Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
130
131
132
133
134
135
136
137
138
139
140
141
142
143
144
145
146
147
148
149
150
151
152
153
154
155
156
157
158
159
160
161
162
163
164
165
166
167
168
169
170
171
172
173
174
175
176
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Al-Qurtubi - An-Nisaa : 44
اَلَمْ تَرَ اِلَى الَّذِیْنَ اُوْتُوْا نَصِیْبًا مِّنَ الْكِتٰبِ یَشْتَرُوْنَ الضَّلٰلَةَ وَ یُرِیْدُوْنَ اَنْ تَضِلُّوا السَّبِیْلَؕ
اَلَمْ تَرَ
: کیا تم نے نہیں دیکھا
اِلَى
: طرف
الَّذِيْنَ
: وہ لوگ جو
اُوْتُوْا
: دیا گیا
نَصِيْبًا
: ایک حصہ
مِّنَ
: سے
الْكِتٰبِ
: کتاب
يَشْتَرُوْنَ
: مول لیتے ہیں
الضَّلٰلَةَ
: گمراہی
وَيُرِيْدُوْنَ
: اور وہ چاہتے ہیں
اَنْ
: کہ
تَضِلُّوا
: بھٹک جاؤ
السَّبِيْلَ
: راستہ
بھلا تم نے ان لوگوں کو نہیں دیکھا جن کو کتاب سے حصہ دیا گیا تھا کہ وہ گمراہی کو خریدتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ تم بھی راستے سے بھٹک جاؤ
سابقہ آیت کی بقیہ تفسیر امام صاحب مخرج کی رعایت نہیں رکھتے اور لمس کو بھی ناقص وضو نہیں سمجھتے، اور امام شافعی (رح) اور محمد بن عبدالحکم کے مذہب پر وہ چیز جو سبیلین (شرمگاہیں) سے خارج ہو، وہ بھی متعاد کی رعایت نہیں کرتے اور یہ لمس کو ناقص شمار کرتے ہیں، جب یہ ثابت ہوگیا تو جان لے کہ مسلمانوں کا اجماع ہے کہ جس کی عقل، اغماء یا جنوں یا سکر (نشہ) کی وجہ سے زائل ہوجائے اس پر وضو ہے اور نیند کے بارے میں اختلاف ہے کیا وہ دوسرے احداث کی طرح حدث ہے یا حدیث نہیں ہے یا حدث کے گمان کی جگہ ہے ؟ تین اقوال ہیں دو اطراف اور ایک وسط۔ طرف اول : مزنی ابو ابراہیم اسماعیل کا خیال ہے کہ نیند حدث ہے، دوسرے احداث کی طرف نیند کم ہو یا زیادہ اس کی وجہ سے وضو واجب ہوتا ہے، امام مالک کے قول کا مقتضی بھی یہی ہے انہوں نے فرمایا : وہ وضو نہ کرے مگر اس حدیث کی وجہ سے جو ذکر، دبر سے نکلنے یا نیند کی وجہ سے۔ حضرت صفوان بن عسال کی حدیث کا مقتضی بھی یہی ہے، نسائی، دارقطنی، ترمذی نے اس حدیث کو نقل کیا ہے اور ترمذی نے اسے صحیح کہا ہے۔ (
1
) (جامع ترمذی، کتاب الدعوات عن الرسول، ایضا حدیث نمبر
3458
، ضیاء القرآن پبلی کیشنز) اور تمام سے عاصم بن ابی النجود کی حدیث سے زربن حبش سے روایت کیا ہے فرمایا : میں صفوان بن عسال مرادی کے پاس آیا، میں نے کہا : میں آپ نے سے خفین پر مسح کے متعلق پوچھنے کے لیے آیا ہوں، حضرت صفوان ؓ نے فرمایا : ہاں میں ایک لشکر میں تھا جس کو رسول اللہ ﷺ نے بھیجا تھا آپ ﷺ نے ہمیں خفین پر مسح کرنے کا حکم دیا جب ہم پاؤں دھو کر ان میں داخل کریں جب سفر میں ہوں تو تین دن مسح کریں، اور جب مقیم ہوں تو ایک دن مسح کریں اور ہم پیشاب، پائخانہ اور نیند کی وجہ سے خفین کو نہ اتاریں مگر جنابت کی وجہ سے، اس حدیث میں اور امام مالک (رح) کے قول میں الغائط، البول اور النوم میں برابری ہے، علماء نے فرمایا : قیاس یہ ہے کہ نیند جب زیادہ ہو اور عقل پر غالب آجائے تو وہ حدث ہوتی ہے پس کم نیند کا بھی یہی حکم ہوا، حضرت علی ؓ سے مروی ہے فرمایا رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :” دبر کا دھاگہ آنکھیں ہیں پس جب کوئی سوجائے تو وہ وضو کرے “۔ (
2
) (سنن ابی داؤد کتاب الطہارۃ جلد
1
، صفحہ
27
) یہ حکم عام ہے، اس کو ابو داؤد نے نقل کیا ہے، دارقطنی نے حضرت معاویہ بن سفیان کی حدیث سے نبی مکرم ﷺ سے روایت کی ہے۔ دوسری طرف، حضرت ابو موسیٰ اشعری ؓ سے مروی ہے وہ دلیل ہے کہ نیند ان کے نزدیک کی حال میں بھی حدیث نہیں ہے حتی کہ سونے والے کو نیند کے علاوہ کوئی حدیث لاحق ہوجائے، کیونکہ وہ اس کے سپرد ہوتا ہے جو اس کی حفاظت کرتا ہے جب وہ سوجاتا ہے، اگر اس سے حدث نہ نکلے تو وہ نیند سے اٹھے اور نماز پڑھے، عبیدہ، سعید بن مسیب، اوزاعی رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین اور ایک روایت میں محمود بن خالد سے یہ مروی ہے، جمہور علماء ان دونوں اطراف کے مخالف ہیں، امام مالک (رح) کا مذہب یہ ہے کہ ہر سونے والا جو نیند کی وجہ سے بوجھل ہوجائے اور اس کی نیند لمبی ہوجائے تو اس پر وضو واجب ہے خواہ نیند کی حالت میں بھی ہو، یہی قول زہری، ربیعہ، اوزاعی رحمۃ اللہ علیہم اور ایک روایت میں ولید بن مسلم کا ہے، امام احمد بن حنبل (رح) نے فرمایا : اگر نیند ہلکی پھلکی ہو اس کے دل پر غالب نہ آئے تو وہ مضر نہیں، امام ابوحنیفہ (رح) اور ان کے اصحاب نے کہا : وضو نہیں ہے مگر اس پر جو پہلے کے بل سو جائے یا سرین کے بل سو جائے، امام شافعی (رح) نے فرمایا : جو بیٹھے ہوئے سو جائے اس پر وضو نہیں۔ ابن وہب نے امام مالک (رح) سے یہی روایت کیا ہے، ان اقوال میں سے صحیح امام مالک (رح) کا مشہور مذہب ہے، کیونکہ، حضرت ابن عمر ؓ کی حدیث ہے کہ رسول اللہ ﷺ ایک رات عشاء کی نماز سے مشغول رہے آپ نے اسے مؤخر کردیا حتی کہ ہم مسجد میں سو گئے، پھر ہم بیدار ہوئے، پھر سو گئے پھر بیدار ہوئے پھر ہمارے پاس نبی مکرم ﷺ تشریف لائے پھر فرمایا : ” اہل زمین میں سے کوئی ایسا نہیں جو تمہارے علاوہ نماز کا انتظار کر رہا ہو۔ اس حدیث کو ائمہ حدیث نے روایت کیا ہے (
1
) (صحیح بخاری، کتاب مواقیت الصلوۃ جلد
1
، صفحہ
81
) اور یہ بخاری کے ہیں اور اسناد اور عمل کی جہت سے اس باب میں یہ حدیث واضح ہے، رہا مؤطا میں امام مالک (رح) کا قول اور حضرت صفوان بن عسال کا قول ان کی حدیث میں ان کا مطلب یہ ہے کہ ایسی بھاری نیند جو نفس پر بھاری ہوجائے، اس حدیث کی دلیل کی وجہ سے اور اس کے ہم معنی احادیث کی وجہ سے یہی معنی مناسب ہے، حضرت صفوان کی حدیث کو وکیع نے مسعر سے انہوں نے عاصم بن ابی النجود سے روایت کیا ہے اس میں او نوم کی جگہ اور ریح کے الفاظ ہیں، دارقطنی نے کہا : وکیع عن مسعر کے علاوہ کسی نے اس حدیث میں اور یح کے الفاظ روایت نہیں کیے۔ میں کہتا ہوں : وکیع امام ہے ثقہ ہے۔ بخاری، مسلم اور دوسرے ائمہ نے ان سے احادیث روایت کی ہیں، پس حدیث حضرت صفوان ؓ سے اس شخص کا استدلال ساقط ہوگیا جس نے کہا : کہ نیند حدث ہے۔ اور امام ابوحنیفہ کا مذہب ضعیف ہے۔ دارقطنی نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ سو گئے جب کہ آپ سجدہ میں تھے حتی کہ آپ نے خراٹے لیے پھر آپ اٹھے اور نماز پڑھی، میں نے کہا : یارسول اللہ ﷺ آپ تو سو گئے تھے۔ آپ ﷺ نے فرمایا : ” وضو اس پر ہے جو پہلو کے بل سو جائے جب وہ پہلو کے بل سو جائے گا تو اس کے مفاصل ڈھیلے ہوجائے گے “۔ ابو خالد، قتادہ سے روایت کرنے میں اس میں منفرد ہے اور یہ صحیح نہیں۔ (
2
) (سنن دارقطنی، کتاب الطھارۃ، جلد
1
، صفحہ،
160
) یہ دارقطنی کا قول ہے، اس کو ابو داؤد نے روایت کیا ہے اور یہ قول کہ ” وضو اس پر ہے جو پہلو کے بل سوجائے (
3
) (سنن ابی داؤد کتاب الطھارۃ جلد
1
، صفحہ
27
، ایضا حدیث نمبر
173
، ضیاء القرآن پبلی کیشنز) یہ حدیث منکر ہے، اس کو ابو یزید دالانی کے علاوہ قتادہ سے کسی نے روایت نہیں کیا اس کا ابتدائی حصہ ایک جماعت نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا ہے اور انہوں نے اس میں سے کوئی چیز ذکر نہیں فرمائی، ابو عمر بن عبدالبر نے کہا : یہ حدیث منکر ہے قتادہ کے ثقہ اصحاب میں سے کسی نے اس کو روایت نہیں کیا۔ ابو خالد الدلانی اس میں منفرد ہے، علماء نے اس کا انکار کیا ہے اور جو ان سے نقل کیا گیا ہے وہ حجت نہیں ہے رہا امام شافعی کا قول کہ ہر سونے والے پر وضو ہے مگر جو تنہا بیٹھا ہو اور ہر وہ شخص جو استوا کی حد سے زائل ہوجائے اور سو جائے تو اس پر وضو ہے، یہ طبری اور داؤد کا قول ہے۔ حضرت علی، حضرت ابن مسعود، اور حضرت ابن عمر رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین سے مروی ہے کہ بیٹھنے نیند سے بوجھل نہیں ہوتا وہ خفیف نیند کے معنی میں ہوتا ہے اور دارقطنی نے عمرو بن شعیب عن ابیہ عن جدہ کی حدیث سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ” جو بیٹھ کر سو جائے اس پر وضو نہیں ہے اور جس نے پہلو رکھا اس پر وضو ہے “ ‘ (
4
) (سنن دارقطنی، کتاب الطھارۃ، جلد
1
، صفحہ،
161
) رہا خارج ہونے والا عارضہ تو ہم کہتے ہیں امام بخاری نے حدثنا قتیبہ قال حدثنا یزید بن زریع عن خالد عن عکرمہ عن عائشہ کے سلسلہ سے روایت کیا ہے کہ حضرت عائشہ ؓ نے فرمایا : رسول اللہ ﷺ کے ساتھ ایک زوجہ محترمہ نے اعتکاف کیا، اس نے خون اور زردی دیکھی جب کہ تھال ان کے نیچے تھا اور وہ نماز پڑھ رہی تھی (
1
) (صحیح بخاری، کتاب الحیض، جلد
1
، صفحہ
45
) یہ نکلنے والا مواد غیر معتاد تھا، یہ ایک رگ تھی جو مرض کی مرض کی وجہ سے پھٹ گئی تھی، جو اس طرح سبیلین سے نکلے ہمارے نزدیک اس کی وجہ سے واجب نہیں ہوتا، جب کہ امام شافعی (رح) کا قول اس کے خلاف ہے جیسا کہ ہم نے ذکر کیا ہے اور ہماری توفیق اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے اور حنفی پر رد ہوجاتا ہے کیونکہ وہ نجس خارج کی رعایت کرتا ہے پس امام مالک بن انس (رح) کا مذہب واضح اور صحیح ہے نفس میں کوئی تردد نہیں۔ مسئلہ نمبر : (
26
) اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے (آیت) ” او لمستم النسآء “۔ نافع، ابن کثیر، ابو عمرو، عاصم اور ابن عامر نے لامستم پڑھا ہے، حمزہ اور کسائی نے لمستم پڑھا ہے۔ (
2
) (المحرر الوجیز، جلد
2
