Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
130
131
132
133
134
135
136
137
138
139
140
141
142
143
144
145
146
147
148
149
150
151
152
153
154
155
156
157
158
159
160
161
162
163
164
165
166
167
168
169
170
171
172
173
174
175
176
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Al-Qurtubi - An-Nisaa : 43
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَقْرَبُوا الصَّلٰوةَ وَ اَنْتُمْ سُكٰرٰى حَتّٰى تَعْلَمُوْا مَا تَقُوْلُوْنَ وَ لَا جُنُبًا اِلَّا عَابِرِیْ سَبِیْلٍ حَتّٰى تَغْتَسِلُوْا١ؕ وَ اِنْ كُنْتُمْ مَّرْضٰۤى اَوْ عَلٰى سَفَرٍ اَوْ جَآءَ اَحَدٌ مِّنْكُمْ مِّنَ الْغَآئِطِ اَوْ لٰمَسْتُمُ النِّسَآءَ فَلَمْ تَجِدُوْا مَآءً فَتَیَمَّمُوْا صَعِیْدًا طَیِّبًا فَامْسَحُوْا بِوُجُوْهِكُمْ وَ اَیْدِیْكُمْ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ كَانَ عَفُوًّا غَفُوْرًا
يٰٓاَيُّھَا
: اے
الَّذِيْنَ
: وہ لوگ جو
اٰمَنُوْا
: ایمان لائے
لَا تَقْرَبُوا
: نہ نزدیک جاؤ
الصَّلٰوةَ
: نماز
وَاَنْتُمْ
: جبکہ تم
سُكٰرٰى
: نشہ
حَتّٰى
: یہاں تک کہ
تَعْلَمُوْا
: سمجھنے لگو
مَا
: جو
تَقُوْلُوْنَ
: تم کہتے ہو
وَلَا
: اور نہ
جُنُبًا
: غسل کی حالت میں
اِلَّا
: سوائے
عَابِرِيْ سَبِيْلٍ
: حالتِ سفر
حَتّٰى
: یہاں تک کہ
تَغْتَسِلُوْا
: تم غسل کرلو
وَاِنْ
: اور اگر
كُنْتُمْ
: تم ہو
مَّرْضٰٓى
: مریض
اَوْ
: یا
عَلٰي
: پر۔ میں
سَفَرٍ
: سفر
اَوْ جَآءَ
: یا آئے
اَحَدٌ
: کوئی
مِّنْكُمْ
: تم میں
مِّنَ
: سے
الْغَآئِطِ
: جائے حاجت
اَوْ
: یا
لٰمَسْتُمُ
: تم پاس گئے
النِّسَآءَ
: عورتیں
فَلَمْ تَجِدُوْا
: پھر تم نے نہ پایا
مَآءً
: پانی
فَتَيَمَّمُوْا
: تو تیمم کرو
صَعِيْدًا
: مٹی
طَيِّبًا
: پاک
فَامْسَحُوْا
: مسح کرلو
بِوُجُوْهِكُمْ
: اپنے منہ
وَاَيْدِيْكُمْ
: اور اپنے ہاتھ
اِنَّ
: بیشک
اللّٰهَ
: اللہ
كَانَ
: ہے
عَفُوًّا
: معاف کرنیوالا
غَفُوْرًا
: بخشنے والا
مومنو ! جب تم نشے کی حالت میں ہو تو جب تک (ان الفاظ کو) جو منہ سے کہو سمجھنے (نہ) لگو نماز کے پاس نہ جاؤ یہ آیت حرمت شراب کی آیت سے منسوخ ہے اور جنابت کی حالت میں بھی (نماز کے پاس نہ جاؤ) جب تک کہ غسل (نہ) کرلو ہاں اگر بحالت سفر راستے چلے جا رہے ہو (اور پانی نہ ملنے کے سبب غسل نہ کرسکو تو تیمم کر کے نماز پڑھ لو) اور اگر تم بیمار ہو یا سفر میں ہو یا تم میں سے بیت الخلا سے ہو کر آیا ہو یا تم عوتوں سے ہم بستر ہوئے ہو اور تمہیں پانی نہ ملے تو پاک مٹی سے منہ اور ہاتھ کا مسح (کر کے) تیمم کرلو بیشک خدا معاف کرنے والا (اور) بخشنے والا ہے
آیت نمبر :
43
۔ اس میں چوالیس مسائل ہیں۔ مسئلہ نمبر : (
1
) اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے (آیت) ” یایھا الذین امنوا لا تقربوا الصلوۃ وانتم سکری “۔ اللہ تعالیٰ نے اس خطاب کے ساتھ مومنین کو خاص فرمایا، کیونکہ وہ نماز پڑھتے تھے اور انہوں نے شراب پی تھی اور اس نے ان کے ذہنوں کو ختم کردیا تھا پس وہ اس خطاب سے خاص کیے گئے، کیونکہ کفار تو نہ ہوش میں نماز پڑھتے تھے، نہ حالت نشہ میں، ابو داؤد نے حضرت عمر بن خطاب سے روایت کیا ہے فرمایا : جب شراب کی حرمت نازل ہوئی تو حضرت عمر ؓ نے دعا کی : اے اللہ ! شراب کے بارے میں ہمارے لیے واضح حکم بیان فرما، تو سورة بقرہ کی آیت (آیت) ” یسئلونک عن الخمر والمیسر “۔ (بقرہ :
219
) نازل ہوئی، فرمایا : حضرت عمر ؓ کو بلایا گیا ان پر یہ آیت پڑھی گئی، پھر حضرت عمر ؓ نے کہا : اے اللہ ہمارے لیے شراب کے متعلق واضح حکم بیان فرما، تو سورة نساء کی آیت (آیت) ” یایھا الذین امنوا لا تقربوا الصلوۃ وانتم سکری “۔ نازل ہوئی رسول اللہ ﷺ کا منادی ندا دیتا تھا جب نماز کھڑی ہوتی تھی کہ خبردار کوئی نشہ کی حالت میں نماز کے قریب نہ جائے حضرت عمر ؓ کو بلایا گیا اور ان پر یہ آیت پڑھی گئی، حضرت عمر ؓ نے کہا : اللہ ہمارے لیے شراب کے متعلق کوئی شافی حکم بیان فرما، تو یہ آیت نازل ہوئی (آیت) ” فھل انتم منتھون “۔ (المائدہ) حضرت عمر ؓ نے کہا : ہم رک گئے (
1
) (جامع ترمذی، کتاب فضائل القرآن باب ومن سورة المائدہ، حدیث نمبر
2975
، ضیاء القرآن پبلی کیشنز، مسند امام احمد، حدیث نمبر
378
) سعید بن جبیر ؓ نے کہا : لوگ زمانہ جاہلیت کے امر پر تھے حتی کہ انہیں کسی کا حکم دیا گیا یا منع کیا گیا، وہ ابتدائے اسلام میں شراب پیتے تھے حتی کہ (آیت) ” یسئلونک عن الخمر والمیسر قل فیھما اثم کبیر ومنافع للناس “۔ (بقرہ :
219
) کا ارشاد نازل ہوا، لوگوں نے کہا : ہم منفعت کے لیے پیتے ہیں گناہ کے لیے نہیں پیتے، پھر ایک شخص نے شراب پی اور آگے بڑھ کر نماز پڑھانے لگا اس نے ” قل یایھا الکافرون اعبد ما تعبدون “۔ پڑھ دیا تو یہ آیت نازل ہوئی (آیت) ” یایھا الذین امنوا لا تقربوا الصلوۃ وانتم سکری “۔ لوگوں نے کہا : عین نماز کے علاوہ وقت میں ہم پئیں گے، حضرت عمر ؓ نے دعا کی : اے اللہ ہم پر شراب کے بارے شافی بیان فرما، تو (آیت) ” انما یرید الشیطن “۔ (المائدہ :
91
) کا ارشاد نازل ہوا، حضرت عمر ؓ نے کا ہ : اتنھینا انتھینا “۔ ہم رک گئے، ہم رک گئے، پھر رسول اللہ ﷺ کے منادی نے چکر لگایا اور کہا : خبردار شراب حرام کی گئی ہے، اس کا بیان انشاء اللہ سورة مائدہ میں آئے گا۔ ترمذی نے حضرت علیٰ ؓ سے روایت کیا ہے فرمایا ہمارے لیے حضرت عبدالرحمن بن عوف نے کھانا تیار کیا ہمیں بلایا اور ہمیں شراب پلائی، شراب نے ہمیں مدہوش کردیا، نماز کا وقت ہوا تو لوگوں نے مجھے آگے کیا، میں نے پڑھا (آیت) ” قل یایھا الکفرون، لا اعبد ما تبدون “۔ ونحن نعبد ماتعبدون۔ فرمایا اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی (آیت) ” یایھا الذین امنوا لا تقربوا الصلوۃ وانتم سکری “۔ (
1
) (جامع ترمذی کتاب التفسیر جلد
2
، صفحہ
127
) ابو عیسیٰ نے کہا : یہ حدیث حسن صحیح ہے، اس آیت کا ماقبل سے اتصال کی وجہ اور مقابل سے ترتیب کی وجہ اس طرح ہے کہ اللہ تعالیٰ نے پہلے فرمایا : (آیت) ” واعبدوا اللہ ولا تشرکوا بہ شیئا “۔ پھر ایمان کے بعد نماز کا ذکر فرمایا : جو عبادت کی اصل ہے اسی وجہ سے نماز کو تارک کو قتل کیا جاتا ہے، اور اس کا فرض ساقط نہیں ہوتا، کلام اس کی شروط میں جاری ہوئی جن کے بغیر یہ صحیح نہیں ہوتی۔ مسئلہ نمبر : (
2
) جمہور علماء اور فقہاء کی ایک جماعت کا یہ کہنا ہے کہ سکر سے مراد شراب کا نشہ ہے مگر ضحاک ؓ نے کہا : سکر سے مراد نیند کا نشہ اور غلبہ کیونکہ نبی مکرم ﷺ نے فرمایا : اذا نعس احدکم فی الصلاۃ فلیرقد حتی یذھب عنہ النوم فانہ لا یدری لعلہ یستغفروفیسب نفسہ “۔ (
2
) (صحیح بخاری، کتاب الوضو، جلد
1
صفحہ
34
) جب تم میں سے نماز میں کسی پر نیند کا غلبہ ہوجائے تو اسے سو جانا چاہیے کہ اس سے نیند کا غلبہ دور ہوجائے، کیونکہ وہ نہیں جانتا کہ وہ تو استغفار کرنا چاہتا ہو اور وہ اپنے نفس کو (نیند کے غلبہ کی وجہ سے) گالی دے رہا ہو، عبیدہ سلیمانی نے کہا : (آیت) ” وانتم سکری “۔ کا مطلب ہے جب تم پیشاب کو روکے ہوئے ہو، کیونکہ نبی مکرم ﷺ نے فرمایا : ” تم میں سے کوئی پیشاب روک کر نماز نہ پڑھے “ (
3
) (سنن ابن ماجہ کتاب الطہارۃ، صفحہ
48
) ایک روایت میں ” جبکہ وہ اپنی رانوں کو ملائے ہوئے ہو “ (
4
) (مؤطا امام مالک (رح)، کتاب قصر الصلوۃ فی سفر، صفحہ
144
) میں کہتا ہوں : ضحاک ؓ اور عبیدہ ؓ کا قول صحیح ہے، کیونکہ نماز سے مطلوب دل کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی طرف متوجہ ہونا ہے اور غیر اللہ کی طرف التفات کو ترک کرنا ہے اور نیند، حقنہ اور بھوک میں جو اس کی توجہ کو مشغول کرتی ہے اور اس کے دل کو اللہ تعالیٰ سے جدا کرتی ہے اور حالت کو تبدیل کرتی ہے اس سے خالی ہونا ہے۔ نبی مکرم ﷺ نے فرمایا : ” جب شام کو کھانا حاضر ہو اور نماز بھی کھڑی ہوجائے تو پہلے کھانا کھاؤ ، “ (
5
) (صحیح مسلم، کتاب المساجد، جلد
1
، صفحہ
208
) رسول اللہ ﷺ نے ہر تشویش پیدا کرنے والی چیز کے زوال کی رعایت فرمائی ہے۔ جس سے دل متعلق ہوتا ہے حتی کہ وہ اپنے رب کی عبادت کی طرف خالص دل کے ساتھ متوجہ ہو اور نماز میں خشوع کرے، اس آیت میں یہ ارشاد (آیت) ” قد افلح المؤمنون، الذین ھم فی صلاتھم خشعون “۔ (المومنون) بھی داخل ہے۔ اس کا بیان آگے آئے گا، حضرت ابن عباس ؓ نے فرمایا : اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے (آیت) ” یایھا الذین امنوا لا تقربوا الصلوۃ وانتم سکری “۔ سورة مائدہ کی آیت ” اذا قمتم الی الصلوۃ فاغسلوا “۔ (مائدہ :
