Tafseer-e-Mazhari - An-Noor : 35
اَللّٰهُ نُوْرُ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ١ؕ مَثَلُ نُوْرِهٖ كَمِشْكٰوةٍ فِیْهَا مِصْبَاحٌ١ؕ اَلْمِصْبَاحُ فِیْ زُجَاجَةٍ١ؕ اَلزُّجَاجَةُ كَاَنَّهَا كَوْكَبٌ دُرِّیٌّ یُّوْقَدُ مِنْ شَجَرَةٍ مُّبٰرَكَةٍ زَیْتُوْنَةٍ لَّا شَرْقِیَّةٍ وَّ لَا غَرْبِیَّةٍ١ۙ یَّكَادُ زَیْتُهَا یُضِیْٓءُ وَ لَوْ لَمْ تَمْسَسْهُ نَارٌ١ؕ نُوْرٌ عَلٰى نُوْرٍ١ؕ یَهْدِی اللّٰهُ لِنُوْرِهٖ مَنْ یَّشَآءُ١ؕ وَ یَضْرِبُ اللّٰهُ الْاَمْثَالَ لِلنَّاسِ١ؕ وَ اللّٰهُ بِكُلِّ شَیْءٍ عَلِیْمٌۙ
اَللّٰهُ : اللہ نُوْرُ : نور السَّمٰوٰتِ : آسمانوں وَالْاَرْضِ : اور زمین مَثَلُ : مثال نُوْرِهٖ : اس کا نور كَمِشْكٰوةٍ : جیسے ایک طاق فِيْهَا : اس میں مِصْبَاحٌ : ایک چراغ اَلْمِصْبَاحُ : چراغ فِيْ زُجَاجَةٍ : ایک شیشہ میں اَلزُّجَاجَةُ : وہ شیشہ كَاَنَّهَا : گویا وہ كَوْكَبٌ دُرِّيٌّ : ایک ستارہ چمکدار يُّوْقَدُ : روشن کیا جاتا ہے مِنْ : سے شَجَرَةٍ : درخت مُّبٰرَكَةٍ : مبارک زَيْتُوْنَةٍ : زیتون لَّا شَرْقِيَّةٍ : نہ مشرق کا وَّلَا غَرْبِيَّةٍ : اور نہ مغرب کا يَّكَادُ : قریب ہے زَيْتُهَا : اس کا تیل يُضِيْٓءُ : روشن ہوجائے وَلَوْ : خواہ لَمْ تَمْسَسْهُ : اسے نہ چھوئے نَارٌ : آگ نُوْرٌ عَلٰي نُوْرٍ : روشنی پر روشنی يَهْدِي اللّٰهُ : رہنمائی کرتا ہے اللہ لِنُوْرِهٖ : اپنے نور کی طرف مَنْ يَّشَآءُ : وہ جس کو چاہتا ہے وَيَضْرِبُ : اور بیان کرتا ہے اللّٰهُ : اللہ الْاَمْثَالَ : مثالیں لِلنَّاسِ : لوگوں کے لیے وَاللّٰهُ : اور اللہ بِكُلِّ شَيْءٍ : ہر شے کو عَلِيْمٌ : جاننے والا
خدا آسمانوں اور زمین کا نور ہے۔ اس کے نور کی مثال ایسی ہے کہ گویا ایک طاق ہے جس میں چراغ ہے۔ اور چراغ ایک قندیل میں ہے۔ اور قندیل (ایسی صاف شفاف ہے کہ) گویا موتی کا سا چمکتا ہوا تارہ ہے اس میں ایک مبارک درخت کا تیل جلایا جاتا ہے (یعنی) زیتون کہ نہ مشرق کی طرف ہے نہ مغرب کی طرف۔ (ایسا معلوم ہوتا ہے کہ) اس کا تیل خواہ آگ اسے نہ بھی چھوئے جلنے کو تیار ہے (پڑی) روشنی پر روشنی (ہو رہی ہے) خدا اپنے نور سے جس کو چاہتا ہے سیدھی راہ دکھاتا ہے۔ اور خدا نے (جو مثالیں) بیان فرماتا ہے (تو) لوگوں کے (سمجھانے کے) لئے اور خدا ہر چیز سے واقف ہے
اللہ نور السموت والارض اللہ آسمانوں کا اور زمین کا نور ہے۔ نور اس کیفیت کا نام ہے جس کو آنکھ سب سے پہلے ادراک کرتی ہے پھر اس کے ذریعہ سے دوسری قابل دید چیزوں کا انکشاف کرتی ہے جیسے چاند سورج کی روشنی کہ (پہلے چاند سورج اس سے روشن ہوتے ہیں پھر) ان چیزوں کا اس سے انجلاء ہوجاتا ہے جو سورج و چاند کے سامنے ہوتی ہیں۔ اس تعریف کی رو سے لفظ نور کا ذات باری تعالیٰ پر حقیقی اطلاق ممکن نہیں (کیونکہ یہ نور مادی ہے اور عوارض مادیات میں سے ہے) لامحالہ تاویل کی جائے گی۔ تاویل کی چند صورتیں ہیں (1) مضاف کو محذوف مانا جائے یعنی اللہ زمین و آسمان کو نور عطا کرنے والا ہے۔ (2) بطور مبالغہ مصدر کو اللہ پر محمول کیا جائے (اللہ میں اتنی زیادہ نور بخشی ہے کہ گویا خدا خود نور ہوگیا) جیسے زید کا اگر بہت زیادہ منصف ہونا ظاہر کرنا ہوتا ہے تو کہتے ہیں زیدٌ عادلٌ یا اعلیٰ ترین کریم کو کرم کہہ لیتے ہیں۔ (3) یا مصدر اسم فاعل کے معنی میں ہے یعنی اللہ زمینوں اور آسمانوں کو چاند سورج اور ستاروں سے انبیاء ‘ ملائکہ اور مؤمنوں سے روشن کرنا والا ہے۔ کذا قال الضحاک۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ زمین کو درختوں اور ہری بھری گھاس سے نورانی کردینے والا بھی اللہ ہے۔ بعض نے کہا اللہ نور ہے یعنی تمام انوار اسی کے ہیں جیسے کہا جاتا ہے فلاں شخص ہمارے لئے رحمت ہے یعنی ہم کو جو رحمت حاصل ہوئی ہے وہ اسی سے حاصل ہوئی ہے۔ کبھی لفظ نور کا اطلاق بطور مدح بھی کیا جاتا ہے جیسے ایک شاعر کا شعر ہے۔ جب کسی رات کو عبداللہ مرو سے چلا جاتا ہے تو مرو کا نور اور حسن چلا جاتا ہے۔ بعض نے کہا نور سے مراد ہے مدبر جو سردار قوم بڑا مدبر اور منتظم ہو اس کو نور القوم کہا جاتا ہے۔ بعض نے کہا نور وہ کیفیت ہے جو خود ظاہر ہو اور دوسری چیزوں کو ظاہر کرنے والی ہو اور اصل ظہور وجود وہستی ہے جس طرح اصل خفاء عدم و نیستی ہے ‘ پس نور السماوات سے مراد ہے آسمانوں کا موجود ہونا۔ اللہ بذات خود موجود ہے اور دسری چیزوں کو موجود کرنے والا ہے 1 ؂۔ باصرہ (قوت بینائی) پر بھی اس کا طلاق اسی وجہ سے ہوتا ہے کہ ادراک اشیاء اس پر موقوف ہے اور بصیرت تو ‘ بہرحال اعلیٰ ترین مدرک ہے آنکھ اپنا ادراک نہیں کرتی بصیرت اپنا بھی ادراک ہے اور اپنی ذات کے علاوہ تمام کلیات و جزئیات کا ادراک بھی اسی پر موقوف ہے۔ یہی حقائق پر غور کرتی اور ان کی تحلیل و ترکیب کرتی ہے اس لئے اس کو نور کہنا تو بدرجۂ اولیٰ لازم ہے اور چونکہ بصیرت بذات خود اور باختیار کامل نہ اپنی ذات کا ادراک کرسکتی ہے نہ دوسری چیزوں کا بلکہ اللہ کی طرف سے اس پر فیضان ادراک ہوتا ہے کبھی بلاواسطہ اور کبھی ملائکہ و انبیاء کے توسط سے اس لئے ان سب کو انوار کہا جاتا ہے۔ ملائکہ بھی نور ہیں انبیاء بھی نور ہیں اور سب سے بڑھ کر اللہ نور ہے اس کی تائید حضرت ابن عباس ؓ کے اس تفسیری قول سے ہوتی ہے جو بغوی نے نقل کیا ہے کہ اللہ نور السموت والارض کا معنی یہ ہے کہ اللہ اہل آسمان و زمین کا ہادی (راہنما) ہے۔ اسی کی رہنمائی سے سب حق کی طرف چل رہے ہیں اور گمراہی سے ‘ حیرت سے نجات پا رہے ہیں۔ نور کی اضافت بتارہی ہے کہ اس کا جلوہ سب کو اپنے دامن میں سمیٹے ہوئے ہے یا یہ کہ اس کے اندر تمام حسی اور عقلی نور سمائے ہوئے ہیں۔ مثل نورہ اللہ کے نور کی صفت۔ یعنی وہ نور جو مؤمن کے دل میں جگمگاتا ہے۔ جس کی پر تو اندازی کی وجہ سے مؤمن کا دل اللہ کی ذات وصفات کی طرف راستہ پاتا ہے ‘ عقل انسانی جس کو پا نہیں سکتی تھی۔ اس نور کی ضیاء پاشی کی وجہ سے وہاں تک پہنچ جاتی ہے اور جس کے ذریعہ یہ عقل بشری کو حق اور باطل کو جان لیتی ہے ‘ اللہ نے فرمایا ہے (فَہُوَ عَلٰی نُوْرٍ مِّنْ رَّبِّہٖ ) ۔ بغوی نے لکھا ہے حضرت ابن مسعود ؓ پڑھتے تھے ‘ مَثَلُ نُوْرِہٖ فِی قَلْبِ الْمُؤْمِنِ ۔ بقول سعید بن جبیر حضرت ابن عباس ؓ نے فرمایا اس نور کی حالت و صفت جو اللہ نے مؤمن کو عطا فرمایا ہے۔ بعض اہل تفسیر نے لکھا ہے کہ نورہٖ کی ضمیر مؤمن کی طرف راجع ہے۔ حضرت ابی نے فرمایا ‘ مؤمن کے دل کے نور کی صفت۔ یہ مؤمن وہ بندہ ہے جس کے دل کے اندر اللہ نے ایمان اور سینہ کے اندر قرآن جما دیا ہے۔ حسن اور زید بن اسلم نے کہا نور سے مراد قرآن ہے۔ سعید بن جبیر اور ضحاک نے کہا نور سے مراد ہے رسول اللہ ﷺ : کی ذات مبارک۔ بعض کے نزدیک نور سے اللہ کی طاعت مراد ہے۔ بندے کی طاعت کو اللہ نے اپنی ذات کی طرف منسوب فرمایا ہے۔ کمشکوۃ فیہا مصباح جیسے ایک طاقچہ جس میں ایک چراغ ہو۔ مِشْکوٰۃُطاقچہ جس میں آرپار سوراخ نہ ہو اگر آرپار سوراخ ہو تو اس کو کوۃ (روشن دان) کہتے ہیں۔ بعض علماء کے نزدیک مشکوٰۃ حبشی زبان کا لفظ ہے۔ مجاہد نے مشکوٰۃ کا ترجمہ قندیل کیا ہے اس وقت مضاف محذوف ہوگا یعنی نور قندیل کی طرح ہے جس میں چراغ موجود ہو۔ مصباح چراغ یہ اسم آلہ بروزن مفعال ہے ‘ صبح کا معنی ہے روشنی مصباح روشنی کا آلہ۔ المصباح فی زجاجۃ چراغ شیشہ (کے فانوس) میں ہو۔ زجاج نے کہا شیشے کے اندر نور اور آگ کی روشنی بہت زیادہ جھلکتی ہے ‘ اسی لئے لفظ زجاجۃ ذکر کیا۔ الزجاجۃ کانہا کوکب دری شیشے کا فانوس ایسا معلوم ہوتا ہو۔ دُرِّیٌّمیں یا نسبتی ہے۔ دُرٌّ موتی۔ (یعنی موتی جیسا تارا) صفاتی اور حسن میں موتی کی طرح۔ ایک شبہتارے کی چمک اور روشنی تو موتی سے زیادہ ہوتی ہے پھر موتی سے تارے کو تشبیہ دینے کا کیا معنی (وصف مشبہ تو مشبہ بہٖ میں زیادہ ہونا چاہئے اور اس جگہ مشبہ میں زائد ہے) ازالہمطلب یہ کہ وہ تارا تمام تاروں سے زیادہ چمکیلا اور پُر نور ہے جیسے موتی کا دانہ تمام دانوں سے زیادہ صاف اور چمکدار ہوتا ہے۔ بعض نے کہا پانچ ستارے جو سب سے بڑے ہیں یعنی زحل و مریخ ‘ مشتری ‘ زہرہ اور عطارد ان میں سے کسی ایک ستارے کو کوکب دری کہا جاتا ہے۔ میں کہتا ہوں شاید زہرہ کو کہتے ہیں زہرہ کی چمک دمک اور روشنی دوسرے ستاروں سے زیادہ ہوتی ہے۔ ایک شبہدوسرے ستاروں سے تشبیہ دی۔ چاند سورج سے تشبیہ کیوں نہ دی ان دونوں کی چمک اور روشنی تو دوسرے ستاروں سے زیادہ ہے۔ ازالہ چاند سورج کو کبھی گرہن لگ جاتا ہے دوسرے ستارے گرہن میں نہیں آتے۔ میں کہتا ہوں چراغ کو سورج سے تشبیہ دی جاتی ہے ‘ اللہ نے فرمایا (وَجَعَلْنَا الشَّمْسَ سِرَاجًا) اسی لئے زجاجہ کو تارے سے تشبیہ دی تاکہ یہ معلوم جائے کہ فانوس کی روشنی چراغ سے کم ہے۔ اگر سورج سے تشبیہ دی جاتی تو مضمون الٹ جاتا اور فانوس کی چمک چراغ سے زیادہ ہونا سمجھا جاتا اور یہ بات مقصود کے خلاف ہوجاتی۔ یوقد من شجرۃ مبرکۃ زیتونۃ وہ چراغ جو برکت والے درخت یعنی زیتون (کے تیل) سے روشن ہو۔ زیتون کا درخت بڑا بابرکت درخت ہوتا ہے۔ اس سے گوناگوں فوائد حاصل ہوتے ہیں اس کا تیل چراغوں میں بھی جلایا جاتا ہے اور نہایت نفیس مفید روشنی دیتا ہے یہ بطور سالن بھی کام میں آتا ہے اور ایک قسم کی خاص لذت بھی اپنے اندر رکھتا ہے کمال یہ ہے کہ درخت سے تیل نکالنے کے لئے کسی کو کو لھو کی ضرورت نہیں۔ ہر شخص بآسانی خود نکال سکتا ہے۔ بغوی نے لکھا ہے کہ حدیث میں آیا ہے زیتون کے تیل سے ناسور اچھا ہوتا ہے چوٹی سے جڑ تک اس کے درخت میں تیل ہی تیل ہوتا ہے۔ بغوی نے لکھا ہے حضرت اسید بن ثابت یا حضرت اسید انصاری کی روایت میں آیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا زیتون کا تیل کھاؤ اور استعمال کرو یہ مبارک درخت ہے۔ رواہ الترمذی عن عمر و احمد والترمذی والحاکم عن ابی اسید و رواہ ابن ماجۃ و الحاکم عن ابی ہریرہ ؓ ۔ حضرت ابوہریرہ ؓ کی روایت میں یہ الفاظ آئے ہیں زیتون کا تیل کھاؤ اور استعمال کرو یہ نفیس اور برکت والا ہوتا ہے۔ ابو نعیم نے الطب میں حضرت ابوہریرہ ؓ کی روایت سے بیان کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا زیتون کا تیل کھاؤ اور لگاؤ یہ ستّر بیماریوں کے لئے شفا ہے جن میں سے ایک کوڑھ کی بیماری بھی ہے۔ لا شرقیہ ولا غربیۃ جو نہ شرقی ہو نہ غربی۔ سدی اور ایک جماعت علماء کے نزدیک اس کا یہ مطلب ہے کہ وہ نہ ایسے مقام میں ہے کہ ہر وقت اس پر دھوپ پڑتی ہو اور اس کو جلا ڈالے نہ ایسی پوشیدہ جگہ میں ہے کہ سورج ہمیشہ اس سے غائب رہے کبھی اس پر دھوپ نہ پڑے اور اس کے نتیجے میں وہ کچا رہ جائے۔ بعض اہل تفسیر کے نزدیک یہ مطلب ہے کہ وہ نہ مشرق میں اس طرح واقع ہے کہ صرف طلوع کے وقت اس پر دھوپ پڑتی ہو غروب کے وقت بالکل نہ پڑتی ہو۔ نہ غرب میں اس طرح واقع ہے کہ صرف غروب کے وقت اس پر دھوپ پڑتی ہو طلوع کے وقت نہ پڑتی ہو ‘ بلکہ وہ پہاڑ کی چوٹی یا کھلے وسیع میدان میں واقع ہے کہ ہر وقت اس پر دھوپ پڑتی ہے اسی وجہ سے اس کے پھل نہایت پختہ اور تیل بہت صاف ہوتا ہے۔ بغوی نے اس کی توضیح کرتے ہوئے لکھا ہے کہ عرب کہتے ہیں وہ نہ کالا ہے نہ گوارا ‘ نہ میٹھا نہ کٹھا۔ یعنی بالکل خالص سفید بھی نہیں ہے نہ بالکل سیاہ ہے بلکہ درمیانی رنگ اور معتدل مزہ رکھتا ہے ‘ بروایت عکرمہ یہ قول حضرت ابن عباس ؓ کا ہے کلبی اور اکثر اہل تفسیر نے یہی مطلب بیان کیا ہے۔ بعض نے کہا وہ درخت نہ زمین کے مشرقی حصہ میں واقع ہے نہ مغربی حصہ میں بلکہ درمیان میں یعنی ملک شام میں واقع ہے ‘ شام کا زیتون بہت عمدہ ہوتا ہے۔ حسن نے کہا ایسا کوئی درخت دنیا میں نہیں جو شرقی ہو نہ غربی ‘ اللہ نے اپنے نور کی تشبیہ ایسے درخت زیتون سے دی ہے جو مغرب میں بھی نہ ہو اور مشرق میں بھی نہ ہو (یعی اللہ کا نور نہ مغرب کے لئے خاص ہے نہ مشرق کے لئے) میں کہتا ہوں اس قول پر شاید درخت زیتون سے مراد جنت کا شجرۂ زیتون ہو جس سے اللہ نے اپنے نور کو تشبیہ دی ہے۔ یکاد زینتہا یضیء ولو لم تمسسہ نار اس کا تیل اتنا چمکیلا اور روشن ہے (کہ) قریب ہے وہ خود بغیر آگ کو مس کرنے کے روشن ہوجائے۔ اس آیت میں روغن زیتون کی صفائی اور چمک کا پُر زور اظہار ہے۔ نور علی نور نور بالائے نور ہے۔ ایک تو تیل کے بجائے خود چمک پھر آگ کی وجہ سے اس کی اشتعالی روشنی۔ یہ دوہرا نور ہے۔ بلکہ چند در چند نور ہی تیل کے صاف ہونے کی وجہ سے اس کی ذاتی چمک شیشہ کے اشتعال کی چمک اور ایسے طاقچہ کی جگمگاہٹ جس میں ادھر ادھر سوراخ اور آر پارراستہ نہیں ہے۔ بغوی نے لکھا ہے اس تثمثیل کی تشریح میں اہل علم کے اقوال مختلف ہیں۔ بعض علماء کا خیال ہے کہ نور محمدی کی تمثیل ہے۔ حضرت ابن عباس ؓ نے کعب احبار سے فرمایا تھا ‘ آیۃ مَثَلُ نُوْرِہٖ کَمِشْکوٰۃٍکے معنی کی تشریح کرو۔ کعب احبار نے کہا اللہ نے اس آیت میں اپنے نبی کی حالت بطور تمثیل بیان کی ہے۔ مشکوٰۃ سے مراد ہے رسول اللہ ﷺ : کا مبارک سینہ اور شیشہ سے مراد ہے آپ کا دل اور مصباح سے مراد ہے نبوت اور یکاد زینتہا یضئ کا یہ مطلب ہے کہ اگر رسول اللہ ﷺ نے نبوت کا دعویٰ نہ بھی کیا ہوتا تب بھی قریب تھا کہ آپ کا نور جگمگانے لگتا اور لوگوں کے سامنے آپ کا نبی ہونا خود آجاتا۔ کعب احبار کی تسریح میری نظر میں نہایت لطیف ہے واقعی نور محمدی کی یہی حالت تھی بعثت نبوی ﷺ سے پہلے کے کچھ احوال ہم اس جگہ ذکر کرتے ہیں جو اس موضوع پر روشنی ڈالنے والے ہیں۔ فصل خلاصۃ السیر کے مؤلف نے رسول اللہ ﷺ کے ان معجزات کا ذکر کیا ہے جو بعثت سے پہلے ذات مبارک سے ظہور پذیر ہوئے تھے ہم ان کا مختصر تذکرہ کرتے ہیں۔ رسول اللہ ﷺ : کی والدہ کا بیان ہے میں نے بحالت حمل خواب میں دیکھا کہ ایک نور میرے اندر سے نکلا جس کی وجہ سے شہر بصری اور علاقۂ شام کے محلات میری نظر کے سامنے چمک اٹھے پھر پیدا ہوتے ہی آپ نے سر آسمان کی طرف اٹھایا ‘ حافظ ابن حجر نے لکھا ہے کہ جونہی رسول اللہ ﷺ پیدا ہوئے آپ کی والدہ نے ایک نور دیکھا جس سے ملک شام کے محل ان کی نظر کے سامنے چمک اٹھے ‘ ابن حبان اور حاکم نے اس کو صحیح کہا ہے۔ ابو نعیم نے دلائل میں لکھا ہے کہ رسول اللہ ﷺ کی والدہ نے بیان کیا جب آپ پیدا ہوئے تو فرشتہ نے آپ کو تین بار پانی میں غوطہ دیا۔ پھر ایک ریشمی بٹوے کے اندر سے ایک مہر نکال کر آپ کے شانہ پر لگائی جس کی وجہ سے ایک سفید انڈے کی طرح چیز پیدا ہوگئی جو زہرہ کی طرف چمکنے لگی۔ بیہقی ‘ ابن ابی الدنیا اور ابن السکن کا بیان ہے کہ رسول اللہ ﷺ کی پیدائش کی رات کو کسریٰ کے محل میں لرزہ آگیا ار اس کے چودہ کنگرے گرپڑے اور کسریٰ خوف زدہ ہوگیا اور فارس کی جو آگ ہزار برس سے نہیں بجھی تھی وہ بجھ گئی اور سادت جھیل خشک ہوگئی۔ حضرت عائشہ ؓ کی روایت میں آیا ہے کہ ایک یہودی مکہ میں رہتا اور تجارت کرتا تھا۔ رسول اللہ ﷺ : کی پیدائش کی رات اس نے قریش سے کہا اے گروہ قریش آج رات اس امت کا نبی پیدا ہوگیا جس کے دونوں شانوں کے درمیان ایک نشان ہے اور نشان میں گھوڑے کے ریال کی طرح چند بالوں کی ایک قطار ہے لوگ یہودی کو لے کر رسول اللہ ﷺ : کی والدہ کے پاس پہنچے اور نومولود بچے کی پشت کھول کر دیکھی یہودی کی نظر جب مسہ پر پڑی فوراً بےہوش ہو کر گرپڑا ‘ لوگوں نے پوچھا ارے ارے تجھے کیا ہوگیا۔ یہودی کہنے لگا واللہ بنی اسرائیل سے نبوت نکل گئی۔ رواہ الحاکم۔ مواہب لدینہ میں عمیصا راہب کا قصہ ذکر کیا گیا ہے ‘ عمیصا مکہ والوں سے کہتا تھا اے اہل مکہ عنقریب تم میں ایک پیغمبر پیدا ہونے والا ہے سارا عرب جس کا تابع ہوجائے گا اور عجم پر بھی اس کا اقتدار ہوگا یہ زمانہ اس کی پیدائش کا ہے۔ حضرت عباس بن عبدالمطلب کا بیان ہے میں نے عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ ! آپ کے دین میں میرے داخل ہونے کا ایک خاص باعث ہوا آپ کے نبی ہونے کی نشانی میں نے اسی وقت دیکھ لی تھی جب آپ جھولنے میں پرے ہوئے چاند سے باتیں کر رہے تھے اور انگلی سے اس کی طرف اشارہ کر رہے تھے اور جب آپ اس کی طرف اشارہ کرتے تھے وہ (کنارہ) جھک جاتا تھا ‘ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا میں اس سے باتیں کر رہا تھا اور وہ مجھ سے باتیں کر رہا تھا وہ مجھے رونے سے بہلاتا تھا اور جب وہ عرش کے نیچے سربسجود ہوتا تھا تو میں اس کی آواز سنتا تھا۔ حضور ﷺ : کی خصوصیات میں سے یہ بات بھی شمار کی گئی ہے کہ آپ کے جھولنے کو فرشتے جھلاتے تھے۔ یہ بھی روایت میں آیا ہے کہ پیدا ہوتے ہی آپ نے کلام کیا تھا۔ ابو یعلیٰ اور ابن حبان نے حضرت عبداللہ بن جعفر کی روایت سے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ : کی انّا حضرت حلیمہ نے کہا جب میں نے آپ کو اپنی گود میں لے لیا تو فوراً میری چھاتیاں بقدر ضرورت دودھ سے بھر آئیں پہلے میرا بچہ یعنی ضمرہ بھوکا رہنے کی وجہ سے سوتا نہ تھا ‘ اب دونوں نے سیر ہو کر پی لیا اور دونوں سو گئے پہلے میری پستان میں اتنا دودھ ہی نہ تھا جو بچہ کے لئے کافی ہوتا نہ ہماری اونٹنی کے پاس دودھ تھا جو بچہ کو پلایا جاسکتا اب جو میرا شوہر اونٹنی کے پاس گیا تو دیکھتا کیا ہے کہ اونٹنی کے تھن دودھ سے بھرے ہوئے ہیں میرے شوہر نے اس کو دوہا اور میں نے خوب سیر ہو کر پیا اور شوہر نے بھی خوب پیا اور وہ رات بڑے چین سے گزری ‘ محمد ﷺ : کو لے کر جب میں واپس آئی اور گدھی پر سوار ہوئی تو خدا کی قسم وہ تو اتنی تیز چلنے لگی کہ ساتھیوں کا کوئی گدھا اس کا مقابلہ نہ کرسکا ساتھ والیاں کہنے لگیں اری ابی ذویب کی بیٹی ! ذرا ٹھہر تو ‘ کیا یہ تیری وہی گدھی ہے جس پر تو آئی تھی ‘ میں نے کہا ہاں۔ بات یہ تھی کہ کمزوری اور لاغری کی وجہ سے میری گدھی ساتھ والے قافلہ کے لئے بار ہوگئی تھی بار بار ان کو رکنا پڑتا تھا۔ حضرت ابن عباس ؓ : کا بیان ہے کہ حضرت حلیمہ نے کہا جب میں نے رسول اللہ ﷺ : کا دودھ چھڑایا تو آپ نے کہا اللّٰہُ اَکْبَرُ کَبِیْرًا وَالْحَمْدُلِلّٰہِ کَثِیْرًا وَسُبْحَان اللّٰہِ بُکْرَۃً وَّاَصِیْلاً یہ آپ کا سب سے پہلا کلام تھا۔ الحدیث۔ حضرت ابن عباس ؓ : کا بیان ہے حلیمہ آپ کو دور نہیں جانے دیتی تھیں تاکہ آپ کی طرف سے ان کو بیخبر ی نہ رہے ایک روز آپ اپنی (رضاعی بہن) شیماء کے ساتھ باہر چلے گئے اور جہاں (جنگل میں) اونٹ تھے وہاں جا پہنچے حلیمہ تلاش میں نکلیں آپ اپنی بہن کے ساتھ (کہیں) مل گئے حلیمہ نے کہا اس گرمی میں تم کہاں پھر رہے ہو شیما نے کہا اماں ! مجھے اپنے بھائی کے ساتھ تو گرمی محسوس ہی نہیں ہوئی ‘ برابر ان کے اوپر ایک بدلی سایہ کئے رہی۔ جب یہ کہیں ٹھہر جاتے تھے بدلی بھی (ان کے اوپر) ٹھہر جاتی تھی یہ چل دیتے تھے تو بدلی بھی ان کے اوپر چل دیتی تھی۔ شمائل مجدیہ میں مذکور ہے کہ حلیمہ نے کہا جس روز سے ہم نے آپ کو لیا تھا کبھی ہم کو چراغ کی ضرورت نہیں رہی آپ کے چہرہ کی روشنی تو چراغ سے زیادہ نورانی تھی۔ اگر ہم کو کسی جگہ چراغ کی ضرورت پڑتی تو ہم آپ کو وہاں لے جاتے آپ کی برکت سے تمام مقامات روشن ہوجاتے۔ یہ بھی روایت میں آیا ہے کہ حلیمہ جب آپ کو لے کر بتوں کی طرف گئیں تو ہبل اور دوسرے بت آپ کی تعظیم میں اپنی جگہ سرنگوں ہوگئے اور سنگ اسود کے پاس لے کر گئیں تو سنگ اسود خود اپنی جگہ سے نکل کر آپ کے منہ کو چمٹ گیا۔ یہ بھی مروی ہے کہ حلیمہ آپ کو دودھ پلانے لگیں تو پستانوں سے اتنا دودھ بہنے لگا جو دس بلکہ اس سے بھی زیادہ بچوں کے لئے کافی ہوتا۔ جب حلیمہ آپ کو لے کر کسی خشک وادی میں سے گزرتیں تو وہ فوراً سرسبز ہوجاتی ‘ حضرت حلیمہ خود سنتی اور دیکھتی تھیں کہ پتھر اور درخت آپ کو سلام کرتے تھے اور درختوں کی شاخیں آپ کی طرف جھک جاتی تھیں۔ رسول اللہ ﷺ اور آپ کا رضاعی بھائی دونوں ساتھ ساتھ بکریاں چرایا کرتے تھے۔ رضاعی بھائی کا بیان ہے کہ میرا رضاعی بھائی جب کسی وادی پر جا کر کھڑا ہوتا تھا تو وہ فوراً سرسبز ہوجاتی تھی۔ اور بکریوں کو پانی پلانے کے لئے ہم کنویں پر آتے تھے تو کنویں کا پانی ابل کر کنویں کے منہ تک آجاتا تھا۔ جب آپ دھوپ میں کھڑے ہوتے تھے تو بدلی آکر سایہ کرلیتی تھی اور جنگلی جانور آپ کے پاس آکر آپ ﷺ : کو چومتے تھے۔ خلاصۃ السیر میں ہے کہ آپکی انا نے بیان کیا ایک بار آپ ہمارے اونٹوں کے مقام پر تھے اچانک آپ کا رضاعی بھائی دوڑتا ہوا آیا اور کہنے لگا کہ دو سفید پوش آدمیوں نے میرے قریشی بھائی کو پکڑ کر زمین پر لٹا کر پیٹ پھاڑ دیا ‘ حضرت حلیمہ کا بیان ہے ہم یہ بات سن کر فوراً ان کی طرف نکل کھڑے ہوئے جا کر دیکھا تو آپ منہ لپیٹے کھڑے ہوئے تھے ہم نے آپ کو چمٹا لیا اور دریافت کیا کیا واقعہ ہوا ‘ آپ ﷺ نے فرمایا دو آدمی سفید پوش آئے اور انہوں نے مجھے لٹا کر میرا پیٹ پھاڑا پھر اس کے اندر کسی چیز کو ٹٹولا مجھے معلوم نہیں کہ انہوں نے کیا چیز نکالی۔ حضرت شداد بن اوس کی روایت سے ابو یعلی ‘ ابو نعیم اور ابن ابی عساکر نے ان الفاظ کے ساتھ یہ حدیث نقل کی ہے کہ تین آدمیوں کا ایک گروہ آیا ان کے پاس سونے کا طشت تھا جو برف سے بھرا ہوا تھا ان میں سے ایک نے مجھے زمین پر لٹایا (اور پیٹ پھاڑ کر) پھر پیٹ کے اندر کی چیزیں نکالیں پھر ان کو برف سے دھویا اور خوب دھویا پھر ان کو ان کی جگہ دوبارہ رکھ دیا پھر دوسرا کھڑا ہوا اس نے میرا دل نکال کر پھاڑا (اور اس کو صاف کیا) یہ سب باتیں میں دیکھ رہا تھا ‘ پھر ایک سیاہ بوٹی اس کے اندر سے نکال کر پھینک دی پھر دائیں بائیں طرف ہاتھ گھمانے لگا معلوم ہوتا تھا کوئی چیز تلاش کر رہا ہے پھر مجھے نطر آیا کہ اس کے ہاتھ میں ایک انگوٹھی ہے جو مجسم نور ہے اس کو دیکھنے سے نگاہ میں چکا چوند ہو رہی تھی اس انگوٹھی سے اس نے میرے دل پر مہر لگا دی مہر لگاتے ہی میرا دل نور سے بھر گیا یہ نبوت و دانش کا نور تھا پھر دل کو لوٹا کر اس کی جگہ پر رکھ دیا میں اس مہر کی خنکی اپنے دل میں مدت تک محسوس کرتا رہا پھر تیسرے شخص نے اپنے ساتھی سے کہا تم ہٹ جاؤ (وہ ہٹ گیا) تیسرے شخص نے سینے کی وسطی لکیر (خطابیض) کے آغاز سے زیر ناف کے آخری حصہ تک ہاتھ پھیرا فوراً شگاف جڑ گیا۔ حضرت انس ؓ : کا بیان ہے میں حضور ﷺ کے سینہ پر سلائی کا نشان دیکھتا تھا ابن عساکر کی روایت میں آیا ہے کہ ایک سال کال پڑا ‘ ابو طالب حضور ﷺ : کو لے کر بارش کی دعا کرنے کعبے کے پاس پہنچے کعبہ کی دیوار سے اپنی پشت لگائی اور حضور ﷺ : کی انگلی پکڑی اس وقت آسمان پر بادل کا ٹکڑا بھی نہ تھا ‘ فوراً ادھر ادھر سے بادل آگیا اور موسلا دھار خوب بارش ہوئی اتنی کہ وادی ساری بہ نکلی۔ اسی واقعہ کی طرف ابو طالب نے ذیل کے شعر میں اشارہ کیا ہے ” ان کا رنگ گورا ہے ان کے طفیل میں بارش کی دعا کی جاتی ہے وہ یتیموں کی پناہ گاہ اور رانڈوں کی عصمت بچانے والے ہیں “۔ خلاصۃ السیر میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ بارہ سال کی عمر میں اپنے چچا ابو طالب کے ساتھ ملک شام کی طرف گئے۔ مقام بصریٰ میں پہنچے تو بحیرا راہب نے آپ کا حلیہ دیکھ کر پہچان لیا اور دست مبارک کو پکڑ کر کہا یہ رب العالمین کے رسول ہیں اللہ ان کو انسانوں کے لئے رحمت بنا کر مبعوث فرمائے گا۔ راہب سے دریافت کیا گیا تم کو اس کا کیسے علم ہوا ‘ راہب نے کہا جب تم لوگ گھاٹی سے نکل کر آ رہے تھے تو میں نے دیکھا کہ ہر درخت اور پتھر ان کی طرف کو جھک رہا تھا اور ایسا صرف نبی کے لئے ہی ہوتا ہے ہم نے اپنی کتابوں میں ان کے حالات پڑھے ہیں۔ پھر ابو طالب سے بحیرا نے کہا اگر تم ان کو لے کر شام کو گئے تو یہودی ان کو قتل کردیں گے۔ چناچہ راہب کے مشورے سے ابو طالب نے رسول اللہ ﷺ : کو بصریٰ سے ہی واپس کردیا (یا ساتھ لے کر واپس لوٹ آئے) دوبارہ حضرت خدیجہ ؓ کے غلام کے ساتھ لے کر تجارت کی غرض سے آپ ملک شام کو گئے اس وقت سن مبارک پچیس سال کا تھا اور حضرت خدیجہ سے نکاح نہیں ہو پایا تھا ‘ شام میں پہنچ کر ایک راہب کے گرجے کے پاس اترے راہب نے اوپر سے میسرہ کی طرف جھانک کر دریافت کیا تمہارے ساتھ یہ کون شخص ہے میسرہ نے کہا باشندگان حرم میں سے ایک قریشی شخص ہے۔ راہب نے کہا اس درخت کے نیچے سوائے نبی کے کبھی کوئی اور نہیں اترا۔ بعض روایات میں آیا ہے کہ راہب رسول اللہ ﷺ کے پاس آیا اور کہا میں ایمان لے آیا اور میں شہادت دیتا ہوں کہ آپ وہی (نبی) ہیں جن کا ذکر اللہ نے توریت میں کیا ہے ‘ پھر مہر نبوت کو دیکھ کر چوما اور کہا میں شہادت دیتا ہوں کہ آپ اللہ کے رسول نبی امی ہاشمی عربی مکی ہیں آپ ہی صاحب حوض ہیں آپ ہی شفاعت کرنے والے ہیں آپ ہی کے ہاتھ میں لواء الحمد ہوگا۔ بعض روایات میں آیا ہے کہ میسرہ نے بیان کیا دوپہر کا وقت ہوا اور گرمی سخت ہوگئی تو دو فرشتے اتر کر آپ پر سایہ کرنے لگے تاکہ گرمی (اور سورج کی) تیزی سے آپ کو تکلیف نہ ہو آپ اس وقت اپنے اونٹ پر سفر کر رہے تھے حضرت خدیجہ نے میسرہ کا جب بیان سنا تو آپ کے دل میں حضور ﷺ سے نکاح کرنے کا شوق پیدا ہوگیا۔ سہیلی نے راہب مذکور کے قول کا مطلب اس طرح بیان کیا۔ راہب کی مراد یہ تھی کہ اس وقت اس درخت کے نیچے پیغمبر ہی فروکش ہوا ہے۔ سہیلی کو اس تاویل کی ضرورت اس لئے پڑی کہ انبیاء کے دور کو گزرے ایک طویل مدت (تقریباً پانچ سو سال) گزر چکے تھے اتنی طویل مدت کسی ایک درخت کا باقی رہنا بعید از عقل تھا پھر درخت بھی سرراہ تھا آنے جانے والے ضرور اس کے نیچے آرام لیتے رہے ہوں گے ‘ یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ لب راہ درخت کے نیچے کوئی مسافر سوائے نبی کے کبھی نہ اترا ہو۔ سہیلی کی توجیہ (ٹھیک ہے لیکن یہ توجیہ) لفظ قط کے خلاف ہے قط کا تو یہ معنی ہے کہ کبھی اس درخت کے نیچے سوائے نبی کے اور کوئی نہیں اترا حقیقت یہ ہے کہ اللہ کی قدرت ہمہ گیر ہے غیر معمولی حالات اللہ کی قدرت سے ظاہر ہوتے رہتے ہیں ہوسکتا ہے کہ اس درخت کے نیچے سوائے نبی کے اور کوئی کبھی نہ اترا ہو۔ اللہ کی قدرت سے کوئی بات بعید نہیں۔ (سہیلی کی توجیہ کا یہ مطلب بھی لیا جاسکتا ہے کہ یہ درخت جس کی عمر دس بیس یا پچاس برس ہے اس مدت میں کوئی شخص کبھی اس کے نیچے نہیں نازل ہوا اس وقت صرف پیغمبر ہی فروکش ہوا اور حسب صراحت توریت اس کے نیچے پیغمبر ہی اتر سکتا تھا) واللہ اعلم۔ سالم کی روایت میں آیا ہے کہ آیت مذکورہ کی تفسیر میں حضرت ابن عمر ؓ نے فرمایا مشکوٰۃ سے مراد ہے رسول اللہ کا مبارک سینہ اور زجاجہ سے مراد ہے آپ کا دل اور مصباح وہ نور تھا جو آپ کے دل میں روشن تھا اور شجرۂ مبارک سے مراد ہیں حضرت ابراہیم اور شرقی غربی نہ ہونے سے یہ مراد ہے کہ حضرت ابراہیم نہ یہودی تھے نہ عیسائی اور نورٌ علی نور کا یہ مطلب ہے کہ ایک نور تو حضرت ابراہیم کے دل کا نور تھا اور دوسرا نور رسول اللہ ﷺ کے دل کا نور۔ محمد بن کعب قرظی نے کہا مشکوٰۃ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) تھے اور زجاجہ حضرت اسماعیل ( علیہ السلام) اور مصباح رسول اللہ ﷺ ۔ آپ ہی کی ذات کو اللہ تعالیٰ نے آیت سراجاً منیرا میں سراج فرمایا ہے۔ یہ چراغ ایک برکت والے درخت کے تیل یعنی حضرت ابراہیم کی ذات سے روشن تھا ‘ حضرت ابراہیم یقیناً بہت ہی بابرکت تھے اکثر انبیاء آپ ہی کی نسل سے ہوئے پھر آپ ایسے درخت کی طرح تھے جو نہ شرقی ہو نہ غربی یعنی آپ نہ یہودی تھے نہ عیسائی یہودی مغرب کو منہ کر کے عبادت کرتے ہیں اس لئے یہودیوں کو غربی قرار دیا اور عیسائی شرقی قرار پائے۔ یَکَادُ زَیْتُہَا یُضِیء وَلَوْ لَمْ تَمْسَسْہُ نَار سے اس طرف اشارہ ہے کہ وحی آنے سے پہلے ہی رسول اللہ ﷺ کے کمالات اور محاسن ظہور پذیر ہونے والے تھے (آگ کے چھونے یعنی وحی آنے کے بعد تو ان کا ظہور ہو ہی گیا وحی سے پہلے ہی وہ قریب الظہور تھے) نور بالائے نور کا یہ مطلب ہے کہ نور اصل نور نسل کے ساتھ شامل ہوگیا ایک تو نور ابراہیمی تھا پھر نور محمدی ﷺ اس کے ساتھ شامل ہوگیا۔ پس نور محمدی نور بالائے نور ہوگیا۔ ابوالعالیہ نے حسب ذیل تفسیر کی حضرت ابی بن کعب کی طرف نسبت کی ہے کہ یہ مؤمن کی مثال ہے مؤمن کی ذات ایک مشکوٰۃ ہے زجاجہ مؤمن کا سینہ ہے مصباح اس کا دل ہے نور مصباح ایمان اور قرآن کی روشنی ہے جو مؤمن کے دل میں ہوتی ہے۔ شجرۂ مبارکہ سے یہ روشنی اخلاص اللہ کے مبارک درخت سے حاصل ہوتی ہے اس کی مثال ایسی ہے جیسے کوئی سرسبز شاداب درخت جو گھنے باغ میں دوسرے درختوں سے گھرا ہوا ہو کہ سورج کے طلوع و غروب کے وقت دھوپ سے محفوظ ہو مؤمن بھی ہر طرح کے فتنہ سے محفوظ رہتا ہے ‘ چار اوصاف اس کے خصوصی اوصاف ہوتے ہیں اگر اللہ کی طرف سے اس کو کچھ ملتا ہے تو شکر ادا کرتا ہے نہیں ملتا تو صبر کرتا ہے فیصلہ کرتا ہے تو انصاف کا کرتا ہے بات کہتا ہے تو سچی کہتا ہے اس کا دل ایسا چراغ ہوتا ہے جو آگ کو چھو جانے کے بغیر بھی ایسا معلوم ہوتا ہے کہ روشن ہوجانے کے قریب ہے یعنی ظہور حق سے پہلے ہی اس کو معرفت حق حاصل ہوجاتی ہے کیونکہ اس کا دل فطری طور پر حق پرست ہے ‘ وہ نور بالائے نور ہوتا ہے اس کا قول ایک نور ہوتا ہے اس کا علم ایک نور ہوتا ہے اس کا آنا نور اور جانا نور ہوتا ہے اور قیامت کے دن وہ نور ہی کی طرف جائے گا۔ حضرت ابن عباس ؓ نے فرمایا یہ اللہ کے نور کی مثال ہے جو مؤمن کے دل میں ہوتا ہے مؤمن کا دل فطرتاً ہدایت پر عمل کرتا ہے جب اس کو (شریعت کے ذریعہ سے) علم حاصل ہوجاتا ہے تو اس کی ہدایت میں مزید اضافہ ہوجاتا ہے نور بالاء نور ہوجاتا ہے۔ میں کہتا ہوں صوفی کا دل حق بات ‘ حق عمل اور حق اعتقاد کی وجہ سے کھل جاتا ہے ‘ حق کو قبول کرتا ہے اور باطل کو قبول کرنے سے انکار کرتا ہے ‘ باطل سے اس میں انقباض ہوجاتا ہے ‘ اسی لئے رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا تھا کہ اپنے دل سے (مشتبہ امور میں) فتویٰ طلب کرو۔ اگرچہ مفتیوں نے تم کو فتویٰ دے دیا ہو۔ رواہ البخاری فی التاریخ بسند حسن۔ جب مؤمن کے دل میں کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ ﷺ : کا علم آجاتا ہے تو اس کے اندر یقین و ہدایت کا نور اور بڑھ جاتا ہے۔ نورٌ علی نور کی تشریح میں کلبی نے کہا یعنی مؤمن کا ایمان اور اس کا عمل ‘ سدی نے کہا نور ایمان اور نور قرآن۔ حسن اور ابن زید نے کہا یہ قرآن کی مثال ہے مصباح قرآن ہے جس طرح چراغ سے روشنی حاصل کی جاتی ہے اسی طرح قرآن سے ہدایت حاصل کی جاتی ہے۔ زجاجہ مؤمن کا دل ہے مشکوٰۃ اس کا منہ اور زبان ہے ‘ مبارک درخت وحی کا درخت ہے ‘ زیت سے مراد ہے قرآنی دلائل ‘ تیل کے روشن ہوجانے سے مراد ہے حجت قرآن کا واضح ہوجانا خواہ اس کو پڑھا نہ گیا ہو ‘ یعنی نزول قرآن سے پہلے اللہ نے مخلوق کی ہدایت کی نشانیاں اور دلائل قائم فرما دی تھیں پھر جب قرآن نازل ہوا تو نور بالائے نور ہوگیا ‘ نور فطرت میں نور قرآن کا اضافہ ہوگیا۔ بعض علماء نے کہا یہ حقیقت میں اس ہدایت کی تمثیل ہے جو واضح آیات کے مفہوم کے اندر موجود ہے اور اس ہدایت کا ظہور مشکوٰۃ ہے یا یوں کہا جائے کہ لوگوں کے اوہام و خیالات کی تاریکیاں ہدایت کو گھیرے رہتی ہیں۔ پس یہ ہدایت چراغ کی طرح ہے جس کو ہر طرف سے ظلمت محیط ہوتی ہے (اور وہ بیچ میں جگمگاتا رہتا ہے) یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ اللہ نے انسان کو پانچ علمی ادراکی قوتیں عطا فرمائی ہیں جن سے انسانی معاش و معاد وابستہ ہے۔ (1) حسی قوت (یعنی حس مشترک) جس کے ذریعہ سے دماغ ان چیزوں کو جان لیتا ہے جو ظاہری پانچوں حواسی کے ذریعہ سے محسوس ہوتی ہیں۔ (2) خیال کی قوت۔ یہ طاقت احساسی قوت کے معلومات کا خزانہ ہے محسوسات کی جو صورتیں حسی قوت میں آتی ہیں ان کو یہ اپنے اندر جمع رکھتی ہے تاکہ ضرورت کے وقت قوت عقلیہ کے سامنے لاسکے۔ (3) قوت عاقلہ جو صرف کلی حقائق کا ادراک کرتی ہے (جزئی صورتوں سے حقائق کلیہ کا تجرد اور استنباط کرلیتی ہے۔ (4) فکری قوت یعنی قوت متفکرہ جو معلومات کو ترتیب دے کر نامعلوم چیزوں کا علم حاصل کرتی ہے ‘ اسکا کام دلائل کو جوڑنا اور معلومات کو ترتیب دینا ہے) ۔ (5) قوت قدسیہ یہ قوت انبیاء اور اولیاء کے ساتھ مخصوص ہے اسرار ملکوت اور انوار غیب کا اس کے ذریعہ سے انکشاف ہوتا ہے آیت وَلٰکِنْ جَعَلْنَاہُ نُوْرًا نَہْدِیْ بِہٖ مَنْ نَّشَآءَ مِنْ عِبَادِنَا میں یہی قوت مراد ہے۔ آیت زیر تفسیر میں یہی پانچوں قوتیں مشکوۃ ‘ زجاجہ ‘ مصباح ‘ شجرہ اور زیت سے مراد ہیں۔ حسی قوت ‘ مشکوۃ کی طرح ہے گویا یہ ایک کھڑکی یا روشندان ہے جس کا رخ باہر کی طرف کو ہے اور صرف محسوسات خارجیہ کو جانتی ہے ‘ اپنے پیچھے کا اس کو کچھ ادراک نہیں ‘ اس کا معقولات کے ذریعہ سے روشن ہوجانا بالذات نہیں۔ قوت خیالیہ ‘ اس قارورے یا شیشے کی طرح ہے جو ہر جہتی معقولات کی صورتوں کا ادراک کرتی ہے اور انوار عقلیہ کو اپنے اندر محفوظ رکھتی اور قوت عاقلہ کی ضیاء پاشی سے روشن رہتی ہے۔ قوت عاقلہ ‘ ایک چراغ ہے جو علوم کلیہ اور معارف ربانیہ کے نور سے جگمگا رہا ہے ‘ قوت متفکرہ ایک مبارک درخت ہے جس کے پھل لامحدود ہیں یہ زیتون کا درخت ہے جس سے روغن پیدا ہوتا ہے اور اسی روغن سے چراغ روشن ہوتا ہے ‘ یہ درخت نہ غربی ہے نہ شرقی ‘ کیونکہ تمام جسمانی عوارض سے پاک ہے یا یوں کہو کہ یہ درخت فکریہ صورتوں اور معانی کے درمیان واقع ہے ‘ دونوں سے بہرہ یاب ہوتا ہے اور دونوں میں تصرف کرتا ہے۔ قوت قدسیہ روغن زیتون کی طرح صاف و شفاف ہے ‘ بغیر سوچ بچار اور کسی سے سیکھنے کے خود ہی معارف و علوم کی نورانیت سے جگمگا جانے کے قریب ہوتی ہے۔ یہ بھی احتمال ہے کہ آیت مذکورہ میں قوت عقلیہ کی تمثیل ہو ‘ ہر شخص کی قوت عقلیہ و علمیہ ہر قسم کی صورتوں سے خالی ہوتی ہے لیکن قبول علم کی اس میں صلاحیت و استعداد ہوتی ہے اس درجہ کو آیت میں مشکوٰۃ قرار دیا ہے (قدماء فلاسفہ حسب صراحت ابہروی و شیخ ابن سیناء قوت عقلیہ کے اس مرتبہ کو عقل ہیولانی کہتے ہیں) اس مرتبے سے ترقی کر کے قوت عقلیہ کا دوسرا درجہ وہ آتا ہے کہ بدیہی علوم اس کو حاصل ہوجاتے ہیں ‘ بغیر سوچ بچار اور فکر و نظر کے بعض چیزوں کا اس کو علم ہوجاتا ہے لیکن کسی نظری چیز کا علم بالفعل نہیں ‘ ہاں صلاحیت (قریبہ یا بعیدہ) نظری علوم کو حاصل کرنے کی موجود ہوتی ہے۔ احساسِ جزئیات سے حاصل شدہ بدیہی علوم کی تصویریں اس کے اندر موجود ہوتی ہیں اور ان بدیہی علوم کو ترتیب دے کر وہ نظری امور کا علم حاصل کرسکتی ہے گویا اس درجہ میں پہنچ کر وہ ایک جگمگاتا شیشہ ہوتی ہے اگر اس درجہ میں پہنچ کر قوت عقلیہ فکر و اجتہاد کے ساتھ نظری علوم حاصل کرنا چاہتی ہے تو زیتون کے درخت کے مشابہ ہے اور اگر حدس کے ذریعہ سے تحصیل علم کرتی ہے تو روغن زیتون کی طرح ہے (فکر کا معنی ہے مبادی اور مقدمات کے ذریعہ سے نتائج کی جانب قوت فکریہ کی حرکت اور حدس کا معنی ہے نتائج سے مبادی کی طرف بازگشت) اور اگر تحصیل کا سرچشمہ قوت قدسیہ ہے تو اس کی حالت ایسی ہے جیسے اتنا صاف و شفاف روغن کہ بغیر آگ اور دیا سلائی کو مس کئے بھی گویا مشتعل ہوجائے گا (یعنی بہت ہی قریب الاشتعال ہے) وحی اور الہام کا فرشتہ قوت عقلیہ کے لئے مرکز نور و اشتعال ہے قوت قدسیہ کا مرتبہ اتنا جلی اور نورانی ہوتا ہے کہ وحی والہام کے ملائکہ سے اتصال وتعلق کے بغیر بھی ایسا معلوم ہوتا ہے کہ خودبخود اس میں اشتعال و نورانیت کا ظہور ہوجائے گا ‘ اس سے آگے بڑھ کر جب قوت عقلیہ کو علوم نظریہ حاصل ہوجاتے ہیں تو دو صورتیں ہوتی ہیں (1) علوم نظریہ عقل کے سامنے ہر وقت حاضر نہیں ہوتے لیکن عقل جب ان کو حاضر کرنا چاہتی ہے حاضر کرلیتی ہے تصویریں موجود ہیں التفات کی نظر کی ضرورت ہے ‘ جب چاہا اور التفات نظر سے کام لے کر حاضر کرلیا اس مرتبہ کو ہم مصباح سے تشبیہ دے سکتے ہیں (1) لیکن اگر تصاویر ہر وقت عقل کے سامنے حاضر ہوں تو یہ نور بالائے نور ہوجاتا ہے (یاد رکھو کہ دوسرے درجہ کو اہل فلسفہ عقل بالمل کہ اور تیسرے درجہ کو عقل بالفعل اور چوتھے درجہ کو عقل مستفاد کہتے ہیں یا تیسرے درجہ کو عقل مستفاد اور چوتھے درجہ کو عقل بالفعل کے نام سے موسوم کرتے ہیں۔ حضرت مجدد الف ثانی کے کشف الہامی پر مبنی آیت زیر تفسیر کی دو تاویلیں اور بھی ہیں جن کو ہم اس جگہ بیان کرنا چاہتے ہیں (1) اَللّٰہ نُوْرُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِیعنی آسمان و زمین کو موجود کرنے والا اور پردۂ عدم سے میدان خارجی میں لانے والا ہے اور یہ وجود خارجی مثل ظل اور سایہ کے ہے۔ مَثَلُ نُوْرِہٖنور سے مراد ہے وجود۔ عظمت نور کو ظاہر کرنے کے لئے اپنی ذات کی طرف نور کی نسبت کی جیسے بیت اللہ (خانۂ خدا) اور ناقۃ اللہ (اللہ کی براہ راست پیدا کی ہوئی متبرک اونٹنی) کہا جاتا ہے۔ یا یوں کہا جائے کہ ماہیات ممکنات پر وجود خداوندی پرتو انداز اور سایہ افگن ہے جیسے چاند اور سورج کے مقابل جو خطۂ زمین آجاتا ہے اس پر چاند اور سورج کا نور عکس ریز ہوتا ہے۔ کَمِشْکوٰۃٍیعنی جیسے مشکوٰۃ (طاقچہ ‘ چراغ دان) کی روشنی ‘ مضاف محذوف ہے۔ فِیْہَا مِصْباحٌیعنی مشکوٰۃ کے اندرچراغ روشن ہے اور چراغ کی روشنی سے مشکوٰۃ پر نور ہو رہا ہے اسی طرح اللہ کی صفات و اسماء کے چراغ سے تمام ممکنات کی حقیقتیں نور وجود حاصل کر رہی ہیں۔ اَلْمِصْبَاحُ فِیْ زُجَاجَۃٍ یعنی چراغ کی نور پاشی بدرجۂ کمال ہے ‘ حضرت مجدد نے فرمایا انبیاء اور اولیاء کو چھوڑ کر باقی تمام ممکنات کے مبادی تعین اللہ کی صفات نہیں بلکہ صفات کا پر تو اور ظل مبدء تعین ہے اس کی توضیح یہ ہے کہ اللہ اپنی صفات کمال کو بھی جانتا ہے اور ان صفات کے نقائص کو بھی یعنی وہ اپنی صفات ثبوتیہ کا بھی علم رکھتا ہے اور صفات سلبیہ تنزیہیہ کا بھی۔ جیسے موت نقیض حیات ہے جہالت نقیض علم ہے کمزوری اور عجز قدرت کی نقیض ہے۔ بہرا ہونا سننے کی نقیض ہے نابینا ہونا بینا ہونے کی نقیض گونگا ہونا کلام کی نقیض ہے ‘ مجبور ہونا بااختیار ہونے کی نقیض ہے اور تعطل تکوین کی نقیض ہے۔ جب اللہ کی صفات ثبوتیہ اور سلبیہ مرتبۂ علم میں جمع ہوجاتی ہیں تو نقائص کی تصویریں صفات سلبیہ کے ساتھ آمیختہ ہوجاتی ہیں ان مخلوطات کی حقیقت عدم ہوتی ہے اور سلب صفات ان کے عوارض ہوتے ہیں یعنی یہ صفات سلبیہ اور تنزیہیہ ہوتی ہیں۔ صوفیاء کی اصطلاح میں انہی مخلوطات کو ظل صفات کہتے انہی کو اعیان ثابتہ کہا جاتا ہے۔ یہی ممکنات اور حقائق ممکنات کے مبادئ تعین ہوتے ہیں ‘ یہی حقائق امکانیہ کی مربی (تعیین کرنے والی) ہوتی ہیں ‘ صفات کی تشبیہ روشن چراغ سے دی جاسکتی ہے اور ظلال صفات کو شیشہ کہہ سکتے ہیں اور ماہیات امکانیہ کے وجود و ظہور کو مشکوٰۃ قرار دیا جاسکتا ہے ‘ چراغ کی روشنی سے شیشہ اور قارورہ روشن ہوجاتا ہے ‘ مصباح کے نور سے شیشہ جگمگا جاتا ہے ‘ پھر اس قارورہ اور شیشے کی جلوہ افگنی مشکوٰۃ پر ہوتی ہے اور مشکوٰۃ میں نورانیت اور چمک پیدا ہوجاتی ہے اسی طرح صفات کا نور ظلال صفات کو منور کردیتا ہے ‘ صفات ‘ ظلال پر پَر تو انداز ہوتی ہیں اور ان کو روشن کردیتی ہیں اور ظلال صفات کی عکس ریزی ماہیات امکانیہ پر ہوتی ہے اور ممکنات کو نور وجود حاصل ہوجاتا ہے ‘ خلاصہ یہ کہ مشکوٰۃ کا نور یعنی ممکنات کا وجود اور ظہور شیشہ سے یعنی ظلال صفات سے حاصل ہوتا ہے اور شیشہ کی نورانیت یعنی ظلال کی نور چینی اور نور پاشی اصل مصباح یعنی صفات کی پَر تو اندازی کی ممنون کرم ہے۔ (اس آیت کی تفسیر کا بقیہ حصہ کتابی یا آن لائن نسخے سے ملاحضہ فرمائیں۔ طوالت کے باعث اس سے زیادہ نقل نہیں کیا جا رہا)
Top