرا چالاکی سے جانا کسی کو تمہارا پتہ نہ چل جائے اور وہاں سے کھانے کے لئے بھی کچھ زیادہ خرید کر لانا ہم سب بھوکے ہیں۔ تملیخا تیار ہوگیا اوّل بھیس بدلا کپڑے اتار کر دوسرے پہنے اور دقیانوسی سکہ لے کر باہر نکلنے کے لئے چل دیا ‘ غار کے دروازے پر پہنچا تو دیکھا دروازے کے پتھر اکھڑے ہوئے ہیں دیکھ کر تعجب کیا لیکن کچھ زیادہ پروا نہیں کی اور چھپتا چھپاتا اور راستے سے کتراتا شہر کے دروازے پر پہنچ گیا وہ دقیانوس ہی کا زمانہ سمجھا تھا اس لئے ڈرتا تھا کہ کوئی اس کو پہچان نہ لے۔ اس کو معلوم ہی نہ تھا کہ دقیانوس کو مرے ہوئے تین سو برس ہوگئے۔ شہر کے دروازے پر پہنچا اور دروازے کے اوپر نظر پڑی تو ایسی علامتیں دکھائی دیں کہ ایمان والوں کو یہاں آزادی ہے ‘ علامات سے اس بستی کا ایمانداروں کی بستی ہونا ظاہر ہو رہا تھا یہ دیکھ کر بڑا تعجب کیا اور پوشیدہ طور پر حیرت سے دروازے کو دیکھنے لگا پھر اس دروازے کو چھوڑ کر شہر کے دوسرے دروازے کی طرف گیا ‘ وہاں بھی وہیں علامتیں دکھائی دیں جو پہلے دروازے پر تھیں خیال کیا کہ یہ وہ شہر ہی نہیں ہے کوئی دوسرا شہر ہے جو میری شناخت میں نہیں آ رہا ہے ‘ وہاں کچھ لوگوں کو باتیں کرتے ہوئے پایا تو وہ لوگ بھی غیر نظر آئے۔ غرض تعجب میں پڑگیا اور خیال کیا کہ راستہ بھٹک گیا پھر لوٹ کر پہلے دروازہ پر آگیا اور حیرت کرنے لگا کہ یہ وہی چیزیں ہیں جو کل رات تھیں یہ نشانیاں تو مسلمانوں کی ہیں جن کو وہ پوشیدہ رکھا کرتے تھے اور آج یہ نظروں کے سامنے ہیں کیا میں سوتے میں خواب دیکھ رہا ہوں پھر خود ہی کہتا تھا میں تو جاگ رہا ہوں آخر اپنی چادر سر پر ڈالی اور شہر میں داخل ہوگیا چلتے چلتے بازار میں پہنچا تو وہاں کچھ لوگوں کو حضرت عیسیٰ بن مریم کی قسمیں کھاتے ہوئے سنا اس کے دل میں اور زیادہ ڈر پیدا ہوا اور یقین کرلیا کہ میں راستہ بھول کر کہیں اور آ نکلا ایک دیوار سے ٹیک لگا کر کھڑا ہوگیا اور دل ہی دل میں کہنے لگا کل شام تو سوائے چند آدمیوں کے اس سرزمین پر عیسیٰ بن مریم کا نام لینے والا کوئی بھی نہ تھا آج صبح کیا بات ہوگئی کہ جس سے سنتا ہوں وہ بےدھڑک عیسیٰ ( علیہ السلام) کا ذکر کر رہا ہے ‘ شاید میں کسی انجان شہر میں آگیا۔ مگر ہمارے شہر کے قریب تو کوئی اور بستی بھی نہ تھی ‘ پھر ایک جوان سے ملاقات ہوئی اور اس سے تملیخا نے اس شہر کا نام پوچھا ‘ جوان نے کہا اس شہر کا نام افسوس ہے۔ تملیخا نے دل میں کہا شاید میں مسلوب الحواس اور بےعقل ہوگیا ‘ اب تو میرے لئے یہی مناسب ہے کہ میں یہاں سے نکل جاؤں اس سے پہلے کہ میری بےعزتی کی جائے یا کوئی اور افتاد مجھ پر پڑے اور میں مارا جاؤں پھر ذرا ہوش آیا تو کہنے لگا قبل اس کے لوگ مجھے جان لیں ‘ یہاں سے بہت جلد نکل جانا ہی مناسب ہے یہ سوچ کر فوراً نان فروشوں کے پاس گیا اور چاندی کا سکہ جو ساتھ لایا تھا نکال کر ایک نان فروش کو دے کر کھانا طلب کیا۔ نان فروش نے روپیہ لے کر اس کو غور سے دیکھا مہر اور سکہ کی ضرب پر نظر کی اور تعجب کیا پھر ایک اور آدمی کی طرف اس کو پھینک دیا اس نے بھی غور سے دیکھا اس طرح چند آدمی دیکھنے لگے ایک دوسرے کی طرف پھینک دیتا اور وہ دیکھ کر تیسرے کی طرف پھینک دیتا۔ اب ان لوگوں نے آپس میں کہنا شروع کیا پرانے زمانے کا گڑا ہوا کوئی پوشیدہ دفینہ اس شخص کے ہاتھ لگ گیا ہے تملیخا نے جو ان لوگوں کو سکے کے متعلق گفتگو کرتے دیکھا تو اس کو بڑا ڈر لگا۔ خوف کے مارے کانپنے لگا اور سمجھ گیا کہ یہ لوگ بھی مجھے پہچان گئے اور شاہ دقیانوس کے پاس مجھے پکڑ کرلے جانا چاہتے ہیں کچھ دوسرے لوگ اور بھی آگئے اور تملیخا کو انہوں نے پہچاننے کی کوشش کی مگر پہچان نہ سکے۔ تملیخا نے ان لوگوں سے ڈرتے ڈرتے کہا ‘ مجھ پر مہربانی کرو تم نے میرا روپیہ بھی لے لیا اور کھانا بھی نہیں دیا اب مجھے تمہارے کھانے کی ضرورت نہیں اور روپیہ بھی تم ہی رکھ لو ‘ لوگوں نے پوچھا اے شخص تو کون ہے اور واقعہ کیا ہے یقیناً گزشتہ لوگوں میں سے کسی کا کوئی دفینہ تجھے مل گیا ہے تو اس کو ہم سے پوشیدہ رکھنا چاہتا ہے ایسا ہرگز نہیں ہوسکتا ہم کو اپنے ساتھ لے کر چل اور دفینہ دکھا اور ہم کو بھی اس میں حصہ دار بنا۔ اس صورت سے تو ہم تیرا معاملہ پوشیدہ رکھیں گے ورنہ حاکم کے پاس لے جائیں گے اس کے سپرد کردیں گے اور تو مارا جائے گا۔ تملیخا نے ان کی باتیں سن لیں تو کہا اسی مصیبت میں پھنس گیا جس کا مجھے اندیشہ تھا ‘ لوگوں نے کہا اے شخص خدا کی قسم اب تو ہم سے چھپا کے تو نہیں رکھ سکتا ‘ تملیخا کی سمجھ میں نہ آیا کہ ان باتوں کا کیا جواب دے ڈر کے مارے خاموش رہا۔ کچھ بھی نہیں بتایا لوگوں نے دیکھا کہ وہ بولتا ہی نہیں تو سر سے چادر کھینچ کر گلے میں ڈال کر کھینچتے ہوئے شہر کی گلیوں میں لے گئے ‘ گلیوں والے وجہ پوچھتے تو بتاتے یہ شخص اس لئے پکڑا گیا ہے کہ اس کے پاس (پرانا) دفینہ ہے ‘ غرض شہر کے تمام باشندے چھوٹے بڑے جمع ہونے لگے اور تملیخا کو دیکھ کر کہنے لگے یہ آدمی اس شہر کا رہنے والا تو نہیں ہے ہم نے اس کو کبھی نہیں دیکھا ‘ تملیخا ڈر کے مارے خاموش تھا بات ہی نہیں کرتا تھا ‘ لیکن یہ اس کو یقین تھا کہ اس کا باپ ‘ بھائی اور قرابتدار اسی شہر میں موجود ہیں اور اس شہر کے بڑے لوگ ہیں جب وہ سنیں گے تو یقیناً آئیں گے اور یہ لوگ اگر پکڑ کرلے جانا چاہیں گے تو گھر والے آکر چھڑا لیں گے۔ بیچارہ اسی انتظار میں تھا کہ لوگ اس کو شہر کے دو حاکموں کے پاس لے جانے لگے۔ یہ دونوں حاکم شہر کے منتظم تھے اور نیک آدمی تھے ‘ ایک کا نام اریوس اور دوسرا کا نام اشطیوس تھا تملیخا سمجھا تھا کہ دقیانوس کے پاس لے جائیں گے ‘ لیکن وہ لے گئے شہر کے ان دو حاکموں کے پاس جن سے تملیخا واقف نہ تھا ‘ راستہ میں گھر والوں کے انتظار میں دائیں باتیں دیکھتا جاتا تھا اور لوگ پاگل کی طرح اس کی ہنسی بنا رہے تھے۔ تملیخا نے روتے ہوئے آسمان کی طرف سر اٹھایا اور کہا اے اللہ ! تو آسمانوں اور زمین کا الہ ہے۔ آج میرے دل میں صبر ڈال دے اور اپنی طرف سے میرے ساتھ روح (جبرئیل ( علیہ السلام) یا اور کوئی غیبی مددگار) کو بھیج دے جو اس ظالم کے سامنے میری مدد کرے ‘ غریب تملیخا آنسو بہا رہا تھا اور دل میں کہہ رہا تھا دوستوں سے مفارقت ہوگئی ‘ میں ان سے بچھڑ گیا۔ جو کچھ مجھے پیش آیا کاش اس کی ان کو اطلاع ہوجاتی تو وہ یقیناً آجاتے اور سب مل کر اس ظالم کے سامنے جاتے کیونکہ ہم نے آپس میں معاہدہ کرلیا تھا کہ کوئی جدا نہ ہو سب ساتھ رہیں گے زندگی میں بھی اور مرنے میں بھی۔ وہ اپنے دل میں یہ باتیں کر ہی رہا تھا کہ لوگ دو نیک حاکموں یعنی اریوس اور اشطیوس کے پاس لے پہنچے جب تملیخا نے دیکھا کہ مجھے دقیانوس کے پاس نہیں لے جایا جائے گا تو ہوش درست ہوگئے اور رونا موقوف کردیا۔ اریوس اور اشطیوس نے روپیہ لے کر دیکھا اور اچنبھے میں پڑگئے اور دریافت کیا اے شخص جو دفینہ تجھ کو ملا ہے وہ کہاں ہے ؟ تملیخا نے کہا مجھے تو کوئی دفینہ نہیں ملا یہ روپیہ تو میرے باپ دادا سے میرے پاس آیا ہے ضرب اور ٹکسال اسی شہر کی ہے لیکن میری سمجھ میں خود اپنی حالت نہیں آتی (کہ میں کہاں ہوں ‘ کل میں نے کیا دیکھا تھا اور آج کیا دیکھ رہا ہوں) کہوں کیا۔ حاکم نے پوچھا تم کون ہو تملیخا نے جواب دیا میں اسی شہر کا رہنے والا ہوں ‘ پوچھا تمہارے باپ کا کیا نام ہے اور تم کو کوئی پہچاننے والا بھی ہے۔ تملیخا نے باپ کا نام بتایا لیکن حاضرین میں کوئی شخص بھی ایسا نہ تھا جو اس کے باپ کو جانتا ہو۔ حاکم نے کہا تو جھوٹا ہے سچی بات نہیں بتاتا۔ تملیخا نے سر جھکا لیا اور سمجھ میں نہ آیا کہ جواب کیا دے۔ ایک شخص بولا یہ دیوانہ ہے۔ دوسرا بولا دیوانہ نہیں ہے چھوٹنے کے لئے دیوانہ بن رہا ہے ‘ حاکم نے تملیخا کو سخت نظروں سے دیکھا اور کہا کیا تو یہ خیال کرتا ہے کہ ہم تجھے چھوڑ دیں گے اور تیری اس بات کو مان لیں گے کہ یہ سکہ تجھے باپ دادا سے ملا ہے اس کی ضرب اور نقوش تو تین سو برس سے بھی زیادہ پہلے کے ہیں۔ نوجوان لڑکا ہے ہم سے باتیں بنا کر ہماری ہنسی اڑانا چاہتا ہے ‘ حالانکہ ہمارے بال سفید ہو چلے ہیں اور تیرے گرداگرد شہر کے سردار اور کرتا دھرتا ہیں۔ اس شہر کے تمام دفینے ہمارے ہاتھوں میں ہیں ان میں کوئی درہم و دینار اس ضرب کا نہیں ہے میرا خیال ہو رہا ہے کہ تجھے سخت سزا دے کر قید کردینے کا حکم جاری کر دوں اور اس وقت تک قید رکھوں کہ تو دفینہ ملنے کا اقرار کرلے ‘ حاکم کی یہ تقریر سن کر تملیخا نے کہا میں آپ لوگوں سے ایک سوال کرنا چاہتا ہوں اگر آپ اس کا جواب دے دیں گے تو جو کچھ میرے پاس ہے میں بھی وہ سچ سچ تم کو بتادوں گا۔ حاضرین نے کہا پوچھو ہم تم سے کوئی بات نہیں چھپائیں گے۔ تملیخا نے کہا دقیانوس بادشاہ کہاں گیا ‘ لوگوں نے جواب دیا آج روئے زمین پر اس نام کا کوئی بادشاہ موجود نہیں ہے۔ بہت پرانے زمانے میں دقیانوس بادشاہ تھا وہ مرگیا اور اس کے بعد صدیاں بیت گئیں۔ تملیخا نے کہا تو یقیناً میں راہ سے بھٹک گیا ہوں ‘ کوئی شخص مجھے سچا نہیں جانے گا ‘ لیکن میں کہتا ہوں کہ ہم چند جوان دین اسلام پر قائم تھے۔ بادشاہ نے ہم کو بت پرستی پر مجبور کیا۔ ہم نے انکار کیا اور کل شام بھاگ نکلے اور غار میں جا کر سو رہے صبح کو بیدار ہوئے تو میں کھانا خریدنے اور احوال کی ٹوہ لگانے کے لئے نکلا ‘ کوہ بیجلوس کے غار تک تم لوگ میرے ساتھ چلو میں انپے ساتھیوں سے تمہاری ملاقات کراؤں گا ‘ تملیخا کی یہ بات سن کر اریوس ‘ اشطیوس اور تمام شہر والے چھوٹے بڑے اصحاب کہف کو دیکھنے کے لئے تملیخا کے ساتھ چل پڑے۔ اُدھر اصحاب کہف کے پاس کھانا لے کر جب تملیخا واپس نہیں پہنچا اور مقررہ مدت سے زیادہ وقت گزر گیا تو انہوں نے خیال کرلیا کہ تملیخا گرفتار ہوگیا اور پکڑ کر دقیانوس کے پاس لے گئے وہ یہ خیال کر ہی رہے تھے کہ کچھ آوازیں اور گھوڑوں کی ٹاپوں کی کھٹ کھٹ سنائی دی فوراً سمجھ گئے کہ یہ ظالم دقیانوس کے بھیجے ہوئے لوگ ہیں اور ہم کو گرفتار کرنے کے لئے ان کو بھیجا گیا ہے ‘ فوراً نماز کو کھڑے ہوگئے اور (نماز کے بعد) ایک نے دوسرے کو دعاء سلامتی دی اور (حق پر قائم رہنے کی) وصیت کی پھر آپس میں کہا چلو اپنے بھائی تملیخا کے پاس چلیں وہ ظالم دقیانوس کے پاس ہمارے پہنچنے کے انتظار میں ہوگا وہ غار کے اندر سامنے کے رخ پر بیٹھے یہ باتیں کر ہی رہے تھے کہ اریوس اور اس کے ساتھی غار کے دروازے پر آکھڑے ہوگئے اور تملیخا آگے بڑھ کیرروتا ہوا اندر آگیا اور اس کو روتا دیکھ کر اصحاب کہف نے حالات دریافت کئے۔ تملیخا نے کل حال بیان کردیا اس وقت سب کی سمجھ میں آیا کہ اس پوری مدت میں اللہ کے حکم سے ہم سوتے رہے۔ اللہ ہم کو ایک نشانی اور قبروں سے مردوں کے اٹھانے کی ایک دلیل بنانا چاہتا ہے تاکہ لوگوں کو معلوم ہوجائے کہ قیامت حق ہے اس کے آنے میں کوئی شبہ نہیں (جو اللہ تین سو برس تک سلانے کے بعد بیدار کر کے اٹھا سکتا ہے وہ مردوں کو بھی زندہ کر کے اٹھا سکتا ہے کیونکہ نیند بھی ایک قسم کی موت ہی ہے) تملیخا کے پیچھے اریوس بھی اندر پہنچ گیا دروازہ پر اس کو تانبے کا ایک صندوق دکھائی دیا جس پر چاندی کی مہر لگی تھی اریوس نے باہر سے ایک سردار کو بلا کر اس کے سامنے صندوق کھولا ‘ صندوق کے اندر رانگ کی دو تختیاں ملیں ان پر یہ عبارت لکھی ہوئی تھی۔ مکسلمینا ‘ مخشلمینا ‘ تملیخا ‘ مرطونس ‘ بشرطونس ‘ بیربوس ‘ دیومس اور یطنومس ظالم بادشاہ دقیانوس کے ڈر سے بھاگ گئے تاکہ بادشاہ ان کے دین سے ان کو منحرف نہ کرسکے اور یہ لوگ اس غار کے اندر گھس گئے۔ بادشاہ کو اطلاع ملی کہ وہ لوگ اس غار کے اندر چلے گئے تو اس نے پتھروں سے غار کا منہ بند کردینے کا حکم دے دیا ہم نے ان حضرات کا حال اور واقعہ اس لئے لکھ دیا کہ بعد کو آنے والے لوگوں کو اس کا علم ہوجائے اگر وہ اس تحریر سے واقف ہوجائیں۔ تمام حضرات کو یہ تحریر پڑھ کر تعجب ہوا اور اللہ کا شکر ادا کرنے لگے جس نے ان کو اپنی قدرت کی نشانی دکھا دی پھر اریوس اور اس کے ساتھی غار کے اندر اصحاب کہف سے جا کر ملے۔ اصحاب کہف بیٹھے ہوئے تھے چہرے نور سے دمک رہے تھے ان کے کپڑے بھی پرانے نہیں ہونے پائے تھے۔ اصحاب کہف کو اس حالت میں دیکھ کر اریوس اور اس کے ساتھی اللہ کے سامنے سجدے میں گرپڑے اور اللہ کی حمد میں رطب اللسان ہوگئے جس نے ان کو یہ نشانی دکھائی۔ اس کے بعد اصحاب کہف نے اریوس اور اس کے ساتھیوں کو اپنی سرگزشت سنائی اریوس نے ایک قاصد اپنے دیندار بادشاہ بیدوسیس کے پاس بھیجا اور تحریر کیا کہ آپ فوراً آجائیں تاکہ اللہ کی قدرت کی وہ نشانی آپ بھی دیکھ لیں جو اللہ نے آپ کے دور سلطنت میں لوگوں کی ہدایت کے لئے نمودار کی ہے کہ تین سو برس مردہ رکھنے کے بعد اللہ نے ان لوگوں کو زندہ کر کے اٹھا دیا ‘ بادشاہ نے جونہی یہ اطلاع سنی اس کا سارا غم جاتا رہا اور اللہ کی ستائش کرتے ہوئے اس نے کہا شکر ہے تیرا اے آسمانوں کے زمین کے مالک میں تیری عبادت کرتا ہوں (تمام عیوب و نقائص سے) تیرے پاک ہونے کا اقرار کرتا ہوں ‘ تو نے مجھ پر بڑا احسان کیا۔ بڑی مہربانی کی اور جو روشنی تو نے میرے آباء و اجداد اور نیک بندے قسطیطینوس کو عطا فرمائی تھی وہ مجھے بھی مرحمت فرمائی ‘ میرے لئے اس نور کو نہیں بجھایا ‘ ملک والوں کو اس واقعہ کی اطلاع ملی تو وہ بھی شہر افسوس میں آگئے اور سب بیدوسیس کے ساتھ غار کی طرف چل دیئے۔ بیدوسیس کو دیکھ کر اصحاب کہف خوشی سے کھل پڑے اور اللہ کے سامنے سربسجود ہوگئے۔ بیدوسیس ان کے سامنے جا کر کھڑا ہوا اور دو زانو ہو کر ان کو گلے لگا لیا اور زمین پر ان کے پاس بیٹھ گیا۔ کچھ دیر کے بعد اصحاب کہف نے بیدوسیس سے کہا اب رخصت۔ فی امان اللہ آپ پر اللہ کی طرف سے سلامتی اور رحمت ہو ‘ اللہ آپ کو اور آپ کی حکومت کو (شر سے) محفوظ رکھے اور جن و انس کے شر سے بچائے ‘ ہم آپ کو اور آپ کے ملک کو اللہ کی پناہ میں دیتے ہیں بادشاہ کھڑا ہوگیا اور بھی کھڑا ہی تھا کہ وہ لوگ اپنی خواب گاہوں کی طرف واپس چلے گئے اور سو گئے اور اللہ نے ان کی روحوں کو قبض کرلیا۔ بادشاہ نے ان کو کپڑے اوڑھا دیئے اور حکم دیا کہ ہر ایک کو علیحدہ علیحدہ سونے کے صندوقوں میں رکھ دیا جائے۔ جب رات ہوئی اور بادشاہ سو گیا تو خواب میں اصحاب کہف نے آکر اس سے کہا ہم کو سونے چاندی سے نہیں پیدا کیا گیا تھا ‘ مٹی سے بنایا گیا تھا ہم مٹی ہی کی طرف منتقل ہو رہے ہیں ‘ اس لئے قیامت تک ہم کو مٹی پر اسی حالت میں چھوڑ دو جس حالت میں ہم غار کے اندر تھے۔ قیامت کے دن اللہ ہم کو اسی مٹی سے اٹھائے گا ‘ یہ خواب دیکھ کر بادشاہ نے سار کی لکڑی کے صندوق بنوا دیئے اور صندوقوں میں رکھوا کر ان کو وہیں چھوڑ کر چلے آئے پھر اللہ نے ان کو لوگوں کی نظروں سے چھپا دیا اور خوف کی وجہ سے کوئی ان کو دیکھ بھی نہ سکا نہ غار کے اندر جاسکا بادشاہ نے غار کے دروازے پر نماز کے لئے ایک مسجد بنوا دی اور ہر سال وہاں خوشی منانے کے لئے جمع ہونے کا حکم دے دیا۔ بعض روایات میں اس طرح آیا ہے کہ تملیخا کو جب بادشاہ کے سامنے لے جایا گیا اور بادشاہ نے پوچھا تو کون ہے ‘ تملیخا نے جواب دیا میں اسی شہر کا رہنے والا ہوں فلاں جگہ میرا مکان ہے فلاں فلاں لوگ میرے رشتہ دار ہیں کل شام میں یہاں سے نکلا تھا تو کسی نے نہ تملیخا کو پہچانا نہ ان ناموں کے آدمیوں کو جن کا ذکر تملیخا نے کیا تھا ‘ بادشاہ نے پہلے کبھی سنا تھا کہ پرانے زمانہ میں کچھ نوجوان تھے ‘ جن کے نام محافظ خانہ کے اندر کسی تختی پر لکھے ہوئے ہیں ‘ تملیخا کی بات سن کر اس نے تختی منگوا کر دیکھی اور مندرجہ ناموں کو پڑھا تو ثابت ہوا کہ تملیخا کا نام اس کے اندر موجود ہے۔ باقی لوگوں کے متعلق تملیخا نے کہا یہ میرے ساتھیوں کے نام ہیں ‘ اس بات پر بادشاہ اپنے ساتھیوں کو لے کر تملیخا کی نشان دہی پر چل پڑا ‘ غار کے دروازے پر پہنچ کر تملیخا نے کہا مجھے اجازت دیجئے کہ میں پہلے اندر جا کر ان کو خوش خبری دے دوں ‘ کیونکہ اگر تم (بغیر اطلاع کے) میرے ساتھ اندر جا پہنچو گے تو وہ لوگ خوفزدہ ہوجائیں گے۔ تملیخا اجازت ملنے کے بعد اندر گیا اور غار والوں کو خوش خبری دی خوش خبری سنتے ہی اللہ نے ان کی روحیں قبض کرلیں اور بادشاہ یا اس کے ساتھیوں کی نظروں سے اللہ نے ان کو اوجھل کردیا کسی کو ان کا نشان اور راستہ بھی نہیں ملا ‘ آیت اِذْ اَوَی الْفتیۃ الی لکہف میں اسی واقعہ کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔
Top