6
) کے ساتھ منسوخ ہے، اس قول پر انہیں حکم دیا گیا ہے کہ وہ نشہ کی حالت میں نماز نہ پڑھیں پھر انہیں ہر حال میں نماز پڑھنے کا حکم دیا گیا، یہ تحریم سے پہلے ہے، مجاہد ؓ نے کہا : شراب کی تحریم کے ساتھ منسوخ ہوگئی، اسی طرح عکرمہ اور قتادہ ؓ نے کہا ہے حضرت علی ؓ کی مذکور حدیث کی وجہ سے باب میں یہی صحیح ہے۔ روایت ہے کہ حضرت عمر بن خطاب ؓ نے کہا : نماز کھڑی ہوگئی۔ ادھر رسول اللہ ﷺ کے منادی ندا دی : نشہ والا شخص نماز کے قریب نہ جائے۔ (
1
) (سنن ابی داؤد، کتاب الاشربہ جلد
2
، صفحہ
161
) یہ نحاس نے ذکر فرمایا ہے، ضحاک ؓ اور عبیدہ کے قول پر یہ آیت محکمۃ ہے، اس میں نسخ نہیں ہے۔ مسئلہ نمبر : (
3
) اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے (آیت) ” لاتقربوا “ جب کہا جاتا ہے : لا تقرب (راء کے فتحہ کے ساتھ) تو اس کا معنی ہوتا ہے یہ فعل نہ کر اور جب راء کے ضمہ کے ساتھ ہو تو معنی ہوتا ہے فعل کے قریب نہ جا، یہ حکم تمام امت کے غیر مدہوش لوگوں کے لیے ہے اور رہا نشہ والا، وہ چونکہ نشہ کی وجہ سے عقل ہی نہیں رکھتا تو وہ عقل نہ ہونے کی وجہ سے اس وقت اس کا مخاطب ہی نہیں ہوتا، وہ اس کی پیروی کا مخاطب ہے جو اس پر جو اس پر واجب ہے اور نشہ کے وقت جو احکام اس نے ضائع کیے جن کا وہ نشہ سے پہلے مکلف تھا ان کا کفارہ دینے کے ساتھ مخاطب ہے۔ مسئلہ نمبر : (
4
) اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے (آیت) ” الصلوۃ “۔ یہاں ” الصلوۃ “ سے کیا مراد ہے ؟ علماء کا اس میں اختلاف ہے، ایک طائفہ نے کہا : اس سے مراد عبادت معروفہ ہے (
2
) (المحرر الوجیز، جلد
2
، صفحہ
57
دارالکتب العلمیہ) یہ امام ابوحنیفہ (رح) کا قول ہے، اسی وجہ سے فرمایا : (آیت) ” حتی تعلموا ما تقولون “۔ ایک جماعت نے کہا : اس سے مراد نماز کی جگہیں ہیں، یہ امام شافعی (رح) کا قول ہے، مضاف کو حذف کیا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے (آیت) ” حتی تعلموا ما تقولون “۔ ایک جماعت نے کہا : اس سے مراد نماز کی جگہیں ہیں۔ یہ امام شافعی (رح) کا قول ہے، مضاف کو حذف کیا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے (آیت) ” لھدمت صوامع وبیع وصلوت “۔ (الحج :
40
) اس میں نماز کی جگہوں کو صلاۃ کہا گیا ہے اس تاویل پر دلیل یہ قول ہے، (آیت) ” ولا جنبا الا عابری سبیل “۔ یہ تقاضا کرتا ہے کہ جنبی شخص کے لیے مسجد سے گزرنا جائز ہے نہ اس میں نماز جائز ہے، امام ابوحنیفہ (رح) نے فرمایا : (آیت) ” ولا جنبا الا عابری سبیل “۔ سے مراد مسافر ہے جب وہ پانی نہ پائے تو وہ تیمم کرے اور نماز پڑھے، اس کا بیان آگے آئے گا، ایک جماعت نے کہا : الصلاۃ سے نماز اور نماز کی جگہیں دونوں مراد ہیں، کیونکہ وہ مسجد میں نہیں آتے تھے مگر نماز کے لیے اور وہ نماز نہیں پڑھتے تھے مگر اکٹھے ہو کر اور وہ دونوں ایک دوسرے کو لازم ہیں۔ مسئلہ نمبر : (
5
) اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے (آیت) ” وانتم سکری “۔ یہ مبتدا خبر ہیں اور ” تقربوا “ سے حال ہے، سکری، سکران کی جمع ہے جیسے کسلان کی جمع کسالی ہے، نخعی نے سکری سین کے فتح کے ساتھ فعلی کے وزن پر پڑھا ہے، یہ سکران کی جمع مکسر ہے سکری پر اس کی جمع مکسر بنائی گئی، کیونکہ سکر ایک آفت ہے جو عقل کو لاحق ہوتی ہے پس یہ صرعی کے قائم مقام جاری ہوا اور اس کے باب پر جاری ہوا۔ اعمش نے اسے حبلی کے وزن پر سکری پڑھا ہے اور یہ صفت مفردہ ہے اور جمع کی خبر صفت مفردہ جائز ہے جس طرح جمع کے متعلق خبر واحد کے ساتھ استعمال کرتے ہیں۔ السکر یہ صحو کی ضد ہے، کہا جاتا ہے : سکر یسکر سکرا “۔ یہ باب حمد یحمد سے ہے، سکرت عین تسکر “۔ یعنی اس کی آنکھ حیران ہوئی، اسی سے اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے۔ : (آیت) ” انما سکرت ابصارنا “۔ (الحجر :
15
) سکرت الشق کا مطلب ہے میں نے اسے بند کردیا۔ پس نشہ والا شخص اس سے رک جاتا ہے جو عقل کی وجہ سے اس پر ثابت ہوتا ہے۔ مسئلہ نمبر : (
6
) اس آیت میں دلیل ہے بلکہ نص ہے کہ ابتداء اسلام میں شراب کا پینا، حلال تھا حتی کہ وہ پینے والے کو نشہ تک پہنچا دیتا، ایک قوم نے کہا : نشہ عقلا حرام ہے اور کسی دین میں یہ مباح ہے نہیں کیا گیا اور انہیں نے السکر کو اس آیت میں نیند پر محمول کیا ہے قفال نے کہا : یہ بھی احتمال ہے کہ ان کے لیے شراب مباح کی گئی تھی، کیونکہ یہ طیبعت میں سخاوت، شجاعت اور حمیت پیدا کرتی ہے۔ میں کہتا ہوں : یہی معنی عربوں کے اشعار میں موجود ہے، حضرت حسان نے کہا : ونشربھا فتترکنا ملوکا : ہم شراب پیتے ہیں یہ ہمیں بادشادہ بنا دیتی ہے۔ ہم نے اس معنی کا ارشاہ سورة بقرہ میں کیا تھا، قفال نے کہا : جب وہ شراب جو عقل کو زائل کر دے حتی کہ پینے والا جنون اور غشی کی حد کو پہنچ جائے تو قصدا اس کا پینا مباح نہیں کیا گیا اور اگر بغیر قصد کے اس حد تک پہنچ جائے تو وہ معاف ہے۔ میں کہتا ہوں : یہ صحیح ہے، اس کا بیان سورة المائدہ میں حضرت حمزہ ؓ کے قصہ میں آئے گا انشاء اللہ تعالیٰ ، جب یہ آیت کریمہ نازل ہوئی تو مسلمان نماز کے اوقات میں شراب سے اجتناب کرتے تھے اور جب عشاء کی نماز پڑھ لیتے تو پھر شراب پیتے وہ ہمیشہ اسی معمول پر رہے حتی کہ سورة مائدہ میں شراب کی حرمت نازل ہوئی۔ (آیت) ” فھل انتم منتھون “۔ (المائدہ) مسئلہ نمبر : (
7
) اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے (آیت) ” حتی تعلموا ما تقولون “۔ یعنی حتی کہ تم یقین رکھتے ہو کہ اس میں غلطی نہیں ہے اور نشہ والا شخص نہیں جانتا جو وہ کہتا ہے اسی وجہ سے حضرت عثمان بن عفان ؓ نے کہا : نشہ والے شخص کی طلاق لازم نہیں ہوتی (
1
) (المحرر الوجیز، جلد
2
، صفحہ
57
دارالکتب العلمیہ) حضرت ابن عباس ؓ ، طاؤس، عطاء قاسم اور ربیعہ رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین سے یہ مروی ہے کہ یہی قول لیث ابن سعد، اسحاق، ابو ثور، مزنی رحمۃ اللہ علیہم کا ہے، طحاوی نے بھی اسی کو اختیار کیا ہے فرمایا : علماء کا اجماع ہے کہ معتوہ کی طلاق جائز نہیں اور سکران معتوہ (نیم پاگل) ہے، جس طرح وسواس میں مبتلا شخص وسواس کی وجہ سے معتوہ ہے اور اس میں علماء کا اختلاف نہیں کہ جس نے بھنگ پی اور اس کی عقل ضائع ہوگئی تو اس تو اس کی طلاق جائز نہیں اسی طرح شراب کی وجہ سے جو مدہوش ہوگیا اس کا حکم ہے، ایک جماعت نے نشہ والے شخص کی طلاق کو جائز قرار دیا ہے، یہ حضرت عمر بن خطاب ؓ ، حضرت معاویہ ؓ اور تابعین کی جماعت سے مروی ہے یہی قول امام ابو حنیفہ، ثوری اور اوزاعی رحمۃ اللہ علیہم کا ہے۔ اس میں امام شافعی (رح) کا قول مختلف ہے۔ امام مالک (رح) نے طلاق، زخم میں دیت اور قتل میں قصاص کو لازم کیا ہے اور نکاح اور بیع کا لازم نہیں کیا۔ امام ابوحنیفہ (رح) نے فرمایا : نشہ والے شخص کے افعال اور اس کی عقود تمام ثابت ہوں گی جس طرح غیر مدہوش کے ثابت ہوتے ہیں، سوائے ارتداد کے، کیونکہ جب وہ مرتد ہوگا تو اس کی بیوی اس سے جدا نہ ہوگی مگر استحسانا، امام ابو یوسف نے کہا : وہ نشہ کی حالت میں مرتد ہوجائے گا ،۔ یہی امام شافعی (رح) کا قول ہے، لیکن اسے نشہ کی حالت میں نہ قتل کیا جائے گا اور نہ اس سے توبہ طلب کی جائے گی۔ امام ابو عبداللہ مازری نے کہا : ہمارے پاس ایک شاذ روایت ہے کہ نشہ والے کی طلاق لازم نہیں ہوتی۔ محمد بن عبدالحکم نے کہا : نشہ والے کی نہ طلاق لازم ہے، نہ آزادی، ابن شاس نے کہا : شیخ ابو الولید نے مخلط کے متعلق اختلاف ذکر کیا ہے جس کے پاس کچھ عقل باقی ہوتی ہے مگر وہ اختلاف پر ضبط کی قدرت نہیں رکھتا وہ کبھی غلط بات کرتا ہے اور کبھی درست بات کرتا ہے۔ فرمایا : نشہ والا وہ ہے جو آسمان اور زمین میں، مرد اور عورت میں تمیز نہیں کرسکتا، اس میں کوئی اختلاف نہیں کہ وہ تمام افعال اور احوال میں بندوں کے ساتھ معاملات میں اور اللہ تعالیٰ کے ساتھ معاملات میں مجنون کی طرح ہے مگر اس صورت میں جب اس کی نمازوں کا وقت نکل جائے۔ بعض علماء نے فرمایا : اس سے احکام ساقط نہیں ہوتے، بخلاف مجنون کے اس کی وجہ یہ ہے کہ اس نے نشہ اپنے اوپر خود داخل کیا جس طرح جان بوجھ کر نماز کو ترک کرنے والا ہوتا ہے حتی کہ نماز کا وقت نکل جاتا ہے۔ سفیان ثوری (رح) نے کہا : نشہ کی حد، عقل کا اختلال ہے جب اس سے قرآن پڑھایا جائے تو خلط ملط کرے ایسی باتیں کرے جو معروف نہ ہوں تو اسے کوڑے لگائیں جائیں گے، امام احمد (رح) نے فرمایا : جب صحت کی حالت سے اس کی عقل بدل جائے تو وہ نشہ والا ہے، امام مالک (رح) سے بھی اسی طرح مروی ہے، ابن المنذر (رح) نے کہا : جب اس کی قرات میں خلط ملط ہو تو وہ نشہ والا ہے۔ انہوں نے اللہ تعالیٰ کے ارشاد (آیت) ” حتی تعلموا ما تقولون “۔ سے استدلال کیا ہے، جب وہ ایسی حالت میں ہو کہ وہ نہ جانتا ہو جو وہ کہہ رہا ہو تو وہ تلویث مسجد کے خوف سے مسجد سے دور رہے اور اس کی نماز صحیح نہ ہوگی اگر وہ نماز پڑھے گا تو اسے پھر قضا کرے گا اور اگر وہ ایسی حالت میں ہو کہ وہ جانتا ہو جو وہ کہہ رہا ہو تو اسے نماز کے لیے لایا جائے گا اور اس کا حکم صحیح کا حکم ہوگا۔ مسئلہ نمبر : (
