Ruh-ul-Quran - An-Noor : 20
وَ لَوْ لَا فَضْلُ اللّٰهِ عَلَیْكُمْ وَ رَحْمَتُهٗ فِی الدُّنْیَا وَ الْاٰخِرَةِ لَمَسَّكُمْ فِیْ مَاۤ اَفَضْتُمْ فِیْهِ عَذَابٌ عَظِیْمٌۚۖ
وَلَوْلَا : اور اگر نہ فَضْلُ اللّٰهِ : اللہ کا فضل عَلَيْكُمْ : تم پر وَرَحْمَتُهٗ : اور اس کی رحمت فِي الدُّنْيَا : دنیا میں وَالْاٰخِرَةِ : اور آخرت لَمَسَّكُمْ : ضرور تم پر پڑتا فِيْ مَآ : اس میں جو اَفَضْتُمْ : تم پڑے فِيْهِ : اس میں عَذَابٌ : عذاب عَظِيْمٌ : بڑا
اگر تم پر اللہ کا فضل اور اس کی رحمت نہ ہوتی دنیا اور آخرت میں، تو جن باتوں میں تم پڑگئے تھے ان کی پاداش میں ایک بڑا عذاب تمہیں آ پکڑتا
وَلَوْلاَ فَضْلُ اللّٰہِ عَلَیْکُمْ وَرَحْمَتُـہٗ فِی الدُّنْیَا وَالْاٰخِرَۃِ لَمَسَّکُمْ فِیْ مَآ اَفَضْتُمْ فِیْہِ عَذَابٌ عَظِیْمٌ۔ اِذْتَلَقَّوْنَہٗ بِاَلْسِنَتِکُمْ وَتَقُوْلُوْنَ بِاَفْوَاھِکُمْ مَّا لَیْسَ لَـکُمْ بِہٖ عِلْمٌ وَّتَحْسَبُوْنَـہٗ ھَیِّنًا ق صلے وَّھُوَعِنْدَاللّٰہِ عَـظِـیْمٌ۔ (النور : 14، 15) (اگر تم پر اللہ کا فضل اور اس کی رحمت نہ ہوتی دنیا اور آخرت میں، تو جن باتوں میں تم پڑگئے تھے ان کی پاداش میں ایک بڑا عذاب تمہیں آ پکڑتا۔ ذرا خیال کرو (اس وقت تم کیسی سخت غلطی کررہے تھے) جب تم اپنی زبانوں سے وہ بات نقل کررہے تھے اور اپنے مونہوں سے وہ کچھ کہہ رہے تھے جس کے متعلق تمہیں کوئی علم نہ تھا اور تم اس کو معمولی بات خیال کررہے تھے حالانکہ اللہ کے نزدیک یہ بہت بڑی بات تھی۔ ) اَفَاضَ فِی الْحَدِیْثِکا مفہوم ہے بات میں سے بات نکالتے چلے جانا، اور بات کا بتنگڑ بنادینا۔ ایک تنبیہ واقعہ کی سنگینی کے باعث مزید تنبیہ فرمائی جارہی ہے کہ جس طرح تم میں سے ایک محدود گروہ نے سفر کے اس معمولی واقعہ کو بہت بڑا حادثہ بنادیا اور پھر اپنی شبینہ مجلسوں اور تنہائی کی محفلوں میں گفتگو کا موضوع بنائے رکھا اور بعض مخلص مسلمانوں نے کسی نہ کسی حد تک اس کا اثر قبول کرلیا، یہ ایسا واقعہ نہ تھا جسے آسانی سے برداشت کرلیا جاتا۔ چونکہ یہ امت ابھی زیرتربیت ہے اور آئے دن کے غزوات اور ہنگامی حالات فضاء میں ارتعاش پیدا کیے رکھتے ہیں جس کے نتیجے میں مسلمانوں کی تعلیم و تربیت میں تسلسل اور یکسانی باقی نہیں رہتی اور ان ہی حالات کے باعث منافقین کو اپنا کام کرنے کا موقع مل جاتا ہے۔ ان باتوں کا لحاظ کرتے ہوئے پروردگار بعض لوگوں پر سخت گرفت کی بجائے اور یہ بھی محض اللہ تعالیٰ کا فضل اور اس کی رحمت ہے کہ وہ لوگوں کو سنبھلنے کا موقع دے رہا ہے، ورنہ جس طرح کی صورتحال پیدا کردی گئی تھی اس میں تو شدید اندیشہ تھا کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے کوئی بہت بڑا عذاب نازل ہوجاتا۔ دوسری آیت میں ارشاد فرمایا کہ تم خود غور کرو کہ جب تم میں سے کچھ لوگوں کی زبانیں اس غمناک واقعہ کو مزے لے لے کر پھیلا رہی تھیں اور تم اپنی زبانوں سے وہ باتیں کہہ رہے تھے جس کی حقیقت کی تمہیں کوئی خبر نہ تھی۔ اور تم یہ سمجھ رہے تھے کہ کسی مرد و عورت کے بارے میں بدگمانیاں پھیلانے کا یہ کوئی پہلا واقعہ نہیں، لوگوں میں ایسے واقعات ہوتے ہی رہتے ہیں، اس لیے اگر اس واقعہ میں دلچسپی لی جائے اور اسے غیرسنجیدہ گفتگو کا موضوع بنا لیا جائے تو اس میں حرج ہی کیا ہے۔ لیکن تمہیں معلوم نہ تھا کہ یہ واقعہ کسی عام مرد و عورت کا واقعہ نہیں۔ جس عظیم خاتون کے بارے میں یہ الزام لگایا جارہا ہے وہ آنحضرت ﷺ کی زوجہ محترمہ، آپ ﷺ کی محبوب رفیقہ حیات، مسلمانوں کی ماں اور حقیقی مائوں سے بڑھ کر واجب الاحترام ہیں اور ان کے والدگرامی مسلمانوں کے سب سے بڑے محسن، آنحضرت ﷺ کے محرم اسرار اور آنحضرت ﷺ کے بعد مرجع خلائق ہیں اور خود آنحضرت ﷺ کی ذات گرامی کی قلبی اذیت کا سب سے بڑا سبب اس کے سوا اور کیا ہوسکتا تھا کہ آپ ﷺ کی اس محبوب بیوی پر الزام لگایا گیا جو آپ ﷺ کی سب سے زیادہ توجہات کا مرکز اور آپ ﷺ کی مزاج آشنا تھیں۔ ان پر الزام لگنے سے آپ ﷺ کا عائلی سکون و اطمینان غارت ہو کر رہ گیا، اور جب تک یہ آیات براءت نازل نہیں ہوئیں، کسی نے آپ ﷺ کے چہرے پر مسکراہٹ نہیں دیکھی۔ جن لوگوں نے یہ سب کچھ کیا، کاش انھیں معلوم ہوتا کہ اللہ تعالیٰ کے رسول کو اذیت پہنچانا، اللہ تعالیٰ کو ناراض کرنا ہے۔ اور جس نے اللہ تعالیٰ کو ناراض کیا، اس نے اپنی عاقبت تباہ کرلی۔
Top