Al-Qurtubi - An-Nisaa : 42
یَوْمَئِذٍ یَّوَدُّ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا وَ عَصَوُا الرَّسُوْلَ لَوْ تُسَوّٰى بِهِمُ الْاَرْضُ١ؕ وَ لَا یَكْتُمُوْنَ اللّٰهَ حَدِیْثًا۠   ۧ
يَوْمَئِذٍ : اس دن يَّوَدُّ : آرزو کریں گے الَّذِيْنَ : وہ لوگ كَفَرُوْا : انہوں نے کفر کیا وَعَصَوُا : اور نافرمانی کی الرَّسُوْلَ : رسول لَوْ تُسَوّٰى : کاش برابر کردی جائے بِهِمُ : ان پر الْاَرْضُ : زمین وَلَا : اور نہ يَكْتُمُوْنَ : چھپائیں گے اللّٰهَ : اللہ حَدِيْثًا : کوئی بات
اس روز کافر اور پیغمبر کے نافرمان آرزو کریں گے کہ کاش ان کو زمین میں مدفون کر کے مٹی برابر کردی جاتی اور خدا سے کوئی بات چھپا نہیں سکیں گے
آیت نمبر : 42۔ ” عصوا “ میں واؤ کو التقاء ساکنین کی وجہ سے ضمہ دیا گیا ہے اور اس کو کسرہ دینا جائز ہے نافع ابن عامر نے تسوی تا کے فتحہ اور سین کی تشدید کے ساتھ پڑھا ہے، حمزہ اور کسائی نے بھی اسی طرح پڑھا ہے مگر انہوں نے سین کی تخفیف کے ساتھ پڑھا ہے (1) (المحرر الوجیز، جلد 2، صفحہ 55 دارالکتب العلمیہ) اور باقیوں نے تا کے ضمہ اور سین کی تخفیف کے ساتھ پڑھا ہے جس کے فاعل کا ذکر نہیں مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ان پر زمین کو برابر کردیتا، یعنی انہیں اور زمین کو برابر کردیتا، دوسرا معنی یہ ہے کہ وہ خواہش کریں گے کاش اللہ تعالیٰ انہیں دوبارہ نہ اٹھاتا ار ان پر زمین برابر رہتی، کیونکہ وہ مٹی سے نقل کیے گئے تھے پہلی اور دوسری قرات پر الارض فاعل ہوگی معنی یہ ہوگا کہ وہ خواہش کریں گے اگر زمین ان کے لیے کھلتی اور وہ اس کے اندر چلے جاتے، یہ قتادہ کا قول ہے، بعض علماء نے فرمایا : بابمعنی علی ہے یعنی کاش ان پر زمین پھٹتی اور پھر ان پر ہموار کردی جاتی، یہ ابو الحسن سے مروی ہے، تشدید کی قرات اور ادغام کی بنا پر ہے اور تخفیف تا کے حذف کی بنا پر ہے، بعض علماء نے فرمایا : وہ یہ تمنا کریں گے جب وہ دیکھیں گے کہ جانور مٹی ہوگئے ہیں اور وہ جان لیں گے کہ انہوں نے ہمیشہ دوزخ میں رہنا ہے۔ اللہ تعالیٰ کے ارشاد (آیت) ” ویقول الکفر یلیتنی کنت تربا “۔ (النبائ) کا یہی معنی ہے، بعض علماء نے فرمایا : وہ یہ تمنا کریں گے جب یہ امت انبیاء کو دیکھے گی جیسا کہ پہلے سورة بقرہ آیت 143 میں (آیت) و کذلک جعلنکم امۃ وسطا “۔ کے تحت گزر چکا ہے، تو گزشتہ امتیں کہیں گی، ان میں زنا کار اور چور ہیں ان کی شہادت قبول نہیں تو نبی کریم ﷺ اپنے امتیوں کا تزکیہ فرمائیں گے، پھر مشرک کہیں گے (آیت) ” واللہ ربنا ما کنا مشرکین “۔ (الانعام) ۔ پس ان کے مونہوں پر مہر لگا دی جائے گی اور ان کے ہاتھ اور پاؤں ان کے کرتوتوں کی گواہی دیں گے، اللہ تعالیٰ کے (آیت) ” یومئذ یود الذین کفروا “۔ کا یہی مطلب ہے یعنی انہیں دھنسا دیا جاتا۔ واللہ اعلم۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : (ولا یکتمون اللہ حدیثا “۔ زجاج نے کہا : بعض نے کہا : یہ جملہ مستانفہ ہے، کیونکہ جو انہوں نے اعمال کیے وہ اللہ کی بارگار میں ظاہر ہیں وہ انہیں چھپانے کی قدرت نہیں رکھتے، بعض علماء نے فرمایا : یہ معطوف ہے معنی ہے وہ خواہش کریں گے کاش زمین ان پر برابر کردی جاتی اور انہوں نے اللہ تعالیٰ سے کوئی بات چھپائی نہ ہوتی کیونکہ اس نے ان کے جھوٹ کو ظاہر کردیا ہے، حضرت ابن عباس ؓ سے اس آیت کے متعلق اور (آیت) ” واللہ ربنا ما کنا مشرکین “۔ کے متعلق پوچھا گیا تو حضرت ابن عباس ؓ نے فرمایا : جب وہ دیکھیں گے جنت میں تو صرف اہل اسلام داخل ہوں گے، تو وہ کہیں گے : اللہ کی قسم ! ہم مشرک نہ تھے، تو اللہ تعالیٰ ان کے مونہوں پر مہر لگا دے گا اور ان کے ہاتھ اور پاؤں بولیں گے اور وہ اللہ تعالیٰ سے کوئی بات چھپا نہیں سکیں گے، حسن اور قتادہ نے کہا : آخرت کے بعض مقام پر وہ بولیں گے اور بعض مقام پر نہیں بول سکیں گے، مطلب یہ ہے کہ جب ان کے لیے ان کے اعمال ظاہر ہوں گے اور ان کے محاسبہ کیا جائے گا تو وہ کچھ نہیں چھپائیں گے۔ مزید بیان سورة انعام میں آئے گا انشاء اللہ تعالیٰ ۔
Top