8
) اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے (آیت) ” ولا جنبا “۔ اس کا عطف، (آیت) ” حتی تعلموا “ میں جملہ منصوبہ کی جگہ پر ہے، یعنی تم نماز نہ پڑھو جب کہ تم جنبی ہو، کہا جاتا ہے : تجنبتم اجنبتم، جنبتم “ تمام کا ایک معنی ہے، الجنب کے لفظ کی نہ مونث آتی ہے، نہ تثنیہ، نہ جمع، چونکہ یہ مصدر کے وزن پر ہے جیسے بعد اور قرب ہیں، کبھی اس میں تخفیف کرتے ہیں اور کہتے ہیں : جنب، ایک قوم نے اس طرح بھی پڑھا ہے، فراء نے کہا، کہا جاتا ہے، : جنب الرجل واجنب یہ جنابت سے مشتق ہے بعض علماء نے فرمایا ؛ الجنب کی جمع ایک لغت میں اجناب آئی ہے جیسے عنق واعناق، طنب واطناب “ اور جس نے واحد کے لیے جانب کہا اس نے جمع میں جناب کہا جیسے راکب کی جمع رکاب۔ اس کا اصل معنی البعد ہے گویا جنبی آدمی ٹپک کر نکلنے والے پانی کی وجہ سے نماز سے دورہو گیا۔ شاعر نے کہا : فلا تحرمنی نائلا عن جنابہ فانی امرء وسط القباب غریب : رجل جنب، مسافر آدمی، الجنابۃ مرد کا عورت سے ملنا۔ مسئلہ نمبر : (
9
) جمہور علماء امت فرماتے ہیں : انزال کی وجہ سے یا شرمگاہ کے شرمگاہ میں تجاوز کی وجہ سے آدمی ناپاک ہوجاتا ہے مگر یہ کہ وہ غسل کرلے۔ بعض صحابہ سے مروی ہے کہ انزال سے آدمی ناپاک ہوتا ہے، کیونکہ نبی مکرم ﷺ نے فرمایا : انما الماء من المائ (
1
) (صحیح مسلم، کتاب الحیض، جلد
1
صفحہ
155
) غسل صرف انزال کی وجہ سے ہوتا ہے۔ اس حدیث کو مسلم نے نقل کیا ہے، بخاری میں ابی بن کعب سے مروی ہے انہوں نے عرض کی : یارسول اللہ ! جب مرد، عورت سے جماع کرے اور اسے انزال نہ ہو تو ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : ” وہ اس کو دھو دے جو عورت سے مس ہوا ہے پھر وضوکرے اور نماز پڑھے “۔ ابو عبداللہ (امام بخاری) نے کہا : غسل کرنا احوط ہے (
2
) (صحیح بخاری، کتاب الغسل، جلد
1
، صفحہ
43
) دوسری صورت ہم نے علماء کے اختلاف کے اظہار کے لیے بیان کی ہے، مسلم نے اس کے ہم معنی اپنی صحیح میں حدیث نقل کی ہے اور آخر میں فرمایا : ابو العلاء بن شیخرنے کہا : رسول اللہ ﷺ اپنی بعض احادیث کو بعض سے منسوخ کرتے تھے جس طرح قرآن، بعض قرآن کو منسوخ کرتا ہے، ابو اسحاق نے کہا : یہ منسوخ ہے۔ ترمذی نے کہا : یہ حکم اسلام کے ابتدائی دور میں تھا پھر منسوخ ہوگیا۔ میں کہتا ہوں : اسی مسئلہ پر صحابہ، تابعین اور فقہاء کی ایک جماعت کا نظریہ ہے کہ التقاء ختانین (شرمگاہ کا شرمگاہ میں داخل ہونے) سے غسل واجب ہوجاتا ہے، پہلے صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین کا اختلاف تھا پھر تمام نے حضرت عائشہ ؓ کی اس حدیث کی طرف رجوع کیا جو انہوں نے نبی مکرم ﷺ سے روایت کی ہے فرمایا : ” جب مرد اپنی بیوی کی رانوں اور پنڈلیوں کے درمیان بیٹھے اور شرمگاہ، شرمگاہ میں داخل میں داخل ہوجائے تو غسل واجب ہے “ (
3
) (صحیح مسلم، کتاب الحیض، جلد
1
صفحہ
156
) یہ مسلم نے روایت کی ہے، صحیحین، میں حضرت ابوہریرہ کی حدیث مروی ہے کہ نبی مکرم ﷺ نے فرمایا : ” جب مرد اپنی بیوی کی رانوں اور پنڈلیوں کے درمیان بیٹھنے پھر شرمگاہ کو شرمگاہ میں داخل کر دے تو اس پر غسل واجب ہے “۔ مسلم نے یہ زائد نقل کیا ہے ” اگرچہ اسے انزال نہ بھی ہو “۔ ابن قصار نے کہا : تابعین اور بعد والے علماء کا التقاء ختانین (شرمگاہوں کا ملنا) والی حدیث پر عمل میں اجماع ہے، اس کے بعد کہ پہلے لوگوں میں اختلاف تھا، اختلاف کے بعد جب اجماع صحیح ہے تو یہ اختلاف کو ساقط کرنے والا ہوگا، قاضی عیاض (رح) نے فرمایا : ہم کسی کو نہیں جانتے صحابہ کے اختلاف کے بعد اس نے یہ کہا ہو مگر جو اعمش سے حکایت کیا جاتا ہے پھر اس کے بعدداؤد اصبہانی سے حکایت نے اس مسئلہ پر اختلاف کیا، حضرت ابن عباس ؓ نے اس حدیث کو احتلام پر محمول کیا ہے یعنی احتلام میں پانی کے انزال سے پانی کے ساتھ غسل کرنا واجب ہوتا ہے، جب انزال نہ ہو اگرچہ وہ خواب میں دیکھے کہ وہ جماع کر رہا ہے تو اس پر غسل نہیں ہے اس میں علماء کے درمیان کوئی اختلاف نہیں ہے۔ مسئلہ نمبر : (
10
) اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے (آیت) ” الا عابری سبیل “۔ کہا جاتا ہے ” عبرت الطریق یعنی ایک جانب سے دوسری جانب تک راستہ طے کیا، عبرت النھر عبورا میں نے نہر کو عبور کیا۔ ھذا عبر النھریہ نہر کا کنارہ ہے۔ کہا جاتا ہے، : عبر (عین کے ضمہ کے ساتھ) اور المعبر کشتی یا پل جس کے ذریعے نہر کو عبور کیا جاتا ہے۔ ھذا عابر السبیل یعنی راستہ سے گزرنے والا ” ناقۃ عبر اسفار “۔ ایسی اونٹنی جس پر ہمیشہ سفر کیا جاتا ہے اور اس کے تیز چلنے کی وجہ سے صحراؤں اور گرمی کے وقت کو عبور کی جاتا ہے۔ عیرانۃ سرح الیدین شلۃ عبر الھواجر کا لھزف الخاصب : (
1
) (المحرر الوجیز، جلد
2
، صفحہ
57
دارالکتب العلمیہ) اونٹنی تیز رفتار، چاک وچوبند ہے گرمی کے لمحات کو عبور کرنے والی ہے جیسے لمبے پروں والے اور سرخ پنڈلیوں والی ہے۔ عبرالقوم، قوم مر گئی۔ اور شاعر نے شعر کہا : قضاء اللہ یغلب کل شیء ویلعب بالجزوع وبالصبور : فان نعبر فان لنا لمات وان نغبر فنحن علی نذور : شاعر کہتا ہے : اللہ کی قضا ہر چیز پر غالب ہے جزع فزع کی جائے یا صبر کیا جائے وہ اپنا اثر ضرور دکھاتی ہے، اگر ہم فوت ہوگئے تو ہمارے دوست ہیں اور اگر ہم بچ گئے تو بھی ہمیں ضرور موت آنے والی ہے گویا ہم نے اس کے آنے کی نذر مانی ہوتی ہے۔ مسئلہ نمبر : (
11
) اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے (آیت) ” الا عابری سبیل “۔ میں علماء کا اختلاف ہے حضرت علی، حضرت ابن عباس ؓ ابن جبیر، مجاہد، اور مجاہد اور حکم رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین نے فرمایا (آیت) ” الا عابری سبیل “۔ سے مراد مسافر ہے۔ اور نماز کے قریب جانا کسی کے لیے صحیح نہیں ہے جب کہ وہ جنبی ہو مگر غسل کے بعد مگر مسافر تیمم کرے۔ (
2
) (المحرر الوجیز، جلد
2
، صفحہ
57
دارالکتب العلمیہ) یہ امام ابوحنیفہ (رح) کا قول ہے، کیونکہ عام طور پر حضر میں پانی معدوم نہیں ہوتا اور گھر میں مقیم شخص پانی کے پائے جانے کی وجہ سے غسل کرلیتا ہے اور مسافر جب پانی نہیں پاتا تو تیمم کرتا ہے، ابن المنذر (رح) نے کہا : اصحاب الرائے نے مسافر جنبی کے بارے میں کہا : جو ایسی مسجد سے گزرتا ہے جس میں پانی کا چشمہ ہے تو وہ پاک مٹی سے تیمم کرے پھر مسجد میں داخل ہو، چشمے سے پانی بھرے پھر مسجد کو پانی سے باہر لے آئے، اور ایک جماعت نے جنبی آدمی کو مسجد میں داخل ہونے پر رخصت دی ہے، اور بعض نے نبی مکرم ﷺ کے ارشاد : المومن لیس بنجس، مومن ناپاک نہیں ہے سے دلیل پکڑی ہے، ابن المنذر رحمۃ اللہ علیہنے کہا : ہم بھی یہی کہتے ہیں، حضرت ابن عباس ؓ نے بھی یہ کہا ہے، حضرت ابن مسعود ؓ ، عکرمہ ؓ اور نخعی ؓ نے کہا : عابر السبیل سے مراد خطرے والا (
3
) (المحرر الوجیز، جلد
2
، صفحہ
57
دارالکتب العلمیہ) جو مسجد سے گزرنے والا ہے، یہ عمرو بن دینار، امام مالک اور امام شافعی رحمۃ اللہ علیہم کا قول ہے۔ ایک طائفہ نے کہا : جنبی آدمی مسجد سے نہ گزرے مگر یہ کہ مسجد کے علاوہ کوئی چارہ نہ پائے تو تیمم کرے اور اس میں سے گزر جائے، اسی طرح ثوری، اسحاق بن راہویہ رحمۃ اللہ علیہم کا قول ہے، امام احمد (رح) اور اسحاق (رح) نے جنبی کے بارے کہا : جب وضو کرے تو مسجد میں بیٹھنے میں کوئی حرج نہیں، یہ ابن المنذر (رح) نے ذکر کیا ہے، بعض علماء نے آیت کے سبب میں روایت کیا ہے کہ انصار کی ایک قوم تھی جن کے گھروں کے دروازے مسجد میں کھلتے تھے جب ان میں سے کسی کو جنابت لاحق ہوتی تو وہ مسجد سے گزرنے پر مجبور ہوتے۔ (
4
) (المحرر الوجیز، جلد
2
، صفحہ
57