، صفحہ
58
دارالکتب العلمیہ) اس کے معنی میں تین اقوال ہیں۔ (
1
) تم جماع کرو۔ (
2
) تم مباشرت (جسم کا جسم کو چھونا) کرو۔ (
3
) یہ دونوں امر جمع ہوں، اور اکثر علماء کے نزدیک لا مستم کا بھی یہی معنی ہے محمد بن یزید سے حکایت کیا جاتا ہے کہ اس نے کہا : لغت میں لامستم کا معنی قبلتم تم نے بوسہ دیا یا اس کی مثل کوئی فعل ہے، کیونکہ میاں بیوی میں سے ہر ایک کے لیے فعل ہوتا ہے اور فرمایا : لمستم کا معنی چھا جانا اور جمع کرنا ہے اس میں عورت کے لیے کوئی فعل نہیں ہے۔ علماء کے اس آیت کے حکم میں پانچ مذاہب ہیں (
1
) ایک جماعت نے کہا : یہاں ملامست، ہاتھ کے ساتھ چھونے کے ساتھ مختص ہے اور جنبی کا ذکر نہیں ہے، مگر پانی کے ساتھ معنی مراد ہیں (آیت) ” وان کنتم مرضی “۔ کی وجہ سے وہ اس میں داخل نہیں پس اسے تیمم کی کوئی گنجائش نہیں وہ غسل کرے گا یا نماز کو چھوڑ دے گا حتی کہ وہ پانی پا لے گا، یہ قول حضرت عمر اور حضرت ابن مسعود ؓ سے مروی ہے، ابو عمر ؓ نے کہا : حضرت عمر ؓ اور حضرت عبداللہ ؓ کے قول کے ساتھ اس مسئلہ میں کسی مجتہد اور حاملین آثار میں سے کسی نے فتوی نہیں دیا، اس کی وجہ حضرت عمار، حضرت عمران بن حصین اور حضرت ابوذر رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین کی حدیث ہے جو نبی مکرم ﷺ سے جنبی کے تیمم کے بارے مروی ہے امام ابوحنیفہ (رح) نے اس قول کے برعکس قول کیا ہے، انہوں نے فرمایا : ملامست سے مراد یہاں جماع ہے پس جنبی تیمم کرے گا اور ہاتھ کے ساتھ چھونے والے کا یہاں کوئی ذکر نہیں اور ہاتھ کے ساتھ چھونا نہ حدث ہے، نہ وضو کے لیے ناقص ہے، جب کوئی شخص اپنی بیوی کو لذت کے لیے بوسہ دے تو اس کا وضو نہیں ٹوٹے گا (
3
) (المحرر الوجیز، جلد
2
، صفحہ
58
دارالکتب العلمیہ) اور انہوں نے اس کی تائید دارقطنی کی حضرت عائشہ ؓ کی روایت سے دی ہے کہ رسول اللہ ﷺ اپنی ازواج مطہرات میں سے کسی کو بوسہ دیتے تھے پھر نماز کے لیے نکلتے تھے اور وضو نہیں فرماتے تھے عروہ نے کہا : میں نے کہا : وہ نہیں ہوگی مگر تم ؟ تو حضرت عائشہ ؓ ہنس پڑیں (
4
) سنن دارقطنی، کتاب الوضو جلد
1
، صفحہ
138
) امام مالک (رح) نے کہا : جماع کرنے والا تیمم کرے گا اور جب ہاتھ سے چھوئے جبکہ لذت محسوس کرے تو تیمم کرے گا اور جب بغیر شہوت کے چھوئے گا تو اس پر وضو نہیں ہے۔ امام احمد اور اسحاق کا بھی یہی قول ہے۔ یہی آیت کا مقتضی ہے علی بن زیادہ نے کہا : اگر عورت پر موٹا کپڑا ہو تو مرد پر کچھ نہیں ہے، اگر باریک کپڑا ہو تو مرد پر وضو ہے، عبدالملک بن الماجشون نے کہا : جس نے اپنی بیوی کو ملاعبت کے لیے چھوا تو وہ وضو کرے خوہ لذت محسوس ہو یا نہ ہو، القاضی ابو الولید الباجی نے ” المنتقی “ میں فرمایا : امام مالک (رح) اور ان کے اصحاب کے مذہب کی تحقیق یہ ہے وضو لذت کے قصد کی وجہ سے واجب ہوتا ہے اس کے بغیر نہیں اور جس نے چھونے سے لذت کا قصد کیا اس پر وضو واجب ہے، اس سے اسے لذت آئے یا لذت نہ آئے یہی معنی ہے جو ” العتبیبہ “ میں عیسیٰ عن ابن القاسم کی روایت سے ہے، اور صرف حرکت کا ہونا تو ابن نافع نے امام مالک سے روایت کیا ہے کہ اس پر وضو واجب نہیں ہوتا اور ذکر کا دھونا بھی نہیں ہے حتی کہ اس کے ساتھ لمس یا مذی ہو، شیخ ابو اسحاق نے کہا : اس کا وضو ٹوٹ گیا، یہی قول امام مالک کا ” مدونہ “ میں ہے، امام شافعی (رح) نے فرمایا : جب مرد اپنے جسم کو عورت کے جسم کے ساتھ لگائے خواہ وہ ہاتھ ہو یا کوئی اور عضو ہو تو اس کی طہارت ٹوٹ جائے گی، حضرت ابن مسعود ؓ حضرت ابن عمر ؓ زہری اور ربیعہ کا یہی قول ہے۔ اوزاعی نے کہا : جب ہاتھ کے ساتھ لمس ہو تو طہارت ٹوٹ جائے گی اور اگر بغیر ہاتھ کے ہو تو طہارت نہیں ٹوٹے گی، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ” ملمسوہ بایدیھم “۔ یہ پانچ مذاہب ہیں۔ ان میں سے مضبوط امام مالک (رح) کا مذہب ہے اور یہ حضرت عمرو ؓ اور حضرت ابن عمر ؓ سے مروی ہے، اور حضرت عبداللہ بن مسعود کا قول ہے کہ ملامست جماع کے علاوہ ہے اور اس سے وضو واجب ہوتا ہے اس کی طرف کثیر علماء کی رائے ہے۔ ابن عربی (رح) نے کہا : یہی آیت کے معنی سے ظاہر ہے، کیونکہ اس آیت کی ابتدا میں ہے : (آیت) ” ولاجنبا “۔ یہ جماع کا فائدہ دیتا ہے۔ اور (آیت) ” اوجآء احد منکم من الغآئط “۔ یہ حدث کا فائدہ دیتا ہے۔ اور لامستم “ ، لمس اور بوسہ دینے کا فائدہ دیتا ہے پس یہ تین جملے تین احکام کے لیے ہیں یہ علم اور اعلام میں غایت ہے۔ اگر لمس سے مراد جامع ہوتا تو کلام میں تکرار ہوتا۔ (
1
) (احکام القرآن لابن العربی جلد
1
، صفحہ
444
) میں کہتا ہوں : امام ابوحنیفہ (رح) نے جس حضرت عائشہ ؓ کی حدیث سے استدلال کیا ہے وہ مرسل ہے اس کو وکیع نے اعمش سے انہوں نے حبیب بن ابی ثابت سے انہوں نے عروہ سے انہوں نے حضرت عائشہ ؓ سے روایت کی ہے، یحییٰ بن سعید نے کہا : اعمش عن حبیب عن عروہ کی حدیث کو ذکر کیا اور فرمایا : سفیان ثوری اس کو تمام لوگوں سے زیادہ جاننے والے تھے۔ انہوں نے کہا حبیب نے عروہ سے کچھ نہیں سنا ہے، یہ دارقطنی نے کہا ہے، اگر کہا جائے کہ تم مرسل کو بیان کرتے ہو تمہیں اس کا قبول کرنا اور اس پر عمل کرنا لازم ہے، ہم کہتے ہیں ہم نے آیت کے ظاہر اور صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین کے عمل کی وجہ سے اس حدیث کو چھوڑ دیا، اگر کہا جائے کہ ملامست سے مراد جماع ہے اور یہ حضرت ابن عباس ؓ سے مروی بھی ہے، ہم کہیں گے انکی حضرت عمر ؓ ، حضرت ابن عمر ؓ نے مخالفت کی ہے اور حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ جو کوفی ہیں انہوں نے بھی حضرت عمر ؓ اور حضرت ابن عمر ؓ کیمتابعت کی ہے پھر تم کیوں ان کی مخالفت کرتے ہو ؟ اگر کہا جائے تو ملامستہ باب مفاعلہ ہے اور باب مفاعلہ دو آدمیوں کے لیے استعمال ہوتا ہے اور ہاتھ سے چھونا تو ایک شخص کی طرف سے ہوتا ہے تو ثابت ہوا کہ ملامست سے مراد جماع ہے، ہم کہیں گے ملامست کا مقتضی دونوں جسموں کا ملانا ہے خواہ وہ ایک کی طرف سے ہو یا دونوں کی طرف سے ہو، کیونکہ ان میں سے ہر ایک لامس اور ملموس ہوتا ہے۔ دوسرا جواب یہ ہے کہ ملامست کبھی ایک کی طرف سے بھی ہوتی ہے اسی وجہ سے نبی مکرم ﷺ نے بیع ملامسہ سے منع فرمایا۔ کپڑا ملموس (چھوا گیا) ہوتا ہے لامس (چھونے والا) نہیں ہوتا، حضرت ابن عمر ؓ نے اپنے متعلق خبردیتے ہوئے فرمایا : انا یومئذ قدنا ھزت الاحتلام ( ، میں اس وقت قریب البلوغ تھا) اس میں باب مفاعلہ ایک کے لیے استعمال ہوا ہے۔ اگر کہا جائے کہ جب اللہ تعالیٰ نے حدث کا سبب ذکر فرمایا اور وہ ہے پائخانہ سے آنا تو جنابت کا سبب بھی ذکر فرمایا اور وہ ہے ملامست، یعنی پانی کے نہ ہونے کے وقت حدث اور جنابت کا حکم بیان فرمایا جس طرح کہ پانی کے موجود ہونے کے وقت ان دونوں کا حکم بیان فرمایا، تو ہم کہیں گے ہم لفظ کو جماع اور لمس پر محمول کرنے سے منع نہیں کرتے، یہ دونوں حکموں کا فائدہ دیتا ہے جیسا کہ ہم نے بیان کیا ہے اور لمستم بھی پڑھا گیا ہے جیسا کہ ہم نے ذکر کیا ہے۔ رہا امام شافعی کا مذہب کہ جو عورت کو اپنے بعض اعضاء سے چھوئے جب کہ اس کے اور عورت کے درمیان کوئی چیز حائل نہ ہو شہوت کے لیے ہو یا بغیر شہوت کے ہو اس پر وضو واجب ہے، یہ قرآن کا ظاہر ہے۔ اس طرح اگر عورت نے مرد کو چھوا تو بھی بھی مرد پر وضو واجب ہے، لیکن بالوں کو چھوا تو وضو واجب نہ ہوگا، کیونکہ جس نے عورت کے بالوں کو چھوا اس پر وضو نہیں خواہ اس نے شہوت سے چھوا ہو یا بغیر شہوت کے، اسی طرح دانتوں اور ناخنوں کو چھونے کا حکم ہے، کیونکہ یہ جسم کے مخالف ہیں، اگر احتیاطا بالوں کو چھونے والا وضو کرلے تو اچھا ہے، اگر مرد نے ہاتھ سے چھواو یا عورت نے مرد کو اپنے ہاتھ سے چھوا کپڑے کے اوپر سے، پھر لذت محسوس کی یا لذت محسوس نہ کی تو اس پر کچھ نہیں ہوگا حتی کہ دوسرے جسم تک جسم کو پہنچائے، خواہ عمدا ایسا کرے یا بھول کر کرے، عورت زندہ ہو یا مردہ ہو جب کہ وہ اجنبیۃ ہو۔ جب کوئی چھوٹی بچی کو چھوئے یا بوڑھی کے ہاتھ سے چھوئے یا اپنی کسی محرم عورت کو چھوئے جس سے اس کا نکاح حلال نہیں ہے، اس کے متعلق ان کا قول مختلف ہے، کبھی فرمایا وضو ٹوٹ جائے گا، کیونکہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : (آیت) ” اولمستم النسآء “۔ اس میں بچی، بوڑھی کی کوئی تفریق نہیں فرمائی، دوسرا قول یہ ہے کہ وضو نہیں ٹوٹے گا کیونکہ ان میں شہوت کا کوئی دخل نہیں، مروزی نے کہا : امام شافعی (رح) کا قول ظاہر کتاب کے زیادہ مشابہ ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ فرمایا (آیت) ” اولمستم النسآء “۔ شہوت اور غیر شہوت کا ذکر نہیں فرمایا : اسی طرح جن صحابہ نے وضو کو واجب کہا ہے انہوں نے بھی شہوت کی شرط نہیں لگائی، فرمایا : یہی عام تابعین کا قول ہے۔ مروزی نے کہا : امام مالک (رح) جو کپڑے کے اوپر سے لذت اور شہوت کی رعایت کرتے ہیں اور وضو کو واجب کرتے ہیں اس پر ان کی موافقت لیث بن سعد نے کی ہے۔ ہم نہیں جانتے ان کے علاوہ کسی نے ایسا کہا ہو، فرمایا : یہ نظر میں بھی صحیح نہیں ہے، کیونکہ جس نے ایسا کیا وہ عورت کے کپڑے کو چھونے والا ہے۔ اور علماء کا اجماع ہے کہ اگر چھونے سے اسے لذت محسوس ہو تو اس پر وضو واجب نہیں اسی طرح کپڑے کے اوپر سے جس نے چھوا وہ عورت کو چھونے والا نہیں۔ میں کہتا ہوں : مروزی نے جو ذکر کیا ہے کہ امام مالک (رح) کی صرف لیث بن سعد موافقت کرنے والے ہیں حافظ ابو عمر بن عبدالبر (رح) نے ذکر کیا ہے کہ یہی قول اسحاق اور امام احمد (رح) کا ہے، امام شعبی (رح) اور امام نخعی (رح) سے بھی یہ روایت کیا گیا ہے، یہ تمام علماء کہتے ہیں : جب چھوئے اور لذب محسوس ہو تو وضو واجب ہے اگر لذت محسوس نہ ہو تو وضو واجب نہیں رہا، یہ قول کی نظر میں یہ صحیح نہیں۔ یہ بھی ان کا قول صحیح نہیں۔ حضرت عائشہ ؓ سے صحیح خبر میں آیا ہے فرمایا : میں رسول اللہ ﷺ کے سامنے سوئی ہوئی تھی اور میرے پاؤں آپ کی طرف ہوتے تھے جب آپ سجدہ کرتے تو مجھے ہاتھ سے اشارہ کرتے تو میں اپنے پاؤں سکیڑ لیتی اور جب آپ کھڑے ہوتے تو میں پھر پاؤں پھیلا دیتی فرمایا اس وقت گھروں میں چراغ نہیں ہوتے تھے۔ (
