Al-Qurtubi - Yaseen : 71
اَوَ لَمْ یَرَوْا اَنَّا خَلَقْنَا لَهُمْ مِّمَّا عَمِلَتْ اَیْدِیْنَاۤ اَنْعَامًا فَهُمْ لَهَا مٰلِكُوْنَ
اَوَلَمْ يَرَوْا : یا کیا وہ نہیں دیکھتے ؟ اَنَّا خَلَقْنَا : ہم نے پیدا کیا لَهُمْ : ان کے لیے مِّمَّا : اس سے جو عَمِلَتْ اَيْدِيْنَآ : بنایا اپنے ہاتھوں (قدرت) سے اَنْعَامًا : چوپائے فَهُمْ : پس وہ لَهَا : ان کے مٰلِكُوْنَ : مالک ہیں
کیا انہوں نے نہیں دیکھا کہ جو چیزیں ہم نے اپنے ہاتھوں سے بنائیں ان میں سے ہم نے ان کے لئے چار پائے پیدا کر دئیے اور یہ ان کے مالک ہیں
آیت میں رئویت سے مراد دل کا دیکھنا ہے یعنی کیا وہ نظر و فکر نہیں کرتے ‘ عبرت حاصل کرتے اور سوچ و بچار نہیں کرتے ان اعمال میں جو ہم نے بغیر مثال کے کیے ہیں اور واسطہ ‘ واکالت اور شراکت کے بغیر کیسے ہیں مما میں ماء الذی کے معنی میں ہے ضمیر عائد اسم کی طوالت کی وجہ حذف کردی گئی اگر ما کو مصدری بنایا جائے تو ضمیر حذف کرنے کی کوئی ضرورت نہیں۔ انعام یہ نعم کی جمع ہے اور نعم مذکر ہے اب یہ لوگ ان جانوروں کے مالک ہیں اور ان پر غالب ہیں (1) ۔ ہم نے جانوروں کو ان کے لئے مسخر کیا ہے (2) ۔ یہاں تک کہ ایک بچہ بڑے اونٹ کی مہار کو پکڑ کر چلتا ہے ‘ اسے مارتا ہے جیسے چاہتا ہے اس سے کام لیتا ہے اور اس کی طاعت سے نہیں نکلتا ان جانوروں میں سے کچھ ایسے ہیں جن پر سواری کی جاتی ہے رکوب کی عام قرأت راء کے فتحہ کے ساتھ ہے جس طرح حلوب محلوب کے معنی میں استعمال ہوتا ہے۔ اعمش ‘ حسن بصری اور اب سمیقع نے رکوبھم پڑھا ہے یعنی راء مضموم ہے اور مصدر ہے۔ حضرت عائشہ صدیقہ ؓ سے مروی ہے کہ آپ ؓ نے اسے رکوبتھم پڑھا ہے ان کے مصحف میں بھی ایسا ہے رکوب اور رکوبۃ کا معنی ایک ہی ہے جس طرح حلوب اور حلوبہ ‘ حمول اور حمولہ۔ نحوی کو فیوں نے حکامیت بیان کی ہے کہ عرب کہتے ہیں : امراۃ صبور ‘ شکور اس کے آخر میں ھاذکر نہیں کرتے وہ کہتے ہیں شاۃ حلوبہ ‘ ناقۃ رکوبۃ کیونکہ انہوں نے یہ ارادہ کیا ہے کہ اس امر میں فرق کریں کہ کس کا فعل ہے اور کس پر فعل واقع ہو رہا ہے ؟ فاعل سے انہوں نے ھاء کو حذف کردیا ہے اور مفعول میں اسے ثابت رکھاجس طرح شاعر نے کہا : فیھا اثنتان وأربعون حلوبۃ سودا کخافیۃ الاسحم (1) ” ان میں بیالیس ایسی اونٹنیاں ہیں جنہیں دوہا گیا ہے وہ سیاہ رنگ کی ہیں جس طرح سیاہ کوے کے پر ہیں “۔ اس تعبیر کی بنا پر رکوبتھم ہونا واجب ہے۔ جہاں تک بصریوں کا تعلق وہ کہتے ہیں : ھاء تانیث نسبت کی وجہ سے حذف ہے۔ پہلے قول کی دلیل وہ ہے جو جرمی نے ابوعبیدہ سے نقل کی ہے کہا : رکوبۃ یہ واحد اور جمع دونوں کے لئے ہے اور رکوب صرف جمع کے لئے ہے اس تعبیر کی بناء پر یہ جمع کے مذکر ہونے کے لئے ہے۔ ابو حاتم نے گمان کیا : فمنھارکوبھم راء کے ضمہ کے ساتھ پڑھنا جائز نہیں کیونکہ وہ مصدر ہے اور رکوب اسے کہتے ہیں جس پر سوار ہوا جاتا ہے ‘ فراء نے اسے جائز قرار دیا ہے یعنی راء کے ضمہ کے ساتھ جائز قرار دیا ہے جس طرح تو کہتا ہے : فمنھا اکلھم و منھا شربھم ان میں سے کچھ ان کا کھانا ہے اور ان میں سے کچھ ان کا مشروب ہے اور ان کے گوشت تم کھاتے ہو ان کے کئی اور منافع بھی ہیں یعنی اون ‘ بال وغیرہ ان کی چربیاں اور گوشت وغیرہ۔ مشارب سے مراد ان کے دودھ ہیں (2) یہ منصرف نہیں کیونکہ دونوں جمع ہیں واحد میں ان کی کوئی مثال نہیں وہ اللہ تعالیٰ کی نعمتوں پر اس کا شکر بجا نہیں لاتے۔
Top