دارالکتب العلمیہ) میں کہتا ہوں : یہ صحیح ہے، اس کی تائید ابو داؤد کی روایت سے ہوتی ہے جو جسرہ بنت دجاجہ سے روایت کی ہے فرماتی ہیں : میں نے حضرت عائشہ ؓ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ رسول اللہ ﷺ تشریف لائے جبکہ ان کے دروازے مسجد میں کھلتے تھے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ” ان گھروں کے دروازے مسجد سے ہٹا دو “۔ پھر نبی مکرم ﷺ تشریف لائے تو لوگوں نے ایسا نہیں کیا تھا اس امید سے کہ ان کے لیے رخصت نازل ہوجائے گی، آپ ﷺ صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین کے پاس تشریف لائے اور فرمایا : ” گھروں کے دروازے مسجد سے ہٹا دو میں حیض والی عورت اور جنبی کے لیے مسجد کو حلال نہیں کرتا “۔ (
1
) (سنن ابی داؤد، کتاب الطہارۃ جلد
1
، صفحہ
30
) اور صحیح مسلم میں ہے ” مسجد میں کوئی کھڑی باقی نہ رہے سوائے ابوبکر کی کھڑکی کے “ (
2
) (صحیح مسلم، کتاب الفضائل، جلد
2
صفحہ
272
) نبی مکرم ﷺ نے تمام دروازے بند کرنے کا حکم دیا، کیونکہ یہ مسجد کو گزر گاہ بنانے اور اس کو عبور کرنے کا موجب تھے حضرت ابوبکر ؓ کے اکرام اور خصوصیت کی خاطر ان کی کھڑکی کی استثناء فرما دی، کیونکہ عام طور پر رسول اللہ ﷺ اور حضرت ابوبکر ؓ جدا جدا نہیں ہوتے تھے، نبی مکرم ﷺ سے مروی ہے کہ ” کسی کے لیے مسجد سے گزرنے اور مسجد میں بیٹھنے کی اجازت نہیں مگر علی بن ابی طالب کو اجازت ہے “۔ اس روایت کو عطیہ العوفی نے حضرت ابو سعید خدری ؓ سے روایت کیا ہے فرمایا رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ” کسی مسلمان کے لیے مناسب نہیں اور کسی کے لیے درست نہیں کہ وہ مسجد میں جنبی حالت میں ہو سوائے میرے اور حضرت علی کے “۔ ہمارے علماء نے فرمایا : اس طرح ہونا جائز ہے، کیونکہ حضرت علی ؓ کا کمرہ مسجد میں تھا جس طرح نبی مکرم ﷺ کا کمرہ مسجد میں تھا اگرچہ وہ کمرے مسجد میں نہ تھے لیکن مسجد سے متصل تھے اور ان کے دروازے مسجد میں تھے رسول اللہ ﷺ نے انہیں مسجد میں شمار کیا فرمایا : ” مسلمان کے لیے مناسب نہیں “۔۔۔۔۔ الخ وہ روایت جو اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ حضرت علی ؓ کا گھر مسجد میں تھا ابن شہاب کی روایت ہے جو انہوں نے سالم بن عبداللہ ؓ سے روایت کی ہے فرمایا : ایک شخص نے میرے باپ سے حضرت علی ؓ اور حضرت عثمان ؓ کے بارے پوچھا کہ ان میں سے کون بہتر ہے، عبداللہ ؓ نے اسے کہا : یہ رسول اللہ ﷺ کا گھر ہے اور اس کے پہلو میں حضرت علی ؓ کے گھر کے طرف اشارہ کیا مسجد میں ان کے علاوہ کوئی گھر نہیں تھا، آگے حدیث ذکر کی، یہ دونوں حضرات مسجد میں جنبی نہیں ہوتے تھے بلکہ اپنے اپنے گھر میں جنبی ہوتے تھے، ان کے گھر مسجد میں سے تھے کیونکہ ان کے دروازے مسجد میں تھے جب وہ حالت جنابت میں گھروں سے نکلتے تھے تو مسجد کے راستہ سے گزرتے تھے۔ یہ بھی جائز ہے کہ یہ ان دونوں حضرات کی تخصیص ہو، نبی کریم ﷺ کو بہت سی چیزوں کے ساتھ خاص کیا گیا تھا، یہ بھی ہو سکتا ہے آپ کے ساتھ خاص احکام میں سے یہ بھی ہو۔ پھر نبی مکرم ﷺ نے حضرت علی ؓ کو خاص کیا ہو پس ان کے لیے وہ رخصت ہو جو دوسروں کے لیے نہ ہو اور اگر ان کے گھروں کے دروازے مسجد میں تھے حتی کہ نبی کریم ﷺ نے حضرت علی ؓ کے دروازے کے علاوہ سب دروازوں کو بند کرنے کا حکم دیا۔ حضرت عمرو بن میمون ؓ نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا ہے فرمایا رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : سدوالابواب الاباب علی (
3
) (جامع ترمذی، کتاب المناقب جلد
2
صفحہ
214
) فرمایا کہ ان کا دروازہ مسجد میں رہنے دیا، وہ اپنے گھر میں جنبی ہوتے تھے اور ان کا گھر مسجد میں تھا، رہا یہ قول کہ ” مسجد میں کسی کا دروازہ نہ رہے سوائے ابوبکر کے دروازہ کے “۔ یہ اس وقت کی بات ہے جب مسجد میں کئی دروازے کھلتے تھے اور گھروں کے دروازے مسجد سے باہر تھے نبی مکرم ﷺ نے تمام کھڑکیوں کو بند کرنے کا حکم فرمایا لیکن حضرت ابوبکر ؓ کے اکرام کی خاطر اس کو چھوڑ دیا۔ الخوفات، سوراخ اور کھڑکی وغیرہ کو کہتے ہیں، حضرت علی ؓ کا دروازہ وہ مراد ہے جس سے آپ داخل ہوتے تھے اور نکلتے تھے، حضرت ابن عمر ؓ نے اس کی تفسیر اس طرح بیان کی ہے کہ ان کے علاوہ مسجد میں کوئی دروازہ نہ تھا اگر یہ کہا جائے کہ عطا بن یسار سے ثابت ہے کہ وہ فرماتے تھے : نبی کریم ﷺ کے صحابہ کو جنابت لاحق ہوتی تھی وہ وضو کرتے تھے پھر مسجد میں آتے تھے اور اس میں باتیں کرتے تھے، یہ دلیل ہے کہ جنبی آدمی کے لیے مسجد میں ٹھہرنا جائز ہے جب وہ وضو کرے اور امام احمد (رح) اور اسحاق کا مذہب بھی یہ ہے جیسا کہ ہم نے ذکر کیا ہے، اس جواب یہ ہے کہ وضو، جنابت کی حدث کو دور نہیں کرتا، ہر جگہ جو عبادت کے لیے متعین کی جاتی ہے وہ نجاست ظاہرہ سے پاک رکھی جاتی ہے مناسب ہوتا ہے کہ وہ شخص اس جگہ داخل نہ ہو جو اس عبادت کے لیے پسندیدہ نہیں اور اس کے لیے اس عبادت سے ملتبس ہونا صحیح نہیں، ان کے منقولہ احوال میں سے غالب یہ ہے کہ وہ گھروں میں غسل کرتے تھے، اگر یہ کہا جائے کہ محدث (بےوضو) کا پھر کیا حکم ہے ؟ ہم کہیں گے اس کو وقوع زیادہ ہوتا ہے اور ہر وقت وضو کرنا شاق ہوتا ہے اور اللہ تعالیٰ کا ارشاد : (آیت) ” ولاجنبا الا عابری سبیل “۔ میں وہ ہے جو کفایت کرتا ہے، جب مسجد میں جنبی حالت میں ٹھہرنا جائز نہیں تو یہ زیادہ لائق ہے کہ اس کے لیے قرآن کو چھونا اور اس میں قرات کرنا بھی جائز نہ ہو، کیونکہ اس کی زیادہ حرمت ہے۔ اس کا مزید بیان سورة واقعہ میں آئے گا۔ مسئلہ نمبر : (
12
) ہمارے علماء کے نزدیک قرات قرآن سے جبنی کو روکا جائے گا مگر یہ کہ تھوڑی سی آیات تعوذ کے لیے پڑھی جائیں (تلاوت قرآن کی نیت سے نہ ہوں) موسی بن عقبہ نے نافع سے انہوں نے حضرت ابن عمر ؓ سے روایت کیا ہے فرمایا رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ” جنبی اور حائض قرآن میں سے کوئی چیز نہ پڑھے، (
1
) (سنن ابن ماجہ، کتاب الطہارۃ، جلد
1
، صفحہ
49
) اس حدیث کو ابن ماجہ نے روایت کیا ہے اور دارقطنی نے سفیان عن مسعر وشعبہ عن عمرو بن مرہ عن عبداللہ بن سلمہ عن علی کے سلسلہ سے روایت کی ہے فرمایا : رسول اللہ ﷺ قرات قرآن کسی کو نہیں روکتے تھے مگر یہ کہ وہ جنبی ہوتا، سفیان نے کہا : مجھے شعبہ نے کہا : میں نے اس سے بہتر حدیث بیان نہیں کی، اس حدیث کو ابن ماجہ نے روایت کیا ہے فرمایا : حدثنا محمد بن بشار حدثنا محمد بن جعفر حدثنا شعبہ عن عمرو بن مرہ، پھر اس کی ہم معنی حدیث روایت کی۔ یہ سند صحیح ہے، حضرت ابن عباس ؓ عن عبداللہ بن رواحہ ؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے جنبی حالت میں ہر ایک کو قرآن پڑھنے سے منع فرمایا۔ اس حدیث کو دارقطنی نے نقل کیا ہے، عکرمہ ؓ سے مروی ہے فرمایا : ابن رواحہ اپنی بیوی کے پہلو میں سوئے ہوئے تھے پھر وہ اپنی اس لونڈی کے پاس گئے جو حجرہ کے ایک کونے میں تھی پھر اس سے مجامعت کی ان کی عورت گھبرا گئی اس نے اپنے بستر پر نہ پایا، ان کی بیوی اٹھی باہر نکلی تو اسے اپنی لونڈی پر پایا وہ اپنے کمرے میں لوٹ آئی، وہاں سے چھری اٹھائی اور نکل پڑی، اتنی دیر میں حضرت ابن رواحہ ؓ فارغ ہوچکے تھے وہ اسے ملے جب کہ وہ چھری اٹھائے ہوئے تھی ابن رواحہ نے پوچھا : یہ کیا ہے ؟ اس نے کہا : یہ کیا ہے ؟ اگر میں تجھے ایسی حالت میں پاتی جس میں پہلے میں نے تجھے دیکھا تھا تو میں تیرے کندھوں کے درمیان یہ چھری مارتی، ابن رواحہ نے کہا : تو نے مجھے دیکھا تھا ؟ اس نے کہا : میں نے تجھے لونڈی پر دیکھا تھا۔ حضرت ابن رواحہ نے کہا : تو نے مجھے نہیں دیکھا رسول اللہ ﷺ نے منع کیا ہے کہ ہم میں سے کوئی قرآن پڑھے جب کہ وہ جنبی ہو، بیوی نے کہا : تو پڑھ (وہ قرآن نہیں پڑھی ہوئی تھی) حضرت ابن رواحہ نے قرآن کی جگہ یہ اشعار پڑھ دیئے۔ اتانا رسول اللہ یتلو کتابہ کما لاح مشہور من الفجر ساطع : اتی بالھدی بعد العمی فقلوبنا بہ موقنات ان ما قال واقع : یبیت یجافی جنبہ عن فراشہ اذا استثقلت بالمشرکین المضاجع : ہمارے پاس رسول اللہ تشریف لائے جب کہ وہ کتاب کی تلاوت کرتے تھے جس طرح فجر طلوع ہوتی ہے ہماری گمراہی کے بعد آپ ہدایت لے کر آئے ہمارے دل یقین رکھتے ہیں کہ جو آپ نے فرمایا ہے وہ یقینا وا اقع ہونے والا ہے اور وہ اپنے بستر سے جدا ہو کر رات گزارتا ہے جب کہ مشرکین پر بستر بھاری ہوتے ہیں۔ حضرت ابن رواحہ ؓ کی بیوی (سمجھ نہ سکی کہ یہ قرآن ہے یا اشعار ہیں) نے کہا : میں اللہ پر ایمان لائی اور میں نے آنکھ کو جھٹلایا، صبح ابن رواحہ رسول اللہ ﷺ کے پاس گئے اور اپنا رات کا واقعہ ذکر فرمایا، رسول اللہ ﷺ ہنس پڑے حتی کہ آپ کی داڑھیں مبارک ظاہر ہوگئیں۔ مسئلہ نمبر : (