1
) (صحیح بخاری، کتاب الصلوۃ جلد
1
، صفحہ
56
) یہ نص ہے کہ نبی مکرم ﷺ حضرت عائشہ ؓ کو چھوتے تھے، کیونکہ آپ حضرت عائشہ ؓ کے پاؤں چھوتے جیسا کہ قاسم کی روایت حضرت عائشہ ؓ سے مروی ہے ” جب آپ سجدہ کرنے کا ارادہ فرماتے تو میرے پاؤں کو چھوتے تو میں پاؤں سکیڑ لیتی (
2
) (صحیح بخاری، کتاب الصلوۃ جلد
1
، صفحہ
74
) “ اس حدیث کو بخاری نے روایت کیا ہے یہ (آیت) ” اولمستم “ کے قول کے عموم کو خاص کرتی ہے، آیت کے ظاہر کے وجہ سے ہر چھونے والے کا وضو ٹوٹ جانا واجب ہے خواہ وہ جیسے بھی چھوئے، سنت اور کتاب اللہ کا بیان ہے کہ وضوبعض چھونے والوں پر ہے اور بعض پر نہیں ہے اور جن پر وضو نہیں ہے وہ ایسے افراد ہیں جو لذت محسوس نہ کریں اور نہ لذت کا قصد کریں۔ اور یہ نہیں کہا جائے گا کہ شاید حضرت عائشہ ؓ کے قدموں پر کپڑا ہو یا آپ ﷺ نے حضرت عائشہ ؓ کے پاؤں کو اپنی آستین ماری ہو۔ ہم کہیں گے الغمر کی حقیقت ہاتھ مارنا ہے، اسی سے ہے : غمرک الکبش۔ یعنی تو مینڈھے کو روک لیتا ہے تاکہ دیکھے کہ کیا وہ موٹا ہے یا نہیں ؟ آستین کے ساتھ مارنا غمز نہیں کہلاتا، عام طور پر سونے والے آدمی کا پاؤں ظاہر ہوتا ہے خصوصا اس کے پاؤں لمبے کرنے اور اس کو سکیڑنے کی حالت میں، یہی حالت اس وقت بھی تھی، کیا آپ نے حضرت عائشہ کا عمل ملاحظہ نہیں فرمایا کہ جب آپ کھڑے ہوتے تو حضرت عائشہ ؓ ٹانگیں پھیلا دیتیں اور آپ کا قول کہ ” اس وقت گھروں میں چراغ نہیں ہوتے تھے “۔ حضرت عائشہ ؓ سے صراحتۃ مروی ہے فرماتی ہیں میں اپنی ٹانگیں نبی مکرم ﷺ کی سمت کیے ہوئے ہوتی تھی جب کہ آپ ﷺ نماز پڑھ رہے ہوتے تھے، جب آپ سجدہ کرتے تو مجھے اپنا ہاتھ مارتے تو میں ٹانگیں سکیڑ لیتی جب آپ کھڑے ہوتے تو اپنی ٹانگیں پھیلا دیتی، اس کو بخاری نے روایت کیا ہے، اس ظاہر ہوتا ہے کہ غمز حقیقت میں ہاتھ کے ساتھ ہوتا ہے۔ دوسری دلیل یہ ہے کہ حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں : میں نے ایک رات رسول اللہ ﷺ کو بستر پر نہ پایا میں نے آپ کو تلاش کیا تو میرے ہاتھ آپ ﷺ کے قدموں کے بطن پر پڑے جب کہ آپ مسجد (سجدہ) میں تھے اور آپ کے پاؤں سیدھے کھڑے تھے (
3
) (صحیح بخاری، کتاب الصلوۃ جلد
1
، صفحہ
192
) (الحدیث) جب حضرت عائشہ ؓ نے آپ ﷺ کے قدموں پر ہاتھ رکھا جب کہ آپ ﷺ سجدہ میں تھے تو آپ ﷺ نے سجدہ کو لمبا کردیا۔ یہ دلیل ہے کہ وضو نہیں ٹوٹتا مگر بعض چھونے والوں کا۔ اگر یہ کہ جائیگا کہ آپ کے قدموں پر کوئی چیز موجود ہو جیسا کہ مزنی نے کہا ہے تو اس کا جواب یہ ہے کہ قدم، قدم تب کہلاتا ہے جب کوئی چیز حائل نہ ہو حتی کہ حائل ثابت ہوجائے۔ اصل یہی ہے کہ ہر چیز ظاہر پر محمول ہوتی ہے بلکہ جو کچھ ہم نے ذکر کیا ہے اس سے نص کی مانند مواد جمع ہوجاتا ہے، اگر کہا جائے کہ امت کا اجماع ہے کہ اگر کوئی شخص کسی عورت کو مجبور کے اور مرد کی شرمگاہ عورت کی شرمگاہ سے مل جائے جب کہ عورت کو لذت نہ ہوئی ہو یا وہ سوئی ہوئی ہو اور لذت محسوس نہ کرے اور اسے شہوت نہ ہو تب بھی عورت پر غسل واجب ہوتا ہے۔ اسی طرح اس شخص کا حکم ہے جس نے شہوت کے ساتھ بغیر شہوت کے بوسہ دیا یا چھوا تو اس کی طہارت ٹوٹ گئی اور اس پر واضو واجب ہے، کیونکہ ٹٹولنے، چھونے اور بوسہ دینے میں فعل ہے نہ کہ لذت، ہم کہیں گے ہم نے پہلے ذکر کیا ہے کہ اعمش وغیرہ نے اس کی مخالفت کی ہے جس اجماع کا تم نے دعوی کیا تھا ہم اس کو تسلیم کرتے ہیں لیکن یہ اجماع سے استدلال محل نزاع ہے پس یہ لازم نہیں ہوگا اور ہم نے اپنے مذہب کی صحت پر احادیث صحیحہ سے استدلال کیا ہے، امام شافعی (رح) نے کہا : جیسا کہ تم نے کہا ہے کہ اس قول کی طرف پہلے کوئی نہیں گیا، حالانکہ ان کے شیخ امام مالک (رح) کا یہی قول ہے جیسا کہ ہمارے نزدیک مشہور ہے۔ ” جب حدیث صحیح ہے تو تم اس کو لازم پکڑو اور میرے قول کو چھوڑ دو “ جب حدیث اس کے متعلق ثابت ہے تو پھر تم اس کا اقرار کیوں نہیں کرتے پس تمہارے مذہب کے مطابق جو شخص اپنی بیوی کو مارے اور اسے ادب سکھانے کے لیے ہاتھ سے طمانچہ مارے اور اس پر سختی کرنے کے لیے ایسا کرے تو اس کا وضو ٹوٹ جائے گا، کیونکہ مقصود فعل کا وجود ہے، میری معلومات کے مطابق کوئی بھی ایسا نہیں کہتا۔ امام مالک (رح) اور دوسرے ائمہ نے روایت کیا ہے کہ نبی مکرم ﷺ نے اپنی نواسی امامہ بنت ابی العاص کو اپنے کندھے پر اٹھائے ہوئے نماز پڑھی جب آپ رکوع فرماتے تو اسے اتار دیتے اور جب سجدہ سے اٹھتے تو اسے پھر سے اٹھا لیتے (
1
) (مؤطا امام مالک کتاب جامع الصلوۃ، صفحہ
156
) یہ امام شافعی (رح) کے ایک قول کا رد ہے جو انہوں نے کہا ہے کہ اگر کسی نے چھوٹی بچی کو چھوا تو اس کی طہارت ٹوٹ گئی آپ نے النساء کے لفظ سے دلیل پکڑی ہے، یہ ضعیف ہے، کیونکہ چھوڑی بچی کا چھونا دیوار کو چھونے کی مانند ہے اور ذوات المحارم کے بارے میں امام شافعی (رح) کا قول مختلف ہے، کیونکہ اس میں لذت کا اعتبار نہیں کرتے، ہم لذت کا اعتبار کرتے ہیں جہاں لذت پائی جائے گی وہاں حکم پایا جائے گا اور یہ وضو کا وجوب ہے۔ رہا اوزاعی کا قول کہ وہ خاص ہاتھ سے چھونے کا اعتبار کرتے ہیں، کیونکہ چھونا اکثر ہاتھ سے ہوتا ہے، پس اس نے ہاتھ سے چھونے کو خاص کیا ہے دوسرے اعضاء کا اعتبار نہیں کیا حتی کہ اگر کوئی شخص اپنے پاؤں اپنی عورت کے کپڑوں میں داخل کرے اور اس کی شرمگاہ یا اس کے بطن کو مس کرے تو اس سے اس کا وضو نہیں ٹوٹے گا اور جو اپنی بیوی کو بوسہ دیتا ہے اس کے بارے میں فرمایا : اگر وہ مجھ سے مسئلہ پوچھنے کے لیے آئے گا تو میں اسے وضو کرنے کو کہوں گا اور اگر وہ وضو نہیں کرے گا تو میں اس کو عیب نہیں لگاؤں گا، ابو ثور (رح) نے کہا : اس پر وضو نہیں جس نے اپنی بیوی کو بوسہ دیا یا جسم سے جسم لگایا یا اسے چھوا۔ یہ امام ابوحنیفہ (رح) کے مذہب پر مسئلہ تخریج کیا گیا ہے۔ واللہ اعلم۔ مسئلہ نمبر : (
27
) اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے (آیت) ” فلم تجدوا مآئ “۔ یعنی تم وہ اسباب نہ پاؤ جن کے ساتھ مسافر پانی پاتا ہے اور وہ یا تو سارے اسباب نہ پائے یا بعض اسباب نہ پائے یا اسے دوست کے فوت ہونے کا خوف ہو یا پانی طلب کرنے کی صورت میں سواری پر خوف ہو یا اسے چوروں یادرندوں کا خطرہ ہو یا وقت کے فوت ہونے کا خوف ہو یا اپنے اوپر پیاس کا اندیشہ ہو یا دوسروں کی پیاس کا اندیشہ ہو، اسی طرح اسے شوربا کی ضرورت ہو جو وہ اپنیی نفس کی مصلحت کے لیے پکاتا ہے۔ ان مذکورہ صورتوں میں سے کوئی صورت پائی جائے تو وہ تیمم کرے اور نماز پڑھے اور مریض کے لیے پانی کا نہ ہونا سمجھا جائے گا اگر وہ ایسا شخص نہ پائے جو اسے پانی دے یا اسے پانی کے استعمال سے نقصان کا خدشہ ہو اور صحیح مقیم کے لیے پانی کا نہ ہونا سمجھا جائے گا جب کہ وہ بہت مہنگا ملتا ہو اور یہ مہنگائی تمام صورتوں کو شامل ہے یا وہ مقیم شخص قید کیا گیا ہو یا باندھا گیا ہو، حسن نے کہا : آدمی اپنے تمام مال سے پانی کو خریدیی اور خود مال سے محروم رہ جائے، یہ قول ضعیف ہے، کیونکہ دین آسان ہے، ایک گروہ نے کہا : وہ شخص مال کے ساتھ پانی خریدے جب اسے قیمت سے تہائی یا کچھ زائد قیمت نہ دینی پڑے، ایک طائفہ نے کہا : درہم کی قیمت کا پانی دو اور تین دراہم کے ساتھ خریدے، یہ تمام امام مالک (رح) کے مذہب میں اقوال ہیں۔ اشہب سے پوچھا گیا : کیا ایک مشکیزہ دس دراہم میں خریدا جائے گا ؟ انہوں نے کہا : میں لوگوں پر یہ تکلیف نہیں دیکھتا، امام شافعی (رح) نے فرمایا : بغیر زیادہ قیمت کے خریدے۔ مسئلہ نمبر : (
28
) علماء کا اختلاف ہے کہ کیا صحت تیمم میں پانی کا طلب کرنا شرط ہے یا نہیں ؟ امام مالک (رح) کا ظاہر مذہب یہ ہے کہ یہ شرط ہے۔ یہی امام شافعی (رح) کا قول ہے، قاضی ابو محمد بن نصر کا نظریہ ہے کہ پانی طلب کرنا صحت تیمم کے لیے شرط نہیں۔ یہ امام ابوحنیفہ (رح) کا قول ہے، حضرت ابن عمر ؓ سے مروی ہے کہ ان کے راستہ سے دو غلوۃ (
600
سو ہاتھ سے لے کر
800
ہاتھ) تک کے فاصلے پر سفر میں پانی ہوتا تو وہ اپنے راستہ سے نہ پھرتے، اسحاق نے کہا : اس کا مطلب یہ ہے کہ پانی طلب کرنا لازم نہیں مگر اپنی جگہ میں (جہاں وہ ہے) اور انہوں نے حضرت ابن عمر ؓ کی حدیث ذکر کی ہے۔ پہلا قول اصح ہے۔ اور مؤطا میں امام مالک (رح) کا مشہور مذہب ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے۔ (آیت) ” فلم تجدوا مآء “۔ یہ ارشاد تقاضا کرتا ہے کہ تیمم کا استعمال کرنا جائز نہیں مگر پانی طلب کرنے کے بعد اور قیاس کی جہت سے بھی یہی درست ہے، کیونکہ یہ بدل ہے اس کا حکم دیا گیا ہے مبدل سے عجز کی صورت میں اور اس کا فعل جائز نہیں مگر مبدل کے یقینی طور پر نہ ہونے کے ساتھ جس طرح کفارہ میں غلام آزاد کرنے کے ساتھ روزہ ہے۔ مسئلہ نمبر : (
