Ruh-ul-Quran - Al-Kahf : 10
اِذْ اَوَى الْفِتْیَةُ اِلَى الْكَهْفِ فَقَالُوْا رَبَّنَاۤ اٰتِنَا مِنْ لَّدُنْكَ رَحْمَةً وَّ هَیِّئْ لَنَا مِنْ اَمْرِنَا رَشَدًا
اِذْ : جب اَوَى : پناہ لی الْفِتْيَةُ : جوان (جمع) اِلَى : طرف۔ میں الْكَهْفِ : غار فَقَالُوْا : تو انہوں نے کہا رَبَّنَآ : اے ہمارے رب اٰتِنَا : ہمیں دے مِنْ لَّدُنْكَ : اپنی طرف سے رَحْمَةً : رحمت وَّهَيِّئْ : اور مہیا کر لَنَا : ہمارے لیے مِنْ اَمْرِنَا : ہمارے کام میں رَشَدًا : درستی
جس وقت کچھ نوجوانوں نے غار میں پناہ لی اور انھوں نے دعا کی اے ہمارے رب ! ہمیں اپنے پاس سے رحمت عطا فرما اور ہمارے اس معاملے میں ہمارے لیے رہنمائی کا سامان فرما۔
اِذْا اَوَی الْفِتْیَۃُ اِلَی الْـکَھْفِ فَقَالُوْا رَبَّنَآ اٰتِنَا مِنْ لَّدُنْکَ رَحْمَۃً وَّھَیِّیْٔ لَنَا مِنْ اَمْرِنَا رَشَدًا۔ فَضَرَبْنَا عَلٰٓی اٰذَانِہِمْ فِی الْـکَھْفِ سِنِیْنَ عَدَدًا۔ ثُمَّ بَعَثْـنٰـھُمْ لِنَعْلَمَ اَیُّ الْحِزْبَیْنِ اَحْصٰی لِمَا لَبِثُوْٓا اَمَدًا۔ (الکہف : 10 تا 12) (جس وقت کچھ نوجوانوں نے غار میں پناہ لی اور انھوں نے دعا کی اے ہمارے رب ! ہمیں اپنے پاس سے رحمت عطا فرما اور ہمارے اس معاملے میں ہمارے لیے رہنمائی کا سامان فرما۔ تو ہم نے غار میں کئی سالوں کے لیے انھیں تھپک کے سلا دیا۔ پھر ہم نے ان کو بیدار کیا کہ دیکھیں دونوں گروہوں میں سے کون مدت قیام کو صحیح شمار کرتا ہے۔ ) ان تین آیتوں میں اللہ تعالیٰ نے اصحابِ کہف کے واقعہ کا جو مرکزی مضمون ہے اسے بیان فرما دیا ہے اور اس کے بعد اسی کی نسبتاً تفصیل بیان فرمائی ہے۔ البتہ وہ باتیں جو کسی بات کو کہانی بنانے کے لیے ضروری ہوتی ہیں یا جنھیں زیب داستاں کہا جاتا ہے، قرآن کریم اس سے تعرض نہیں کرتا۔ وہ اپنے بیان کو صرف ان باتوں تک محدود رکھتا ہے جس کا تعلق واقعہ کے اصل مضمون نصیحت یا عبرت سے ہو۔ واقعہ اصحابِ کہف میں تعجب خیز بات کیا ہے ؟ اصحابِ کہف کے واقعہ میں جو بات تعجب خیز ہے اور جسے دلچسپی سے سنا جاتا اور جاننے کی کوشش کی جاتی ہے وہ چند جوانوں کا ایک غار میں سالہاسال تک سوئے رہنا اور پھر زندہ حالت میں اٹھ کھڑے ہونا اور لوگوں سے ملاقات کرنا ہے، لیکن قرآن کریم اسے کوئی تعجب کی چیز نہیں سمجھتا۔ اس کے نزدیک قابل ذکر بات یہ ہے کہ ایک بڑی آبادی والے شہر میں جبکہ آبادی کا بیشتر حصہ بت پرستی میں مبتلا تھا اور اقتدار نہ صرف بت پرستی کی پشت پناہی کر رہا تھا بلکہ زبردستی لوگوں سے اس کا اعتراف بھی کروا رہا تھا۔ ایسی صورتحال میں جبکہ لوگوں کا رجحان حالات کا رخ، تعلیم و تربیت کی نہج اور قانون اور اقتدار کا جبر باطل کے ساتھ ہو۔ کسی شخص کا حق کی طرف مائل ہونا اور پھر اس پر اس حد تک ثابت قدم رہنا کہ وہ اقتدار کی فہمائش کو بھی خاطر میں نہ لائے اور جب حالات کے تیوروں کو بگڑا ہوا دیکھے تو بستی چھوڑ کر غاروں کی پناہ ڈھونڈے، یقینا ایک مشکل بات ہے۔ اس بڑے شہر کی تمام آبادی میں کسی نے اس مشکل کا ارتکاب نہیں کیا، بجز چند نوجوانوں کے۔ فتیۃ عربی زبان میں جمع قلت کا وزن ہے جس کا اطلاق دس سے کم پر ہوتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جو نوجوان بت پرستی سے بغاوت کرکے توحید کا علم سے کر اٹھے، ان کی تعداد آٹھ نو سے زیادہ نہیں تھی۔ عام تاریخی روایات اور قرآن کریم کے اشاروں سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ سات نوجوان تھے۔ اس سے اشارہ شاید اس طرف ہے کہ حالات کتنے بھی بگڑ جائیں نوجوانوں کو حق کی طرف مائل کرنا بڑوں کی نسبت آسان ہوتا ہے کیونکہ ان کے ساتھ مفادات کے پتھر معلق نہیں ہوتے۔ بیوی بچوں کی کمزوریاں انھیں لاحق نہیں ہوتیں۔ وہ بڑی سے بڑی تکلیف اپنی جان پر برداشت کرنے کے لیے تیار ہوجاتے ہیں اور جب ایک دفعہ وہ حق کی حمایت میں اٹھ کھڑے ہوتے ہیں تو پھر بڑے سے بڑا خطرہ بھی ان کے پائوں کی زنجیر نہیں بن سکتا۔ اس سے نوجوانوں کو یہ سبق ملتا ہے : بنا کرتی ہے اس دنیا میں ملت نوجوانوں سے سنبھلتی ہے ہمیشہ قوم ہمت نوجوانوں سے اور امت مسلمہ کے اصحابِ اقتدار اور اربابِ علم و فضل کو شاید یہ بتانا مقصود ہے کہ اگر وہ اس امت کی تاریخ اور اس کے تسلسل کو محفوظ رکھنا چاہتے ہیں تو انھیں نوجوان نسل سے کبھی بھی غافل نہیں ہونا چاہیے۔ جہاں جہاں سے ان کے دل و دماغ کے بگاڑ کے اسباب پیدا ہوتے ہیں ان کا سختی سے انسداد کرنا امت کے بڑے لوگوں کی ذمہ داری ہے۔ ورنہ نوجوانوں کے بگڑنے سے قوم کی ریڑھ کی ہڈی ٹوٹ جاتی ہے۔ پھر وہ بطور قوم کے آبرومندی سے زندگی نہیں گزار سکتے۔ یہ نوجوان اگر ایک طرف جوانوں کا ولولہ رکھتے تھے کہ حالات سے ٹکرانے کے لیے اٹھ کھڑے ہوئے تو دوسری طرف ان کے اندر دینی شعور اس حد تک تھا کہ انھوں نے اس راستے پر چلنے سے پہلے اللہ تعالیٰ سے اپنے لیے ہدایت کی دعا مانگی اور راستے کی مشکلات کی آسانی کے لیے اسی سے مدد چاہی۔ اللہ تعالیٰ نے ان پر احسان یہ کیا کہ انھیں غار میں صرف رہنے کا موقع نہیں دیا بلکہ نہایت پیار اور محبت سے اس طرح سلایا جیسے ماں اپنے لاڈلے بچے کو تھپک تھپک کر سلاتی ہے۔ پھر ایک مدت کے بعد انھیں اٹھایا جو اس سارے واقعہ سے اصل مقصود تھا کہ وہ آپس میں بحث کریں کہ ہم کتنی دیر تک سوئے رہے۔ کوئی کہے ایک پہر، کوئی کہے سارا دن، لیکن کسی ایک بات پر اتفاق نہ کرسکیں۔ اس سے انھیں یہ سمجھانا مقصود تھا کہ جس طرح تم چند سو سال کی نیند کے بارے میں جان نہیں سکے کہ کتنا عرصہ سو تے رہے ہو، اسی طرح برزخی زندگی کے اختتام پر بھی جب تمہیں قیامت کے لیے اٹھایا جائے گا تو تم یہ کہتے ہوئے اٹھو گے کہ ہماری نیند سے ہمیں کس نے اٹھا دیا، ہم ابھی تو سوئے تھے یعنی برزخ کی ہزاروں سال کی زندگی سونے والے کو چند گھنٹوں کی زندگی محسوس ہوگی، تو اللہ تعالیٰ کی جو ذات اس بات پر قادر ہے کہ دنیا کے فانی نظام میں سونے والوں کو صدیوں تک سلائے رکھے اور انھیں احساس بھی نہ ہونے پائے کہ ہم کتنا سوئے ہیں، اس کے لیے کیا مشکل ہے، وہ برزخ میں بھی مرنے والوں پر ایک لمبی نیند طاری کردے اور جب قیامت کے لیے انھیں اٹھائے تو وہ ایسے ہی احساس میں مبتلا ہوں، لیکن آج آخرت کا انکار کرنے والے چونکہ اس شعور سے بہرہ ور نہیں اس لیے وہ اس کے ادراک سے عاجز ہیں۔
Top