13
) اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے (آیت) ” حتی تغتسلوا “ اللہ تعالیٰ نے نماز سے منع فرمایا ہے مگر غسل کرنے کے بعد اور اغتسال کا معنی معقول ہے اور عربوں کے نزدیک اس کا لفظ معلوم ہے اس سے مراد مغسول پر پانی کے ساتھ ہاتھ ملنا ہے اسی وجہ سے عربوں نے اپنے قول غسلت الثوب اور افضت علیہ الماء وغمستہ فی الماء ‘ میں فرق کیا ہے جب یہ ثابت ہوگیا تو جان لے کہ علماء کا جنبی کے بارے میں اختلاف ہے کہ وہ صرف اپنے جسم پر پانی انڈیل دے یا پانی میں غوطہ لگائے اور جسم کو ملے نہیں، امام مالک (رح) کا مشہور مذہب یہ ہے کہ جسم کو ملے بغیر غسل کافی نہیں، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے جنبی کو اغتسال کا حکم دیا ہے جس طرح وضو کرنے والے کو چہرہ اور ہاتھ دھونے کا حکم دیا ہے اور متوضی کے لیے کوئی چارہ نہیں کہ وہ اپنے ہاتھ پانی کے ساتھ اپنے چہرے اور ہاتھوں پر ملے، اسی طرح جنبی آدمی کا جسم اور اس کا سر متوضی کے چہرہ اور ہاتھوں کے حکم میں ہے، یہ مزنی کا قول ہے اور اس کے کا اختیار ہے، ابو الفرج عمرو بن محمد مالکی نے فرمایا : یہ غسل کے لفظ سے معقول ہے، کیونکہ لغت میں اغتسال باب افتعال ہے اور جس نے اپنے ہاتھوں کو جسم پر نہیں مارا اور جس نے صرف پانی انڈیلا اور ہاتھ کو جسم پر نہیں مارا اور جس نے صرف پانی انڈیلا اور ہاتھ کو جسم پر نہیں مارا تو اہل زبان اسے غسل کرنے والا نہیں کہتے بلکہ اسے پانی کو پانی کو انڈیلنے والا پانی میں غوطہ لگانے والا کہتے ہیں۔ فرمایا : اسی مفہوم پر نبی مکرم ﷺ سے آثار مروی ہیں، فرمایا : ” ہر بال کے نیچے جنابت ہوتی ہے پس تم اپنے بالوں دھوؤ اور اپنی کھال کو صاف کر “ (
1
) (جامع ترمذی، کتاب لطہارۃ جلد
1
صفحہ
16
) فرمایا : انقاء (صاف کرنا) نہیں ہوتا مگر اس پر پانی گزارنے کے ساتھ جیسا کہ ہم نے ذکر کیا ہے۔ میں کہتا ہوں : حدیث سے جو استدلال کیا گیا ہے وہ دو اعتبار سے حجت نہیں (
1
) اس کی تاویل میں مخالفت کی گئی ہے سفیان بن عیینۃ نے کہا : وانقوا البشرۃ سے مراد شرمگاہ کو دھونا اور اسے صاف کرنا ہے۔ البشرہ سے مراد شرمگاہ ہے۔ ابن وہب نے کہا : احادیث کی تفسیر میں ابن عینیۃ سے بڑا عالم نہیں دیکھا۔ (
2
) اس حدیث کو ابوداؤد نے اپنی سنن میں روایت کیا ہے اور اس میں فرمایا : یہ حدیث ضعیف ہے۔ اسی طرح ابن داسہ کی روایت میں ہے اور اللولی کی روایت جو ان سے مروی ہے اس میں حارث بن وجیہ ضعیف روای ہے اور اس کی حدیث منکر ہے پس حدیث سے استدلال ساقط ہوا اور صرف زبان (لغت) پر اعتماد باقی رہ گیا جس طرح کہ ہم نے بیان کیا ہے، اور اس کی تائید وہ قول کرتا ہے جو صحیح حدیث میں ہے کہ نبی مکرم ﷺ کے پاس ایک بچہ لایا گیا اس نے آپ ﷺ پر پیشاب کردیا آپ ﷺ نے پانی منگوایا اور پیشاب کے پیچھے بہا دیا اور اسے دھویا نہیں۔ (
1
) (صحیح مسلم، کتاب الطھارۃ، جلد
1
صفحہ
139
) یہ حضرت عائشہ ؓ نے روایت کیا ہے اور اسی طرح ام قیس بنت محصن سے مروی ہے، ان دونوں حدیثوں کو مسلم نے روایت کیا ہے، جمہور علماء اور فقہاء کی ایک جماعت نے : جنبی کے لیے بہانا اور پانی میں غوطہ لگانا کافی ہے جب کہ پانی پورے جسم پر پہنچ جائے اگرچہ ہاتھوں سے نہ بھی ملے، کیونکہ حضرت میمونہ اور حضرت عائشہ ؓ کی حدیث، نبی مکرم ﷺ کے غسل کے متعلق یہی تقاضا کرتی ہے ان کی احادیث کو ائمہ حدیث نے روایت کیا ہے نبی مکرم ﷺ اپنے جسم پر پانی بہاتے تھے، محمد بن عبدالحکم نے بھی یہی کہا ہے، ابو الفرج نے اس کی طرف رجوع کرلیا تھا اور امام مالک (رح) روایت کیا ہے فرمایا : ہاتھوں کو غسل میں جسم پر پھیرنے کا حکم دیا، کیونکہ ہو سکتا ہے جو ہاتھوں کو نہیں پھیرتا اس کے جسم کے اس حصہ تک پانی نہ پہنچے جہاں تک پانی پہنچانا واجب تھا۔ ابن عربی نے کہا : تعجب ہے ابو الفرج پر جس نے صاحب مذہب سے روایت کیا ہے کہ ہاتھ ملنے کے بغیر غسل نہیں ہوتا، حالانکہ امام مالک نے یہ نہ کبھی نصا کہا ہے نہ تخریجا یہ ابو الفرج کے ادہام میں سے ہے۔ میں کہتا ہوں : یہ امام مالک (رح) نصا روایت کیا گیا ہے، مروان بن محمد ظاہری نے کہا : جب کہ وہ شامی لوگوں میں ثقہ شخص ہے، فرماتے ہیں میں نے مالک بن انس ؓ سے اس شخص کے بارے میں پوچھا جس نے پانی میں غوطہ لگایا جب کہ وہ جنبی تھا اور اس نے وضو نہیں کیا تھا، امام مالک (رح) نے فرمایا اس کی نماز ہوگئی، ابو عمر ؓ نے کہا : اس روایت میں ہے کہ اس نے نہ ہاتھ سے جسم کو ملا اور نہ وضو کیا جب کہ امام مالک (رح) کے نزدیک غسل جائز ہے امام مالک (رح) کا مشہور مذہب یہ ہے کہ غسل جائز نہیں حتی کہ وہ جسم کو ملے انہوں نے چہرے اور ہاتھوں کو دھونے پر قیاس کیا ہے۔ اور جماعت کی حجت یہ ہے کہ جس نے اپنے اوپر پانی انڈیل دیا اس نے غسل کرلیا، عرب کہتے ہیں : بارش نے مجھے غسل دیا حضرت عائشہ ؓ اور حضرت میمونہ ؓ نے رسول اللہ ﷺ نے غسل کا طریقہ بیان فرمایا تو انہوں نے ملنے کا ذکر نہیں فرمایا، اگر ملنا واجب ہوتا تو آپ ترک نہ فرماتے، کیونکہ وہ اللہ کی طرف سے مراد کو بیان کرنے والے ہیں اگر آپ نے جسم کو ملا ہوتا تو آپ سے منقول ہوتا جیسا کہ پانی کے ساتھ بالوں کا خلال کرنا منقول ہے اور سر پر چلو ڈالنا منقول ہے اس کے علاوہ غسل کا طریقہ اور آپ ﷺ کا وضو کرنا منقول ہے۔ ابو عمرو نے کہا : اس میں کوئی تعجب نہیں کہ عرب زبان میں ایک دفعہ ملنے، ایک دفعہ پانی انڈیلنے اور ایک دفعہ پانی بہانے سے غسل شمار کیا جاتا ہے جب ایسا ہے تو کوئی مانع نہیں کہ اللہ تعالیٰ نے وضو میں اپنے بندوں کو پانی کے ساتھ اپنے چہروں پر ہاتھوں کو گزارنے کا مکلف کیا ہو اور یہ اس کا غسل ہو اور وہ غسل جنابت اور حیض میں اپنے جسموں پر پانی بہا دینے کا مکلف ہو اور یہ اس کا غسل ہو جو سنت کے مطابق ہو اور لغت سے خارج نہ ہو اور ان دونوں امروں میں سے ہر امر فی نفسہ اصل ہو، ایک کو دوسرے کی طرف لوٹانا واجب نہ ہو، کیونکہ قیاسا اصول کو ایک دوسرے کی طرف نہیں لوٹایا جاتا۔ اس میں علماء امت کا کوئی اختلاف نہیں قیاسا اصول پر فروع کو لوٹایا جاتا ہے۔ مسئلہ نمبر : (
14
) حضرت میمونہ ؓ اور حضرت عائشہ ؓ کی حدیث اس کو رد کرتی ہے جو شعبہ مولی ابن عباس ؓ نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا ہے کہ جب وہ غسل جنابت کرتے تھے تو اپنے ہاتھوں کو سات مرتبہ اور اپنی شرمگاہ کو بھی سات مرتبہ دھوتے تھے۔ حضرت ابن عمر ؓ سے مروی ہے فرمایا : نمازیں پچاس فرض تھیں، غسل جنات سات مرتبہ تھا، کپڑے سے پیشاب کا دھونا ساتھ مرتبہ تھا، رسول اللہ ﷺ بار بار سوال کرتے رہے حتی کہ پانچ نمازیں رہ گئیں، غسل جنابت ایک مرتبہ اور کپڑے سے پیشاب کو دھونا بھی ایک مرتبہ رہ گیا (
1
) (سنن ابی داؤد، کتاب الطھارۃ، جلد
1
، صفحہ
33
) ابن عبدالبر نے کہا : اس حدیث کی سند ابن عمر سے ہے اور اس میں ضعف اور لین ہے۔ اگرچہ ابو داؤد نے اس کو نقل کیا ہے اور اس سے پہلے شعبہ مولی ابن عباس ؓ مروی ہے اور شعبہ قوی نہیں ہے، حضرت عائشہ ؓ اور حضرت میمونہ ؓ کی حدیث ان دونوں احادیث کو رد کرتی ہے۔ مسئلہ نمبر : (
15
) جو اپنے جسم پر اپنے ہاتھ نہ مار سکتا ہو تو سحنون نے کہا : قریب والا شخص اس کے جم پر ہاتھ ملے یا وہ کپڑے کے ساتھ اس کے جسم کو ملے۔ اور ” الواضحہ “ میں ہے جہاں تک اس کے ہاتھ پہنچتے ہوں وہاں تک ہاتھوں کو گزارے پھر پانی بہائے یہاں تک کہ پانی وہاں تک پہنچ جائے جہان تک اس کے ہاتھ نہیں پہنچے تھے۔ مسئلہ نمبر : (
16
) جنبی آدمی کا اپنی داڑھی میں خلال کرنا۔ اس میں امام مالک (رح) کا قول مختلف ہے، ابن القاسم نے امام مالک (رح) سے روایت کیا ہے فرمایا : یہ اس پر واجب نہیں ہے۔ اشہب نے امام مالک (رح) سے روایت کیا ہے اس پر داڑھی کا خلال واجب ہے۔ ابن عبدالحکم نے کہا : ہمارے نزدیک یہ محبوب ہے، کیونکہ رسول اللہ ﷺ غسل جنابت میں اپنے بالوں کا خلال کرتے تھے اور یہ عام ہے اگرچہ اس میں ظاہر سر کے بالوں کا خلال ہے۔ علماء کے یہی دو قول ہیں، معنی کے اعتبار سے غسل میں پورے جسم کو گھیرنا واجب ہے اور داڑھی کے نیچے کی جلد بھی جسم میں سے ہے پس اس تک پانی کا پہنچانا واجب ہے اور ہاتھ سے اس کو ملنا واجب ہے فرض طہارت صغری میں بالوں کی طرف منتقل ہوا، کیونکہ وہ تخفیف پر مبنی ہے بدل کی نیابت کی ضرورت نہیں اسی وجہ سے خفین پر مسح جائز ہے لیکن غسل میں جائز نہیں، میں کہتا ہوں نبی مکرم ﷺ کا یہ قول اس کی تائید کرتا ہوں۔ ’ ہر بال کے نیچے جنابت ہے “ (
2
) (جامع ترمذی، کتاب الطہارۃ جلد