29
) جب یہ ثابت ہوجائے گا اور پانی معدوم ہوگا تو مندرجہ ذیل صورتوں سے خالی نہ ہوگا، مکلف وقت کے اندر پانی ملنے سے مایوس ہوگا یا اسے پانی ملنے کا گمان غالب ہوگا اور اسے پانی ملنے کی قوی امید ہوگی یا دونوں صورتیں برابر ہوں گی، یہ تین احوال ہیں۔ (
1
) اس کے لیے اول وقت میں تیمم کرنا اور نماز پڑھنا مستحب ہے، لیکن جب پانی کی فضیلت فوت ہوگی تو اس کے لیے اول وقت کی فضیلت بچانا مستحب ہے۔ (
2
) وقت کے درمیان تیمم کرے یا امام مالک (رح) کے اصحاب نے امام مالک سے حکایت کیا ہے پس وہ پانی کی فضیلت کے ادراک کی امید پر نماز کو مؤخر کرے جب تک کہ پہلے وقت کی فضیلت فوت نہ ہو، کیونکہ پہلے وقت کی فضیلت درمیانے وقت میں پائی جاسکتی ہے، کیونکہ وہ پہلے وقت کے قریب ہے۔ (
3
) نماز کو آخر وقت میں پانی ملنے تک مؤخر کرے، کیونکہ پانی کی فضیلت اول وقت کی فضیلت سے اعظم ہے، کیونکہ اول وقت کی فضیلت مختلف فیہ ہے اور پانی کی فضیلت متفق علیہ ہے اور اول وقت کی فضیلت کا بغیر ضرورت کے ترک کرنا جائز نہیں اور پانی کی فضیلت کا ترک کرنا ضرورت کے لیے جائز ہے اور اس میں وقت، آخری وقت مختار ہے، یہ ابن حبیب کا قول ہے اگر وقت کرے آخر میں پانی کو پالینا جان لے پھر وقت کی ابتدا میں تیمم کرے اور نماز پڑھ لے تو ابن قاسم نے کہا : یہ جائز ہوگا اگر پانی پالے گا تو وقت میں اعادہ کرے گا، عبدالملک بن الماجشون نے کہا : اگر پانی اس کے بعد پالے گا تو اعادہ کرے گا۔ مسئلہ نمبر : (
30
) اس پانی کے پانے کا اعتبار ہوگا جو طہارت کے لیے کافی ہو، کیونکہ اگر کفایت سے کم پانی پائے تو تیمم کرے اور جو تھوڑا سا پانی پائے اس کو وضو کے لیے استعمال نہ کرے، یہ امام مالک (رح) اور اس کے اصحاب کا قول ہے، امام ابوحنیفہ (رح) اور امام شافعی (رح) کا ایک قول یہی ہے۔ یہ اکثر علماء کا قول ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ایک چیزکو فرض کیا ہے پانی یا مٹی، اگر پانی اتنا نہ ہو تو تیمم سے مستغنی کر دے تو اس پانی کا شرعا موجود نہ ہونا سمجھا جائے گا، کیونکہ اس کے پائے جانے سے مراد اس کا کفایت کرنا، امام شافعی (رح) نے دوسرے قول میں فرمایا : جو پانی موجود ہے اس کو استعمال کرے اور تیمم بھی کرے، کیونکہ وہ پانی پانے والا ہے۔ اور تیمم کی شرط متحقق نہیں ہے، جب وہ اس کو استعمال کر دے گا تو پھر پانی مفقود ہوجائے گا اب وہ پانی نہ پانے والا ہوگا۔ امام شافعی (رح) کا قول اس صورت میں مختلف ہے جب کوئی شخص اپنے کجاوہ میں پانی بھول جائے اور تیمم کرے، صحیح یہ ہے کہ وہ نماز کا اعادہ کرے، کیونکہ جب اس کے پاس پانی موجود تھا تو وہ پانی پانے والا تھا اس نے خود کوتاہی کی ہے اور دوسرا قول یہ ہے کہ وہ نماز کا اعادہ نہ کرے، یہ امام مالک (رح) کا قول ہے کیونکہ اسے معلوم نہ تھا تو اس نے پانی (گویا) پایا ہی نہیں۔ مسئلہ نمبر : (
31
) امام ابوحنیفہ (رح) نے متغیر پانی کے ساتھ وضو کرنا جائز قرار دیا ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : (آیت) ” فلم تجدوا مآئ “۔ (پانی نہ پاؤ) فرمایا : نکرہ نفی کے تحت آیا ہے اور لغت میں یہ عموم پر دلالت کرتا ہے پس یہ متغیر اور غیر متغیر پانی کے ساتھ وضو کے جواز میں مفید ہوگا اس لیے کہ متغیر پانی پر بھی ماء کا اطلاق ہوتا ہے، ہم کہتے ہیں : نکرہ نفی کے تحت عموم پر دلالت کرتا ہے ہم اس کو تسلیم کرتے ہیں جس طرح تم کہتے ہو لیکن جنس میں اور یہ ہر پانی میں عام ہے خواہ وہ آسمان کا پانی ہو یا نہر کا پانی ہو یامیٹھا چشمہ ہو یا نمکین چشمہ ہو لیکن رہا جسن کے علاوہ تو وہ متغیر پانی ہے وہ اس میں داخل نہیں جس طرح بیگن اور پھول کا پانی اس میں داخل نہیں، پانیوں کا حکم سورة فرقان میں آئے گا۔ انشاء اللہ تعالیٰ ۔ مسئلہ نمبر : (
32
) علماء کا اجماع ہے کہ وضو اور غسل پانی کے نہ ہونے کے وقت نبیذ کے علاوہ کسی مشروب سے جائز نہیں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے (آیت) ” فلم تجدوا مآئ، فتیمموا “ اس کا رد کرتا ہے، اور وہ حدیث جس میں نبیذ سے وضو کرنے کا ذکر ہے اس کو حضرت ابن مسعود ؓ نے روایت کیا ہے وہ ثابت نہیں ہے، کیونکہ جو ابو زید نے روایت کیا ہے وہ مجہول ہے، حضرت عبداللہ کی صحبت سے معروف نہیں ہے یہ ابن المنذر (رح) وغیرہ کا قول ہے مزید بیان سورة الفرقان میں آئے گا۔ مسئلہ نمبر : (
33
) وہ پانی جس کی عدم موجودگی تیمم کو مباح کرتی ہے وہ ایسا پانی ہے جو پاک ہو، پاک کرنے والا ہو اور اپنے خلقی اوصاف پر باقی ہو۔ اور بعض علماء جنہوں نے قرآن کے احکام میں تالیفات کیں انہوں نے فرمایا، جب اللہ تعالیٰ نے فرمایا (آیت) ” فلم تجدوا مآئ، فتیمموا “ تو اللہ تعالیٰ نے پانی کے ہر جز کے نہ ہونے کے وقت تیمم مباح فرمایا، کیونکہ یہ لفظ نکرہ ہے پانی کے ہر جز کو شامل ہے خواہ وہ کسی دوسری چیز سے ملا ہوا ہو یا اکیلا ہو، نبیذ تمر کو ماء کہنا ممنوع نہیں جب معاملہ اس طرح ہے تو کسی بھی پانی کے موجود ہوتے ہوئے تیمم جائز نہ ہوگا، یہ امام ابوحنیفہ (رح) اور ان کے اصحاب کا مذہب ہے اور انہوں نے اخبار ضعیفہ سے استدلال کیا ہے جن کا ذکر سورة الفرقان میں آئے گا اور وہاں انشاء اللہ پانی کے متعلق تفصیلی گفتگو ہوگی۔ مسئلہ نمبر : (
34
) اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے (آیت) ” فتیمموا “۔ تیمم اس امت کے ساتھ خاص ہے حضور ﷺ کی امت پر وسعت کے لیے اس کی رخصت دی گئی ہے۔ نبی مکرم ﷺ نے فرمایا ہمیں دوسرے لوگوں پر تین چیزوں کے فضیلت دی گئی ہے۔ (
1
) ہمارے لیے ساری زمین کو سجدہ گاہ بنایا گیا ہے اور اس کی مٹی ہمارے لیے باعث طہارت بنائی گئی ہے۔ “ (
1
) (صحیح مسلم، کتاب المساجد، جلد
1
، صفحہ
199
) آگے مکمل حدیث ذکر کی، اس کے نزول کا ذکر آچکا ہے اور یہ ہار کے سبب سے رخصت ملی تھی جیسا کہ ہم نے پہلے بیان کیا ہے وہ اسباب جو تیمم کو مباح کرتے ہیں ان کا ذکر بھی گزر چکا ہے، یہاں اس کے لغوی اور شرعی معنی، اس کی صفت، اس کا طریقہ اور جن چیزوں کے ساتھ اور جن کے لیے تیمم کیا جائے گا اور کس کے لیے تیمم جائز ہے اور تیمم کی شرائط وغیرہ پر کلام ہوگی۔ تیمم کا لغوی معنی قصد کرنا ہے، تیممت الشیء کا معنی ہے میں نے فلاں کا قصد کیا، تیممت الصعید “ میں نے مٹی کا قصد کیا۔ تیممتہ برمحی وسھی میں نے اپنے نیزے اور تیر کے ساتھ صرف اس کا قصد کیا۔ خلیل نے بطور استشہادی شعر پڑھا ہے : یممتہ الرمح شزرا ثم قلت لہ ھذی البسالہ لالعب الزحالیق : خلیل نے کہا : جس نے اس بیت میں امتہ کہا اس نے غلطی کی، کیونکہ اس نے کہا : شزرا اور الشزر ایک طرف سے ہوتا ہے اس کے ساتھ سامنے کا ارادہ نہیں کیا جاتا۔ امرؤالقیس نے کہا : تیممتھا من اذرعات واھلھا بیثرب ادنی دارھا نظر عال۔ امرء القیس کا دوسرا شعر ہے : تیممت العین التی عند ضارج یفی علیھا الظل عرمضھا طامی (
2
) (المحرر الوجیز، جلد
2
، صفحہ
59
دارالکتب العلمیہ) ایک اور نے کہا : انی کذالک اذا ماساء فی لبد یممت بعیری غیرہ بلدا : اعشی نے کہا : تیممت قیما وکم دونہ من الارض من مھمۃ ذی شزن : (
3
) (المحرر الوجیز، جلد
2
، صفحہ
59
دارالکتب العلمیہ) حمید بن ثور نے کہا : سل الریع انی یممت ام طارق وھل عادۃ للربع ان یتکلما : امام شافعی (رح) نے فرمایا : علمی معی حیثما یممت احملہ بطنی وعاء لہ لابطن صندوق : ان تمام اشعار میں تیممت کا معنی قصد کرنا ہے۔ ابن السکیت نے کہا : اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے (آیت) ” فتیممواصعیدا طیبا “۔ یعنی تم قصد کرو، پھر اس کلمہ کا استعمال بہت زیادہ ہوگیا حتی کہ تیمم چہرے اور ہاتھوں کا مٹی سے مسح کرنے کے لیے استعمال ہونے لگا، ابن الانباری نے کہا : عربوں کے قول میں تیمم الرجل کا معنی ہے مٹی سے چہرے اور ہاتھوں کا مسح کرنا۔ میں کہتا ہوں : یہ تیمم شرعی ہے جب اس سے قربت مقصود ہو۔ یممت المریض فتیمم للصلاۃ، رجل میمم۔ وہ شخص جو طلب کرے اس میں کامیاب ہوجائے، شیبانی سے مروی ہے۔ : انا وجدنا اعصر بن سعد میمم البیت رفیع المجد : ایک اور شاعر نے کہا : ازھر لم یولد بنجم الشح میمم البیت کریم السنح : مسئلہ نمبر : (
35
) لفظ تیمم کو اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں سورة بقرہ میں، سورة مائدہ میں اور اس سورة میں ذکر کیا ہے اور اس سورة میں یہ آیۃ التیمم ہے، قاضی ابوبکر ابن العربی نے کہا : یہ ایک مشکل مسئلہ ہے، میں نے کسی کے پاس اس کا حل نہیں پایا یہ دو آیتیں ہیں ان میں تیمم کا ذکر ہے، ایک سورة النساء میں ہے اور دوسری مائدہ میں ہے ہمیں معلوم نہیں حضرت عائشہ نے اپنے قول انزل اللہ آیۃ التیمم سے کونسی آیت مراد لی ہے۔ پھر فرمایا : حضرت عائشہ ؓ کی حدیث دلالت کرتی ہے کہ تیمم اس سے پہلے معلوم نہ تھا اور نہ صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین اس پر عمل کرتے تھے۔ میں کہتا ہوں : ابوبکر ابن عربی (رح) کا یہ قول کہ ہم نہیں جانتے کہ حضرت عائشہ ؓ نے کون سی آیت مراد لی ہے، یہ یہی آیت ہے جیسا کہ ہم نے ذکر کیا ہے۔ واللہ اعلم۔ قاضی کا یہ کہنا کہ اس کی حدیث دلالت کرتی ہے کہ اس سے پہلے تیمم معلوم نہ تھا اور اس پر عمل نہ تھا، یہ صحیح ہے سیرت نگاروں میں اس میں کوئی اختلاف نہیں، کیونکہ یہ معلوم ہے کہ غسل جنابت وضو سے پہلے فرض نہ تھا جس طرح کہ تمام سیرت نگاروں کی ہاں معلوم ہے کہ نبی مکرم ﷺ پر جب نماز مکہ میں فرض ہوئی تو آپ نے آج کے وضو کی طرح وضو کر کے نماز پڑھی پس یہ دلیل ہے کہ وضو کی آیت نازل ہوئی، کیونکہ اس کا پہلا فرض قرآن میں متصل ہے اور فرمایا کہ آیت التیمم نازل ہوئی، آیت الوضوء نہیں فرمایا، یہ بیان ہے کہ اس وقت جوان کو علم ہوا وہ تیمم کا حکم تھا نہ کہ وضو کا حکم تھا یہ بالکل واضح ہے اس میں کوئی اشکال نہیں ہے۔ مسئلہ نمبر : (