1
صفحہ
16
) مسئلہ نمبر : (
17
) ایک قوم نے مبالغہ کیا اور کلی اور ناک میں پانی ڈالنے کو واجب قرار دیا، کیونکہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : (آیت) ” حتی تغتسلوا “۔ ان علماء نے میں سے امام ابوحنیفہ (رح) بھی ہے اور دوسری وجہ یہ ہے کہ ناک اور منہ چہرہ سے ہیں ان کا حکم چہرے کے ظاہر کا حکم ہے جیسے رخسار اور پیشانی ہے جو کلی کرنے اور ناک میں پانی ڈالنے کو ترک کرے گا اور نماز پڑھے گا وہ نماز اعادہ کرے گا جس طرح جو شخص اعضاء کو دھوتے وقت کوئی جگہ دھونے سے چھوڑ دیتا ہے، لیکن وضو میں جو کلی اور ناک میں پانی ڈالنے کو ترک کر دے اس پر اعادہ نہیں۔ امام مالک (رح) نے فرمایا : کلی کرنا اور ناک میں پانی (علیہ السلام) ڈالنا نہ جنابت میں فرض ہیں، نہ وضو میں کیونکہ یہ دونوں جگہیں پوشیدہ ہیں پس ان کا دھونا واجب نہیں جس طرح جسم کے اندر کے حصہ کو دھونا واجب نہیں، اسی وجہ سے محمد بن جریر طبری، لیث بن سعد، اوزاعی اور تابعین رحمۃ اللہ علیہم کی ایک جماعت نے بھی کہا ہے۔ ابن ابی لیلی، حماد بن ابی سلیمان رحمۃ اللہ علیہم نے کہا : یہ دونوں وضو اور غسل میں فرض ہیں، یہ اسحاق، امام احمد بن حنبل اور بعض اصحاب داؤد رحمۃ اللہ علیہم کا قول ہے۔ زہری اور عطا (رح) سے اس قول کی مثل مروی ہے، امام احمد سے یہ بھی مروی ہے کہ کلی کرنا سنت ہے اور ناک میں پانی ڈالنا فرض ہے۔ بعض اصحاب داؤد نے یہ بھی کہا ہے، اور ان علماء کی حجت جو ان کو واجب نہیں کہتے یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں کلی اور ناک میں پانی ڈالنے کا ذکر نہیں کیا اور نہ رسول اللہ ﷺ نے اسے واجب کیا ہے اور نہ تمام علماء کا اس امر پر اتفاق ہے اور فرائض صرف ان صورتوں میں ثابت ہوتے ہیں، اور جنہوں ان دونوں کو واجب کیا، انہوں نے آیت کریمہ اور (آیت) ” فاغسلوا وجوھکم “۔ (المائدہ :
6
) سے دلیل پکڑی ہے، جو چیز دھونے میں ایک میں واجب ہوتی ہے دوسرے میں بھی واجب ہوتی ہے، اور نبی مکرم ﷺ سے کوئی محفوظ نہیں ہے کہ آپ ﷺ نے کلی اور ناک میں پانی ڈالنے کو وضو میں یا غسل جنابت میں ترک کیا ہو جب کہ رسول اللہ ﷺ اللہ تعالیٰ کی طرف سے قولا اور فعلا اس کی مراد کو بیان کرنے والے ہیں اور جنہوں نے کلی اور ناک میں پانی ڈالنے میں فرق کیا ہے انہوں نے نبی کریم ﷺ کے فعل سے دلیل پکڑی ہے کہ آپ ﷺ نے عمل تو کیا لیکن اس کا حکم نہیں دیا اور آپ ﷺ کے افعال مستحب ہیں واجب نہیں مگر دلیل کے ساتھ اور ناک میں پانی ڈالنے کا فعل کیا بھی ہے اور اس کا حکم بھی دیا ہے اور آپ ﷺ کا حکم ہمیشہ وجوب پر دلالت کرتا ہے۔ مسئلہ نمبر : (
18
) ہمارے علماء نے فرمایا : غسل جنابت میں نیت کرنا ضروری ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : (آیت) ” حتی تغتسلوا “ یہ نیت کا تقاضا کرتا ہے۔ یہی قول امام مالک، امام شافعی، امام احمد، اسحق، اور ابوثور رحمۃ اللہ علیہم کا ہے، اسی طرح وضو اور تیمم میں بھی نیت کرنے کا حکم ہے اور انہوں نے اللہ تعالیٰ کے ارشاد : (آیت) ” وما امروا الا لیعبدوا اللہ مخلصین لہ الدین “۔ (البینۃ :
3
) سے تائید حاصل کی ہے اور اخلاص کا مطلب تقرب الی اللہ کی نیت کرنا ہے اور مومن بندوں پر جو اللہ نے فرض کیا ہے اس کی ادائیگی کا اللہ کی رضا کے لیے ارادہ کرنا ہے، نبی مکرم ﷺ نے فرمایا : انما الاعمال بالنیات “۔ (
1
) (صحیح بخاری، کتاب بدء الواحی، جلد
1
صفحہ
2
) اور یہ عمل ہے، اوزاعی اور حسن نے کہا : بغیر نیت کے وضو اور تیمم جائز نہیں، امام ابوحنیفہ (رح) اور ان کے اصحاب نے کہا : پانی کے ساتھ جو طہارت حاصل کی جاتی ہے وہ بغیر نیت کی بھی جائز ہے اور تیمم نیت کے ساتھ جائز ہے۔ انہوں نے اس کو نجاست کے ازالہ پر قیاس کیا ہے کہ وہ بالاجماع بغیر نیت کے بدنوں اور کپڑوں سے دور کی جائے تو وہ پاک ہوجاتے ہیں، اس کو ولید بن مسلم نے امام مالک (رح) سے روایت کیا ہے۔ مسئلہ نمبر : (
19
) پانی کی وہ مقدار جس سے غسل کیا جائے امام مالکرحمۃ اللہ علیہ نے ابن شہاب سے انہوں نے عروہ بن زبیر ؓ سے انہوں نے ام المومنین حضرت عائشہ ؓ سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ غسل جنابت ایک فرق سے کرتے تھے۔ (
1
) (صحیح مسلم، کتاب الحیض، جلد
1
، صفحہ
148
) الفرق را کے سکون اور حرکت کے ساتھ ہے، ابن وہب نے کہا : الفرق لکڑی کا یہ ایک برتن ہے، ابن شہاب کہتے ہیں : اس میں پانچ اقساط آتے تھے، جو بنی امیہ کے اقساط تھے، محمد بن عیسیٰ اعشی ؓ نے الفرق کی تفسیر تین صاع سے کی ہے اور یہ پانچ اقساط ہیں اور فرمایا : پانچ میں نبی مکرم ﷺ کے بار مد آتے ہیں اور صحیح مسلم میں ہے سفیان نے فرمایا : الفرق، تین صاع ہیں۔ حضرت انس ؓ سے مروی ہے فرمایا نبی مکرم ﷺ ایک مد کے ساتھ وضو کرتے تھے اور ایک صاع سے لے کر پانچ مد پانی سے غسل کرتے تھے اور ایک روایت میں ہے ”’ پانچ مکاکیک سے غسل کرتے تھے اور ایک مکوک سے وضو کرتے تھے “ (
2
) (صحیح مسلم، کتاب الحیض، جلد
1
، صفحہ
149
) یہ احادیث مخصوص کیل اور وزن کے بغیر پانی کے کم استعمال کے استحباب پر دلالت کرتی ہیں، انسان اتنا پانی استعمال کرے جو اسے کفایت کرے اور زیادہ پانی استعمال نہ کرے، کیونکہ زیادتی میں اسراف ہے اور اسراف مذموم ہے اور الاباضیۃ کا مذہب زیادہ پانی کا استعمال کرنا ہے اور یہ شیطان کی طرف سے ہے۔ مسئلہ نمبر : (
20
) اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے (آیت) ” وان کنتم مرضی او علی سفر “۔۔۔۔۔ الخ۔ یہ آیت تیمم ہے یہ حضرت عبدالرحمن بن عوف کے بارے میں نازل ہوئی انہیں جنابت لاحق ہوئی جب کہ وہ زخمی تھے، تو انہیں تیمم کرنے کی رخصت دی گئی، پھر یہ عام لوگوں کے لیے ہوگئی، بعض علماء نے فرمایا : اس کے نزول کا سبب غزوہ المریسیع میں صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین پانی کا نہ ملنا تھا جب حضرت عائشہ ؓ کا ہار ٹوٹ گیا تھا، اس حدیث کو امام مالک (رح) نے عبدالرحمن بن القاسم (رح) عن ابیہ عن عائشہ ؓ کے سلسلہ سے روایت کیا ہے۔ امام بخاری نے کتاب التفسیر میں اس آیت کو عنوان بنایا ہے۔ پھر یہ حدیث ذکر کی گئی ہے۔ حدثنا محمد اخبرنا عبدۃ عن ہشام بن عروہ عن ابیہ عن عائشہ قالت ھلکت قلادۃ لاسماء فبعث اللہ ﷺ فی طلبھا رجالا فحضرت الصلاۃ ولیسوا علی وضو ولم ولم یجدوا ماء وصلوا وھم علی غیر وضو فانزل اللہ تعالیٰ ایۃ التیمم “۔ (
3
) (صحیح مسلم، کتاب التفسیر، جلد
2
، صفحہ
659
) یعنی حضرت عائشہ ؓ نے فرمایا حضرت اسماء کا ہار گم ہوگیا (جو حضرت عائشہ ؓ نے عاریۃ ان سے لیا ہوا تھا) تو نبی مکرم ﷺ نے بہت سے لوگوں کو اس کی تلاش میں بھیجا، نماز کا وقت ہوگیا جب کہ وہ وضو کیے ہوئے نہیں تھے انہوں نے پانی نہ پایا پس انہوں نے بغیر وضو کے نماز پڑھی تو اللہ تعالیٰ نے آیت التیمم نازل فرمائی۔ میں کہتا ہوں : اس روایت کے ذکر کی جگہ نہیں اس میں ہے کہ حضرت اسماء ؓ کا ہار تھا، یہ امام مالک (رح) کی حدیث کے خلاف ہے۔ نسائی نے علی بن مسہر عن ہشام بن عروہ بن ابیہ عن عائشہ ؓ کی روایت سے ذکر کیا ہے کہ حضرت عائشہ ؓ نے وہ حضرت اسماء ؓ سے عاریۃ لیا ہوا تھا۔ حضرت عائشہ ؓ سفر میں رسول اللہ ﷺ کے ساتھ تھیں، وہ ہار آہستہ سے ٹوٹ کر گرگیا یہ وہ مقام تھا جس کو الصلصل کہ جاتا تھا، آگے مکمل حدیث ذکر کی، اس روایت میں ہشام سے مروی ہے کہ ہار حضرت اسماء کا تھا اور حضرت عائشہ ؓ نے ان سے عاریۃ لیا ہوا تھا، یہ امام مالک (رح) کی حدیث کا بیان ہے، کیونکہ انہوں نے فرمایا : حضرت عائشہ ؓ کا ہارگر گیا تھا، اور بخاری کی حدیث میں ہے : اسماء کا ہار گم ہوگیا تھا، اس میں ہے کہ اس جگہ کو الصلصل کہا جاتا تھا، ترمذی نے یہ حدیث اس ذکر کی ہے ” حدثنا الحمیدی حدثنا سفیان حدثنا ہشام بن عروہ عن ابیہ عن عائشہ انھا سقطت قلاد تھا لیلۃ الابواء فارسل رسول اللہ ﷺ رجلین فی طلبھا “۔ یعنی حضرت عائشہ ؓ کا ہار لیلۃ الابواء میں گرگیا آپ نے اس کی تلاش کے لیے دو آدمیوں کو بھیجا، اس روایت کو جو ہشام سے مروی ہے ہار کی نسبت حضرت اسماء کی طرف ہے لیکن حدیث نسائی کی وجہ سے یہ اضافت مستعیر ہے اور مکان کے بارے میں فرمایا : وہ الابواء تھا جیسا کہ امام مالک (رح) نے فرمایا ہے، لیکن اس میں بغیر شک کے ہے اور امام مالک (رح) کی حدیث میں فرمایا : ہم نے وہ اونٹ اٹھایا جس پر میں تھی تو ہم نے ہار اس کے نیچے پایا، بخاری میں ہے رسول اللہ ﷺ نے وہ ہار پایا، ان تمام روایات کا معنی صحیح ہے۔ عقد اور قلادہ کے بارے میں نقل کرنے والوں کا اختلاف نہیں ہے اور نہ جگہ میں اختلاف ہے جو حدیث میں قدح کا باعث ہو اور نہ یہ حدیث کو کمزور کرتا ہے، کیونکہ حدیث سے مقصود اور مراد تیمم کا نزول ہے اور روایات قلادہ (ہار) کے بارے میں ثابت ہیں۔ رہا امام ترمذی کی حدیث میں یہ قول کہ آپ نے دو آدمی اس ہار کی تلاش میں بھیجے، بعض علماء نے فرمایا : ایک اسید بن حضیر تھا، شاید بخاری کی حدیث میں الرجال سے مراد یہی دو شخص ہوں اور انہوں جمع کے لفظ سے تعبیر کیا گیا ہو، کیونکہ جمع کا کم از کم فرد تثنیہ ہے یا ان دو کے پیچھے کسی اور کو بھیجا ہو پس لفظ کا اطلاق صحیح ہے، واللہ اعلم۔ وہ گئے انہوں نے تلاش کیا تو انہیں کوئی چیز نہ ملی جب وہ واپس آئے تو انہوں نے اونٹ کو اٹھایا تو وہ ہار اس کے نیچے سے پالیا۔ روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ کے صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین کو زخم لگے وہ پھیل گئے پھر وہ جنابت سے دو چار ہوئے تو انہوں نے رسول اللہ ﷺ سے اپنی تکلیف کا ذکر کیا تو یہ آیت نازل ہوئی یہ اس کے خلاف نہیں جو ہم نے ذکر کیا ہے کیونکہ صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین کو غزوات میں زخم لگے تھے جن سے وہ واپس آئے تھے، کیونکہ ان میں جنگ ہوتی تھی تو صحابہ رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین نے شکایت کی اور ہار بھی گم ہوا تھا تو آیت تیمم نازل ہوئی، بعض علماء نے فرمایا اور ہار کا گم ہونا بنی مصطلق کے غزوہ میں تھا یہ اس کے قول کے مخالف نہیں جس نے کہا کہ مریسیع کے غزوہ میں یہ معاملہ پیش آیا تھا کیونکہ یہ ایک ہی غزوہ ہے۔ نبی مکرم ﷺ نے بنی المصطلق کا غزوہ شعبان
6
ھ میں لڑا تھا جیسا کہ خلیفہ بن خیاط اور ابو عمرو بن عبداللہ نے کہا ہے اور مدینہ پر حضرت ابو ذر غفاری کو مقرر فرمایا تھا بعض علماء نے فرمایا : حضرت نمیلۃ بن عبداللہ اللیثی کو مدینہ پر مقرر فرمایا تھا، رسول اللہ ﷺ نے بنی مصطلق پر حملہ کیا تھا جب کہ وہ حملہ کرنے والے تھے وہ پانی پر تھے جس کو المریسیع کہا جاتا تھا یہ قدید کی طرف سے تھا جو ساحل سے متصل ہے پس آپ نے قتل کردیا جن کو قتل کردیا اور ان کے بچوں اور عورتوں کو قیدی بنا لیا اور اس دن مسلمانوں کا شعار تھا ” امت امت “ ، بعض علماء نے کہا : بنی مصطلق، رسول اللہ ﷺ کے لیے جمع ہوئے تھے اور انہوں نے آپ کا ارادہ کیا تھا جب رسول اللہ ﷺ کو اس کی خبر پہنچی تو آپ ان کی طرف نکلے اور انہیں پانی پر ملے، یہ تیمم کے آغاز اور اس کے سبب میں احادیث وارد ہیں۔ بعض علماء نے فرمایا : سورة مائدہ کی آیت تیمم ہے اس کا بیان آگے آئے گا۔ ابو عمر ؓ نے کہا : اللہ تعالیٰ نے آیت تیمم نازل فرمائی اور یہی آیت وضو ہے جو سورة المائدہ میں ہے یا وہ آیت جو سورة النساء میں ہے ان دو آیتوں کے علاوہ ہیں تیمم ذکر نہیں ہے اور یہ دونوں آیتیں مدنی ہیں۔ مسئلہ نمبر : (
21
) اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے (آیت) ” مرضی “۔ مرض سے مراد بدن کا حد اعتدال سے نکل کر، اعوجاج اور شذوذ کی طرف چلا جانا ہے، اس کی دو قسمیں ہیں زیادہ اور تھوڑا، جب مرض اتنی سخت ہو کہ پانی کی ٹھنڈک کی وجہ سے موت کا اندیشہ ہو یا اس بیماری کی وجہ سے جو اسے لاحق ہے پانی کے استعمال سے موت کا خطرہ ہو یا بعض اعضاء کے ضیاع کا خوف ہو تو بالاجماع تیمم کرسکتا ہے مگر حسن اور عطا سے مروی ہے کہ وہ طہارت حاصل کرے اگرچہ فوت بھی ہوجائے، یہ مردود ہے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے (آیت) ” وما جعل علیکم فی الدین من حرج “۔ (الحج :
78
) ترجمہ : اور نہیں رکھی اس نے تم پر دین میں کوئی تنگی۔ اور اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے (آیت) ” لا تقتلوا انفسکم “۔ دارقطنی نے سعید بن جبیر ؓ سے انہوں نے حضرت ابن عباس ؓ سے (آیت) ” وان کنتم مرضی او علی سفر “۔ کے تحت روایت کیا ہے کہ جب آدمی کو اللہ کے راستے میں زخم لگے اور پھر وہ جنبی ہوجائے اسے خوف ہو کہ غسل کرے گا تو فوت ہوجائے گا (
1
) (سنن دارقطنی، کتاب التیمم، جلد
1
، صفحہ
177
) تو تیمم کرلیے۔ سعید بن جبیر ؓ نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا ہے فرمایا : تیمم کی مریض کو رخصت کو دی گئی ہے۔ حضرت عمرو بن العاص نے تیمم کیا تھا جب انہیں سردی کی شدت سے ہلاک ہونے کا خوف ہوا تھا نبی مکرم ﷺ نے انہیں نہ غسل کا حکم دیا تھا اور نہ اعادہ کا حکم دیا تھا، اور اگر مرض تھوڑی ہو مگر اسے پانی کے استعمال سے مرض کے پیدا ہونے یا پڑھنے یا زخم کے آہستہ ٹھیک ہونے کا اندیشہ ہو تو بالاجماع ایسے لوگ بھی تیمم کریں، ابن عطیہ نے کہا : میں نے یہی محفوظ کیا ہے۔ (
2
) (المحرر الوجیز، جلد
2
، صفحہ
58
دارالکتب العلمیہ) میں کہتا ہوں : الباجی نے اس میں اختلاف ذکر کیا ہے، قاضی ابو الحسن نے کہا : جیسے صحیح شخص کو نزلہ یا بخار کا اندیشہ ہو اور اسی طرح مریض کو مرض کی زیادتی کا اندیشہ ہو تو پھر جائز ہے۔ یہ قاضی ابوالحسن نے امام مالک (رح) سے روایت کیا ہے، ابن عربی (رح) نے کہا : امام شافعی (رح) نے کہا : مریض کے لیے تیمم مباح نہیں ہے مگر جب تلف ہونے کا خوف ہو، کیونکہ مرض کی زیادتی متحقق نہیں ہے، کیونکہ مرض زیادہ ہوجاتی ہے اور کبھی زیادہ نہیں ہوتی یقینی فرض کو مشکوک خوف کی وجہ سے ترک کرنا جائز نہیں۔ ہم نے کہا : آپ کے قول میں تناقض ہے آپ نے کہا : سردی تلف ہونے کا خوف ہو تو تیمم کرلے پس جس طرح تلف سے بچاؤ ضروری ہے، فرمایا : امام شافعی پر تعجب ہے فرماتے ہیں : اگر پانی اپنی قیمت سے ایک حبۃ (دانہ) زائد پر ملے تو اس کا خریدنالازم نہیں تاکہ مال محفوظ رہے اور اسے تیمم کرنا لازم ہے جب کہ یہاں اسے اپنے بدن پر مرض کا خوف ہے، یہ ان کا ایسا کلام نہیں ہے جس کا سننا درست ہو (
3
) (احکام القرآن لابن العربی جلد
1
، صفحہ
441
) میں کہتا ہوں : قشیری ابو نصر عبدالرحیم نے اپنی تفسیر میں امام شافعی کا صحیح قول ذکر کیا ہے، وہ مرض جس کے لیے تیمم مباح ہوتا ہے وہ ہے جس میں روح کے فوت ہونے یا بعض اعضاء کے ضائع ہونے کا خوف ہو اگر وہ پانی استعمال کرے، اور اگر مرض کے لمبے ہونے کا خوف ہو تو صحیح قول امام شافعی (رح) کا یہ ہے کہ اس کے لیے تیمم جائز ہے، ابو داؤد اور دارقطنی نے یحییٰ بن ایوب عن بزید بن ابی حبیب عن عمران بن ابی انس عن عبدالرحمن بن جبیر عن عمرو بن العاص کے سلسلہ سے روایت کیا ہے کہ حضرت عمرو بن العاص نے کہا : مجھے غزوہ ذات السلاسل میں ایک ٹھنڈی رات کو احتلام ہوگیا مجھے ڈر لگا کہ اگر میں غسل کروں گا تو بلاک ہوجاؤں گا، میں نے تیمم کیا اور اپنے ساتھیوں کو صبح کی نماز پڑھا دی، پس انہوں نے اس کا ذکر رسول اللہ ﷺ سے کیا تو آپ ﷺ نے فرمایا : اے عمرو ؓ ! ” تو نے اپنے ساتھیوں کو جنبی حالت میں نماز پڑھا دی ہے “۔ ؟ میں نے غسل نہ کرنے کی وجہ عرض کی اور میں نے کہا : میں نے اللہ تعالیٰ کو یہ فرماتے سنا ہے : (آیت) ” ولا تقتلوا انفسکم “۔ نبی مکرم ﷺ ان کی بات سن کر مسکرا دیئے اور اسے کبھی بھی نہ فرمایا (
1
) (سنن دارقطنی، کتاب التیمم جلد،
1
صفحہ
178
) یہ حدیث دلالت کرتی ہے کہ خوف کی حالت میں تیمم مباح ہے اگرچہ یقین نہ بھی ہو، اس میں تیمم پر جنبی اسم کا اطلاق ہے اور اس میں یہ بھی جواز ہے کہ وضو کرنے والوں کو تیمم کرنے والا نماز پڑھا سکتا ہے یہ ہمارے نزدیک دو اقوال میں ایک قول ہے اور یہ صحیح ہے، امام مالک (رح) نے اس کو مؤطا میں پڑھا ہے، موت تک اس کو آپ پر پڑھا گیا، دوسرا قول یہ ہے کہ وہ نماز نہ پڑھائے، کیونکہ وہ وضو کرنے والے سے فضیلت میں کم ہے اور امام کا حکم یہ ہے کہ وہ اعلی مرتبہ ہو، دارقطنی حضرت جابر بن عبداللہ ؓ کی حدیث سے روایت کیا ہے فرمایا رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : تیمم کرنے والا، وضو کرنے والوں کو نماز نہ پڑھائے، اس کی سند ضعیف ہے۔ (
2
) (سنن دارقطنی، کتاب التیمم جلد،
1
صفحہ
185
) ابو داؤد اور دارقطنی نے حضرت جابر ؓ سے روایت کیا ہے فرمایا : ہم ایک سفر میں نکلے ہم میں نے ایک شخص پر پتھر لگا اور اس کا سرزخمی کردیا پھر اس زخمی کو احتلام ہوگیا اس نے اپنے ساتھیوں سے پوچھا : کیا تم میرے لیے تیمم میں رخصت دیکھتے ہو ؟ انہوں نے کہا : ہم تیرے لیے رخصت نہیں پاتے جب کہ تو پانی پر قدرت رکھتا ہے، اس شخص نے غسل کیا اور وہ فوت ہوگیا، جب ہم نبی مکرم ﷺ کے پاس آئے تو ہم نے آپ کو بتایا، آپ ﷺ نے فرمایا : ” انہوں نے اسے قتل کیا ہے اللہ انہیں قتل کرے “۔ انہوں نے کیوں نہ پوچھا جب وہ جانتے نہ تھے ؟ جہالت کی شفا سوال ہے، اسے تیمم کرنا کافی تھا اور زخم پر پٹی باندھنا، پھر اس پر مسح کرنا اور اپنے پورے جسم کو دھونا کافی تھا۔ دارقطنی نے کہا : حضرت ابوبکر ؓ نے کہا : یہ سنت ہے اس کے ساتھ اہل مکہ منفرد ہیں اور اہل جزیرہ نے اسے حاصل کیا اور اس کو عطا عن جابر کے سلسلہ میں زبیر بن خریق کے علاوہ کسی سے روایت نہیں کیا اور وہ قوی نہیں ہے، اوزاعی نے اس کی مخالفت کی ہے، اس نے یہ عطا سے انہوں نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کی ہے اور یہی درست ہے اوزاعی سے مختلف صورتوں میں مروی ہے، بعض نے فرمایا : اوزاعی عن عطاء بعض نے فرمایا : اوزاعی سے مروی ہے کہ مجھے عطا سے یہ خبر پہنچی۔ آخر میں اوزاعی نے عطا سے اور انہوں نے نبی مکرم ﷺ سے مرسلا روایت کی ہے اور یہی درست ہے، ابن ابی حاتم (رح) نے کہا : میں نے ابی اور ابو زرعہ سے اس کے متعلق پوچھا تو ان دونوں نے کہا : اس کو ابن ابی العشرین نے اوزاعی سے انہوں نے اسماعیل بن مسلم سے انہوں نے عطا سے انہوں نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کی ہے، حدیث کو مسند ذکر فرمایا (
3
) (سنن دارقطنی، کتاب التیمم جلد،
1
صفحہ
190
) داؤد نے فرمایا : ہر شخص جس پر مریض کا اطلاق ہوتا ہو اس کے لیے تیمم کرنا جائز ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے (آیت) ” وان کنتم مرضی “۔ (اگر تم بیمار ہو) ابن عطیہ (رح) نے کہا : یہ ایسا قول ہے جس کی مخالفت کی گئی ہے۔ علماء امت کے نزدیک تیمم اس کے لیے جائز ہے جس کو پانی کے استعمال سے موت کا خطرہ ہو یا پانی کا استعمال اسے اذیت دیتا ہو جیسے مجدور اور محصوب شخص اور وہ دوسری بیماریاں جن پر پانی کے استعمال میں خوف ہوتا ہے (
1
) جیسا کہ حضرت ابن عباس ؓ سے گزر چکا ہے۔ مسئلہ نمبر : (
22
) اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے (آیت) ” علی سفر ، “۔ سفر کے سبب تیمم جائز ہے خواہ سفر لمبا ہو یا مختصر ہو جب کہ پانی موجود نہ ہو، ایسے سفر کی کوئی شرط نہیں جس میں نماز قصر کی جاتی ہے، یہ امام مالک اور جمہور علماء کا مذہب ہے۔ ایک قوم نے کہا : وہ تیمم نہ کرے مگر اس سفر میں جس میں نماز قصر کی جاتی ہے اور دوسرے علماء نے سفر طاعت کی شرط لگائی ہے یہ تمام اقوال ضعیف ہے۔ مسئلہ نمبر : (
23
) سفر میں تیمم کے جواز پر علماء کا اجماع ہے جیسا کہ ہم نے ذکر کیا ہے اور حضر میں علماء کا تیمم کے جواز میں اختلاف ہے، امام مالک (رح) اور ان کے اصحاب کا نظریہ یہ ہے کہ تیمم سفر وحضر میں جائز ہے، یہ امام ابوحنیفہ (رح) اور امام محمد (رح) کا قول ہے، امام شافعی (رح) نے فرمایا : صحیح مقیم کے لیے تیمم کرنا جائز نہیں مگر یہ کہ اسے تلف ہونے کا اندیشہ ہو یہی قول طبری کا ہے۔ امام شافعی، لیث اور طبری نے کہا : جب حضر میں پانی نہ ہو اور وقت کے ختم کا خوف بھی ہو تو صحیح اور بیمار تیمم کرے اور نماز پڑھے اور پھر نماز کا اعادہ کرے۔ ابو یوسف اور زفر نے کہا : حضر میں تیمم کرنا جائز نہیں نہ مرض کے لیے، نہ خوف وقت کے لیے، حسن اور عطا نے کہا : مریض تیمم نہ کرے جب وہ پانی پائے اور غیر مریض تیمم کرے اس اختلاف کا سبب آیت کے مفہوم میں علماء کا اختلاف ہے۔ امام مالک اور ان کے متبعین نے کہا : اللہ تعالیٰ نے تیمم کی شرط میں مریضوں اور مسافروں کا ذکر کیا ہے کیونکہ اغلب طور پر یہ وہ لوگ ہیں جو پانی نہیں پاتے جب کہ مقیم لوگ اغلب طور پر پانی پاتے ہیں اسی وجہ سے ان پر نص نہیں فرمائی، ہر وہ شخص جو پانی نہ پائے یا پانی کا استعمال اسے مانع ہو یا اسے نماز کے وقت کے فوت ہونے کا اندیچہ ہو تو مسافر نص کی وجہ سے تیمم کرے اور مقیم معنی کی وجہ سے تیمم کرے، اسی طرح مریض نص کی وجہ سے تیمم کرے اور صحیح معنی کی وجہ سے تیمم کرے، اسی طرح مریض نص صریح کی وجہ سے تیمم کرے اور صحیح معنی کی وجہ سے، اور جنہوں نے حضر میں تیمم سے منع کیا ہے انہوں نے فرمایا : اللہ تعالیٰ نے تیمم کی رخصت مریض اور مسافر کے لیے رکھی ہے جس طرح روزہ کا افطار اور نماز کی قصر بیمار اور مسافر کے لیے ہے اور تیمم صرف دو شرطوں کے ساتھ مباح ہے اور وہ مرض اور سفر ہیں صحیح مقیم اس میں داخل نہیں ہے، کیونکہ وہ اللہ تعالیٰ کی شرط سے خارج ہے، رہا حسن اور عطا کا قول وہ پانی کے ہوتے ہوئے تمام لوگوں کو تیمم کرنے سے منع کرتے ہے۔ انہوں نے فرمایا : اللہ تعالیٰ نے پانی نہ ہونے کی شرط لگائی ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا (آیت) ” فلم تجدوا مآء فتیمموا “۔ تیمم کسی کے لیے مباح نہیں فرمایا مگر پانی کے نہ ہونے کے وقت، ابو عمرو ؓ نے کہا : اگر جمہور کا قول نہ ہوتا اور مروی اثر نہ ہوتا تو حسن اور عطا کا قول صحیح ہوتا، واللہ اعلم۔ رسول اللہ ﷺ نے حضرت عمرو بن العاص ؓ کے لیے تیمم جائز فرمایا جب کہ وہ مسافر تھے کیونکہ انہیں اندیشہ تھا کہ پانی سے غسل کریں گے تو ہلاک ہوجائیں گے پس مریض تیمم کا زیادہ مستحق ہے ،۔ میں کہتا ہوں : حضر میں تیمم کے جواز پر دلیل کتاب وسنت ہے جب کہ نماز کے فوت ہونے کا خوف ہو جب وہ پانی کی طرف جائے۔ کتاب اللہ میں یہ ارشاد ہے : (آیت) ” اوجآء احد منکم من الغآئط “۔ یعنی مقیم جب پانی نہ پائے تو تیمم کرے، اس پر قشیری عبدالرحیم نے نص قائم کی انہوں نے کہا : قضا کے وجوب میں نظر قطعی ہے، کیونکہ حضر میں پانی کا عدم نادر عذر ہے اور قضا میں دو قول ہیں۔ میں کہتا ہوں : ہمارے اصحاب نے اس شخص کے بارے میں اسی طرح واضح فرمایا ہے جو حضر میں تیمم کرتا ہے پس کیا جب وہ پانی پالے گا تو وہ نماز کا اعادہ کرے گا ؟ امام مالک (رح) کا مشہور مذہب یہ ہے کہ وہ نماز کا اعادہ نہیں کرے گا اور یہی صحیح ہے، ابن حبیب اور محمد بن عبدالحکم نے فرمایا : وہ اعادہ کرے گا، یہ ابن المنذر (رح) نے امام مالک سے روایت کیا ہے اور ولید نے ان سے روایت کیا ہے کہ وہ غسل کرے اگرچہ سورج طلوع بھی ہوجائے۔ اور رہی سنت تو اس میں بخاری کی روایت ہے جو انہوں نے ابو الجہیم بن حارث صمۃ انصاری سے روایت کی ہے فرمایا : نبی کریم ﷺ بئر جمل کی طرف سے آئے انہیں ایک شخص ملا اس نے آپ ﷺ کو سلام کیا تو آپ ﷺ نے اسے سلام کا جواب نہ دیا حتی کہ آپ دیوار پر آئے، اپنے چہرے اور ہاتھوں پر مسح کیا پھر اسے سلام کا جواب دیا (
1
) (صحیح بخاری کتاب التیمم جلد
1
، صفحہ
48
) اس کو مسلم نے بھی نقل کیا ہے، اس میں بئر کا لفظ نہیں ہے، اس کو دارقطنی نے حضرت ابن عمر ؓ کی حدیث سے روایت کیا ہے اس میں ہے ثم رد علی الرجل السلام یعنی پھر اس شخص پر سلام لوٹایا اور فرمایا : ” مجھے تجھ پر سلام لوٹانے سے کوئی چیز مانع نہ تھی مگر میں باوضونہ تھا “۔ (
2
) (سنن دارقطنی، کتاب التیمم، جلد
1
، صفحہ
177
) مسئلہ نمبر : (
24
) اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے (آیت) ” اوجآء احد منکم من الغآئط “۔ ’ الغآئط “۔ کا اصل معنی زمین کی پست جگہ اور اس کی جمع الغیطان یا الاغواط آتی ہے، اسی وجہ سے غوطۃ دمشق کہتے ہیں، عرب قضاء حاجت کے لیے پست جگہ کا قصد کرتے تھے تاکہ لوگوں کی نظروں سے چھپ جائیں انسان سے نکلنے والے حدث کو بھی اتصال کی وجہ سے الغائط کہتے ہیں، غاط فی الارض یغوط بولا جاتا ہے زمین میں کوئی چیز غائب ہوجائے، زہری نے اسے الغیط سے مشتق کیا ہے یہ احتمال ہے کہ اس کی اصل الغیط ہو پھر تخفیف کی گئی ہے ہو، الغوط کی واؤ کو یاء سے بدل دیا گیا، جس طرح لاحول میں لاحیل کہتے ہیں، اور او بمعنی واؤ ہے یعنی اگر تم مریض ہو یا سفر پر ہو اور تم میں سے کوئی پاخانہ سے آئے تو تیمم کا موجب سبب حدث ہے نہ کہ مرض اور سفر، پس یہ حضر میں تیمم کے جواز کی دلیل ہے جیسا کہ ہم نے بیان کیا ہے اور ” او “ میں صحیح یہ ہے کہ یہ اہل نظر کے نزدیک اپنے معنی میں ہے۔ ” او “ کا اپنا معنی ہے اور واؤ کا اپنا معنی ہے، یہ ان کے نزدیک حذف پر ہے، معنی یہ ہے کہ اگر تم ایسے مرض میں مبتلا ہو جس میں تم پانی کو چھونے پر قدرت نہیں رکھتے یا سفر پر ہو اور پانی نہ پاؤ اور تمہیں پانی کی ضرورت ہو۔ مسئلہ نمبر : (
25
) الغائط کا لفظ طہارت صغری کو توڑنے والے تمام احداث کو شامل ہے، علماء کا ان احداث کے حصر میں اختلاف ہے، ان کے بارے میں عمدہ قول جو کیا گیا ہے وہ یہ ہے کہ ان کی تین اقسام ہیں، ہمارے مذہب میں ان میں کوئی اختلاف نہیں ہے۔ (
1
) عقل کا زائل ہونا۔ (
2
) جسم سے عادۃ خارج ہونے والی اشیائ۔ (
3
) عورت کو چھونا، اور امام ابوحنیفہ (رح) کے نزدیک جسم سے جو نجاست خارج ہوتی ہے۔ (بقیہ حصہ اگلی آیت میں)
Top