36
) تیمم ہر مکلف پر لازم ہوتا ہے جس پر نماز لازم ہوتی ہے جب پانی نہ ہو اور نماز کا وقت داخل ہوجائے، امام ابوحنیفہ اور صاحبین اور مزنی جو امام شافعی (رح) کے پیروکار ہیں فرماتے ہیں : وقت سے پہلے بھی تیمم کرنا جائز ہے، کیونکہ ان کے نزدیک پانی کا طلب کرنا شرط نہیں ہے یہ انہوں نے نوافل پر قیاس کرتے ہوئے کہا ہے، جب پانی تلاش کیے بغیر نوافل کے لیے تیمم کرنا جائز ہے تو فرائض کے لیے بھی جائز ہے اور ان علماء نے حدیث سے استدلال کیا ہے نبی کریم ﷺ نے حضرت ابو ذر ؓ سے فرمایا : ” پاکیزہ مٹی مسلمان کا وضو ہے اگرچہ دس سال بھی پانی نہ پائے (
1
) (سنن دارقطنی، کتاب التیمم، جلد
1
صفحہ
187
) نبی مکرم ﷺ نے مٹی کو وضو کہا ہے جس طرح پانی کو وضو کہا جاتا ہے پس تیمم کا حکم پانی کا حکم ہے۔ اور ہماری دلیل اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : (آیت) ” فلم تجدوا ماء “۔ اور یہ نہیں کہا جاتا، اس نے پانی نہیں پایا مگر جو طلب کرے اور پانی نہیں پایا مگر جو طلب کرے اور پانی نہ پائے، یہ مفہوم پہلے گزر چکا ہے، تیمم ضرورۃ طہارت ہے جس طرح مستحاضہ ہوتی ہے، کیونکہ نبی مکرم ﷺ نے فرمایا ” جہاں تجھے نماز کا وقت ہوجائے تیمم کرلے اور نماز پڑھ لے “ (
1
) یہ امام شافعی (رح) اور امام احمد (رح) کا قول ہے یہی حضرت علی ؓ ، حضرت ابن عمر ؓ اور حضرت ابن عباس ؓ سے مروی ہے۔ مسئلہ نمبر : (
37
) علماء کا اجماع ہے کہ تیمم جنابت اور حدث کو نہیں اٹھاتا ہے، جنابت اور حدث کے لیے تیمم کرنے والا جب پانی پالے گا تو پھر جنبی یا محدث شمار ہوجائے گا جس طرح پہلے تھا، کیونکہ نبی مکرم ﷺ نے حضرت ابوذر ؓ سے فرمایا : ” جب تو پانی پائے تو اپنی جلد پر پانی بہا “۔ (
2
) مگر ایک چیز جو ابو سلمہ بن عبدالرحمن ؓ سے مروی ہے اسے ابن جریج اور عبدالحمید بن جبیر بن شیبہ نے ان سے روایت کیا ہے اور ابن ابی ذئب نے عبدالرحمن بن حرملہ سے اور انہوں نے بھی ان سے روایت کی ہے انہوں نے فرمایا : جنبی تیمم پانی پا لے تو بھی طہارت پر ہوتا ہے وہ نہ غسل کا محتاج ہے، نہ وضو کا حتی کہ اسے حدث لاحق ہوجائے۔ ابو سلمہ سے اس شخص کے بارے میں مروی ہے جو تیمم کرے اور نماز پڑھے پھر وقت میں پانی پالے تو وہ وضو کرے اور نماز کا اعادہ کرے۔ ابن عبدالبر نے کہا : یہ تناقض ہے اور قلت رویت ہے، ابو سلمہ ان کے نزدیک اس طرح فقیہ نہ تھے جس طرح مدینہ کے تابعین فقیہ تھے۔ مسئلہ نمبر : (
38
) علماء کا اجماع ہے کہ جس نے تیمم کیا پھر نماز میں داخل ہونے سے پہلے پانی پالیا تو اس کا تیمم باطل ہوجائے گا اور اس پر پانی کا استعمال واجب ہوگا، جمہور علماء فرماتے ہیں : جس نے تیمم کیا اور نماز پڑھی اور نماز سے فارغ ہوا جب کہ اس نے پانی کی تلاش میں کوشش کی تھی اور اس کی ہواری میں بھی پانی نہ تھا تو اس کی نماز مکمل ہے، کیونکہ اس نے فرض ادا کیا جس طرح اس کا حکم دیا گیا تھا پس اس پر اعادہ کا بغیر حجت کے واجب کرنا جائز نہیں، بعض علماء کا نظریہ یہ ہے کہ جب وضو کرے اور غسل کرے تو وقت کے اندر اعادہ کرنا مستحب ہے، طاوؤس، عطاء قاسم بن محمد، ابن سیرین، زہری، رحمۃ اللہ علیہم اور ربیعۃ یہ تمام علماء فرماتے ہیں : نماز کا اعادہ کرے، اوزاعی نے بھی اس کو مستحب قرار دیا ہے۔ انہوں نے فرمایا : نماز کا اعادہ واجب نہیں ہے، کیونکہ حضرت ابو سعید خدری ؓ سے مروی ہے فرمایا : دو آدمی ایک سر پر نکلے نماز کا وقت ہوگیا ان کے ساتھ پانی نہیں تھا ان دونوں نے پاک مٹی سے تیمم کیا اور نماز پڑھی پھر وقت کے اندر پانی پالیا پس ان میں سے ایک نے نماز کا وضو کر کے اعادہ کیا اور دوسرے نے اعادہ نہ کیا پھر وہ دونوں رسول اللہ ﷺ کے پاس آئے اور اپنا مسئلہ ذکر کیا، آپ ﷺ نے نماز کا اعادہ نہ کرنے والے کو کہا : تو ” سنت کو پہنچا اور تیری نماز درست ہے “ اور جس نے وضوکر کے نماز کا اعادہ کیا تھا اسے فرمایا : ” تیرے لیے دوہرا اجر ہے “۔ (
3
) (ایضا جلد
1
، صفحہ
189
) اس حدیث کو ابو داؤد نے نقل کیا ہے اور فرمایا : ابن نافع کے علاوہ نے یہ حدیث لیث سے انہوں نے عمیرہ بن ابی ناجیۃ سے انہوں نے بکر بن سوداہ سے انہوں نے عطا سے انہوں نے نبی کریم ﷺ سے روایت کی ہے، حضرت ابو سعید (رح) کا ذکر اس حدیث میں محفوظ نہیں ہے دارقطنی نے اس حدیث کو نقل کیا ہے اور اس میں فرمایا : پھر وقت میں بعد میں پانی پالیا (
1
) ۔ مسئلہ نمبر : (
39
) علماء کا اختلاف ہے جب نماز میں داخل ہونے کے بعد پانی پالے، امام مالک (رح) نے فرمایا : اس پر نماز کا توڑنا اور پانی کا استعمال کرنا واجب نہیں، بلکہ وہ اپنی اس نماز کو مکمل کرے اور آئندہ نماز کے لیے وضو کرے، امام شافعی (رح) نے بھی یہی فرمایا ہے۔ ابن المنذر (رح) نے اس کو اختیار فرمایا ہے۔ امام ابوحنیفہ (رح) اور احمد بن حنبل اور مزنی کو قول ہے کہ وہ نماز کو توڑ دے اور وضو کرے اور پانی کے پائے جانے کی وجہ سے نماز کو نئے سرے سے شروع کرے اور ان کی حجت یہ ہے کہ تیمم جس طرح نماز سے پہلے پانی کی موجودگی کی وجہ سے باطل ہوجاتا ہے اسی طرح بقیہ نماز بھی پانی کے وجود کی وجہ سے باطل ہوجائے گی، جب بعض نماز باطل ہوگئی تو تمام نماز باطل ہوگئی، کیونکہ علماء کا اجماع ہے وہ عورت جو مہینوں کے ساتھ عدت گزار رہی ہو اور اس کی تھوڑی سی عدت باقی ہو پھر اسے حیض آجائے تو اپنی عدت نئے سرے سے حیض کے ساتھ گزارے گی، یہ علماء فرماتے ہیں : جس کو پانی میسر آجائے جب کہ وہ نماز میں ہو تو اس کے لیے بھی قیاسا اور نظرا یہی حکم ہے یعنی نئے سرے سے نماز پڑھے اور ہماری دلیل اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : (آیت) ” ولا تبطلوا اعمالکم “۔ (محمد) (اپنے اعمال کو باطل نہ کرو) اور پانی کی عدم موجودگی کے وقت تیمم کے ساتھ نماز میں داخل ہونے کے جواز پر علماء کا اتفاق ہے اور نماز توڑنے میں اختلاف ہے جب پانی دیکھا جائے اور نماز کا توڑنا نہ تو سنت ثابت کرتی ہے نہ اجماع، اور کبھی حجت میں سے یہ بھی ہے کہ جس پر ظہار میں یا قتل میں روزہ واجب ہو پھر وہ اکثر روزے رکھ چکا ہو پھر وہ غلام پالے تو اس کے روزے لغو نہ ہوں گے اور نہ غلام آزاد کرنے کی طرف رجوع کرے گا اسی طرح جو تیمم کے ساتھ نماز میں داخل ہو تو وہ ونہ نماز کو توڑے گا اور نہ پانی کے ساتھ وضو کی طرف رجوع کرے گا۔ مسئلہ نمبر : (
40
) علماء کا اختلاف ہے کیا ایک تیمم کے ساتھ بہت سی نمازیں پڑھ سکتا ہے یا ہر نماز فرض اور نفل کے لیے تیمم لازم ہے، ؟ شریک بن عبداللہ القاضی ؓ نے کہا : ہر نفلی اور فرضی نماز کے لیے تیمم کرے۔ اور امام مالک نے فرمایا : ہر فرض کے لیے تیمم کرے، کیونکہ اس پر ہر نماز کے لیے پانی تلاش کرنا ضروری ہے اور جو پانی تلاش کرے اور اسے نہ پائے تو وہ تیمم کرے، امام ابوحنیفہ، ثوری، لیث، حسن بن حی اور داؤد رحمۃ اللہ علیہم نے فرمایا : ایک تیمم کے ساتھ جتنی نمازیں چاہیے پڑھ سکتا ہے جب تک کہ اسے حدث لاحق نہ ہو، کیونکہ وہ پاک ہے جب تک کہ وہ پانی نہ پائے اور اس پر پانی طلب کرنا واجب نہیں جب وہ پانی سے مایوس ہوچکا ہو، اور جو ہم نے کہا ہے : وہ اصح ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ہر نماز قائم کرنے والے پر پانی کا طلب کرنا واجب کیا ہے اور اس کے نہ ہونے کی صورت میں وقت نکلنے سے پہلے نماز کی استباحت کے لیے تیمم کو واجب کیا ہے، یہ طہارت ضروریہ ناقصہ ہے کیونکہ مسلمانوں کا اجماع ہے کہ پانی کے پائے جانے کے وقت تیمم باطل ہوجاتا ہے اگرچہ اسے حدث لاحق نہ بھی ہو، جب کہ پانی کی طہارت ایسی نہیں ہے، وقت کے داخل ہونے سے پہلے تیمم کے جواز میں بھی اختلاف ہے، امام شافعی (رح) اور پہلے مقالہ والے اس کو جائز قرار نہیں دیتے، کیونکہ جب اللہ تعالیٰ نے فرمایا (آیت) ” فلم تجدوا مآء فتیمموا “۔ اس سے تیمم کا جواز حاجت سے ثابت ہو اور وقت سے پہلے کوئی حاجت نہیں ہے، اس بنا پر ایک تیمم کے ساتھ دو فرض نہیں پڑھے گا، یہ واضح ہے۔ ہمارے علماء کا اختلاف ہے اس شخص کے بارے میں جس نے ایک تیمم کے ساتھ دو نمازیں پڑھیں، یحییٰ بن یحییٰ نے ابن القاسم سے روایت کیا ہے کہ وہ دوسری نماز کا اعادہ کرے جب تک وقت کے اندر ہے، ابو زید بن ابی الغمر (رح) نے ان سے روایت کیا ہے کہ وہ ہر صورت میں اعادہ کرے گا، اسی طرح مطرف، ابن ماجشون (رح) سے مروی ہے کہ وہ ہر صورت میں دوسری نماز کا اعادہ کرے گا اس پر ہمارے علماء جھگڑتے ہیں، کیونکہ پانی کا طلب کرنا شرط ہے، ابن عبدوس نے ذکر کیا ہے کہ نافع نے امام مالک (رح) سے اس شخص کے متعلق روایت کیا ہے جو دو نمازوں کو جمع کرتا ہے کہ وہ ہر نماز کے لیے علیحدہ تیمم کرے، ابو الفرج نے اس شخص کے بارے فرمایا : جس نے اپنی بہت سی نمازیں یاد کیں پھر اگر وہ انہیں ایک تیمم کے ساتھ قضا کرے تو اس پر کوئی حرج نہیں اور یہ اس کے لیے جائز ہے، یہ اس لیے کہ پانی کا طلب کرنا شرط نہیں، پہلا قول اصح ہے۔ واللہ اعلم۔ مسئلہ نمبر : (
41
) اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے (آیت) ” صعیدا طیبا “۔ ، صعید زمین کی اس سطح کو کہتے ہیں جس پر مٹی ہو یا نہ ہو، یہ خلیل، ابن الاعربی اور زجاج کا قول ہے، اس کے متعلق اہل لغت کا کوئی اختلاف میں نہیں جانتا، اللہ تعالیٰ نے فرمایا : (آیت) ” انا لجعلون ما علیھا صعیدا جرزا “۔ (الکہف) یعنی ایسی سخت زمین جو کوئی چیز نہ اگاتی ہو اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا : (آیت) ” فتصبح صعیدا زلقا “۔ (الکہف) اسی سے ذوالرمہ کا قول ہے : کانہ بالضحی ترمی الصعید بہ دبابۃ فی عظام الراس خرطوم : (
1
) (المحرر الوجیز، جلد
2
، صفحہ
59
دارالکتب العلمیہ) اس کو صعید کہا جاتا ہے، کیونکہ وہ زمین کی بلند جگہ ہوتی ہے، الصعید کی جمع صعدات ہے، اسی سے حدیث شریف ہے ایاکم والجلوس فی الصعدات راستوں پر بیٹھنے سے بچو۔ الصعید کو طیب سے مقید کرنے کی وجہ سے اس میں اختلاف ہے، ایک جماعت کا نظریہ ہے کہ زمین کی ہر سطح کے ساتھ تیمم کرنا جائز ہے خواہ وہ مٹی ہو یا رات ہو یا پتھر ہو یا کان ہو یا شوریلی ہو۔ یہ امام مالک، امام ابو حنیفہ، ثوری اور طبری رحمۃ اللہ علیہم کا مذہب ہے اور طیبا کا معنی پاک ہے ایک، فرقہ نے کہا : ” طیبا “ کا معنی حلال ہے، یہ تشویش کن قول ہے، امام شافعی (رح) اور امام ابو یوسف (رح) نے فرمایا : الصعید سے مراد وہ مٹی ہے جو اگاتی ہے وہ طیب ہے اللہ تعالیٰ نے فرمایا : (آیت) ” والبلد الطیب یخرج نباتہ باذن ربہ “۔ (الاعراف :
58
) ان علماء کے نزدیک اس کے علاوہ مٹی کے ساتھ تیمم جائز نہیں امام شافعی (رح) نے فرمایا : الصعید “۔ کے لفظ کا اطلاق صرف ایسی مٹی پر ہوتا ہے جو غبار والی ہو عبدالرزاق ؓ نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا ہے کہ ان سے پوچھا گیا کون سی مٹی پاک ہے ؟ فرمایا : الحرث (کھیت) ابو عمر ؓ نے فرمایا : حضرت ابن عباس ؓ کے قول میں دلیل ہے کہ الصعید سے مراد کھیت کی زمین کے علاوہ جگہ ہے۔ حضرت علی ؓ نے فرمایا : خاص طور پر مٹی ابن عباس کے قول میں دلیل ہے کہ الصعید سے مراد کھیت کی زمین کے علاوہ جگہ ہے۔ حضرت علی ؓ نے فرمایا : خاص طور پر مٹی مراد ہے خلیل کی کتاب میں ہے تیمم بالصعید یعنی اس کے غبار سے لو۔ یہ ابن فارس نے حکایت کیا ہے، یہ قول مٹی کے ساتھ تیمم کرنے کا تقاضا کرتا ہے، سخت پتھر پر غبار نہیں ہوتا، الکیاطبری نے فرمایا : امام شافعی (رح) نے شرط قرار دیا ہے کہ مٹی ہاتھ سے لگے اور اس کے ساتھ تیمم کی طرف اسے نقل کرے، جس طرح پانی اعضاء وضو کی طرف نقل کیا جاتا ہے، ال کیا نے کہا : اس میں کوئی شک نہیں کہ لفظ الصعید امام شافعی کے قول میں نص نہیں مگر رسول اللہ ﷺ کا ارشاد جعلت لی الارض مسجدا وتربھا طھورا (
1
) (جامع ترمذی کتاب الصلوۃ جلد
1
، صفحہ
43
) نے اس کو بیان فرمایا : میں کہتا ہوں : اس مقالہ والوں نے نبی مکرم ﷺ کے اس ارشاد سے استدلال کیا ہے ” وجعلت ترب تھا لنا طھورا (
2
) (صحیح مسلم، کتاب المساجد، جلد
1
، صفحہ
199
) یہ علماء فرماتے ہیں : اس کا تعلق مطلق اور مقید کے باب سے ہے، حالانکہ ایسا نہیں بلکہ یہ عموم کے بعض اشخاص پر نص کے باب سے ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا (آیت) ” فیھما فاکھۃ ونخل ورمان “۔ (الرحمن) ہم نے سورة بقرہ میں (آیت) ” وملئکتہ ورسلہ وجبریل ومیکئل “۔ (بقرہ :
98
) کے تحت اس بحث کو ذکر کیا ہے۔ اہل لغت نے حکایت کیا ہے کہ الصعید سطح زمین کا نام ہے جس طرح کہ ہم نے ذکر کیا ہے، یہ قرآن کی نص ہے جیسا کہ ہم نے بیان کیا ہے، اللہ تعالیٰ کے بیان کے بعد کوئی بیان نہیں رسول اللہ ﷺ نے جنبی کے بارے میں فرمایا ’ ” علیک بالصعید فانہ یکفیک “۔ (
3
) (صحیح بخاری، کتاب التیمم جلد
1
، صفحہ
49
) تجھ پر مٹی سے تیمم کرنا لازم ہے وہ تیرے لیے کافی ہے۔ اسی بناء پر صعیدا ظرف مکان ہوگا اور جنہوں نے اس کو مٹی کے لیے بنایا ان کے نزدیک باء کے حذف کی تقدیر کے ساتھ مفعول بہ ہے۔ یعنی بصعید اور طیبا اس کی صفت ہے اور جنہوں نے ” طیبا “ بمعنی حلال کیا ہے انہوں نے اسے حال یا مصدر کی بناء پر منصوب کہا ہے۔ مسئلہ نمبر : (
42
) جب یہ مسلم ہوگیا تو جان لو کہ جو ہم نے ذکر کیا ہے اس میں سے جامع بات یہ ہے کہ آدمی ایسی مٹی پر تیمم کرے جو اگانے والی ہو، پاک ہو، منقول اور مغصوب نہ ہو اور منع میں اجماع یہ ہے آدمی خالص سونے، چاندی، یاقوت، زمرد اور کھانے والی چیزوں، روٹی، گوشت وغیرہ پر یا نجاسات پر تیمم نہ کرے اس کے علاوہ میں اختلاف ہے جیسے معدن (کانیں) بعض علماء نے ان پر تیمم جائز قرار دیا، یہی امام مالک (رح) وغیرہ کا مذہب ہے اور بعض نے منع فرمایا، یہ امام شافعی وغیرہ کا مذہب ہے، ابن خویز منداد نے فرمایا : امام مالک کے نزدیک گھاس پر تیمم جائز ہے جب کہ وہ زمین سے جدا ہو اور برف پر تیمم کرنے کے بارے میں امام مالک سے مختلف قول مروی ہے، مدونہ اور مبسوط میں اس کا جواز مروی ہے اور دوسری کتب میں منع مروی ہے، لکڑی پر تیمم کرنے کے بارے میں مذاہب مختلف ہیں، جمہور علماء منع فرماتے ہیں اور ” مختصر الوقار “۔ میں ہے کہ جائز ہے، بعض علماء نے فرمایا : زمین سے متصل اور منفصل لکڑی کے بارے میں فرق ہے متصل پر جائز ہے اور منفصل پر جائز نہیں، ثعلبی نے کہا : امام مالک (رح) نے فرمایا : اگر درخت پر ہاتھ مارا پھر اس سے مسح کیا تو جائز ہوگا، فرمایا : اوزاعی اور ثوری نے کہا : زمین پر اور ہر اس چیز پر جو زمین پر ہے تیمم جائز ہے خواہ وہ درخت ہو، پتھر ہو روڑا وغیرہ ہو حتی کہ ان دونوں حضرات نے کہا : اگر برف اور اولوں پر بھی تیمم کیا تو جائز ہوگا، ابن عطیہ (رح) نے کہا : منقول مٹی کے بارے میں جمہور کا فتوی جواز پر ہے اور المذہب میں منع ہے، اور غیر المذہب میں یہ زیادہ ہے۔ رہا وہ جو پکایا گیا ہو جیسے کا نچ، پکی اینٹ اس کے بارے میں مذہب میں دو قول ہیں اجازت اور منع، اور دیوار پر تیمم کے بارے اختلاف ہے (
4
) (صحیح بخاری، کتاب التیمم جلد
1
، صفحہ
60
) میں کہتا ہوں صحیح جواز ہے، کیونکہ ابو جہیم بن حارث بن ضمہ انصاری کی حدیث میں ہے رسول اللہ ﷺ بئر جل سے تشریف لائے آپ کو ایک شخص ملا اس نے آپ پر سلام کیا، نبی کریم ﷺ نے جواب نہ دیا حتی کہ آپ دیوار کے پاس آئے اور اپنے چہرے اور اپنے ہاتھوں پر مسح کیا پھر سلام کا جواب دیا (
1
) (صحیح بخاری، کتاب التیمم جلد
1
، صفحہ
48
) اس حدیث کو بخاری نے روایت کیا ہے، یہ بغیر مٹی کے تیمم کی صحت پر دلیل ہے جس طرح امام مالک (رح) اور ان کے موافق علماء نے کہا اور یہ رد ہے امام شافعی (رح) اور ان کے موافق علماء کا جو کہتے ہیں کہ جس چیز پر مسح کیا جائے گا وہ غبار والی پاک مٹی ہوگی جو ہاتھ کے ساتھ لگے گی نقاش نے ابن علیہ اور ابن کیسان سے روایت کیا ہے کہ وہ دونوں کستوری اور زعفران کے ساتھ تیمم کو جائز قرار دیتے تھے، ابن عطیہ نے کہا : یہ کئی جہات سے خالص خطا ہے۔ (
2
) (المحرر الوجیز، جلد
2
، صفحہ
60
دارالکتب العلمیہ) ابو عمر ؓ نے کہا : علماء کی جماعت شوریلی زمین پر تیمم کی اجازت دیتی ہے مگر اسحاق بن راہویہ اس کی اجازت نہیں دیتے، حضرت ابن عباس سے اس شخص کے بارے مروی ہے جس کو تیمم کی ضرورت تھی، جب کہ وہ گیلی مٹی پر ہے فرمایا : وہ گیلی مٹی میں سے کچھ لے لے اسے اپنے جسم کے کسی حصہ پر مل لے پھر جب وہ خشک ہوجائے تو اس سے تیمم کرلے، ثوری اور امام احمد (رح) نے کہا : نمدہ کے غبار سے تیمم کرنا جائز ہے، ثعلبی (رح) نے کہا : امام ابوحنیفہ (رح) نے سرمہ، ہڑتال، چونا حص پسے ہوئے جوہر سے تیمم جائز قرار دیا ہے، جب سونے، چاندی، تانبا نحاس اور شیشہ کے برادہ سے تیمم کرے تو جائز نہ ہوگا۔ کیونکہ وہ زمین کی جنس سے نہیں ہے۔ مسئلہ نمبر : (
43
) اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے (آیت) ” فامسحوا بوجھکم وایدیکم “۔ مس لفظ مشترک ہے جماع کے معنی میں بھی ہوتا ہے، کہا جاتا ہے : مسح الرجل المراۃ، مرد نے عورت سے جماع کیا، اور مسح الشیء بالسیف “۔ چیز کو تلوار سے کاٹا، مسحت الابل یومھا، اونٹ پورا دن چلا، المساء ایسی عورت جس کی سرین نہ ہو، بفلان مسحۃ من جمال، جمال والا شخص، یہاں مسح سے مراد ممسوح چیز پر ہاتھ کو کھینچنا۔ اگر وہ آلہ کے ساتھ ہو تو اس سے مراد آلہ کو ہاتھ کی طرف نقل کرنا اور پھر ممسوح چیز پر اسے کھینچنا، سورة مائدہ کی آیت (آیت) ” فامسحوا بوجھکم وایدیکم منہ “۔ (المائدہ :
6
) سے یہی مراد ہے، اور منہ کا قول دلیل ہے کہ محل تیمم کی طرف مٹی کا نقل کرنا ضروری ہے اور یہ امام شافعی کا مذہب ہے اور ہم یہ شرط نہیں لگاتے، کیونکہ نبی مکرم ﷺ جب اپنے ہاتھ زمین پر رکھتے تھے اور پھر انہیں اٹھاتے تھے تو ہاتھوں پر پھونک مارتے تھے، ایک روایت میں نفخ (پھونک مارنا) کی جگہ نفض (جھاڑنا) ہے یہ دلیل ہے کہ آلہ شرط نہیں ہے اور آپ کا دیوار پر تیمم اس کی وضاحت کرتا ہے، امام شافعی (رح) نے فرمایا : جب پانی کے ساتھ سر کا مسح کرنا ضروری ہے جس میں پانی کی تری کو سر کی طرف نقل کیا جاتا ہے تو اس طرح مٹی سے مسح کرنے کے وقت مٹی کا نقل کرنا بھی ضروری ہو۔ اس میں کوئی اختلاف نہیں کہ تیمم اور وضو میں چہرے کا حکم اس کو ڈھانپ لیتا ہے اور ہر ہر جگہ کی تلاش ہے، بعض نے جائز قرار دیا ہے کہ ہر ہر جگہ پر ہاتھ مسح میں پہنچانا ضروری نہیں جس طرح خفین پر مسح کے وقت دراڑوں کا حکم ہے اور جو حصہ انگلیوں کے درمیان ہے، یہ المذہب میں محمد بن مسلمہ کا قول ہے۔ ابن عطیہ نے اس کو حکایت کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : (آیت) ” بوجھکم وایدیکم “۔ ہاتھوں سے پہلے چہرے کا مسح کرے یہی جمہور کا قول ہے۔ بخاری نے باب التیمم ضربۃ میں عمار کی حدیث لکھی ہے اس میں چہرے سے پہلے ہاتھوں کا ذکر ہے۔ بعض اہل علم نے وضو کی تنکیس (الٹ کرنا) پر قیاس کرتے ہوئے یہ قول کیا ہے (
1
) (المحرر الوجیز، جلد
2
، صفحہ
60
دارالکتب العلمیہ) ۔ مسئلہ نمبر : (
44
) علماء کا اختلاف ہے کہ ہاتھوں میں تیمم کہاں تک کرے ؟ ابن شہاب نے کہا : کندھوں تک کرے، حضرت ابوبکرصدیق ؓ سے مروی ہے، مصنف ابو داؤد میں اعمش سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے نصف ذراع (بازو) تک مسح کیا (٭) (سنن ابن داؤد، حدیث نمبر
275
، ضیاء القرآن پبلی کیشنز) ۔ ابن عطیہ نے کہا : میری یادداشت میں کسی نے بھی یہ نہیں کہا ہے۔ (
2
) (المحرر الوجیز، جلد
2
، صفحہ
60
دارالکتب العلمیہ) ۔ بعض علماء نے وضو پر قیاس کرتے ہوئے کہنیوں تک مسح کرنے کو کہا ہے یہ امام ابوحنیفہ (رح) امام شافعی (رح) اور ان دونوں کے اصحاب، ثوری، ابن ابی سلمہ اور لیث کا قول ہے تمام کہنیوں تک مسح کرنے کو فرض، واجب خیال کرتے ہیں۔ محمد بن عبداللہ بن عبداللہ بن عبدالحکم اور ابن نافع کا یہی قول ہے۔ اسماعیل القاضی کا یہی نظریہ ہے، ابن نافع نے کہا : جس نے ہاتھ کی کلائی تک تیمم کیا وہ ہر حال میں نماز کا اعادہ کرے۔ امام مالک نے مدونہ میں کہا ہے : وقت کے اندر اعادہ کرے۔ کہنیوں تک تیمم کو نبی کریم ﷺ سے حضرت جابر بن عبداللہ، حضرت ابن عمر ؓ نے روایت کیا ہے، اور حضرت ابن عمر ؓ یہی کہتے تھے۔ دارقطنی نے کہا : قتادہ ؓ سے سفر میں تیمم کے بارے میں پوچھا گیا تو انہیں نے فرمایا : حضرت ابن عمر کہنیوں تک تیمم کرنے کو کہتے تھے، حسن اور ابراہیم نخعی دونوں کہنیوں تک مسح پوچھا گیا تو انہوں نے فرمایا : حضرت ابن عمر کہنیوں تک تیمم کرنے کو کہتے تھے۔ حسن اور ابراہیم نخعی دونوں کہنیوں تک مسح کرنے کا کہتے تھے، فرمایا : مجھے ایک محدث نے شعبی (رح) سے انہوں نے عبدا الرحمن بن ابزی سے انہوں نے حضرت عمار بن یاسر سے روایت کر کے بتایا کہ رسول اللہ ﷺ نے کہنیوں تک مسح کرنے کو فرمایا :۔ ابو اسحاق نے کہا : میں نے اس کو ذکر امام احمد بن حنبل (رح) سے کیا تو انہوں نے اس سے تعجب ہوا اور فرمایا : یہ کتنا خوبصورت قول ہے۔ (
3
) (سنن دارقطنی، کتاب التیمم جلد
1
، صفحہ
182
) ، ایک جماعت نے کہا : وہ کلائیوں تک مسح کرے، حضرت علی بن ابی طالب اوزاعی، عطاء رحمۃ اللہ علیہم ایک روایت میں شعبی (رح) سے یہی مروی ہے۔ امام احمد بن حنبلرحمۃ اللہ علیہ، اسحاق بن راہویہ، داؤد بن علی اور طبری رحمۃ اللہ علیہم نے بھی یہی کہا ہے۔ امام مالک (رح) سے یہی مروی ہے اور امام شافعی (رح) کا قدیم قول یہی ہے اور مکحول نے کہا : میں اور زہری جمع ہوئے ہم نے تیمم پر گفتگو کی زہری نے کہا : بغلوں تک مسح ہے، میں نے پوچھا : تم نے یہ کہاں سے لیا ہے ؟ اس نے کہا : کتاب اللہ سے، اللہ تعالیٰ نے فرمایا : (آیت) ” فامسحوا بوجھکم وایدیکم “۔ یہ پورا ہاتھ ہے، میں نے کہا : اللہ تعالیٰ نے فرمایا (آیت) ” والسارق والسارقۃ فاقطعوا ایدیھما “۔ (المائدہ
98
) چور کا ہاتھ کہاں سے کاٹا جائے گا ؟ اس نے کہا : کنارہ سے، دراودی نے حکایت کیا جاتا ہے کہ کلائیوں تک مسح کرنا فرض ہے اور بغلوں تک فضیلت ہے، ابن عطیہ نے کہا : یہ ایسا قول ہے جس کی نہ قیاس تائید کرتا ہے اور نہ دلیل۔ ایک قوم نے لفظ ید کو عام کیا اور کندھے تک مسح کو واجب کیا، ایک قوم نے وضو پر قیاس کیا اور انہوں نے کہنیوں تک مسح کو واجب کیا، یہی جمہور علماء امت کا قول ہے، ایک قوم حدیث کے باوجود کلائیوں تک مسح کرنے کو کہتی ہے اور انہوں نے اس کو چور کے ہاتھ کاٹنے پر قیاس کیا ہے کیونکہ وہ حکم شرعی ہے اور تطہیر ہے جس طرح یہ تطہیر ہے، ایک قوم نے حضرت عمار کی حدیث کے ساتھ کفین ہتھیلیوں پر مسح کرنے کو کہا ہے۔ (
4
) (سنن دارقطنی، کتاب التیمم جلد
1
، صفحہ
182
) یہ شعبی (رح) کا قول ہے۔ مسئلہ نمبر : (
45
) علماء کا اختلاف ہے کہ تیمم میں ایک ضرب کافی ہے یا نہیں ؟ مالک کا مدوانہ میں یہ نظریہ ہے کہ تیمم دو ضربیں ہیں، ایک ضرب چہرہ کے لیے اور دوسری ضرب ہاتھوں کے لیے، یہ اوزاعی، امام شافعی، امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہم اور ان کے ساتھیوں کا قول ہے اور ثوری، لیث، اور ابن ابی سلمہ کا نظریہ ہے، یہ حضرت جابر بن عبداللہ ؓ اور حضرت ابن عمر ؓ نے نبی مکرم ﷺ سے روایت کیا ہے۔ ابن ابی جہم نے کہا : تیمم ایک ضرب ہے، اوزاعی (رح) سے مشہور قول یہی مروی ہے۔ عطا اور شعبی کا ایک روایت میں یہی قول ہے، امام احمد بن حنبل (رح)، اسحاق، داؤد، اور طبری (رح) کا یہی نظریہ ہے، جو حدیث حضرت عماررحمۃ اللہ علیہ سے اس کے متعلق مروی ہے اس سے یہ زیادہ ثابت ہے۔ امام مالک (رح) نے کتاب محمد میں کہا : تیمم ایک ضرب سے کرنا جائز ہے، ابن نافع نے کہا : ایسی صورت میں نماز کا اعادہ کرے گا، ابو عمرو ؓ نے کہا : ابن ابی لیلی (رح) اور حسن بن حی (رح) نے کہا : دو ضربیں ہیں، ایک ضرب کے ساتھ چہرے کا مسح کرے اور ایک ضرب ساتھ دونوں ہاتھ اور کہنیوں کا مسح کرے، ان دو علماء کے علاوہ کسی صاحب علم نے یہ نہیں کہا۔ ابو عمر ؓ نے کہا : جب تیمم کی کیفیت میں آثار مختلف ہیں اور ایک دوسرے سے متعارض ہیں تو ظاہر کتاب کی طرف رجوع کرنا بہتر ہے، یہ دو ضربوں پر دلالت پر دلالت کرتی ہے ایک ضرب چہرے کے لیے اور دوسری ضرب ہاتھوں کے لیے کہنیوں تک، انہوں نے وضو پر قیاس کیا ہے اور حضرت ابن عمر ؓ کے غسل کی اتباع کی ہے، ان کا علم کتاب اللہ کے حکم کو دور نہیں کرسکتا، اگر اس کے بارے میں نبی مکرم ﷺ سے کوئی چیز ثابت ہوتی تو اس پر وقوف واجب تھا، وباللہ التوفیق۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے (آیت) ” ان اللہ کان عفوا غفورا “۔ اللہ تعالیٰ ہمیشہ عفو کو قبول فرماتا ہے، عفو سے مراد سہل ہے، یغفر الذنب وہ گناہ کو بخشتا ہے یعنی اپنی عقوبت کو ڈھانپ دیتا ہے اور سزا نہیں دیتا۔ آیت نمبر :
34
تا
53
۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے (آیت) ” الم تر الی الذین اتو انصیبا من الکتب “۔ سے لے کر فمنھم من امن بہ ومنھم من صد عنہ “۔ تک، یہ آیات کریمہ مدینہ طیبہ اور اس کے قریب رہنے والے یہودیوں کے بارے میں نازل ہوئی ہیں، ابن اسحاق رحمۃ اللہ علیہنے کہا : رفاعۃ بن زید بن التابوت یہود کے علماء میں سے تھا جب وہ رسول اللہ ﷺ سے کلام کرتا تو اپنی زبان ٹیڑھا کرتا اور کہتا : ارعنا سمعک یا محمد حتی نفھمک اے محمد ! ہمارے سننے کی رعایت کریں تاکہ آپ کی بات سمجھ جائیں، پھر اس نے اسلام میں طعن کیا اور اسلام کو عیب لگایا تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی۔ (آیت) ” الم تر الی الذین اتو انصیبا من الکتب یشترون الضللۃ ویریدون ان تضلوا السبیل، واللہ اعلم باعدآئکم، وکفی باللہ ولیا، وکفی باللہ نصیرا، من الذین ھادوا یحرفون الکلم عن مواضعہ ویقولون سمعنا وعصینا واسمع غیر مسمع وراعنا لیا بالسنتھم وطعنا فی الدین ولو انھم قالوا سمعنا واطعنا واسمع وانظرنا لکان خیرالھم واقوم ولکن لعنھم اللہ بکفرھم فلا یؤمنون الا قلیلا، (
1
) (سیرت ابن ہشام، جلد
2
، صفحہ
189
) مطبعہ حجازی بالقاہرہ) اور یشترون کا معنی تبدیل کرنا ہے۔ یہ حال کی بنا پر محل نصب میں ہے، اس کلام میں حذف ہے تقدیر عبارت اس طرح ہے ” یشترون الضلالہ بالھدی، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : (آیت) ” اولئک الذین اشتروا الضللۃ بالھدی “۔ (البقرہ :
16
) یہ قتبی وغیرہ کا قول ہے۔ (آیت) ” ویریدون ان تضلوالسبیل “۔ اس کا یشترون پر عطف ہے، اس کا معنی یہ ہے کہ تم حق کے راستہ سے گمراہ ہوجاؤ۔ حسن نے تضلوا ضاد کے فتحہ کے ساتھ پڑھا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے (آیت) ” واللہ اعلم باعدآئکم “۔ یعنی اللہ تعالیٰ تم سے چاہتا ہے پس تم اپنے دشمنوں (یہود) کی سنگت اختیار نہ کرو وہ تمہارے دشمن ہیں، یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اعلم بمعنی علیم ہو جیسے اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے (آیت) ” وھو اھون علیہ “۔ (الروم :
27
) یہاں اھون بمعنی ھین ہے، (وکفی باللہ ولیا) الباء زائدہ ہے۔ یہ اس لیے زائدہ کی گئی ہے، کیونکہ اس کا معنی ہے اکتفوا باللہ تم اللہ پر بھروسہ کرو وہ تمہارے دشمنوں کو کافی ہے ” ولیا “ اور نصیرا “ کو نصب بیان کی بناء پر ہے۔ اگر تو چاہے تو حال کی بنا پر منصوب پڑھے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے (آیت) ” من الذین ھادوا “۔ زجاج نے کہا : اگر من کا تعلق ماقبل سے ہو تو پھر نصیرا “۔ پر وقف نہیں کیا جائے گا اگر من کو ماقبل کلام کے متعلق نہ کیا جائے تو پھر نصیرا “۔ پر وقف نہیں کیا جائے گا اگر من کو ماقبل کلام کے متعلق نہ کیا جائے تو پھر ” نصیرا “ پر وقف جائز ہوگا تقدیر عبارت اس طرح ہے من الذین ھادوا قوم یحرفون الکم “۔ پھر حذف کیا گیا (
2
) (المحرر الوجیز، جلد
2
، صفحہ
62
دارالکتب العلمیہ) یہ سیبویہ کا مذہب ہے، نحویوں نے اس کی یہ دلیل دی ہے۔ لو قلت مافی قومھا لم تیثم یفضلھا فی حسب ومبسم : فرماتے ہیں : اس کی تقدیر اس طرح ہے لو قلت ما فی قومھا احد یفضلھا “۔ پھر حذف کیا گیا فراء نے کہا : محذوف من ہے مطلب یہ ہے من الذین ھادوا من یحرفون “۔ یہ اللہ تعالیٰ کے اس قول کی طرح ہے۔ (آیت) ” وما منا الا لہ مقام معلوم “۔ (الصافات) یعنی من لہ اور ذوالرحمۃ نے کہا : فضلوا ومنھم دمعہ سابق لہ واخر یذری عبرۃ العین بالھمل : (
3
) (احکام القرآن للطبری، جلد
5
، صفحہ
141
) اس سے مراد ومنھم من دمعہ ہے پس موصول حذف کیا گیا، مبرد اور زجاج نے اس کا انکار کیا ہے، کیونکہ موصولہ حذف بعض کلمہ کے حذف کی طرح ہے، ابو عبدالرحمن سلمی اور ابراہیم نخعی نے ” الکلام “ پڑھا ہے، نحاس نے کہا : یہاں ” الکلم “ اولی ہے، کیونکہ وہ نبی مکرم ﷺ کے کلمات کو بدلتے تھے یا جو انکے پاس تورات میں تھا وہ تمام کلام میں تحریف کرتے تھے، یحرفون کا معنی ہے وہ غلط تاویل کرتے ہیں، اللہ تعالیٰ نے اس وجہ سے ان کی مذمت کی ہے، کیونکہ وہ اعتماد سے ایسا کرتے تھے، بعض علماء نے فرمایا (آیت) ” عن مواضعہ “۔ یعنی نبی مکرم ﷺ کی صفات کو بدلتے تھے۔ ویقولون سمعنا وعصینا “۔ یعنی ہم نے تمہاری بات سنی اور تمہارے حکم کی نافرمانی کی (آیت) ” واسمع غیر مسمع “۔ حضرت ابن عباس ؓ نے فرمایا وہ نبی مکرم ﷺ کو کہتے تھے تم سنو، تم کبھی نہ سن سکو، یہ ان کی مراد تھی، اللہ ان پر لعنت کرے، وہ ظاہر یہ کرتے تھے کہ وہ چاہتے ہیں تم سنو اور مکروہ واذیت نہ سنو، حسن اور مجاہد (رح) نے کہا : اس کا معنی ہے تجھ سے نہ سنا جائے یعنی تمہاری بات مقبول نہ ہو اور تمہاری بات کا جواب نہ دیا جائے، نحاس نے کہا : اگر یہ معنی ہوتا تو عبارت اس طرح ہوتی ” غیر مسموع منک “۔ راعنا کے متعلق کلام گزر چکی ہے۔ (آیت) ” لیا بالسنتھم “ وہ اپنی زبانتوں کو حق سے پھیرتے ہیں یعنی وہ اس کی طرف پھیرتے ہیں جو ان کے دلوں میں ہے۔ اللی کا اصل معنی بٹنا ہے اس کو نصب مصدر کی بنا پر ہے اگر تو چاہے تو اسے مفعول لاجلہ بنادے اس کی اصل لویا تھی پھر واؤ کو یا میں ادغام کیا گیا، وطعنا یہ لیا، پر معطوف ہے یعنی وہ دین میں طعن کرتے ہیں، اپنے ساتھیوں کو کہتے ہیں : اگر یہ نبی ہوتے تو جان لیتے کہ ہم انہیں برا کہتے ہیں تو اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کو یہ بتلا دیا، پس یہ علامات نبوت سے تھا اور انہیں اس بات سے منع کیا۔ اقوم کا معنی ہے ان کے لیے رائے میں درست تھا (آیت) ” فلا یؤمنون الا قلیلا “۔ یعنی اتنا تھوڑا ایمان لایے ہیں کہ اس کی وجہ سے ایمان کی اسم کے بھی مستحق نہیں ہیں۔ بعض علماء نے فرمایا : اس کا معنی ہے ایمان نہیں لائے مگر ان میں سے تھوڑے۔ (
1
) (المحرر الوجیز، جلد
2
، صفحہ
63
دارالکتب العلمیہ) یہ بعید ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ان کی متعلق خبر دی کہ ان کے کفر کی وجہ سے اللہ نے ان پر لعنت کی۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے (آیت) ” یایھا الذین اوتو الکتب امنوا بما نزلنا “۔ ابن اسحاق نے کہا : رسول اللہ ﷺ نے یہود کے علماء سے بات کی جن میں عبداللہ بن صوریا الاعور اور کعب بن اسد بھی تھا، آپ نے انہیں فرمایا : اے یہود کے گروہ ! اللہ سے ڈرو اور اسلام قبول کرلو، اللہ کی قسم ! تم جانتے تھے اور کفر پر اصرار کیا تو اللہ تعالیٰ نے ان کے بارے نازل فرمایا : اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے (آیت) ” یایھا الذین اوتو الکتب “۔۔۔۔۔۔۔ الخ (
2
) (سیرت ابن ہشام، جلد
2
، صفحہ
189
) اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے (آیت) ” مصدقالما معکم “۔ اس کو نصب حال کی بنا ہے۔ (آیت) ” من قبل ان نطمس وجوھا “۔ الطمس کا معنی ہے کسی چیز کے اثر کو بالکل مٹا دینا، اسی سے اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے (آیت) ” فا النجوم طمست “۔ (المرسلات) نطمس اور نطمس میم کے کسرہ اور ضمہ کے ساتھ دونوں لغتیں ہیں، کلام میں کہا جاتا ہے : طسم یطسم اور یطمس بمعنی طمس ہے۔ کہا جاتا ہے : طمس الاثروطسم : اس کا معنی مٹا دینا ہے۔ یہ تمام لغات ہیں، اسی اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے (آیت) ” ربنا اطمس علی اموالھم “۔ (یونس :
88
) یعنی ان کے اموال کو ہلاک کر دے، ابن عرفۃ سے مروی ہے کہا جاتا ہے : طمستہ فمطس لازم اور متعدی استعمال ہوتا ہے۔ طمس اللہ بصرہ “۔ اللہ تعالیٰ نے اس کی نظر کو مٹا دیا۔ وھو مطموس البصر، وہ جس کی آنکھ کا اثر ہی ختم ہوجائے اسی سے اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے (آیت) ” ولونشآء لطمسنا علی اعینھم “۔ (یسین :
66
) یعنی ہم انہیں نابینا کردیں۔ علماء کا اس آیت کے معنی میں اختلاف ہے کیا یہ حقیقت ہے اور چہرہ کو گدی کی طرح کردیا جائے گا، ناک، منہ، ابرو، آنکھ سب مٹ جائیں گے، یا یہ ان کی گمراہی مراد ہے جو انکے دلوں میں ہوگی اور ان سے توفیق سلب کرلی جائے گی ؟ یہ دو قول ہیں۔ حضرت ابی بن کعب ؓ سے مروی ہے انہوں نے فرمایا : (آیت) ” من قبل ان نطمس “۔ یعنی ہم تمہیں ایسا گمراہ کردیں گے کہ تم اس کے بعد ہدایت نہ پاؤ گے۔ حضرت ابی بن کعب ؓ کا نظریہ یہ ہے کہ یہ تمثیل ہے اور وہ اگر ایمان نہیں لائیں گے تو انکے ساتھ یہ بطور سزا ہوگا، قتادہ نے کہا : اس کا معنی ہے ہم ان کے چہروں کو گدیوں کی طرح کردیں گے، یعنی ناک، ہونٹ، آنکھیں اور ابرو ختم کردیئے جائیں گے، اہل لغت کے نزدیک یہی معنی ہے۔ حضرت ابن عباس ؓ اور عطیہ العوفی سے مروی ہے کہ الطمس کا معنی ہے آنکھیں زائل کردی جائیں گی اور گدی میں لوٹا دی جائیں گی، آنکھیں پیچھے لگا دی جائیں گی وہ الٹے پاؤں چلے گا (
1
) (المحرر الوجیز، جلد
2
، صفحہ
63
دارالکتب العلمیہ) امام مالک (رح) نے کہا : ابتدائے اسلام کا زمانہ تھا کعب الاحبار رات کے وقت ایک شخص کے پاس سے گزرے اور وہ یہ آیت پڑھ رہا تھا (آیت) ” الم تر الی الذین اتو انصیبا من الکتب امنوا “۔ پس کعب نے اپنے چہرے پر اپنے ہاتھ رکھ لیے اور اپنے گھر کی طرف الٹے چلنے لگے پھر اسی جگہ اسلام قبول کیا اور فرمایا : اللہ کی قسم، مجھے خوف ہوا کہ میں اپنے گھر نہیں پہنچ سکوں گا حتی کہ میرا چہرہ مٹا دیا جائے گا (
2
) (المحرر الوجیز، جلد
2
، صفحہ
63
دارالکتب العلمیہ) (تو کیا حالت ہوگی) اسی طرح حضرت عبداللہ بن سلام ؓ نے کہا تھا، جب یہ آیت نازل ہوئی اور اسے سنا تو اپنے گھر جانے سے پہلے رسول اللہ ﷺ کے پاس آئے اور اسلام قبول کیا اور عرض کیا : یا رسول اللہ ! میں نہیں جانتا تھا کہ آپ تک پہنچوں گا جب کہ میرا چہرہ میری گدی کی طرف پھیر دیا جائے گا، اگر کہا جائے : یہ کیسے جائز ہے کہ اللہ تعالیٰ انہیں چہروں کے مٹانے کی دھمکی دے اگر وہ ایمان نہیں لائیں گے پھر وہ ایمان نہ لائے تو ان کے ساتھ ایسا نہیں کیا گیا ؟ تو اس کا جواب یہ ہے جب یہ ایمان لائے اور ان کے متبعین ایمان لائے تو باقی لوگوں سے وعید اٹھالی گئی تھی، مبرد نے کہا : وعید باقی ہے اور اس کا انتظار باقی ہے اور فرمایا : یہود میں یہ طمس ہوگا اور قیامت کے دن سے پہلے ان کا مسح ہوگا۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے (آیت) ” اونلعنھم “۔ یعنی جن کے چہرے مٹائے جائیں گے ہم ان پر لعنت کریں گے، (آیت) ” کما لعنا اصحب السبت یعنی ہم انہیں بندروں اور خنازیر میں مسخ کردیں گے، یہ حسن اور قتادہ (رح) سے مروی ہے، (
3
) (احکام القرآن للطبری، جلد
5
، صفحہ
150
) بعض علماء نے فرمایا : یہ خطاب سے غائب کی طرف خروج ہے۔ (آیت) ” وکان امر اللہ مفعولا “۔ یعنی اللہ کا امر موجود ہے یہاں امر بمعنی مامور ہے، یہ مصدر ہے مفعول کی جگہ واقع ہوا مطلب یہ ہے کہ جب وہ ارادہ کرتا ہے تو اسے پیدا کردیتا ہے، بعض علماء فرماتے ہیں : اس کا معنی ہے ہر کام جس کی اللہ نے ہونے کی خبر دی ہے وہ ایسا ہی ہوگا جس طرح اس نے بتایا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے (آیت) ” ان اللہ لا یغفر ان یشرک بہ “۔ روایت ہے کہ نبی مکرم ﷺ نے یہ تلاوت فرمایا : (آیت) ” ان اللہ یغفرالذنوب جمیعا “۔ (الزمر :
53
) ایک شخص نے کہا : یا رسول اللہ ! شرک بھی ؟ تو یہ آیت نازل ہوئی (آیت) ” ان اللہ لا یغفر ان یشرک بہ ویغفر ما دون ذالک لمن یشآء “۔ (
1
) (احکام القرآن للطبری، جلد
5
، صفحہ
152
) یہ آیت محکم متفق علیہ ہے، اس میں ائمہ کے درمیان کوئی اختلاف نہیں ہے اور (آیت) ” ویغفر ما دون ذالک لمن یشآء “۔ متشابہ میں سے ہے جس میں علماء نے کلام کی ہے، محمد بن جریر طبری نے کہا : اس آیت نے ظاہر کیا کہ ہر گناہ کبیرہ کرنے والا اللہ کی مشیئت میں ہے اگر چاہے گا تو اس کا گناہ معاف کر دے گا اور اگر چاہے گا تو اس کو سزا دے گا جب جب تک کہ وہ کبیرہ گناہ اللہ کے ساتھ شرک نہ ہوگا۔ (
2
) (احکام القرآن للطبری، جلد
5
، صفحہ
152
) بعض علماء نے فرمایا : اس کو اللہ تعالیٰ نے اپنے اس ارشاد میں بیان فرمایا : (آیت) ” ان تجتنبوا کبآئر ما تنھون عنہ نکفر عنکم سیاتکم “۔ تو جان لو کہ وہ اس شخص کے صغیرہ گناہ معاف فرما دے گا جو کبیرہ گناہوں سے اجتناب کرے گا اور اس کے صغیرہ گناہ بھی معاف نہیں فرمائے گا جو کبیرہ گناہ کرے گا۔ بعض اہل تاویل کا یہ نظریہ ہے کہ یہ آیت اس آیت کا ناسخ ہے، جو سورة الفرقان میں ہے، حضرت زید بن ثابت ؓ نے کہا : سورة نساء سورة فرقان کے چھ ماہ بعد نازل ہوئی۔ صحیح یہ ہے کہ نسخ نہیں ہے، کیونکہ اخبار میں نسخ محال ہوتا ہے۔ ان آیات کی جمع کا بیان اس سورت میں اور سورة فرقان میں آئے گا انشاء اللہ تعالیٰ ۔ (بقیہ تفسیر اگلی آیت میں)
Top